گرین ریفائنری پاکستان کیلیے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
کراچی:
پاکستان کے تیل اور کیمیکل کے شعبے اس وقت بڑے نازک موڑ پر ہیں، پٹرولیم مصنوعات اور پیٹرو کیمیکلز کی امپورٹ بڑھنے کے ساتھ عالمی دنیا کی گرین فیول پر منتقلی اگرچہ چیلنجز کا سبب ہے، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے مواقع بھی جنم لیتے ہیں.
گرین ریفائنری انڈسٹریل بیس کو اپنا کر پاکستان نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے، بلکہ گرین آئل اور کیمکلز کو ایکسپورٹ بھی کر سکتا ہے، جس سے چیلنجنگ صورتحال اسٹرٹیجک صورتحال میں تبدیل ہوسکتی ہے.
پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک کی طرح وسیع روایتی پٹرولیم صنعت نہیں ہے، جو اس بات کو آسان بناتی ہے کہ پاکستان روایتی پٹرولیم کو چھوڑ کر آسانی اور تیزی سے گرین پٹرولیم کو اختیار کرلے.
گرین پٹرولیم میں آئل، کھاد اور کیمیکلز بنانے کیلیے فصلوں کی باقیات، فضلہ جات، ہوا اور پانی کا استعمال کیا جاتا ہے، دنیا میں اس پر تیزی سے کام جاری ہے، یہ ٹیکنالوجی ڈائمیتھائل بھی پیدا کرتی ہے، جو قدرتی گیس کا متبادل ہے.
پاکستان میں گرین ریفائنری کیلیے درکار تمام لوازمات موجود ہیں، تاہم، پاکستانی پالیسی سازوں کو اس کی تیاری کیلیے دو بنیادی چیزوں مشینری اور قابل اور ٹرینڈ افرادی قوت پر توجہ دینی ہوگی.
چونکہ فی الوقت پاکستانی میں مشینری اور اہل افرادی قوت دونوں کی کمی ہے، اس لیے ابتدائی طور پر پاکستان کو گرین ریفائنریز لگانے اور چلانے کیلیے یورپ، چین اور شمالی امریکا سے ملکوں کی معاونت کی ضرورت ہوگی، مقامی اور غیر ملکی ماہرین کے درمیان اکیڈمک ریسرچ کے پروگرام شروع کرنے ہونگے.
اس کیلیے سرمایہ کاری بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں، کیوں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا گرین انرجی کی طرف دیکھ رہی ہے، البتہ پاکستان کو ایک متحرک اور پرعزم ادارے کی ضرورت ہوگی، جو 10 سالہ منصوبہ بنائے اور اس کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکے.
پاکستانی سیاسی قیادت اور پالیسی سازوں کو ایک مقامی گرین ریفائننگ انڈسٹری کی ترقی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تمام امکانات کو سنجیدگی سے تلاش کرنا چاہیے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان میں اسٹارلنک اور دیگر سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنیوں کی انٹری آسان بنادی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان میں ایلون مسک کی اسٹارلنک سمیت عالمی اور مقامی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنیوں کے لیے دروازے کھل گئے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے فکسڈ سیٹلائٹ سروسز (FSS) کے لائسنس کا مسودہ جاری کردیا ہے جس کے تحت اب دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں بھی براڈ بینڈ اور انٹرنیٹ کی سہولت ممکن ہوگی۔
اس نئے لائسنس کے تحت کمپنیاں فکسڈ ارتھ اسٹیشن، گیٹ وے اسٹیشن اور وی سیٹ قائم کرسکیں گی اور صارفین کو براہِ راست انٹرنیٹ، بیک ہال اور بینڈوڈتھ سروسز فراہم کریں گی۔ اس اقدام سے اسٹارلنک، شنگھائی اسپیس کام اور دیگر بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرسکیں گی۔
پی ٹی اے کے مطابق لائسنس کی مدت 15 برس ہوگی اور منظوری کے 18 ماہ کے اندر اندر سروسز فراہم کرنا لازمی ہوگا۔ کمپنیوں کو پاکستان میں کم از کم ایک گیٹ وے اسٹیشن قائم کرنا ہوگا جبکہ صارفین کا ڈیٹا ملک کے اندر محفوظ رکھنے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔ لائسنس حاصل کرنے سے پہلے کمپنیوں کو پاکستان اسپیس ایکٹیویٹیز ریگولیٹری بورڈ (PSARB) میں رجسٹریشن کرانا ہوگی، جو عالمی ماہرین کے تعاون سے ریگولیٹری فریم ورک پر کام کر رہا ہے۔
فکسڈ سیٹلائٹ سروس لائسنس کی فیس 5 لاکھ ڈالر مقرر کی گئی ہے جبکہ ریونیو شیئرنگ ماڈل کے تحت لائسنس ہولڈرز کو سالانہ آمدنی کا 1.5 فیصد یونیورسل سروس فنڈ (USF) میں جمع کرانا لازمی ہوگا۔ ماضی میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے لیے 15 الگ الگ لائسنسز درکار تھے، تاہم اب ایک ہی لائسنس سے یہ سہولت دستیاب ہوگی۔
پی ٹی اے نے یہ مسودہ 19 ستمبر 2025 تک عوامی جائزے کے لیے جاری کیا ہے، جس کے بعد حتمی لائسنس شائع کیا جائے گا۔ حکام کے مطابق یہ لائسنس پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں انقلاب لانے اور عالمی کمپنیوں کو راغب کرنے کا سبب بنے گا۔