اب آپ کن اسمارٹ فونز پر یوٹیوب و دیگر گوگل سہولیات استعمال نہیں کرسکیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
گوگل نے اپنی سروسز کے استعمال کے لیے اسمارٹ فونز کی اسٹوریج اور ریم کیپیسٹی کے لیے سخت شرائط رکھ دیں۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوب: 2024 میں پاکستان کی کون سی ویڈیوز ٹاپ ٹرینڈنگ رہیں؟
گوگل موبائل سروسز بشمول گوگل پلے، جی میل اور یوٹیوب کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے اب اسمارٹ فون میں کم از کم 32 جی بی اسٹوریج ہونی لازمی ہوگی۔
اس سے پہلے فون 8 جی بی سے کم اسٹوریج پر بھی گوگل موبائل سروسز حاصل کر سکتے تھے۔
مزید پڑھیے: کیا آپ کے اسمارٹ فون میں یہ 10 ایپس ہیں؟
مزید برآں سسٹم 32 جی بی اسٹوریج کا 75 فیصد ڈیٹا پارٹیشن کے لیے وقف کرتا ہے جس میں سسٹم ایپس، سسٹم ایپ ڈیٹا، ضروری سسٹم فائلز، اور تمام صارف ایپس اور فائلیں شامل ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ صارف کے ہموار تجربے کو برقرار رکھتے ہوئے آلات کے پاس اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم اور ایپس کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کافی جگہ ہو۔
پرانے آلات پر اثراب32 جی بی سے کم اسٹوریج والے فون نہ صرف اینڈرائیڈ 15 اپ ڈیٹ حاصل کرنے سے قاصر ہوں گے بلکہ وہ مزید جدید آلات کے لیے کچھ نئی خصوصیات تک بھی رسائی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ زیادہ تر اسمارٹ فونز اب نمایاں طور پر 32 جی بی سے زیادہ کے ہی ہوتے ہیں لیکن اینڈرائیڈ 15 کے ساتھ صرف 32 جی بی اسٹوریج والا فون استعمال کرنا ناقص تجربہ ہوگا۔
ریم کی ضروریاتاسٹوریج کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ گوگل نے اینڈرائیڈ ڈیوائسز کے لیے ریم کی ضروریات کو بھی اپ ڈیٹ کیا ہے۔ 2 جی بی یا 3 جی بی ریم والے آلات کے لیے اینڈرائیڈ گو ایڈیشن، اینڈرائیڈ کا ایک ہلکا پھلکا ورژن جو لو اینڈ فونز کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، کی ضرورت ہوگی۔ 2 جی بی سے کم ریم والے فون گوگل موبائل سروسز کے لیے بالکل بھی اہل نہیں ہوں گے۔
مزید پڑھیں: اسمارٹ فون کے بغیر 134 دن گزارنے والے شخص کے ساتھ کیا ہوا؟
4 جی بی ریم والے اسمارٹ فونز کے لیے ڈیوائس اب بھی مکمل اینڈرائیڈ 15 چلا سکتی ہے اور اس میں جی ایم ایس ہو سکتا ہے لیکن یہ اگلے ورژن، اینڈرائیڈ 16 میں تبدیل ہو جائے گا۔ اینڈرائیڈ 16 کے ساتھ شروع کرتے ہوئے، 4 جی بی ریم والے ڈیوائسز کو اینڈرائیڈ گو ایڈیشن کا استعمال کرنا چاہیے، یعنی ڈیوائسز کو جلد ہی مکمل اینڈرائیڈ چلانے کے لیے کم از کم 6 جی بی ریم کی ضرورت ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسمارٹ فون گوگل موبائل سروسز یوٹیوب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسمارٹ فون گوگل موبائل سروسز یوٹیوب گوگل موبائل سروسز اسمارٹ فونز اسمارٹ فون ریم والے کے ساتھ کے لیے ریم کی
پڑھیں:
لائن آف کنٹرول پر دراندازی کا بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہو گیا
لائن آف کنٹرول پر دراندازی کا بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوگیا. 23 اپریل کو لائن آف کنٹرول کے علاقے سرجیور میں 2 مبینہ دراندازوں کو ہلاک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا۔ذرائع کے مطابق جھوٹا بھارتی دعویٰ بظاہر ایک من گھڑت بیانیے کو پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے. وقت کے تسلسل، زمینی حقائق اور جاری کردہ تصویری شہادتوں میں سنگین تضادات پائے جاتے ہیں .جس واقعے میں 2 افراد کو درانداز قرار دیا جا رہا ہے ان کی شناخت مقامی افراد کے طور پر ہوئی ہے۔ملک فاروق ولد صدیق اور محمد دین ولد جمال الدین گاؤں سجیور کے پُرامن شہری تھے، مارے جانے والے افراد کے لواحقین نے 22 اپریل کی صبح ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی تھی. ان افراد کی گمشدگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی ممکنہ دراندازی سے پہلے ہی غائب ہو چکے تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی ذرائع کی جانب سے جاری کردہ تصاویر واضح طور پر بھارت کے مؤقف کو جھٹلا رہی ہے کہ تصویر میں ایک متوفی کی لاش صاف ستھری، چمکتی ہوئی کالی جوتیوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے. یہ لاش دشوار گزار پہاڑی راستے سے دراندازی کرنے والے کی ہرگز نہیں ہو سکتی. مارے جانے والے شخص کے کپڑے بھی حیران کن حد تک صاف ہیں. اس کے ہتھیار پر مٹی یا خون کے نشانات تک نہیں، اس کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر کسی قسم کی لڑائی کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔اسی طرح دوسری لاش کے پاس کسی قسم کا لوڈ بیئرر، اضافی گولہ بارود، پانی کی بوتل، یا کوئی بھی جنگی ساز و سامان موجود نہیں. اگر یہ واقعی ایک درانداز ہوتا تو وہ اس طرح ناپختہ اور غیر محفوظ حالت میں کبھی بھی حرکت نہ کرتا. ایک شخص کے پاس تو صرف پستول ہے جو کہ دراندازی کی کسی بھی فوجی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔مقامی افراد اور متاثرہ خاندانوں کے بیانات اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ یہ دونوں افراد پُرامن شہری تھے.ہلاک ہونے والے افراد کا کسی بھی عسکری یا غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا .بھارتی افواج نے انہیں بے دردی سے قتل کر کے اسے ایک فالس فلیگ آپریشن کا رنگ دے دیا. بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لے۔