Express News:
2025-07-24@20:32:09 GMT

والدین کے لیے لمحۂ فکریہ (دوسرا اور آخری حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

آج کل ماں باپ بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں پر بے جا پابندیاں نہیں لگاتے، اسی کا نتیجہ ہوتا ہے جو ارمغان جیسے بگڑے نوجوان پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی شکل دیکھیں تو چہرے سے ہی بگڑا ہوا لگتا ہے، جو کچھ وہ 2017 سے کر رہا تھا، ایسا نہیں ہوسکتا کہ والدین خصوصاً والد کو پتہ نہ ہو بلکہ علاقے کی پولیس کو بھی کچھ نہ کچھ علم ضرور ہوگا، حالیہ کیس میں پولیس ابتدا میں اس کی مدد کرتی رہی۔ ایک آڈیو منظر عام پر آ چکی ہے جس میں کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ ’’ آپ کی وجہ سے ارمغان کو ہم نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘‘ ہر جگہ پیسہ بولتا ہے۔

 کراچی میں جتنے بھی جرائم ہو رہے ہیں، ان میں سے اکثر پولیس کی مدد سے ہو رہے ہیں، جوئے کے اڈے، شراب کا کاروبار، فحاشی اور عیاشی کے اڈے، علاقے کی پولیس کی مدد وتعاون کے بغیر چل نہیں سکتے ۔

پولیس کے بعض اعلیٰ افسر اور تھانے کی سطح کے پرزے اس شہر کو بدنام زمانہ کاروبار سے پاک کرنا چاہتے ہیں نہ جرائم پیشہ مافیاز پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔میں نے پچھلے کالم میں بھی کہا تھا کہ میں قطعی اس بات پہ یقین نہیں رکھتی کہ ارمغان، ساحر حسن اور شیراز کی مشکوک سرگرمیوں سے ان کے والدین واقف نہیں تھے، پیسہ آتا کسے برا لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ اخبارات کی خبریں غائب ہونے لگی ہیں، صرف سوشل میڈیا متحرک ہے۔ ٹیلی وژن کے ٹاک شوز میں صاف نظر آتا ہے کہ کس کے منہ میں کس کی زبان ہے، وہی بات ہے کہ:

اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی

 پہلے نظریں جھکا کر اور نظریں چرا کر سب کچھ کہا جاتا تھا، اب قیمت پہلے طے ہو جاتی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں دو نمبر کے پیسے کا الٰہ دین کا چراغ ہے تو پھر دنیا آپ کے قدموں میں، خواہ آپ کی اولاد کوئی بھی اور کیسی بھی غلط حرکتیں کر رہی ہو، تعلقات کا ڈنڈا ہاتھ میں ہو تو سب کچھ اچھا ہو جاتا ہے۔

والدین کے لیے وقت ایک لمحۂ فکریہ ہے، خصوصاً پوش ایریاز کے مکین جن کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے، ان میں سے بھی ’’شرفا‘‘ خاصے پریشان ہیں، گھر میں بڑے بوڑھے، دادا، دادی رہے نہیں، نام نہاد ’’پرائیویسی‘‘ کی بنا پر سب نے اپنے اپنے گھونسلے الگ الگ بنا لیے ہیں۔ اب بھی جن گھروں میں جوائنٹ فیملی سسٹم برقرار ہے، ان کا ماحول الگ ہے۔

وہاں بڑوں کی عزت بھی ہے، جوائنٹ فیملی سسٹم میں بچوں کی تربیت خود بخود اچھی ہو جاتی ہے۔ جہاں بچے والدین ، دادا، دادی سے ادب اور تمیز سے بات کرتے ہیں وہاں بچے خود اپنے بڑوں سے احترام سے پیش آتے ہیں۔ لیکن آج ’’پرائیویسی‘‘ کے ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے جو بگاڑ معاشرے میں پیدا ہو رہا ہے، اس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، بچے اسکول اور کالج سے آ کر شام کو کوچنگ میں چلے جاتے ہیں اور واپس آکر اپنے اپنے موبائل فون میں گم۔ والدہ محترمہ کوئی ٹی وی کے ڈرامے اور موبائل پر میکے والوں سے بات کرنے سے فرصت نہیں، باپ تھکا ہارا آفس سے آتا ہے تو بیوی چائے کا کپ دینے سے گھبراتی ہے۔

روٹیاں ملازما پکا جاتی ہے، پھر بھی ہنڈیا پکنے میں رات کے دس بج جاتے ہیں کہ آٹھ سے دس بجے رات تک ٹی وی کے پرائم ٹائم پروگرام دیکھنے ضروری ہوتے ہیں اور بے چارہ شوہر اگر کبھی گرم روٹی کی فرمائش کر دے تو وہ فرماتی ہیں کہ ’’کیا مجھے گرم روٹی پکوانے کے لیے لائے تھے؟‘‘ اور بھی بہت سے مکالمات اس دوران دونوں طرف سے ادا ہوتے ہیں، گھر میں کوئی بڑا بوڑھا ہے نہیں جو دونوں کی تکرار بند کرا دے۔ آخر تھک ہار کر شوہر ہی کو خاموش ہونا پڑتا ہے۔ کیونکہ بیوی اگر چپ ہوگی تو گویا اس نے ہار مان لی ہے اور خواتین تنظیموں کی ڈسی ہوئی عورتیں خاموش ہونا نہیں جانتیں۔

