Daily Ausaf:
2025-08-02@09:14:16 GMT

نہری پانی کی منصفانہ تقسیم:خواب یا حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

پاکستان کے صوبہ سندھ کی تاریخ، ثقافت اور معیشت میں دریائے سندھ اور اس سے جڑا ہوا نہری نظام ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ کو وادیء سندھ کی تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے اور یہ تہذیب دریائوں کے کنارے پروان چڑھی۔ آج بھی سندھ کی زراعت اور کسانوں کی معیشت کا دارومدار انہی نہروں پر ہے جو دریائے سندھ سے نکالی گئی ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان نہروں میں پانی کی کمی، ناقص منصوبہ بندی، وفاقی و صوبائی کشمکش اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس پورے نظام کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سندھ کے عوام، بالخصوص کسان، اس وقت شدید پریشانی اور بے چینی کا شکار ہیں، اور یہی بے چینی احتجاج کی صورت میں ملک کی سڑکوں پر نظر آتی ہے۔برطانوی دور حکومت میں سندھ کے لیے نہری نظام کو بڑی اہمیت دی گئی تھی۔ برطانوی ماہرین نے دریائے سندھ کی وسعت کو دیکھتے ہوئے نہروں کا ایک جال بچھایا تاکہ سندھ کی وسیع و عریض زمینوں کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔ سکھر بیراج، گڈو بیراج اور کوٹری بیراج جیسے عظیم منصوبے اسی دور کے ورثے ہیں جنہوں نے سندھ کو ایک زرعی معیشت کی بنیاد فراہم کی۔ ان منصوبوں کے ذریعے لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہوئی اور سندھ کا کسان خوشحال ہوا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کے مطالبے میں اضافہ، اور دیگر صوبوں کے ساتھ پانی کی تقسیم کے تنازعات نے صورت حال کو بگاڑنا شروع کر دیا۔آج سندھ میں نہری نظام شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت کا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی آمد کم ہو رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور برفباری کے سیزن کا مختصر ہونا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، پنجاب کی طرف سے زیادہ پانی لینے کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ صرف پانی کی عدم دستیابی نے ایک وسیع تر انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جس کا دائرہ زراعت سے نکل کر معیشت، خوراک، بے روزگاری اور تعلیم تک پھیل چکا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے نئے آبی منصوبے، جیسے کہ کالا باغ ڈیم یا دیگر نہری نکاس کے منصوبے، سندھ میں ایک خطرناک ردعمل کا باعث بن رہے ہیں۔ سندھ کے عوام کا یہ ماننا ہے کہ ان منصوبوں کا مقصد پنجاب کو زیادہ پانی دینا ہے جبکہ سندھ کے لوگوں کو مزید محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوامی سطح پر بھی ان منصوبوں کو ’’پانی پر قبضہ‘‘ تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں بڑے پیمانے پر احتجاجات ہو رہے ہیں۔ یہ احتجاج صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ عام کسان، مزدور، طالب علم اور شہری بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔اس ساری صورت حال میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو سکی۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) جیسے ادارے بھی اکثر تنازعات کا شکار رہتے ہیں، اور سندھ کو اس بات پر شکایت ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام فریقین مل بیٹھ کر ایک جامع، شفاف اور دیرپا حل نکالیں جس سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کو فائدہ ہو۔ کیونکہ اگر سندھ میں زراعت ختم ہوئی، تو ملک کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ نہروں کی صفائی اور مرمت کا عمل انتہائی سست ہے۔ پرانے نہری نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ نہیں کیا گیا، جس سے پانی کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ غیر قانونی واٹر کورسز، پانی کی چوری اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی طرف سے پانی کے ناجائز استعمال نے بھی بحران کو بڑھایا ہے۔ دیہی علاقوں میں اکثر چھوٹے کسانوں کو پانی نہیں ملتا جبکہ بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں پانی کی فراہمی جاری رہتی ہے، جس سے معاشرتی تفریق اور ناراضگی مزید بڑھتی ہے۔ ماحولیاتی اثرات بھی اس نہری بحران کا ایک اہم پہلو ہیں۔ پانی کی کمی سے نہ صرف فصلیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ جنگلی حیات، آبی حیات اور دریا کے اطراف کا ماحولیاتی نظام بھی تباہ ہو رہا ہے۔ سندھ کی کئی جھیلیں اور دریائی علاقے خشک ہو چکے ہیں، جس سے مقامی ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند برسوں میں سندھ کا ماحولیاتی منظرنامہ مکمل طور پر بدل جائے گااور اس کے اثرات نسل در نسل محسوس کیے جائیں گے۔عوامی احتجاج کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں احساس ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ لوگ سڑکوں پر اس لیے نکلتے ہیں کہ ان کی آواز سنی نہیں جاتی، ان کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، ان کے بچے بھوکے سو رہے ہیں اور ان کے مستقبل پر اندھیرے چھا رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو صرف انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب تک اس احساس محرومی کا تدارک نہیں کیا جاتا، احتجاج جاری رہیں گے۔اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ایک متفقہ آبی پالیسی بنائیں۔ اس پالیسی میں پانی کی منصفانہ تقسیم، نہروں کی مرمت، جدید آبپاشی نظام کا نفاذ، غیر قانونی کنکشنز کے خلاف کارروائی اور کسانوں کو براہ راست نمائندگی دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں پانی کے درست استعمال اور بچت کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ وسائل کا ضیاع روکا جاسکے۔ پانی کا مسئلہ محض سندھ کا مسئلہ نہیں، یہ پاکستان کے ہر فرد کا مسئلہ ہے، اور اگر آج ہم نے اسے حل نہ کیا تو کل یہ بحران ناقابلِ کنٹرول ہو جائے گا۔سندھ کی نہریں محض پانی کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کی ثقافت، تاریخ، اور معیشت کی علامت ہیں۔ ان نہروں کو خشک ہونے دینا گویا سندھ کے وجود کو کمزور کرنا ہے۔ ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا ہو گا، صوبائی تقسیم سے بالاتر ہو کر اجتماعی فلاح کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اگر ہم نے پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو ہمارے آنے والے نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دریائے سندھ میں پانی کی کے ساتھ سندھ کی پانی کے سندھ کے رہے ہیں کی طرف

