یورپ کی ڈیفنس تجزیاتی ویب سائٹ بلغاریہ ملٹری ریویو نے کہا ہے کہ بھارت کے اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم ایس 400 کی تباہی پاکستان بھارت جنگ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
بلغاریہ ملٹری ریویوکی رپورٹ  کے مطابق پاکستان نے بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم ایس 400 کو تباہ کیا، جو سب سے زیادہ ہائی پروفائل واقعہ ہے۔
ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان نے انتہائی اہم ایئربیس پر روسی سسٹم کو تباہ کیا، جس کے بعد بھارت کا دفاع کمزور پڑ گیا۔ پاکستان کی جانب سے ہائپر سونک جے ایف 17 تھنڈر میں لگانے کے بعد پاک فضائیہ کی صلاحیت بہت بڑھ گئی ہے۔
بلغاریہ ملٹری ریویو کے مطابق یہ بھی ممکن ہے پاکستان کی جانب سے چین کے ہائپر سونک میزائلوں کا مقامی ماڈل تیار کیا گیا ہو، بھارت کے ایس 400 سسٹم کی تباہی کے بھارت کی دفاعی حکمت عملی پر دوررس نتائج ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے بھارت کے اندر جاکر کارروائی کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ گھس کر کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے بھارت میں گھس کر کارروائی کی، اور اس دوران جہاں دیگر ملٹری تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا وہیں بھارتی کے اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم ایس 400 کو بھی تباہ کردیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے بھارت کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن کو ’بُنيَان مَرصُوص‘کا نام دیا گیا تھا، جس کے تحت کامیاب کارروائیوں کے بعد امریکا نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کرا دیا۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سسٹم ایس 400 پاکستان نے بھارت کے کے اینٹی

پڑھیں:

خبر کے بھید

جہان دیگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زریں اختر

 