بہت سارے والدین کی آنکھیں ارمغان، مصطفیٰ عامر اور ساحر حسن کیس نے کھول دی ہیں، پہلے لوگ کہتے تھے کہ لڑکیوں کا پالنا بہت مشکل ہے، لیکن آج کے دور میں لڑکوں کا پالنا بھی بہت مشکل ہے، کہاں جا رہے ہیں، کس کی صحبت میں بیٹھ رہے ہیں، غلط سوسائٹی میں تو نہیں موو کر رہے، یہ سب باتیں پہلے تو معنی رکھتی تھیں، لڑکے باپ سے ڈرتے تھے، لیکن آج جو مادر پدر آزادی کا ماحول چل رہا ہے، اس میں والدین نے بالکل چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔

ڈائننگ ٹیبل پر بھی پلیٹ کے ساتھ موبائل رکھا ہے، ماں باپ نظر نہیں آ رہے نہ کوئی اور، جتنے بچے ہیں اتنے موبائل بھی لے رکھے ہیں، چمچہ پلیٹ میں نظریں موبائل پر، اندازے سے کھانا منہ میں ڈال لیا، باپ یا ماں یہ نہیں پوچھتے کہ آدھی رات کو کہاں سے آ رہے ہو؟ نہ وہ یہ نوٹس لیتے ہیں کہ بیٹا آتے ہی کسی سے بات کیے بغیر دھڑام سے بستر پہ گرا اور سو گیا، کیا وہ کوئی نشہ تو نہیں کرکے آ رہا، لیکن والدین کے پاس بھی وقت نہیں۔ لہٰذا پھر نتیجے کے طور پر وہ یا تو ارمغان بن جاتے ہیں یا پھر ظاہر جعفر، جس نے نور مقدم نامی لڑکی کو بے رحمی سے قتل کر دیا ۔

مصطفیٰ عامر کی ماں نے بھی بیٹے کو بدقماش اور بدمعاش امیر زادوں سے ملنے سے نہیں روکا، سوکالڈ اپر کلاس جنھیں کہا جاتا ہے یہی معاشرے کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ چرس، گانجا، کوکین، آئس، جنگل بوائے اور نہ جانے کون کون سے نشے یہ بگڑے امیر زادے کرتے ہیں۔ ضیا الحق اور ساتھیوں نے افغانوں اور ہیروئن کا عذاب پاکستان پر مسلط کیا، آج بھی کراچی میں افغانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں غیر قانونی طور پر رہ رہی ہے۔

لڑکیوں نے بھی بہت پَر پرزے نکال لیے ہیں، جو وہ اپنی ماؤں کی آشیرواد سے پھیلاتی ہیں، دوپٹے غائب ہوگئے ہیں، مائیں خود بیٹیوں کو جینز اور ٹی شرٹ میں دوستوں کی پارٹیوں میں بھیجتی ہیں، خود بھی بغیر دوپٹے کے بازاروں میں گھومتی ہیں۔

لڑکیاں آئے دن گیٹ ٹو گیدر کا بہانہ بنا کر اپنے اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ گھومتی ہیں، کبھی کالج میں پریکٹیکل کا بہانہ بنا کر دیر تک غائب رہتی ہیں۔ اپنی تیس سال کی سروس کے دوران بارہا کالج کی لڑکیوں کو پکڑا، لڑکیاں گھر سے کالج کا کہہ کر آتی اور باہر ہی سے لڑکوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں، جب بعض لڑکیاں دس دس دن تک غیر حاضر رہیں تو ان کے گھر لیٹر بھیجے گئے کہ آپ کی نور چشم مسلسل غیر حاضر کیوں ہے؟ پتا چلا کہ وہ تو روز کالج کے لیے نکلتی ہے، ماں بہت پریشان بھی ہوئیں اور شرمندہ بھی۔ کبھی کبھی لڑکیوں کے کالج جا کر ان کی متعلقہ ٹیچر سے ماؤں کو پوچھنا چاہیے کہ ان کی بیٹی کالج آ رہی ہے یا نہیں؟ اسی طرح ماں یا باپ کو لڑکے کے کالج جا کر بھی معلوم کرنا چاہیے، ورنہ معاشرے میں ارمغان اور ظاہر جعفر جیسے نوجوان پیدا ہوتے رہیں گے۔ والدین کو بچوں کو وقت دینا چاہیے، یہ ان کی ذمے داری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہے ہیں ہیں کہ

پڑھیں:

راوی کی موجوں کے ساتھ ڈوبتی ایک روایت، لکڑی کی کشتیوں کا آخری کاریگر

لاہور:

