بھارت سے واپس بھیجے گئے دل کے مریض بچوں کا آرمی چیف نے علاج کا ذمہ لے لیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
بھارت سے واپس بھیجے گئے دل کے مریض بچوں کا آرمی چیف نے علاج کا ذمہ لے لیا WhatsAppFacebookTwitter 0 6 May, 2025 سب نیوز
راولپنڈی(آئی پی ایس) پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارتی حکومت کی انتہاپسند پالیسیوں نے انسانیت کی تمام حدیں پار کر دیں۔ دل کے عارضے میں مبتلا دو معصوم بچوں کو علاج کے دوران پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔ تاہم، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں بچوں کے علاج کی مکمل ذمہ داری اُٹھا لی ہے۔
دل کے مریض بچوں عبداللہ (9 سال) اور منسا (7 سال) کے والد شاہد احمد، حیدرآباد سندھ کے رہائشی ہیں، جنہوں نے بتایا کہ وہ 21 اپریل 2025 کو علاج کی غرض سے بھارتی شہر فرید آباد پہنچے تھے۔ 22 اپریل کو بچوں کے میڈیکل ٹیسٹ ہوئے اور 23 اپریل کو سرجری پلان کی گئی۔ مگر اگلے ہی دن بھارتی فارنرز ریجنل رجسٹریشن آفس نے حکم دیا کہ 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنا ہوگا۔
شاہد احمد کا کہنا تھا کہ “مودی سرکار نے نہ صرف انسانیت سوز رویہ اپنایا بلکہ میرے 7 سال کی محنت اور امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ میں آر ایس ایس اور بھارتی حکومت کے اس غیر انسانی اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “میری تمام اُمیدیں ختم ہو چکی تھیں، لیکن جب پاک فوج کے سربراہ نے میرے بچوں کے علاج کی ذمہ داری لی، تو میرا اعتماد پھر سے بحال ہوا۔”
اے ایف آئی سی راولپنڈی میں جاری ہے بچوں کا اعلیٰ معیار کا علاج
آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (AFIC) کے ماہرین کے مطابق، دونوں بچے پیدائشی طور پر “Tetralogy of Fallot” نامی پیچیدہ دل کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
ڈاکٹر محبوب سلطان کا کہنا تھا کہ بچوں کے دل میں سوراخ اور پھیپھڑوں کی نالیاں کمزور ہیں۔ ان کی مرحلہ وار سرجری کی جا رہی ہے اور پہلے مرحلے کی تیاری مکمل ہے۔”
بریگیڈیئر ڈاکٹر خرم اختر نے بتایا کہ “AFIC پاکستان آرمی کا اسٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ ہے، جہاں بین الاقوامی معیار کے مطابق دل کے پیچیدہ امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس تمام ضروری سہولیات اور ماہرین موجود ہیں۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ مرض پیچیدہ ضرور ہے لیکن قابل علاج ہے اور ان بچوں کو بیرون ملک لے جانے کی ضرورت نہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد ہائیکورٹ توہین عدالت کیس ، ڈائریکٹر ڈی ایم اے ڈاکٹر انعم فاطمہ ذاتی حیثیت میں طلب اسلام آباد ہائیکورٹ توہین عدالت کیس ، ڈائریکٹر ڈی ایم اے ڈاکٹر انعم فاطمہ ذاتی حیثیت میں طلب بھارت کے پاس دریاؤں کا پانی روکنے کی کوئی سہولت موجود نہیں تو پاکستانی دریاؤں کاپانی کہاں گیا؟ ماہرین نے سوالات اٹھادیے پہلگام فالس فلیگ: بھارت نے بغیر کسی جنگ کے پاکستان سے شکست تسلیم کر لی بھارت کا پہلگام فالز فلیگ میں ناکامی کے بعد بلوچستان میں دہشتگردی کا منصوبہ بے نقاب آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیرسے ایرانی وزیرخارجہ کی ملاقات ، باہمی تعاون کومزیدفروغ دینے کے عزم کااعادہ بھارت نے دریائے چناب میں اچانک پانی چھوڑ دیا، رات گئے سطح بلند ہونے کا خدشہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
کانگو میں ایبولا کی وبا، 48 میں سے 31 مریض ہلاک
جمہوریہ کانگو کے وسطی صوبے کاسائی میں ایبولا کی حالیہ وبا سنگین صورت اختیار کر گئی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق اب تک تصدیق شدہ اور مشتبہ 48 کیسز میں سے 31 مریض جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
وبا کا آغاز اور تیزی سے امواتیہ وبا 4 ستمبر کو بُلاپے ہیلتھ زون میں اعلان کی گئی تھی۔ اتوار تک ہلاکتوں کی تعداد 16 تھی جو جمعرات تک بڑھ کر 31 ہو گئی۔
ابتدائی مریض ایک 34 سالہ حاملہ خاتون تھیں جنہیں 10 اگست کو علامات ظاہر ہوئیں اور 26 اگست کو ان کا انتقال ہو گیا۔ انہیں کمیونٹی میں دفن کیا گیا لیکن حفاظتی تدابیر پر عمل نہ ہونے سے مرض پھیل گیا۔
طبی عملہ بھی متاثرہلاکتوں میں کم از کم چار ہیلتھ ورکر بھی شامل ہیں جن میں ایک نرس، ایک لیب ٹیکنیشن اور ایک دوسری نرس بھی شامل ہے۔ یہ سب مریضوں کی دیکھ بھال کے دوران وائرس کا شکار ہوئے۔
WHO کے مطابق بُلاپے میں 34 بستروں پر مشتمل خصوصی یونٹ قائم کیا گیا ہے جہاں 16 مریض زیر علاج ہیں، جبکہ دو مریض صحت یاب ہو کر گھر جا چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:روس یوکرین جنگ: روسی فوجی تیزی سے ایڈز کا شکار ہونے لگے، ہولناک اسباب کا انکشاف
اب تک 523 فرنٹ لائن ورکرز اور متاثرہ افراد کے قریبی افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ رابطہ رکھنے والے تقریباً 943 افراد میں سے 90 فیصد کی نگرانی جاری ہے جو 2 ہفتے قبل صرف 19 فیصد تھی۔
فنڈنگ اور خطراتWHO کا کہنا ہے کہ وبا کو روکنے کے لیے کم از کم 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر درکار ہیں۔ ادارے کے مطابق اگر بجٹ مکمل طور پر فنڈ ہو گیا تو نہ صرف وبا پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ زندگیاں بھی بچائی جا سکیں گی۔
واضح رہے کہ ایبولا ایک خطرناک اور اکثر مہلک مرض ہے جس کی اوسط شرح اموات 50 فیصد تک ہے۔ یہ 1976 میں پہلی بار کانگو میں دریافت ہوا تھا اور اب تک وہاں 16 ویں بار سامنے آیا ہے۔ بُلاپے میں اس سے پہلے آخری بار 2007 میں وبا رپورٹ ہوئی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
WHO ایبولا حاملہ خاتون کانگو