پڑھیں:

وزیراعلیٰ سندھ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کردیا؛ جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار

کراچی:

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے اسے جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار دیا ہے۔

نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ مائی کراچی نمائش شہر قائد کے لیے ایک سگنیچر ایونٹ بن گیا ہے، جہاں غیرملکیوں کی شرکت خوش آئند ہے ۔ مائی کراچی نمائش 2004 میں اس وقت شروع ہوئی جب یہ شہر دہشت گردوں کا مرکز تھا۔

انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے متفقہ فیصلے پر اس سال یوم آزادی یکم سے 14اگست تک منا رہے ہیں۔ اس سال یوم آزادی معرکہ حق کے تناظر میں منایا جائے گا۔ مائی کراچی نمائش یوم آزادی کی جشن کا پہلا ایونٹ ہے۔حکومت سندھ اس ایونٹ میں مزید توسیع کی خواہاں ہے۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی شہر میں پیدا ہوا اور اس شہر کے ادوار دیکھے ہیں، جب درجنوں افراد اپنی جان گنواتے تھے۔ اس دور میں تاجربرادری سے منظم انداز میں بھتہ لیاجاتا تھا۔ اس وقت کراچی دنیا کا چھٹا خطرناک شہر تھا لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے ۔ 20 سے 25ملین کی آبادی میں امن وامان قدرے خراب ہوسکتا ہے لیکن فی الوقت امن وامان پہلے سے بہت بہتر ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نے 2015،16 میں ورلڈ بینک سے ایک سروے کرایا تھا، اس وقت بتایا گیا تھا کہ کراچی کو 3 ٹریلین روپے کی ضرورت ہے  ۔ ہم نے  میگا اسکیمیں شروع کیں۔ حکومت سندھ نے مختلف منصوبہ شروع کیے، کراچی میں ای وی بسیں لانے والی ہماری پہلی حکومت ہے۔  امن وامان کی صورتحال میں بہتری آتے ہی سندھ حکومت نے عوامی منصوبہ شروع کیے ۔

