نہری پانی کی منصفانہ تقسیم:خواب یا حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
پاکستان کے صوبہ سندھ کی تاریخ، ثقافت اور معیشت میں دریائے سندھ اور اس سے جڑا ہوا نہری نظام ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ کو وادیء سندھ کی تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے اور یہ تہذیب دریائوں کے کنارے پروان چڑھی۔ آج بھی سندھ کی زراعت اور کسانوں کی معیشت کا دارومدار انہی نہروں پر ہے جو دریائے سندھ سے نکالی گئی ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان نہروں میں پانی کی کمی، ناقص منصوبہ بندی، وفاقی و صوبائی کشمکش اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس پورے نظام کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سندھ کے عوام، بالخصوص کسان، اس وقت شدید پریشانی اور بے چینی کا شکار ہیں، اور یہی بے چینی احتجاج کی صورت میں ملک کی سڑکوں پر نظر آتی ہے۔برطانوی دور حکومت میں سندھ کے لیے نہری نظام کو بڑی اہمیت دی گئی تھی۔ برطانوی ماہرین نے دریائے سندھ کی وسعت کو دیکھتے ہوئے نہروں کا ایک جال بچھایا تاکہ سندھ کی وسیع و عریض زمینوں کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔ سکھر بیراج، گڈو بیراج اور کوٹری بیراج جیسے عظیم منصوبے اسی دور کے ورثے ہیں جنہوں نے سندھ کو ایک زرعی معیشت کی بنیاد فراہم کی۔ ان منصوبوں کے ذریعے لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہوئی اور سندھ کا کسان خوشحال ہوا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کے مطالبے میں اضافہ، اور دیگر صوبوں کے ساتھ پانی کی تقسیم کے تنازعات نے صورت حال کو بگاڑنا شروع کر دیا۔آج سندھ میں نہری نظام شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی آمد کم ہو رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور برفباری کے سیزن کا مختصر ہونا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، پنجاب کی طرف سے زیادہ پانی لینے کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ صرف پانی کی عدم دستیابی نے ایک وسیع تر انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جس کا دائرہ زراعت سے نکل کر معیشت، خوراک، بے روزگاری اور تعلیم تک پھیل چکا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے نئے آبی منصوبے، جیسے کہ کالا باغ ڈیم یا دیگر نہری نکاس کے منصوبے، سندھ میں ایک خطرناک ردعمل کا باعث بن رہے ہیں۔ سندھ کے عوام کا یہ ماننا ہے کہ ان منصوبوں کا مقصد پنجاب کو زیادہ پانی دینا ہے جبکہ سندھ کے لوگوں کو مزید محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوامی سطح پر بھی ان منصوبوں کو ’’پانی پر قبضہ‘‘ تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں بڑے پیمانے پر احتجاجات ہو رہے ہیں۔ یہ احتجاج صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ عام کسان، مزدور، طالب علم اور شہری بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔اس ساری صورت حال میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو سکی۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) جیسے ادارے بھی اکثر تنازعات کا شکار رہتے ہیں، اور سندھ کو اس بات پر شکایت ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام فریقین مل بیٹھ کر ایک جامع، شفاف اور دیرپا حل نکالیں جس سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کو فائدہ ہو۔ کیونکہ اگر سندھ میں زراعت ختم ہوئی، تو ملک کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ نہروں کی صفائی اور مرمت کا عمل انتہائی سست ہے۔ پرانے نہری نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ نہیں کیا گیا، جس سے پانی کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ غیر قانونی واٹر کورسز، پانی کی چوری اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی طرف سے پانی کے ناجائز استعمال نے بھی بحران کو بڑھایا ہے۔ دیہی علاقوں میں اکثر چھوٹے کسانوں کو پانی نہیں ملتا جبکہ بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں پانی کی فراہمی جاری رہتی ہے، جس سے معاشرتی تفریق اور ناراضگی مزید بڑھتی ہے۔ ماحولیاتی اثرات بھی اس نہری بحران کا ایک اہم پہلو ہیں۔ پانی کی کمی سے نہ صرف فصلیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ جنگلی حیات، آبی حیات اور دریا کے اطراف کا ماحولیاتی نظام بھی تباہ ہو رہا ہے۔ سندھ کی کئی جھیلیں اور دریائی علاقے خشک ہو چکے ہیں، جس سے مقامی ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند برسوں میں سندھ کا ماحولیاتی منظرنامہ مکمل طور پر بدل جائے گااور اس کے اثرات نسل در نسل محسوس کیے جائیں گے۔