Daily Ausaf:
2025-05-01@11:26:12 GMT

نہری پانی کی منصفانہ تقسیم:خواب یا حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

پاکستان کے صوبہ سندھ کی تاریخ، ثقافت اور معیشت میں دریائے سندھ اور اس سے جڑا ہوا نہری نظام ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ کو وادیء سندھ کی تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے اور یہ تہذیب دریائوں کے کنارے پروان چڑھی۔ آج بھی سندھ کی زراعت اور کسانوں کی معیشت کا دارومدار انہی نہروں پر ہے جو دریائے سندھ سے نکالی گئی ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان نہروں میں پانی کی کمی، ناقص منصوبہ بندی، وفاقی و صوبائی کشمکش اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس پورے نظام کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سندھ کے عوام، بالخصوص کسان، اس وقت شدید پریشانی اور بے چینی کا شکار ہیں، اور یہی بے چینی احتجاج کی صورت میں ملک کی سڑکوں پر نظر آتی ہے۔برطانوی دور حکومت میں سندھ کے لیے نہری نظام کو بڑی اہمیت دی گئی تھی۔ برطانوی ماہرین نے دریائے سندھ کی وسعت کو دیکھتے ہوئے نہروں کا ایک جال بچھایا تاکہ سندھ کی وسیع و عریض زمینوں کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔ سکھر بیراج، گڈو بیراج اور کوٹری بیراج جیسے عظیم منصوبے اسی دور کے ورثے ہیں جنہوں نے سندھ کو ایک زرعی معیشت کی بنیاد فراہم کی۔ ان منصوبوں کے ذریعے لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہوئی اور سندھ کا کسان خوشحال ہوا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کے مطالبے میں اضافہ، اور دیگر صوبوں کے ساتھ پانی کی تقسیم کے تنازعات نے صورت حال کو بگاڑنا شروع کر دیا۔آج سندھ میں نہری نظام شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی آمد کم ہو رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور برفباری کے سیزن کا مختصر ہونا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، پنجاب کی طرف سے زیادہ پانی لینے کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ صرف پانی کی عدم دستیابی نے ایک وسیع تر انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جس کا دائرہ زراعت سے نکل کر معیشت، خوراک، بے روزگاری اور تعلیم تک پھیل چکا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے نئے آبی منصوبے، جیسے کہ کالا باغ ڈیم یا دیگر نہری نکاس کے منصوبے، سندھ میں ایک خطرناک ردعمل کا باعث بن رہے ہیں۔ سندھ کے عوام کا یہ ماننا ہے کہ ان منصوبوں کا مقصد پنجاب کو زیادہ پانی دینا ہے جبکہ سندھ کے لوگوں کو مزید محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوامی سطح پر بھی ان منصوبوں کو ’’پانی پر قبضہ‘‘ تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں بڑے پیمانے پر احتجاجات ہو رہے ہیں۔ یہ احتجاج صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ عام کسان، مزدور، طالب علم اور شہری بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔اس ساری صورت حال میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو سکی۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) جیسے ادارے بھی اکثر تنازعات کا شکار رہتے ہیں، اور سندھ کو اس بات پر شکایت ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام فریقین مل بیٹھ کر ایک جامع، شفاف اور دیرپا حل نکالیں جس سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کو فائدہ ہو۔ کیونکہ اگر سندھ میں زراعت ختم ہوئی، تو ملک کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ نہروں کی صفائی اور مرمت کا عمل انتہائی سست ہے۔ پرانے نہری نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ نہیں کیا گیا، جس سے پانی کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ غیر قانونی واٹر کورسز، پانی کی چوری اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی طرف سے پانی کے ناجائز استعمال نے بھی بحران کو بڑھایا ہے۔ دیہی علاقوں میں اکثر چھوٹے کسانوں کو پانی نہیں ملتا جبکہ بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں پانی کی فراہمی جاری رہتی ہے، جس سے معاشرتی تفریق اور ناراضگی مزید بڑھتی ہے۔ ماحولیاتی اثرات بھی اس نہری بحران کا ایک اہم پہلو ہیں۔ پانی کی کمی سے نہ صرف فصلیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ جنگلی حیات، آبی حیات اور دریا کے اطراف کا ماحولیاتی نظام بھی تباہ ہو رہا ہے۔ سندھ کی کئی جھیلیں اور دریائی علاقے خشک ہو چکے ہیں، جس سے مقامی ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند برسوں میں سندھ کا ماحولیاتی منظرنامہ مکمل طور پر بدل جائے گااور اس کے اثرات نسل در نسل محسوس کیے جائیں گے۔عوامی احتجاج کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں احساس ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ لوگ سڑکوں پر اس لیے نکلتے ہیں کہ ان کی آواز سنی نہیں جاتی، ان کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، ان کے بچے بھوکے سو رہے ہیں اور ان کے مستقبل پر اندھیرے چھا رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو صرف انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب تک اس احساس محرومی کا تدارک نہیں کیا جاتا، احتجاج جاری رہیں گے۔اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایک متفقہ آبی پالیسی بنائیں۔ اس پالیسی میں پانی کی منصفانہ تقسیم، نہروں کی مرمت، جدید آبپاشی نظام کا نفاذ، غیر قانونی کنکشنز کے خلاف کارروائی اور کسانوں کو براہ راست نمائندگی دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں پانی کے درست استعمال اور بچت کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ وسائل کا ضیاع روکا جاسکے۔ پانی کا مسئلہ محض سندھ کا مسئلہ نہیں، یہ پاکستان کے ہر فرد کا مسئلہ ہے، اور اگر آج ہم نے اسے حل نہ کیا تو کل یہ بحران ناقابلِ کنٹرول ہو جائے گا۔سندھ کی نہریں محض پانی کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کی ثقافت، تاریخ، اور معیشت کی علامت ہیں۔ ان نہروں کو خشک ہونے دینا گویا سندھ کے وجود کو کمزور کرنا ہے۔ ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا ہو گا، صوبائی تقسیم سے بالاتر ہو کر اجتماعی فلاح کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اگر ہم نے پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو ہمارے آنے والے نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دریائے سندھ میں پانی کی کے ساتھ سندھ کی پانی کے سندھ کے رہے ہیں کی طرف