لفظ ‘خبر ‘ پر جتنا غور کرو ،اس کے عقدے ہیں کہ کھلتے چلے جاتے ہیں ،اس کے اسرار ہیں کہ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اس کی برق رفتار نے اس کی عمر گھٹادی ، توکیا واقعی ایسا ہوا؟
وہ واقعہ جو خبر بنتاہے ،محدوددائرہ (خاندانی ،مقامی ،علاقائی) اور وسیع(ملکی و بین الاقوامی) اثرات پر محیط ہوتاہے۔ جس کو محدود دائرہ قرار دے رہی ہوں وہ مکانیت کے اعتبار سے ہے، اثر کے اعتبارسے تو وہ مرگ تک پہنچتے ہیں۔تاریخ ایسے واقعات سے بھی اٹی پڑی ہے جو ہر دائرے میں گھومتے ہیں ، مثال آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ ، محدود سطح پر ایک ایک خان دان جس طرح متاثر ہوا، اجتماعی سطح پر تمام خان دان اور اسکول سے وابستہ رہنے والے ، قومی سطح پر تاریخ کا بد ترین واقعہ ، بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کا بڑا واقعہ ۔۔۔لیکن قیامت کہاں ٹھہری ، شہداء کے لواحقین پر،تاحیات ،تادم مرگ، ان کے دکھ کاکچھ اندازہ وہی کرسکتے ہیں جنہوں نے اسی طرح اپنے کسی پیارے کو کھویا ہوگا۔ تمام حساس اذہان اس کے متاثرین میں شامل ہیں۔
حالیہ خضدار میں آرمی پبلک اسکول پر خبروں کے مطابق خود کش حملہ یا ایک کارمیں نصب ٹائم بم،دہشت گردانہ کاروائی تو دونوں صورتوں میں ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق ایک باپ نے اپنے سارے بچے کھودیے ، دیگر ذرائع کے مطابق عیشا سلیم اور سحر سلیم دو بہنیں شہید ہوئیں ، ان کا بھائی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں تھا اور ایک بھائی نے اس دن چھٹی کی تھی ۔ یہ اس خاندان کے لیے قیامت سے کیا کم ہے ۔
پہلگام واقعہ ، چھبیس خان دان جو براہ راست متاثر ہوئے اور یہ غم اب ان کی زندگیوںکا ساتھی ہے ، پھر جو ہوا؟بی بی سی کی بہترین رپورٹ جس میں سرحد کے دونوں اطراف گولہ باری کا نشانہ بننے والے گھرانوں کے متعلق بتایاگیا، خبر کی سرخی میں تھا کہ ”اب ہمارے بچے تو واپس نہیں آسکتے۔”
وہ جو طبی ویزے لے کر انڈیا گئے تھے انہیں بھی واپس آنا پڑا، اثرات کا دائرہ ہے کہ پھیلتا ہی چلا جاتاہے۔
لفظوں کی بھی دوطرفہ گولی باری۔۔۔عیاںبھی اور نہاںبھی۔۔۔”آپریشن سیندور” کا نام دینا، اس سے وہ مانگیں جو پہلگام میں اُجڑیں ان میں خون کا سیندور بھردیا گیا۔ ان سے بھی اگر پوچھا جاتا تو ان کی مانگوں کو یہ سیندور منظور تو نہ ہوتا، جس میں کتنی مانگیں اجڑیں کتنی گودیںویراں ہوئیں۔
اسرائیل فلسطین ،ماضی تا حال ، غزہ میں بچے مر رہے ہیں ،نسل کشی ۔۔۔ماضی میں اسرائیلی اسکول وین میں بچے مر گئے تھے تو مشرقِ وسطیٰ کے کسی سیاسی زعماء کا بیان تھا کہ برائی کو پہلے ہی دن جڑ سے ختم کردینا چاہیے ، نفرت کی اتنی گہری جڑیں ، کاٹتے کاٹتے نسلیں کٹ رہی ہیں۔
یہ جو لوگ انسانیت کا راگ الاپتے ہیں اس سے سیاست دانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ، اس تلخ حقیقت کا ادراک لکھنے سے بد دل کردیتاہے ۔ کچھ دنوںقبل انتہائی قابل ِ احترام سینئر صحافی زبیدہ مصطفی صاحبہ سے جب یہی رونا رویا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ’ ہم نے بھی ساری زندگی تعلیم کے مسائل پر لکھا لیکن بدلا تو کچھ نہیں ‘۔ میرے لیے قابل ِ تقلید امر یہ ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے کہ وہ سبکدوش ہونے کے بعد کہ باوجود نظروں سے کم دکھائی دیتاہے ،مدد گار رکھے ہوئے ہیں اور مستقل لکھ رہی ہیں۔
موضوع کی طرف ، بھارتی طیارے کے حادثے نے ہم سب کو اداس کیا، سب خاندان اپنی اپنی دنیا میں مگن، اپنی اپنی راہوں کے مسافر، اپنے اپنے خوابوں کے پیچھے ۔۔۔ ان کے لواحقین سے دلی اظہارِ تعزیت۔
سماجی خبریں اپنے اثرات میں ہمہ گیر اور پیش آنے والے واقعات تحقیق طلب ہوتے ہیں ،تحقیق اس سمت کہ معاشرے میں اس نوعیت کے واقعات کی جڑیں کہا ں ہیں؟