عوامی احتجاج کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں احساس ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ لوگ سڑکوں پر اس لیے نکلتے ہیں کہ ان کی آواز سنی نہیں جاتی، ان کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، ان کے بچے بھوکے سو رہے ہیں اور ان کے مستقبل پر اندھیرے چھا رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو صرف انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب تک اس احساس محرومی کا تدارک نہیں کیا جاتا، احتجاج جاری رہیں گے۔اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایک متفقہ آبی پالیسی بنائیں۔ اس پالیسی میں پانی کی منصفانہ تقسیم، نہروں کی مرمت، جدید آبپاشی نظام کا نفاذ، غیر قانونی کنکشنز کے خلاف کارروائی اور کسانوں کو براہ راست نمائندگی دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں پانی کے درست استعمال اور بچت کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ وسائل کا ضیاع روکا جاسکے۔ پانی کا مسئلہ محض سندھ کا مسئلہ نہیں، یہ پاکستان کے ہر فرد کا مسئلہ ہے، اور اگر آج ہم نے اسے حل نہ کیا تو کل یہ بحران ناقابلِ کنٹرول ہو جائے گا۔سندھ کی نہریں محض پانی کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کی ثقافت، تاریخ، اور معیشت کی علامت ہیں۔ ان نہروں کو خشک ہونے دینا گویا سندھ کے وجود کو کمزور کرنا ہے۔ ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا ہو گا، صوبائی تقسیم سے بالاتر ہو کر اجتماعی فلاح کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اگر ہم نے پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو ہمارے آنے والے نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دریائے سندھ میں پانی کی کے ساتھ سندھ کی پانی کے سندھ کے رہے ہیں کی طرف
پڑھیں:
پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں کمی، دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب
پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں کمی کے بعد دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کے باعث کچے کے علاقے زیر آب آگئے۔
وفاقی وزیر معین وٹو کے مطابق دریائے چناب میں پنجند پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور سطح مزید کم ہو رہی ہے جبکہ دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ کوٹری بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور سطح مستحکم ہے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ تربیلا ڈیم 27 اگست سے 100 فیصد بھرا ہوا ہے جبکہ منگلا ڈیم 95 فیصد بھر چکا اور مزید 4.30 فٹ کی گنجائش باقی ہے۔
سندھ میں پانی کی آمد و اخراج
محکمہ اطلاعات سندھ کی طرف سے دریاؤں اور بیراجوں میں پانی کی آمد و اخراج کے تازہ ترین اعداد و شمار بھی جاری کیے گئے ہیں۔
گڈو بیراج پر پانی کی آمد 609137 کیوسک اور اخراج 580927 کیوسک، سکھر بیراج پر پانی کی آمد 571800 کیوسک اور اخراج 518120 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کوٹری بیراج پر پانی میں اضافہ ہو رہا ہے اور آمد 300853 کیوسک جبکہ اخراج 289098 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پنجند کے مقام پر پانی کی آمد 234755 کیوسک جبکہ اخراج 229905 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
پی ڈی ایم اے پنجاب
دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ایک لاکھ 96 ہزار کیوسک اور کالا باغ کے مقام پر پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ایک لاکھ 69 ہزار کیوسک ہے۔
چشمہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ایک لاکھ 78 ہزار کیوسک جبکہ سندھ تونسہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ایک لاکھ 61 ہزار کیوسک ہے۔
دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 56 ہزار کیوسک، خانکی کے مقام پر پانی کا بہاؤ 68 ہزار کیوسک اور قادر آباد کے مقام پر 75 ہزار کیوسک ہے۔
ہیڈ تریموں کے مقام پر پانی کا بہاؤ 80 ہزار کیوسک ہے جبکہ ہیڈ پنجند کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جہان پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 34 ہزار کیوسک ہے۔
دریائے راوی جسر کے مقام پر پانی کا بہاؤ 8 ہزار کیوسک، شاہدرہ کے مقام پر 10 ہزار کیوسک، بلوکی کے مقام پر 29 ہزار اور سدھنائی کے مقام پر 23 ہزار کیوسک ہے۔
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جہاں پانی کا بہاؤ 1 لاکھ 1 ہزار کیوسک ہے۔ ہیڈ اسلام کے مقام پر بھی درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور بہاؤ 81 ہزار کیوسک ہے۔
ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور بہاؤ 90 ہزار کیوسک ہے۔