Daily Ausaf:
2025-11-03@00:44:07 GMT

نہری پانی کی منصفانہ تقسیم:خواب یا حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

پاکستان کے صوبہ سندھ کی تاریخ، ثقافت اور معیشت میں دریائے سندھ اور اس سے جڑا ہوا نہری نظام ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ کو وادیء سندھ کی تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے اور یہ تہذیب دریائوں کے کنارے پروان چڑھی۔ آج بھی سندھ کی زراعت اور کسانوں کی معیشت کا دارومدار انہی نہروں پر ہے جو دریائے سندھ سے نکالی گئی ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان نہروں میں پانی کی کمی، ناقص منصوبہ بندی، وفاقی و صوبائی کشمکش اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس پورے نظام کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سندھ کے عوام، بالخصوص کسان، اس وقت شدید پریشانی اور بے چینی کا شکار ہیں، اور یہی بے چینی احتجاج کی صورت میں ملک کی سڑکوں پر نظر آتی ہے۔برطانوی دور حکومت میں سندھ کے لیے نہری نظام کو بڑی اہمیت دی گئی تھی۔ برطانوی ماہرین نے دریائے سندھ کی وسعت کو دیکھتے ہوئے نہروں کا ایک جال بچھایا تاکہ سندھ کی وسیع و عریض زمینوں کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔ سکھر بیراج، گڈو بیراج اور کوٹری بیراج جیسے عظیم منصوبے اسی دور کے ورثے ہیں جنہوں نے سندھ کو ایک زرعی معیشت کی بنیاد فراہم کی۔ ان منصوبوں کے ذریعے لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہوئی اور سندھ کا کسان خوشحال ہوا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کے مطالبے میں اضافہ، اور دیگر صوبوں کے ساتھ پانی کی تقسیم کے تنازعات نے صورت حال کو بگاڑنا شروع کر دیا۔آج سندھ میں نہری نظام شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی آمد کم ہو رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور برفباری کے سیزن کا مختصر ہونا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، پنجاب کی طرف سے زیادہ پانی لینے کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ صرف پانی کی عدم دستیابی نے ایک وسیع تر انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جس کا دائرہ زراعت سے نکل کر معیشت، خوراک، بے روزگاری اور تعلیم تک پھیل چکا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے نئے آبی منصوبے، جیسے کہ کالا باغ ڈیم یا دیگر نہری نکاس کے منصوبے، سندھ میں ایک خطرناک ردعمل کا باعث بن رہے ہیں۔ سندھ کے عوام کا یہ ماننا ہے کہ ان منصوبوں کا مقصد پنجاب کو زیادہ پانی دینا ہے جبکہ سندھ کے لوگوں کو مزید محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوامی سطح پر بھی ان منصوبوں کو ’’پانی پر قبضہ‘‘ تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں بڑے پیمانے پر احتجاجات ہو رہے ہیں۔ یہ احتجاج صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ عام کسان، مزدور، طالب علم اور شہری بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔اس ساری صورت حال میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو سکی۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) جیسے ادارے بھی اکثر تنازعات کا شکار رہتے ہیں، اور سندھ کو اس بات پر شکایت ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام فریقین مل بیٹھ کر ایک جامع، شفاف اور دیرپا حل نکالیں جس سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کو فائدہ ہو۔ کیونکہ اگر سندھ میں زراعت ختم ہوئی، تو ملک کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ نہروں کی صفائی اور مرمت کا عمل انتہائی سست ہے۔ پرانے نہری نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ نہیں کیا گیا، جس سے پانی کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ غیر قانونی واٹر کورسز، پانی کی چوری اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی طرف سے پانی کے ناجائز استعمال نے بھی بحران کو بڑھایا ہے۔ دیہی علاقوں میں اکثر چھوٹے کسانوں کو پانی نہیں ملتا جبکہ بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں پانی کی فراہمی جاری رہتی ہے، جس سے معاشرتی تفریق اور ناراضگی مزید بڑھتی ہے۔ ماحولیاتی اثرات بھی اس نہری بحران کا ایک اہم پہلو ہیں۔ پانی کی کمی سے نہ صرف فصلیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ جنگلی حیات، آبی حیات اور دریا کے اطراف کا ماحولیاتی نظام بھی تباہ ہو رہا ہے۔ سندھ کی کئی جھیلیں اور دریائی علاقے خشک ہو چکے ہیں، جس سے مقامی ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند برسوں میں سندھ کا ماحولیاتی منظرنامہ مکمل طور پر بدل جائے گااور اس کے اثرات نسل در نسل محسوس کیے جائیں گے۔عوامی احتجاج کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں احساس ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ لوگ سڑکوں پر اس لیے نکلتے ہیں کہ ان کی آواز سنی نہیں جاتی، ان کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، ان کے بچے بھوکے سو رہے ہیں اور ان کے مستقبل پر اندھیرے چھا رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو صرف انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب تک اس احساس محرومی کا تدارک نہیں کیا جاتا، احتجاج جاری رہیں گے۔اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایک متفقہ آبی پالیسی بنائیں۔ اس پالیسی میں پانی کی منصفانہ تقسیم، نہروں کی مرمت، جدید آبپاشی نظام کا نفاذ، غیر قانونی کنکشنز کے خلاف کارروائی اور کسانوں کو براہ راست نمائندگی دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں پانی کے درست استعمال اور بچت کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ وسائل کا ضیاع روکا جاسکے۔ پانی کا مسئلہ محض سندھ کا مسئلہ نہیں، یہ پاکستان کے ہر فرد کا مسئلہ ہے، اور اگر آج ہم نے اسے حل نہ کیا تو کل یہ بحران ناقابلِ کنٹرول ہو جائے گا۔سندھ کی نہریں محض پانی کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کی ثقافت، تاریخ، اور معیشت کی علامت ہیں۔ ان نہروں کو خشک ہونے دینا گویا سندھ کے وجود کو کمزور کرنا ہے۔ ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا ہو گا، صوبائی تقسیم سے بالاتر ہو کر اجتماعی فلاح کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اگر ہم نے پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو ہمارے آنے والے نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دریائے سندھ میں پانی کی کے ساتھ سندھ کی پانی کے سندھ کے رہے ہیں کی طرف

