ویزوں کی اچانک منسوخی، ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف 130 غیر ملکی طلبا عدالت پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
امریکا میں 130 سے زائد بین الاقوامی طلبا نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے طالبعلمی ویزے غیر قانونی طور پر منسوخ کیے گئے، جس سے ان کی قانونی حیثیت اور مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق، ان طلبا کا کہنا ہے کہ امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) ایجنسی نے اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر انفارمیشن سسٹم میں ان کی حیثیت اچانک ختم کر دی، جس کے نتیجے میں انہیں گرفتاری اور ڈی پورٹ کیے جانے کا خطرہ لاحق ہوا۔
یہ شکایت پہلے جارجیا میں 11 اپریل کو 17 طلبا نے درج کرائی تھی، جس کے بعد مزید 116 طلبا بھی شامل ہو گئے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن کریک ڈاؤن میں انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق، ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بین الاقوامی طلبا نے بتایا کہ ان کے ویزے بغیر اطلاع یا وجہ کے منسوخ کیے گئے، جس سے ان کی تعلیم اور رہائش متاثر ہوئی۔
مقدمے میں امریکی اٹارنی جنرل پام بوندی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم اور ICE کے قائم مقام ڈائریکٹر ٹوڈ لیونز کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ بہت سے طلبا کو قانونی کارروائی کے خوف سے شناخت ظاہر کیے بغیر شامل کیا گیا ہے۔ ایک طالبعلم کا کہنا ہے کہ شاید اس کے پرانے ٹریفک کیس کی بنیاد پر ویزا منسوخ کیا گیا، حالانکہ وہ بند ہو چکا تھا۔ ایک بھارتی طالبعلم نے دعویٰ کیا کہ اس پر لگایا گیا شاپ لفٹنگ کا مقدمہ خارج ہو چکا ہے، مگر پھر بھی اس کا ویزا منسوخ کر دیا گیا۔
طلبا عدالت سے اپیل کر رہے ہیں کہ ان کے ویزے فوری طور پر بحال کیے جائیں تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گیا ہے
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا