پی ٹی آئی سندھ کی بھارت کے خلاف ریلیاں، عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
ننگرپارکر میں ہندو برادری کی جانب سے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حلیم عادل شیخ نے کہا کہ جب تک سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں ہوتا، یہ قوم جنگ بندی قبول نہیں کرے گی یہ قوم مودی کی دھمکیوں سے ڈرنے والی قوم نہیں ہم پاکستان کے پانی کے تحفظ کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف سندھ کی جانب سے بھارت کے جارحانہ اقدامات، دہشت گرد نریندر مودی اور اس کی بزدل فوج کی پاکستان مخالف کارروائیوں کے خلاف سندھ بھر میں ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان ریلیوں کا مقصد پاکستانی قوم اور اقلیتوں کے اتحاد و یکجہتی کا بھرپور اظہار تھا۔ریلیوں کا انعقاد پاک بھارت سرحدی علاقے ننگرپارکر سے لے کر بدین، ماتلی، حیدرآباد، کراچی، میرپورخاص، شہید بینظیر آباد، سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے بیشتر شہروں میں کیا گیا۔ تمام ریلیاں "پاکستان زندہ باد" اور "عمران خان پائندہ باد" کے عنوان سے منعقد ہوئیں، جن میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ خصوصاً ضلع تھرپارکار کے علاقے ننگرپارکر کے پاک بھارت بارڈر زیرو پوائنٹ کے قریب واقع گاؤں وئیل ویراواہ میں ہندو برادری کی جانب سے ریلی نکالی گئی، جس میں اقلیتوں کی بڑی تعداد نے بھرپور شرکت کی اور دہشت گرد مودی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے ننگرپارکر میں اقلیتی برادری کی ریلی میں شرکت کرکے ریلی کی قیادت کی۔ ننگر پارکر ریلی میں پی ٹی آئی کے دیگر مرکزی اور علاقائی رہنما بھی شریک تھے، جن میں مرکزی رہنما حاجی نثار آرائیں، آفتاب قریشی، راجہ عبدالحق، امین اللہ موسی خیل، فرخ خان، صدیقی خاصخیلی، خلیفہ حیات درس سمیت دیگر رہنما شامل تھے۔ اقلیتی رہنماؤں میں پھلاج کولہی، ڈاکٹر جیپال چھابڑیا، ایڈووکیٹ بھگوانداس بھیل، اور مہرو کولہی و دیگر شریک ہوئے۔ریلی کے شرکا نے دہشت گرد نریندر مودی اور اس کی بزدل فوج کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم پاکستانی قوم اور اقلیتیں وطن عزیز کے دفاع کے لیے متحد ہیں اور مودی کی دہشتگردی کا بھرپور جواب دیں گے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حلیم عادل شیخ نے کہا کہ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ ہماری اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے، آج اقلیتوں نے بھارت کے بارڈر پر کھڑے ہوکر دشمن کو پیغام دیا ہے کہ ہم سب پاکستانی متحد اور ایک قوم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مودی ایک دہشت گرد ہے، اس کی بزدل فوج نے ہماری مساجد اور مدارس پر حملے کیے، ہمارے شاہینوں نے ان کے ایئرپورٹس اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنا کر بھرپور جواب دیا ہے جن پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں ہوتا، یہ قوم جنگ بندی قبول نہیں کرے گی یہ قوم مودی کی دھمکیوں سے ڈرنے والی قوم نہیں ہم پاکستان کے پانی کے تحفظ کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مودی کا باپ بھی پاکستان کا پانی بند نہیں کر سکتا، ہم سب پاکستانی ہیں اور ہمارے ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا ہے، وطن عزیز کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ نکال دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ملک و قوم کے حقوق کی خاطر آج بھی جیل میں پابند سلاسل ہیں، مگر پوری قوم ان کی آواز پر متحد ہے، ہمارے کپتان عمران خان، شاہ محمود قریشی سمیت مرکزی قیادت اور ہزاروں کارکنان جیلوں میں بے گناہ قید ہیں، ہمارے ساتھ ظلم، ناانصافی اور زیادتی کی گئی ہے، اس کے باوجود ہم وطن کے دفاع کے لیے ایک قوم بن کر کھڑے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر عمران خان، مخدوم شاہ محمود حسین قریشی سمیت پی ٹی آئی کے رہنماں اور کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ پی ٹی آئی انہوں نے کے خلاف یہ قوم کے لیے
پڑھیں:
مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔
مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔
ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔
اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔
سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔
قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