اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مارچ 2025ء) پنجاب کے محکمہ داخلہ نے صوبائی محکمہ تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں ''گڈ ٹچ‘‘ اور ''بیڈ ٹچ‘‘ سے متعلق آگاہی کا مواد شامل کیا جائے۔ اس اقدام کا مقصد بچوں کو جنسی استحصال سے تحفظ کی تعلیم دینا ہے تاکہ وہ خوفزدہ ہونے کی بجائے ''غلط حرکتوں‘‘ کو بے نقاب کریں اور اپنی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔

نصاب میں شمولیت اور والدین کی آگاہی پر زور

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسی مہمات تب تک مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتیں، جب تک کہ حکومت اس نصاب کی پرائمری جماعتوں میں شمولیت کو یقینی نہ بنائے اور اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ والدین میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے جامع حکمت عملی پر مؤثر عمل درآمد نہ کرے۔

(جاری ہے)

مہم کا عملی نفاذ کیسے ہوگا؟

محکمہ داخلہ کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز توصیف صبیح کہتے ہیں کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں عمر کے مطابق آگاہی کہانیوں کو نصاب کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔

راولپنڈی اسکول ایجوکیشن اتھارٹی کے سی ای او امان اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی اس موضوع پر کوئی نصاب تو تیار نہیں کیا گیا لیکن اضلاع میں بچوں کے لیے آگاہی سرگرمیوں پر کام جاری ہے، جو تحصیل اور ضلع کی سطح پر حفاظتی شعور بیدار کریں گی۔ انہوں نے اسے پنجاب حکومت کا ابتدائی قدم قرار دیا، جو سرکاری اور نجی اسکولوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے طور پر شروع کیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ پر آپ کے بچوں کے ساتھ یہ کچھ ہو سکتا ہے!

قائداعظم یونیورسٹی کی جینڈر امور کی ماہر ڈاکٹر رابعہ اسلم کہتی ہیں کہ تین سے سات سال کے بچوں کو ''جسمانی حدود اور تحفظ‘‘ کی تعلیم دینا ضروری ہے، ''اگر یہ نصاب کا حصہ بنتا ہے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی، کیونکہ محققین 15 سال سے اس کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔‘‘

والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری

بچوں کے حقوق کے قومی کمیشن کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ اساتذہ کو کہانیوں، بصری امداد اور کردار نگاری کے ذریعے بچوں کو پڑھانا چاہیے تاکہ سیکھنا دلچسپ ہو، ''اساتذہ کی پیشہ وارانہ تربیت بھی لازمی ہے تاکہ وہ مشکوک حالات میں بروقت ردعمل دے سکیں۔

‘‘

انہوں نے والدین کے کردار کو کلیدی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں بچوں سے کُھلا اور بااعتماد رشتہ بنانا چاہیے، بچوں کو "نہیں" کہنے کی ہمت اور محفوظ رپورٹنگ کی تربیت دی جانا چاہیے۔

کیا اسکول کافی ہیں؟

چائلڈ رائٹس ایکٹیوسٹ کوثر عباس کہتی ہیں کہ یہ مہم والدین، اساتذہ اور اسکول مینجمنٹ کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو گی۔

انہوں نے تجویز دی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں والدین-اساتذہ کونسلز کو مضبوط کیا جائے اور آگاہی سیشنز شروع کیے جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''حکومت اسے پالیسی کا حصہ بنائے اور مالی وسائل فراہم کرے تاکہ صحت، صفائی اور سماجی مسائل پر تعلیم دی جا سکے۔‘‘ قدامت پسندی اور جدید تقاضوں میں توازن

عائشہ رضا نے خبردار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں ثقافتی حساسیت رکاوٹ بن سکتی ہے، جس سے مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''اس کے لیے محتاط گفتگو اور مذہبی رہنماؤں کی شمولیت ضروری ہے تاکہ رویوں میں تبدیلی آئے۔‘‘

جینڈر امور کی ماہر ڈاکٹر رابعہ اسلم بتاتی ہیں کہ میڈیا نے بچوں کی معلومات تک رسائی بڑھا دی ہے، لیکن والدین کی رہنمائی نہ ہوئی تو وہ غلط ذرائع سے سیکھ سکتے ہیں، ''والدین کو چاہیے کہ وہ خود ان مسائل کو سمجھیں اور سماجی اقدار کے مطابق بچوں میں شعور پیدا کریں تاکہ وہ درست اور محفوظ معلومات حاصل کر سکیں۔

‘‘ اینیمیشن سے آگاہی

توصیف صبیح نے بتایا کہ سیکرٹری داخلہ نور الامین مینگل کی ہدایت پر چائلڈ پروٹیکشن بیورو ایک خصوصی مہم تیار کر رہا ہے۔ اس میں دو اینیمیٹڈ کردار (ایک لڑکا اور ایک لڑکی) بچوں کے ہیروز کے طور پر متعارف ہوں گے۔

ان کے مطابق یہ کردار ویڈیوز اور کہانیوں کے ذریعے آگاہی دیں گے، ''حقیقی بچوں کی بجائے کارٹون اس لیے منتخب کیے گئے تاکہ سماجی مسائل اور ماضی کے منفی تجربات سے بچا جا سکے۔‘‘

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بچوں کے بچوں کو کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

اساتذہ کا وقار

کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ 

کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں  کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔

ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔

 80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔

 1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔

تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • سبزی فروش کے بیٹے کی محنت رنگ لے آئی؛ والدین اور اساتذہ کا سر فخر سے بلند کردیا
  • امریکا مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، ٹرمپ
  • جنگلی حیات کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم جاری
  • والدین ہوشیار رہیں، سفر سے قبل 18 سال سے کم عمر بچوں کی ویزا شرائط ضرور جان لیں
  • ’اپنے ہی گھر میں ہراسانی کا شکار ہوں، تنوشری دتہ کا دعویٰ
  • پنجاب اسمبلی، سکولوں میں طلبہ کیلئے موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد جمع
  • خاتون کے ہاں بیک وقت 5 بچوں کی پیدائش،والدین خوشی سے نہال
  • اساتذہ کا وقار
  • سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع
  • نومولود بچوں کی بینائی کو لاحق خاموش خطرہ، ROP سے بچاؤ کیلئے ماہرین کی تربیتی ورکشاپ