پہلگام فالس فلیگ/ بی بی سی نے پہلگام واقعہ میں بھارتی جھوٹ کا پردہ چاک کردیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بی بی سی نے پہلگام واقعہ میں بھارتی جھوٹ کا پردہ چاک کردیا۔
ذرائع نے کہا کہ پہلگام فالس فلیگ حملے میں مودی، بھارتی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ناکامی پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے، بی بی سی نے پہلگام حملے کےحوالے مودی سرکار اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کردار پر سوالات اٹھا دئیے۔
ذرائع کے مطابق پہلگام حملے میں ہلاک ہونے والے سیلیش بھائی کلاٹھیا کی بیوہ شیتل کلاٹھیا تعزیت کیلئے آنے والے وزیر پر برس پڑیں، شیتل کلاٹھیا نے کہا کہ آپ کے پاس بہت سی وی آئی پی کاریں ہیں لیکن ٹیکس دینے والوں کا کیا ہے، پہلگام میں 26 افراد مارے گئے وہاں نہ تو کوئی سیکیورٹی تھی اور نہ ہی میڈیکل ٹیم۔
پہلگام حملے میں بال بال بچ جانے والے پارس جین نے دعویٰ کیا کہ ’’پہلگام کے مقام پر نہ تو کوئی پولیس اہلکار موجود تھا اور نہ ہی فوجی اہلکار‘۔
بھارتی اخبار دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق ’سی آر پی ایف کا کیمپ حملے کی جگہ سے 7 کلومیٹر جبکہ راشٹریہ رائفلز محض 5 کلومیٹر دور تھی‘ بی بی سی نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ: پہلگام جیسے سیاحتی مقام پر سکیورٹی کیوں موجود نہ تھی؟
بی بی سی نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد پولیس کم از کم ایک گھنٹے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی، صحافی انورادھا بھسین نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کو پہلگام پہنچنے میں تو دیر ہوئی مگر چند گھنٹوں میں ان کے پاس حملہ آوروں کی تصاویر تھیں، آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد بھی کشمیر میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔
بی بی سی نے کہا کہ پہلگام حملہ سکیورٹی کی مجموعی خامی کا نتیجہ ہے، جس جگہ اتنی بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں وہاں ایک بھی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں۔
دفاعی ماہرین نے کہا کہ بی بی سی کی یہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ بھارتی فوج اور اس کی انٹیلیجنس پہلگام میں مکمل طور پر ناکام رہے، بھارت کو چاہئے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے اپنی سکیورٹی کی ناکامیوں کو دور کرے، بھارت کے پہلگام فالس فلیگ حملےکےحوالے سے اب ہر جانب سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پہلگام فالس فلیگ پہلگام حملے نے کہا کہ کے بعد
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