پڑھیں:

کراچی؛ آن لائن ٹیکسی سروسز کو ایک نظام میں لانے کیلیے اقدامات تیز کرنیکا فیصلہ

کراچی:

حکومت سندھ نے کراچی میں چلنے والی تمام آن لائن ٹیکسی سروسز کو ایک ہی نظام میں لانے اور ای وی ٹیکسی لانچ کرنے کے لیے اقدامات تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

سندھ کے سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن کی زیر صدارت محکمہ ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ کا اہم اجلاس کراچی میں ہوا، جس میں وزیر اعلیٰ کے خصوصی معاون برائے سرمایہ کاری و پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ قاسم نوید قمر نے خصوصی شرکت کی، جبکہ اجلاس میں سیکریٹری ٹرانسپورٹ اسد ضامن، سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے ایم ڈی کمال دایو نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں نئے موٹر وہیکل انسپیکشن سینٹرز کے قیام میں پیش رفت اور کراچی میں قائم موٹر وہیکل انسپیکشن سینٹرز کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں عوام کو آسان اقساط پر ای وی ٹیکسی گاڑیاں فراہم کرنے کے مختلف ماڈلز پر بھی غور کیا گیا۔ اجلاس میں ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کو اسکوٹیز کی فراہمی کا بھی جائزہ لیا گیا۔

سندھ کے سینیئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو معیاری، محفوظ اور ماحول دوست سفری سہولیات فراہم کرنا حکومت سندھ کی اولین ترجیح ہے، ای وی ٹیکسی سروس کے آغاز سے نہ صرف شہر کا ٹیکسی نظام بہتر ہوگا بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی واضح کمی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم کراچی میں ٹیکسی گاڑیوں کے نظام کو ایک مربوط اور جدید انداز میں ایک ہی نظام میں لانے کے لیے کام کر رہے ہیں، تمام ٹیکسی سروسز کو ایک چھتری تلے منظم کیا جائے گا تاکہ مسافروں کو محفوظ، معیاری اور قانون کے مطابق سہولیات فراہم کی جا سکیں، تمام ٹیکسی سروسز کے لیے ایک ہی نظام کے اقدام سے کرایوں، سروس کے معیار اور گاڑیوں کی انسپیکشن کے نظام میں بہتری آئے گی۔

سینیئر وزیر شرجیل انعام  میمن نے کہا کہ حکومت سندھ خواتین کو خود مختار بنانے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے، پہلے مرحلے میں ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کو ایک ہزار پنک اسکوٹیز مفت فراہم کی جائیں گی، اسکوٹیز کی فراہمی کے لیے تیز رفتار اقدامات جاری ہیں تاکہ خواتین کو سفری سہولت میں آسانی میسر آ سکے۔

انہوں ںے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ کراچی میں چلنے والی روایتی بسیں دیگر اضلاع میں منتقل کی جائیں اور شہر کا مکمل بس نظام ای وی بسز پر منتقل کیا جائے، کراچی کے شہریوں کے لیے ڈبل ڈیکر بسز رواں سال جون تک پہنچ جائیں گی، جبکہ نئی بسوں کی ایک بڑی کھیپ جون کے آخر یا جولائی کے اوائل میں متوقع ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں ای وی گاڑیوں کے چارجنگ پوائنٹس، پارکنگ اور دیگر ضروری سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی تیزی سے کام جاری ہے، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عوام کے لیے نئی بسوں کی خریداری کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کروانے کی کوشش کی جائے گی۔

اجلاس میں بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے سرمایہ کاری و پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ قاسم نوید قمر نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے مختلف مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو قائل کیا جا رہا ہے، حکومت سندھ سرمایہ کاروں کو تمام ممکنہ سہولیات فراہم کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرانسپورٹ کے نظام میں بڑا انقلاب، پیپلز پنک اور نارمل ٹیکسی سروس کا آغاز
  • مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوے اور حقیقت
  • بھارت نے اگر ہمارے پانی کے ساتھ کوئی گڑبڑ کی تو جنگ تصور ہو گی، اسحاق ڈار
  • نئی نہروں کا منصوبہ ختم
  • پانی و بجلی کی بندش پر شہری مشتعل، مختلف علاقوں میں احتجاج، ٹریفک نظام مفلوج
  • بھارت نے ہمارے پانی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو اسے جنگ تصور کریں گے، اسحاق ڈار
  • اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور کلائمیٹ فنانس تک منصفانہ رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہے. یوسف رضا گیلانی
  • کراچی؛ آن لائن ٹیکسی سروسز کو ایک نظام میں لانے کیلیے اقدامات تیز کرنیکا فیصلہ
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ سبوتاژ کرنے کی سازش کررہا ہے ، اشتراوصاف