انہوں نے کہا کہ وفاق نے کے فور منصوبے کی تکمیل کے لیے 78ارب روپے خرچ کرنے ہیں، لیکن وفاقی حکومت نے اس سال کے فور کے لیے صرف 3ارب روپے مختص کیے ہیں۔ کے فور پراجیکٹ میں 4منصوبے شامل ہیں اور ہر ایک منصوبے کی مالیت 50ارب روپے ہے ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کینجھر جھیل سے کراچی پانی کی ترسیل کے لیے منصوبے کی مالیت 170ارب روپے ہے۔ ایک اور منصوبے کی مالیت 80ارب روپے ہے، ہمیں حب سے  100ملین گیلن پانی چاہیے۔ ایک منصوبہ کے تحت نئی کینال 100ایم جی ڈی پانی 14اگست کے بعد ملے گا، ڈم لوٹی سے بھی پانی لارہے ہیں۔ اس سال کے آخر تک 150ایم جی ڈی پانی شہر کو ملے گا۔ حب کینال سے پانی کا کوٹہ بڑھانے کے لیے وفاق سے درخواست کی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاق نے بجٹ میں ایف بی آر کو بے جا اختیار دیا ہے، اسے سندھ حکومت نے کم کرایا ہے۔ ایف بی آر قانون کا حوالہ دے کر ٹیکس لیتا ہے۔ ایف بی آر سندھ میں بغیر رجسٹریشن کے گاڑیاں چلا رہا ہے۔ ایف بی آر کو لامحدود اختیارات دینے پر ہماری جماعت نے مزاحمت کی ۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح ایف بی آر حکام ہراساں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت درست طریقے سے ٹیکس وصولیاں کرے۔ جب ایف بی آر اپنی گاڑیاں رجسٹرڈ نہیں کرائیں گے تو اسے کوئی حق نہیں دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کا۔ سندھ 70فیصد گیس کی پیداوار کرتا ہے لیکن سندھ کو اس کا جائز حصہ نہیں ملتا۔ قانون اور آئین کے مطابق ہر 3 مہینے میں سی سی آئی کی میٹنگ ہونی چاہیے۔

نمائش میں معاونت پر سکیورٹی اداروں کے شکرگزار ہیں، جاوید بلوانی

کراچی چیمبر کے صدر جاوید بلوانی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے پر کراچی چیمبر پاکستا کی افواج کو سراہتا ہے۔  مائی کراچی نمائش 2004 سے سالانہ بنیادوں منعقد کیا جاتا ہے، جس کا آغاز مرحوم سراج قاسم تیلی نے کیا تھا۔ مائی کراچی نمائش میں معاونت پر تمام سکیورٹی اداروں کےشکرگزار ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کی مصنوعات کی عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کراچی میں ایک عالمی معیار  نمائش گاہ قائم کریں۔ شہر میں عوام کے لیے پینے کے پانی کی قلت ہے، صنعتوں کے لیے بھی مطلوبہ پانی دستیاب نہیں ۔ شہر کو 1200ملین گیلن یومیہ پانی ضرورت ہے مگر 500 سے 600ایم ڈی بی سپلائی ہورہی ہے ۔

جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ کراچی کا روڑ انفرااسٹرکچر، امن وامان کی صورتحال توجہ طلب ہے۔ کراچی 70فیصد اور سندھ میں 95فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ کراچی صرف ایک شہر نہیں بلکہ کاروباری حب کے ساتھ ثقافت کا ایک بڑا مرکز ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مضحکہ خیز اور جھوٹ پر مبنی اعلامیے کا حقیقت سے تعلق نہیں، وزیراطلاعات
  • مضحکہ خیز اور جھوٹ پر مبنی اعلامیے کا حقیقت سے تعلق نہیں، وزیر اطلاعات
  •  اپوزیشن کے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،عطاء اللہ تارڑ
  • وزیراعلی سندھ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کردیا؛ جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار
  • وزیراعلیٰ کا بیان توڑ مروڑ کر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرانے کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، بیرسٹر سیف
  • پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرانے کا بھارتی خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، بیرسٹرسیف
  • وزیراعلیٰ سندھ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کردیا؛ جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار
  • پی ٹی آئی رہنماء عمیر نیازی کا قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا عندیہ
  • پنچایت، جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل؛ ایک کڑوی حقیقت
  • وزیراعلیٰ سندھ نے ”معرکہ حق“ کی تھیم کے ساتھ جشنِ آزادی کے سلسلے میں پروگرامز کی تفصیلات بتادیں