میلبرن کنسرٹ مفت میں کیا، آرگنائزر سب کے پیسے لے کر بھاگ گئے، نیہا ککڑ کا تہلکہ خیز انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
بھارتی گلوکارہ نیہا ککڑ کو حال ہی میں اپنے میلبورن کنسرٹ میں 3 گھنٹے تاخیر سے پہنچنے پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سوشل میڈیا پر انج کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں گلوکارہ کو روتے ہوئے اپنے مداحوں سے معافی مانگتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
اس ویڈیو میں ایک شخص کو چیخ کر کہتے ہوئے سُنا جاسکتا ہے، ’واپس جاؤ! اپنے ہوٹل میں آرام کرو‘، جب کہ دوسرے شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا، ’یہ ہندوستان نہیں ہے، تم آسٹریلیا میں ہو۔‘
کنسرٹ میں موجود مداحوں نے مزید کہا کہ ہم تین گھنٹے سے انتظار کر رہے ہیں اب واپس چلی جاؤ۔ جس پر گلوکارہ جذبات پر قابو نہ پاتے ہوئے اسٹیج پر ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔
نیہا ککڑ نے اب آخر کار میلبرن کنسرٹ میں تاخیر سے پہنچنے پر خاموشی توڑ دی ہے اور مداحوں کو بتایا ہے کہ کہ اصل میں ان کے ساتھ کیا ہوا تھا اور وہ دیر سے کیوں پہنچیں۔ نیہا نے انسٹاگرام پر ایک تفصیلی پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے واضح کیا کہ کنسرٹ میں کیا ہوا اور اسپانسرز کے ساتھ اپنے بُرے تجربے کے بارے میں بتایا۔
A post shared by Neha Kakkar (@nehakakkar)
گلوکارہ نے پوسٹ میں لکھا ’نہوں نے کہا کہ میں 3 گھنٹے تاخیر سے آئی، کیا انہوں نے ایک بار بھی پوچھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا؟ اسپانسرز نے میرے یا میرے بینڈ کے ساتھ کیا کیا؟ جب میں نے اسٹیج پر بات کی تو میں نے کسی کو یہ بھی نہیں بتایا کہ کیا ہوا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو کوئی نقصان پہنچے، کیونکہ میں کسی کو سزا دینے والی کون ہوتی ہوں؟ لیکن اب جب یہ میرے نام پر آیا ہے تو مجھے بولنا پڑا۔‘
نیہا نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا کہ ’کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے اپنے میلبرن کے مداحوں کے لیے بالکل مفت پرفارم کیا؟ اسپانسرز میرے پیسے اور دوسروں کے پیسے لے کر بھاگ گئے، میرے بینڈ کو کھانا، ہوٹل یا پانی بھی نہیں دیا گیا۔ میرے شوہر اور ان کے لڑکوں نے جا کر انہیں کھانا فراہم کیا۔ اس سب کے باوجود، ہم پھر بھی اسٹیج پر گئے اور بغیر کسی انتظار کے شو کیا، کیونکہ میرے مداح گھنٹوں سے میرا انتظار کر رہے تھے۔‘
A post shared by Pop Culture Opinions (@popinions.
گلوکارہ نے مزید بتایا کہ کنسرٹ کے لیے اس کی ساؤنڈ چیک میں بھی گھنٹوں تاخیر ہوئی، کیونکہ ساؤنڈ والے کو بھی ادائیگی نہیں کی گئی تھی اس لیے اس نے ساؤنڈ لگانے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ سے ساؤنڈ چیک شروع ہونے میں مزید تاخیر ہوئی۔
نیہا نے انکشاف کیا انہیں اور انکی ٹیم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کنسرٹ ہو رہا ہے یا نہیں کیونکہ آرگنائزرز نے ان کے مینیجر کی کال اٹھانا بند کر دیں کیونکہ وہ اسپانسرز اور سب سے بھاگ رہے تھے۔
اپنے پیغام کے آخر میں نیہا ککڑ نے ہر اس شخص کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس سے نرمی سے بات کی اور اس کی صورتحال کو سمجھا اور ان تمام لوگوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس دن اس کے کنسرٹ میں شرکت کی۔
TagsShowbiz News Urdu
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: نیہا ککڑ کیا ہوا کہ میں
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