غنودگی کا سامنا کرنیوالے مردو خواتین کو سنگین مرض ڈیمینشیا کا خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ، طبی ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اسلام آباد(اوصاف نیوز)دوپہر کے ایک سے 4 بجے کا وقت ایسا ہوتا ہے جب متعدد افراد کو عجیب سستی اور غنودگی کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے لیے آنکھیں کھلی رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ایسی کیفیت میں جسمانی توانائی کم محسوس ہوتی ہے، جبکہ تھکاوٹ کا احساس بھی ہوسکتا ہے۔
مگر درمیانی عمر یا بڑھاپے میں دوپہر کو غنودگی کا تجربہ روزانہ ہونے لگے تو یہ ایک سنگین مرض کی نشانی بھی ہوسکتی ہے۔اس نشانی سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ آپ میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دوپہر میں بہت زیادہ غنودگی کا سامنا کرنے والے افراد میں ڈیمینشیا سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس تحقیق میں 733 خواتین کو شامل کیا گیا جن کی اوسط عمر 83 سال تھی اور تحقیق کے آغاز میں کوئی بھی خاتون ڈیمینشیا کی علامات سے متاثر نہیں تھی۔تحقیق کے دوران 164 خواتین میں ڈیمینشیا سے معمولی دماغی تنزلی کو دریافت کیا گیا جبکہ 93 خواتین باقاعدہ طور پر ڈیمینشیا سے متاثر ہوگئیں۔
تحقیق کے آغاز اور اختتام پر کلائیوں پر تمام خواتین کو ڈیوائسز پہنا کر 3، 3 دن تک ان کی نیند اور جسمانی گھڑی کے افعال کا جائزہ لیا گیا۔5 سال تک جاری رہنے والی تحقیق کے دوران محققین نے 56 فیصد خواتین کی نیند کی عادات میں بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔
محققین نے نیند کی عادات کے مطابق خواتین کو 3 گروپس میں تقسیم کیا، 44 فیصد خواتین ایسی تھیں جن کی رات کے نیند کا دورانیہ معمولی حد تک بہتر ہوگیا، 35 فیصد خواتین ایسی تھیں جن کی نیند کے دورانیے میں کمی آئی اور دوپہر کو غنودگی بڑھ گئی جبکہ 21 فیصد ایسی تھیں جن کی رات کی نیند کے دورانیے کے ساتھ ساتھ معیار بھی گھٹ گیا جبکہ وہ دوپہر کو زیادہ وقت تک سونے لگیں اور جسمانی گھڑی کے افعال ناقص ہوگئے۔
یہاں تک کہ ان میں دوپہر اور رات کے وقت بھی غنودگی کی کیفیت بڑھ گئی۔تینوں گروپس میں کچھ خواتین میں ڈیمینشیا کی تشخیص ہوئی مگر یہ شرح اس گروپ میں سب سے زیادہ تھی جس کی غنودگی کا دورانیہ بڑھ گیا تھا۔
عمر، تعلیم اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد دریافت ہوا کہ دوپہر یا دن میں کسی بھی وقت غنودگی کا سامنا کرنے والے افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ تحقیق کے 5 سال کے دوران خواتین کی نیند، قیلولے اور جسمانی گھڑی میں تبدیلیاں آئیں مگر اس کے پیچھے چھپے میکنزمز کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیورولوجی میں شائع ہوئے۔
امریکہ میں کامیاب ریفرنڈم ،سکھوں کا اپنا نیا ملک خالصتان بنانے کا فیصلہ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: غنودگی کا سامنا میں ڈیمینشیا خواتین کو تحقیق کے کی نیند کا خطرہ
پڑھیں:
ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
لاہور:جیسے ہی سردیاں شروع ہوئیں، لاہور ایک بار پھر خطرناک فضائی آلودگی اور اسموگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ مگر ماہرین ماحولیات کے مطابق اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے قدرتی حل خود فطرت میں موجود ہے، درخت اور پودے، جو فضا کے لیے قدرتی فلٹر کا کردار ادا کرتے ہیں۔
باغِ جناح لاہور کے ڈائریکٹر جلیل احمد کے مطابق چوڑے پتوں والے درخت جیسے برگد، جامن ، پیپل، نیم، شیشم، املتاس اور اریٹا گرد و غبار اور کاربن کے ذرات کو مؤثر انداز میں جذب کرتے ہیں، جس سے فضا صاف اور آکسیجن کی مقدار متوازن رہتی ہے۔ درخت نہ صرف آکسیجن پیدا کرتے ہیں بلکہ مٹی اور کاربن کے ذرات کو روک کر فضا کو صاف رکھتے ہیں۔
لاہور میں بڑھتی تعمیرات اور کم ہوتے سبزے کے باعث شہری جنگلات (اربن فاریسٹری) اور چھتوں پر باغبانی (روف ٹاپ گارڈننگ) کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔
پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) کے مطابق شہر کی 500 سے زائد عمارتوں پر روف ٹاپ گارڈنز قائم کیے جا چکے ہیں جن میں پھل دار پودے، سبزیاں اور گھاس شامل ہیں۔ یہ گارڈنز نہ صرف نقصان دہ گیسوں کو جذب کرتے ہیں بلکہ درجہ حرارت کو اوسطاً 2 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
پی ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل راجہ منصور احمد کے مطابق لنگز آف لاہور منصوبہ شہر میں فضائی آلودگی کے تدارک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کے تحت 48 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے، جو 112 کلومیٹر طویل اور 1711 ایکڑ پر محیط جنگلاتی پٹی (رِنگ فاریسٹیشن) کا حصہ ہوں گے۔ اس منصوبے سے دو کروڑ سے زائد شہری براہِ راست فائدہ اٹھائیں گے۔
ماہر ماحولیات نسیم الرحمن کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کے لیے جہاں فیکٹریوں، کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے وہیں شہری علاقوں میں اربن فاریسٹری اور روف ٹاپ گارڈننگ کا فروغ بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اربن فاریسٹری اور روف ٹاپ گارڈننگ شہری درجہ حرارت کم کرنے کے ساتھ بارش کے پانی کے مؤثر استعمال کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ شہری ماحولیاتی دباؤ کم کرنے کا ایک پائیدار حل ہے۔
ماہر جنگلات بدر منیر کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے خلاف سب سے مؤثر حیاتیاتی ہتھیار درخت ہیں۔ محکمے کی رپورٹ کے مطابق برگد کو فضائی آلودگی صاف کرنے کے لحاظ سے سب سے مؤثر درخت قرار دیا گیا ہے، اس کے بعد ارجن اور جامن کے درخت فضا سے مضر ذرات جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ درختوں کی بقا اور مؤثریت کا انحصار ان کی دیکھ بھال پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خشک یا بیمار درخت اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور بعض اوقات خود کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے لگتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ شہروں میں مقامی درختوں کو ترجیح دی جائے اور شہریوں میں ان کی دیکھ بھال کا شعور پیدا کیا جائے۔
ماہرین متفق ہیں کہ اگر شہری سطح پر مقامی درختوں کی شجرکاری، روف ٹاپ گارڈننگ اور مناسب دیکھ بھال کے اقدامات مستقل بنیادوں پر کیے جائیں تو لاہور جیسے شہروں میں اسموگ اور فضائی آلودگی کے اثرات میں نمایاں کمی ممکن ہے۔