دریائے راوی کے کنارے بیٹھا عبدالمجید لکڑی کو کھرچتے ہوئے ماضی کی گونج کو تازہ کرتا ہے، ایک ایسا ماضی جو اب صرف یادوں میں باقی ہے، مون سون کی حالیہ بارشوں نے راوی میں زندگی کی عارضی لہر دوڑائی تو عبدالمجید کا برسوں پرانا ہنر بھی چند ہفتوں کے لیے جاگ اٹھا، پانی آیا تو کشتی سازی کی بھولی بسری گونج بھی لوٹ آئی۔

اسی راوی کنارے 80 سالہ عبدالمجید آج بھی لکڑی کی کشتی بنانے میں مشغول ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ہنر محض 10 برس کی عمر میں سیکھنا شروع کیا تھا، ان کی بنائی پہلی کشتی گورنمنٹ کالج لاہور کے لیے تھی، جس کی قیمت اس وقت صرف 250 روپے تھی اور آج وہی کشتی اگر بنائی جائے تو اس کی قیمت 8 سے 10 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔

 

عبدالمجید بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب راوی اپنے جوبن پر تھا، اس وقت لاہور میں کئی بوٹس کلب ہوا کرتے تھے، جن کے لیے وہ باقاعدگی سے کشتیاں بناتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بوٹس کلب بند ہوتے گئے اور ان کا کام بھی ماند پڑ گیا۔

انہوں نے کہا کہ اوپر سے بھارت نے دریا کا پانی روک دیا تو راوی کا حسن اور زندگی دونوں مانند پڑ گئے، اب یہ دریا صرف مون سون کے دنوں میں سانس لیتا ہے، باقی سال یہاں لاہور کی سیوریج بہتی ہے۔

عبدالمجید کی آواز میں فخر بھی ہے اور تلخی بھی، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کئی نامور شخصیات کے لیے کشتیاں بنائی ہیں، ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کے والد میاں محمد شریف ان کے گاہکوں میں شامل رہے اور میاں شریف ان سے خاص محبت رکھتے تھے۔

وقت کی سختی نے صرف روزگار ہی نہیں، ان کی دستکاری کے وسائل کو بھی محدود کر دیا ہے، پہلے دیودار کی لکڑی استعمال ہوتی تھی، مگر اب اس کی قیمت 14 سے 16 ہزار روپے فی فٹ تک پہنچ چکی ہے، اسی لیے وہ اب پائن اور شیشم کی لکڑی استعمال کرتے ہیں جو نسبتاً سستی ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ ایک سات سے آٹھ افراد کی گنجائش والی کشتی کی لاگت اب تقریباً آٹھ لاکھ روپے تک جا پہنچی ہے لیکن راوی کے آلودہ پانی میں یہ کشتیاں زیادہ عرصہ نہیں ٹک پاتیں۔

عبدالمجید کے مطابق انہیں یہ کام تین سال بعد ملا ہے، وہ افسردگی سے کہتے ہیں کہ اب وہ یہ ہنر کسی کو کیوں سکھائیں؟ جب خود بے روزگار ہیں تو اور کون یہ فن سیکھنا چاہے گا؟ نہ دریا ویسا رہا، نہ وہ شہر اور نہ وہ خریدار رہے۔

بارشیں ہوئیں، تو دریا میں پانی آیا، آس پاس کے لوگ سیر کے لیے راوی کا رخ کرنے لگے، پرانی اور ناکارہ کشتیاں مرمت کی گئیں، چند دنوں کے لیے سرگرمی لوٹی، رونق واپس آئی لیکن عبدالمجید جانتے ہیں کہ یہ خوشی وقتی ہے اور جب بارشیں تھم جائیں گی، پانی اتر جائے گا تو راوی ایک بار پھر خاموش ہو جائے گا۔

یہ چند ہفتوں کی زندگی شاید عبدالمجید کے ہاتھوں سے بننے والی آخری کشتیاں بھی ہو سکتی ہیں، ان کے ہاتھوں سے نکلنے والی لکڑی کی ہر ضرب، ایک روایت کی آخری دھڑکن جیسی محسوس ہوتی ہے، راوی کے کنارے ایک ہنر، ایک عہد اور ایک کاریگر رفتہ رفتہ رخصت ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ وہ کہانیاں بھی جو کبھی اس دریا کی موجوں میں بہتی تھیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • راوی کی موجوں کے ساتھ ڈوبتی ایک روایت، لکڑی کی کشتیوں کا آخری کاریگر
  • ٹی 20 سیریز، تیسرے میچ میں بنگلہ دیش کا پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
  • غزہ میں قحط کی المناک صورت حال لمحہ فکریہ ہے، حاجی حنیف طیب
  • پاکستان علما کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیدیا
  • پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا
  • والدین ہوشیار رہیں، سفر سے قبل 18 سال سے کم عمر بچوں کی ویزا شرائط ضرور جان لیں
  • سندھ بھر کے کالجوں میں نئے تعلیمی سال کیلئے داخلوں کا مرحلہ مکمل
  • پاکستان دوسرا ٹی20 بھی ہار گیا سیریز بھی بنگلہ دیش کے حوالے کر دی
  • اداکارہ حمیرا اصغر کی گمشدگی اور موت میں نیا موڑ
  • پنجاب کا ایک اور خاندان چلاس سیلابی ریلے میں پھنس گیا؛ 2 جاں بحق، بچہ لاپتا