سید ناصر عباس شیرازی کا امریکی دھمکیوں پر خصوصی انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں سید ناصر عباس شیرازی کا کہنا تھا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکا ایران پر حملہ کرے، مگر یہ امریکا کیلئے ممکن نہیں، امریکا کے تمام بحری بیٹرے اور اڈے ایران کے نشانے پر ہیں، یہ جنگ شروع ہوئی تو ختم ایران ہی کرے گا۔ متعلقہ فائیلیںمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں، آجکل ایک تھنک ٹینک چلا رہے ہیں اور اس میں بطور صدر کام کر رہے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ ان کا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پر حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ اسلام ٹائمز نے ایران امریکا مذاکرات اور امریکہ کی حالیہ دھمکیوں پر ان کا ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ٹرمپ کی کنفیوژن
اسلام ٹائمز: امریکی صدر نے "جنگ کی قیمت" ادا کی ہے اور ابھی ادا کریں گے لیکن وہ اس مساوات میں "فائدہ" حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ دوسری جانب نطنز اور فوردو جوہری تنصیبات پر حملے میں ٹرمپ کو ان کی بے شرمی اور مہنگی کارروائی پر اقتدار کی پس پردہ لابیوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس پس پردہ دباؤ کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ ٹرمپ ایران کے ایٹمی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے پر بار بار اصرار کررہا ہے۔ تحریر و ترتیب: علی واحدی
امریکی صدر نے "ایران کے جوہری پروگرام کی تباہی" کے بارے میں اپنی معمول کی مبالغہ آرائیوں کو دہراتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کی تعمیر نو کی طرف بڑھا تو امریکہ دوبارہ کارروائی کرے گا۔ ٹرمپ نے اپنے معمول کے دعووں کو دہراتے ہوئے کہا کہ ایران کی جوہری صلاحیت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور اس نے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی طرف بڑھنے سے روک دیا ہے۔
کنفیوزڈ امریکی صدر کے حالیہ دعوے کے حوالے سے دو بنیادی نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے
اول یہ کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کی مکمل تباہی کے حوالے سے ٹرمپ کے موقف کی ترتیب اور تکرار نے اس حملے کی ناکامی کے بارے میں پردے کے پیچھے حقائق کو بے نقاب کردیا ہے۔ گویا اس مقام پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ پینٹاگون اور سینٹ کام کے حوالے سے شائع ہونے والی ابتدائی رپورٹس (جن میں ایران کے جوہری ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں واشنگٹن کی ناکامی کی تصدیق کی گئی ہے) کا سایہ ٹرمپ کے پریشان ذہن پر بدستور منڈلا رہا ہے۔
امریکی صدر نے "جنگ کی قیمت" ادا کی ہے اور ابھی ادا کریں گے لیکن وہ اس مساوات میں "فائدہ" حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ دوسری جانب نطنز اور فوردو جوہری تنصیبات پر حملے میں ٹرمپ کو ان کی بے شرمی اور مہنگی کارروائی پر اقتدار کی پس پردہ لابیوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس پس پردہ دباؤ کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ ٹرمپ ایران کے ایٹمی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے پر بار بار اصرار کررہا ہے۔
پاگل اور جنونی انداز میں بیان کو دہرانا عام طور پر خاص و عام کی طرف سے اس کی عدم قبولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک قاعدہ جو فوردو اور نطنز ایٹمی تنصیبات پر حملے کے نتائج کے بارے میں ٹرمپ کے دعوے پر بھی صادق آتا ہے۔ دوسرا نکتہ ٹرمپ کے الفاظ اور موقف میں "تعارف" اور "اختتام" کے درمیان عدم تناسب پر مرکوز ہے! اگر امریکی صدر ایران کی جوہری تنصیبات کی تباہی پر پختہ یقین رکھتے ہیں، تو انہیں ایران کے خلاف اپنے اگلے اقدامات کو بیان کرنے میں مشروط بیانات (اگر مگر) کا استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر ایران کا جوہری ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور اگر یہ سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوتی ہیں تو ایران کے ساتھ فوجی تصادم پر ٹرمپ کے بار بار زور دینے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی ہے۔ اس جملے کا بذات خود یہ مفہوم بنتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ابھی ایران کے جوہری پروگرام اور موجود تنصیبات کے بارے میں ابھی تک حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔
دریں اثنا، افزودہ یورینیم کے ذخائر (60% افزودگی پر مبنی) کا معمہ اب بھی اپنی جگہ قائم و مضبوط ہے، اور امریکی-یورپی حکام کو ابھی تک اسے حل کرنے کی طاقت نہیں ملی ہے۔ یہ بنیاد اور نتیجہ وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کے غصے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف حالیہ شکست کا منطقی نتیجہ ہے۔ یہ الجھن مستقبل میں ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے الجھے ہوئے پراگندہ ذہنوں پر سایہ فگن رہے گا۔