خود کشی کی خبریں اخبارات کے اندر کے صفحے پر یک کالمی اور بہ مشکل ایک ڈیڑھ پارے کی مار ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ جس سے براہِ راست جاننے کا موقع ملا ۔ ایک ماہ پہلے تک والدین کی سرپرستی میں جس لڑکی کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں ،وہ شادی کے کچھ دنوں بعد خود کشی کر لیتی ہے ۔بعد میں پتا چلاکہ یہ اس کی دوسری شادی تھی ، مزید یہ کہ پہلے شوہر سے اس کے دو بچے بھی تھے ، کیا ہوا ،کیا نہیں ہوا، کچھ پتانہیں، کیا یہ ان کا ذاتی مسئلہ تھا؟
ایک اہم موضوع ”غیرت کے نام پر قتل” ہے، جس کو سمجھنے کے لیے طاہرہ ایس خان کی کتاب ”عزت کے نام پر” زیرِ مطالعہ ہے۔خبر آتی ہے کہ خدا کی بستی میں غیرت کے نام پر میاں بیوی اور دو بچوں کا قتل۔اس جوڑے نے ٢٠١٦ء میں شادی کی تھی ، ایک بیٹا نو سال کا دوسرا چار سال کا ،چاروں کو تیز دھار آلے سے قتل کیا اور دو سال کی بیٹی کو اغوا کرکے لے گئے ۔ضلع بٹگرام صوبہ خیبر پختون خواہ شادی کے بارہ سال بعد بہن کو اس کے تین بھائیوں نے پسند کی شادی کرنے پرقتل کردیا۔ یہ غیرت کی کیسی آگ تھی جو آٹھ سال بارہ سال میں بھی ٹھنڈی نہیں پڑی۔شادی کی ، سب قانونی ،جائز ، حلال ،شرعی ۔۔۔لیکن غیرت ان سب پر حاوی ،اتنی سنگ دلی کہ بچوں کی گردن پر چھری پھیر دی، یہ مردانگی ہے ؟خاندان ، برادری ، جرگے اسے حیوانیت کب قرار دیں گے؟
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ثناء یوسف کے قتل نے ایک نئی اصطلاح ”انسیل کلچر’ سے متعارف کرایا ۔ یہ غیرت کے نام پر قتل ہے نہ وفورِ جذبات کے تحت ، یہ ”نہیں” کی سزا ہے ۔
جس طرح دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں اسی طرح جرم کو جنسیت کے خانوں میں نہیں بانٹا جائے گا۔ حضورۖ کے دور میں اگر چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو وہ مرد کو بھی ملے گی اور عورت کو بھی ،فاطمہ نامی اس عورت کا تعلق کسی ایسے کھاتے پیتے قبیلے سے تھا جس پر اس کی معافی کی سفارش حضور ۖ کے سامنے پیش کی گئی ، لیکن نہ سماجی رتبہ نہ عورت ہونا اس کی سزا میں تخفیف کراسکا اور حضور ۖ نے فرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو ان کو بھی یہی سزا ملتی ، اس سے آگے کیا؟ ایک خبر کوئٹہ کی جس میں بیوی نے عاشق کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کردیا اور دوسری فیصل آ باد کی جس میں بیوی نے سوتن لانے پر شوہر کو مار ڈالا ۔ اسلحے کے اتنا عام ہونے کا سوال ہم کس سے کریں؟
دہشت گردی اور جنگوں پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے ، تہذیب کی داستان بھی کتنی جلدوں میں ول ڈیورانٹ اور ان کی ساتھی ایریل ڈیورانٹ نے رقم کی۔ اسلام کو آئے چودہ سوصدیاں بیت گئیں۔
زندگی کا قافلہ جاری و ساری ہے ، وہ جو جھکے چل رہے ہیں ، ان کی کمریں بڑھاپے سے نہیں جھکیں، غموں سے بوجھل جسم ہیں ، وہ جن کی پیٹھوں پر کُب نظر آتے ہیں ، یہ ان کے دکھ ہیں ، رنگ و نسل ،مذہب و قومیت سے بالا تر یہ قافلہ ۔۔۔پھر کسی بم کا ،جنگ کا ،تقسیم کا ایندھن بننے کے لیے استعمال ہوگا۔
خبر کے اسرار، واقعات کے اثرات
قلم کا قرض ، انسانیت کا راگ
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • خبر کے بھید
  • خیبرپختونخوا؛ دہشت گردوں کا ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال، پولیس نے اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرلی
  • خیبر پختونخوا پولیس نے جدید اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرلی
  • خیبر پختونخوا پولیس نے جدید اینٹی ڈرون سسٹم حاصل کرلیا
  • پشاور: پولیس نے میلوں دور سے دہشتگردوں کے ڈرونز کو نشانہ بنانے والی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرلی
  • پشاور: خیبرپختونخوا پولیس نے جدید اینٹی ڈرون سسٹم حاصل کرلیا
  • پاکستان کی رتلے اور کشن گنگا کے متنازع منصوبوں کیخلاف ورلڈ بینک کی کارروائی رکوانے کی بھارتی درخواست کی مخالفت
  • پاکستان نے رتلے اور کشن گنگا کے متنازع منصوبوں کیخلاف ورلڈ بینک کی کارروائی رکوانے کی بھارتی درخواست کی مخالفت کردی
  • رتلے اور کشن گنگا منصوبوں پر پاکستان نے کارروائی روکنے کی بھارتی درخواست مسترد کردی
  • پاکستان کی رتلے، کشن گنگا پن بجلی منصوبوں پر بھارتی درخواست کی مخالفت