پڑھیں:

سندھ کے مسائل اجتماع عام میں پیش کریں گے،کاشف سعید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-2-13
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ سندھ کے تمام مسائل کو 21نومبر مینار پاکستان لاہور کے اجتماع عام میں لاکھوں لوگوں کے سامنے پیش کریں گے۔ 21 نومبر کو مینار پاکستان لاہور میں جماعت اسلامی کا ’’بدلو نظام اجتماع عام‘‘میں سندھ سمیت ملک بھر سے لاکھوں لوگ شرکت کریں گے۔ جب تک ملک میں فرسودہ بدبودار نظام موجود ہے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے اس لیے امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن نے ’’بدلو نظام’’اجتماع عام کا اعلان کیا ہے کیوں کہ نظام تبدیل ہوگا تو عوامی مسائل بھی حل ہونگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بعذریعہ زوم پر مرکز تبلیغ اسلام شاہ مکی روڈ میں اجتماع ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اجتماع ارکان سے جماعت اسلامی سندھ کے جنرل سیکریٹری محمد یوسف، امیر جماعت اسلامی ضلع حیدرآباد حافظ طاہرمجید،ضلعی جنرل سیکریٹری محمد حنیف شیخ نے بھی خطاب کیا۔ اس مووع پر نائب امیر عبدالقیوم شیخ، ڈپٹی جنرل سیکریٹری حافظ سفیان ناصر اور نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ کے صدر شکیل شیخ بھی موجود تھے۔کاشف سعید شیخ نے کہا کہ جماعت اسلامی کے تحت 21، 22 اور 23 نومبر کو ہونے والا اجتماع عام دراصل نظام بدلو تحریک کا ایک ولولہ انگیز اور فیصلہ کن ثابت ہوگا، اس اجتماع کی کامیابی کے لیے تمام کارکنان کو اپنی توانائیاں،صلاحیتیں اور وسائل وقف کر دینے چاہیے تاکہ یہ تاریخی اجتماع ایک مثالی اور منظم انداز میں منعقد ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ اجتماع محض ایک پروگرام نہیں بلکہ اقامتِ دین کے راستے پر عملی جدوجہد اور فکری تربیت کا سنگ میل ہے، جس کا مقصد قوم میں بیداری پیدا کرنا اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے اجتماعی عزم کو مضبوط بنانا ہے۔ نگہت قریشی نے کہا کہ جماعت اسلامی کے اجتماعات ہمیشہ سے فکری تربیت، اجتماعی نظم اور باہمی تعاون کا مظہر رہے ہیں۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سندھ کے مسائل اجتماع عام میں پیش کریں گے،کاشف سعید
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • عدالت کو مطمئن کرنے تک ای چالان کے جرمانے معطل کیے جائیں، سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • اجتماع عام پاکستان میں منصفانہ نظام کے قیام کی جدوجہد کا آغاز ہوگا۔ سراج الحق
  • ’لاہور میں جرمانہ 200، کراچی میں 5000‘، شہری ای چالان کیخلاف سندھ ہائیکورٹ پہنچ گیا
  • سندھ جاب پورٹل ایک خودکار اور جدید نظام ہے‘ شرجیل
  • ہم نے مختصر دور حکومت میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دی، گلبر خان
  • صوبوں کی نئی تقسیم کا فارمولا اور ممکنہ نام سامنے آ گئے
  • خیبرپختونخوا میں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں، ہم سب ایک پیج پر ہیں: سہیل آفریدی
  • سیلاب بحالی پروگرام کے تحت 6 ارب 39 کروڑ تقسیم، امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں، انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی: مریم نواز