نتیش اور نائیڈو جیسے نام نہاد سیکولر لیڈران کی افطار پارٹیوں کا بائیکاٹ کیا جائے، جمعیۃ علماء ہند
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے بتایا کہ خود کو سیکولر کہنے والے وہ لوگ جو مسلمانوں پر ہو رہے مظالم اور ناانصافی پر خاموش ہیں اور موجودہ حکومت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیۃ علماء ہند نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور لیڈران کے خلاف علامتی احتجاج درج کرتے ہوئے ان کی افطار پارٹیوں و عید ملن تقاریب سے دور رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اس تعلق سے بتایا کہ خود کو سیکولر کہنے والے وہ لوگ جو مسلمانوں پر ہو رہے مظالم اور ناانصافی پر خاموش ہیں اور موجودہ حکومت کا حصہ بنے ہوئے ہیں، ان کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے علامتی احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کے تحت اب جمعیۃ علماء ہند ایسے لوگوں کی کسی بھی تقریب میں حصہ نہیں لے گی، چاہے وہ افطار پارٹی ہو، عید ملن ہو یا دیگر کوئی تقاریب۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ملک میں اس وقت جس طرح کے حالات ہیں، خصوصاً اقلیتوں اور ان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ جو ناانصافی و مظالم ہو رہے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن یہ بے حد افسوسناک ہے کہ خود کو سیکولر اور مسلمانوں کا ہمدرد بتانے والے لیڈران، جن کی سیاسی کامیابی میں مسلمانوں کا بھی تعاون رہا ہے، وہ اقتدار کے لالچ میں نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بالواسطہ طور سے ناانصافی کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو حاشیے پر دھکیلنے کی منصوبہ بند سازشیں ہو رہی ہیں، مذہبی جذبات مجروح کئے جا رہے ہیں، مذہبی مقاماتا کو تنازعات میں گھسیٹا جا رہا ہے اور فسادات کرا کر مسلمانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے، ان واقعات پر بھی یہ نام نہاد سیکولر لیڈران آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔
مولانا ارشد مدنی نے نتیش کمار، چندرا بابو نائیڈو اور چراغ پاسوان جیسے لیڈران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اقتدار کی خاطر نہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ناانصافیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، بلکہ ہندوستانی آئین اور جمہوری اقدار کو بھی پس پشت ڈال رہے ہیں۔ مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل پر ان لیڈران کا رویہ ان کے دوہرے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد مسلم طبقہ کے ایشوز کو یہ پوری طرح فراموش کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جمعیۃ علما ہند نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے لیڈران کی تقاریب میں شامل ہو کر ان کی پالیسیوں کو جواز فراہم نہیں کرے گی۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے ملک کی دیگر مسلم تنظیموں اور اداروں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی اس علامتی احتجاج میں شامل ہوں اور ان لیڈران کی افطار پارٹیوں و عید ملن تقاریب میں حصہ لینے سے پرہیز کریں۔
مولانا ارشد مدنی نے نام نہاد سیکولر لیڈران کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک میں نفرت اور ناانصافی کا ماحول قائم ہو رہا ہے، تب ان لیڈران کی خاموشی ان کے اصل کردار کو ظاہر کرتی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ملک بھر میں "آئین بچاؤ سمیلن" منعقد کر ان لیڈران کو بیدار کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مولانا ارشد مدنی نے واضح لفظوں میں کہا کہ جب یہ لیڈران ہماری تکلیف سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے، تو ہمیں بھی ان سے کسی طرح کی امید نہیں رکھنی چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ان لیڈران لیڈران کی رہے ہیں رہا ہے کہا کہ
پڑھیں:
جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قبول نہیں، وزیر صحت بلوچستان بخت کاکڑ
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ واقعات کے حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت بخت کاکڑ نے کہا کہ جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قابلِ قبول نہیں، موجودہ دور میں کہ جب قانون موجود ہے، 2 متوازی نظام نہیں چل سکتے۔
صوبائی وزیر کے مطابق ماضی میں جب ریاستی ادارے یا عدالتی نظام موجود نہیں تھے تو جرگہ ایک مقامی سطح پر انصاف فراہم کرنے والا نظام تھا، جو مخصوص قبائلی حالات میں اپنی افادیت رکھتا تھا۔ ’تاہم اب، چونکہ ملک میں باقاعدہ عدالتی نظام اور قانون موجود ہے، لہٰذا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بغیر تفتیش یا عدالتی کارروائی کے کسی فرد کو موت کی سزا دے۔‘
صوبائی وزیرصحت بخت کاکڑ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے قانونی دائرہ کار موجود ہے، تفتیش ہونی چاہیے اور عدالتی کارروائی کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے، کیونکہ جرگہ بٹھا کر محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کر دینا معاشرے کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بخت کاکڑ نے کہا کہ قانون تو موجود ہے، لیکن مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مقدمات کی پیروی اور تفتیش اس معیار پر نہیں ہوتی جیسا کہ ہونی چاہیے۔ ’اکثر اوقات مقتول کے قریبی رشتہ دار، خاص طور پر اہم خاندانی گواہ، عدالت میں پیش نہیں ہوتے، جس سے کیس کمزور ہو جاتا ہے اور ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر بچ نکلتے ہیں۔‘
صوبائی وزیرصحت کا کہنا تھا کہ ڈگاری واقعے کے بعد حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے مؤثر کارروائیاں کیں، اور وزیراعلیٰ بلوچستان، سرفراز بگٹی، نے کھلے الفاظ میں سرداری نظام اور جرگوں پر سوال اٹھائے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔
’جب تک ہم معاشرتی سطح پر ان معاملات پر کھل کر بحث و مباحثہ نہیں کریں گے، اس وقت تک مؤثر قانون سازی اور اصلاحات بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی۔
‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بخت کاکڑ جرگہ غیرت قتل وزیر صحت