حماس اور ٹرمپ کے درمیان معاہدے کے تحت غزہ میں باقی رہ جانے والے واحد امریکی قیدی کی رہائی تل ابیب کی سیاسی شکست ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ صیہونی رژیم فلسطینی عوام پر مزید دباؤ ڈال کر اور انہیں بھوک کا شکار کر کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ اور حماس تحریک کے درمیان براہ راست مذاکرات نے، جس کے نتیجے میں امریکی اسرائیلی اسیر عیدان الیگزینڈر کی رہائی کا معاہدہ انجام پایا، صیہونی رژیم کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ مذاکرات اور معاہدے امریکہ اور یمن کی انصار اللہ تحریک کے درمیان ہونے والے معاہدے کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں امریکہ نے تل ابیب کے بغیر بااثر سیاسی جماعتوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس کے نتیجے میں امریکہ کے کچھ مفادات کی تکمیل ہوئی۔ انصار اللہ یمن کے ساتھ معاہدے میں امریکی جہاز رانی کا تحفظ حاصل کیا گیا جبکہ حماس کے ساتھ معاہدے میں امریکی شہریت کے حامل صہیونی قیدی کی رہائی حاصل ہوئی۔ دونوں معاہدوں میں صیہونی رژیم کے مفادات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ درحقیقت انصار اللہ کے ساتھ امریکی معاہدے میں مقبوضہ علاقوں پر میزائل حملوں کو روکنا یا صیہونی رژیم کی جہاز رانی کی سرگرمیاں شامل نہیں تھیں اور حماس کے ساتھ امریکی معاہدے میں بھی صہیونی قیدیوں کا کوئی تذکرہ شامل نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی منتقلی شامل تھی۔ امریکا اور حماس کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے نے نہ صرف صیہونی رژیم پر امریکی مفادات کی برتری کی نشاندہی کی بلکہ اس سے قبل امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات کا آغاز، شام کے بارے میں امریکی مؤقف اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صیہونی رژیم کے مقابلے میں شام میں ترکی کے کردار کو ترجیح دینا، اسی طرز عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔
 
صیہونی رژیم کا خیال تھا کہ خطے میں امریکہ کے مفادات مختلف مسائل میں یکساں اور متوازی ہوں گے لیکن اسے اچانک احساس ہوا کہ امریکہ کے مفادات اس کے مفادات پر غالب ہیں۔ اس معاملے میں تل ابیب کی ناکامی دوچندان ہے۔ اول یہ دوسرا موقع ہے جب امریکی حکومت نے حماس کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ ان مذاکرات کا پہلا دور امریکی ایلچی ایڈم بوہلر کے ذریعے انجام پایا تھا۔ اس وقت تل ابیب نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ صیہونی رژیم پوری طرح مطمئن تھی کہ دوبارہ ایسے مذاکرات ہر گز انجام نہیں پائیں گے، خاص طور پر چونکہ ان مذاکرات کے بعد بوہلر کی مدت ملازمت ختم ہو گئی تھی۔ دوم یہ کہ ان مذاکرات کا نتیجہ تل ابیب کو اطلاع دیے بغیر یا اس سے رابطہ برقرار کیے بغیر حماس سے معاہدے پر اختتام پذیر ہوئے۔ اس معاہدے کی اہمیت کئی نکات پر مضمر ہے جن میں سب سے اہم غزہ کی پٹی کی سیاسی اور عسکری صورت حال میں تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی تل ابیب کی طرف سے جنگ بند کرنے یا جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار اور صرف اپنی تجویز کی بنیاد پر مذاکرات میں داخل ہونے پر اصرار کے تناظر میں حاصل ہوئی ہے۔ یوں اگر یہ معاہدہ فریقین کو نئی شرائط کے ساتھ جنگ ​​بندی کے لیے مذاکرات کے آغاز پر مجبور کر دیتا ہے تو یہ غزہ میں فوجی آپریشن کی توسیع کو بھی روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
 
جیسا کہ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے حماس اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے بارے میں کہا ہے، یہ معاہدہ تل ابیب کی سیاسی شکست کے مترادف ہے۔ اس معاہدے نے بھوک کے اس ہتھیار کو بھی بے اثر کر دیا ہے جسے صیہونی رژیم حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ غزہ کی پٹی کے مکینوں کو بھوکا مار کر تل ابیب نے حماس کو ایک ایسا معاہدہ قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جس کے مطابق تمام صہیونی قیدیوں میں سے نصف کو انسانی امداد کی منتقلی اور 40 دن کی عارضی جنگ بندی کے بدلے میں رہا کروایا جا سکے اور اس میں مستقل جنگ بندی اور غزہ کے مقببوضہ علاقوں سے فوجی انخلاء شامل نہ ہو۔ مذکورہ بالا معاہدے نے غزہ کی پٹی کے حوالے سے صیہونی رژیم کے نقطہ نظر اور پالیسیوں میں موجود خلا کو بے نقاب کر دیا ہے جس کا خاکہ نیتن یاہو کی کابینہ نے فلسطینیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کو بڑھانے اور قحط کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ اس معاہدے میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ حماس پر دباؤ ڈال کر صہیونی قیدیوں کی رہائی میں ناکامی ہوئی لیکن امریکہ اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات اس امریکی قیدی کی رہائی کا باعث بنے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: قیدی کی رہائی صہیونی قیدی صیہونی رژیم میں امریکی معاہدے میں غزہ کی پٹی تل ابیب کی کے مفادات کے درمیان امریکہ کے اور حماس کی سیاسی حماس کے کے ساتھ اور اس کے لیے

پڑھیں:

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کا خاتمہ تاریخی کامیابی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان دہائیوں پر محیط تنازع کا خاتمہ ایک تاریخی کامیابی ہے، یہ امن معاہدہ ان کی ثالثی سے ممکن ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ تو ’ِبہاری‘ نکلے، بھارت میں برتھ سرٹیفکیٹ جاری

اپنے بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ آرمینیا اور آذربائیجان 35 سال سے زائد عرصے سے لڑ رہے تھے، متعدد عالمی شخصیات نے اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں، تاہم بالآخر ہم نے امن معاہدہ کرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور صدر ان کی سب سے بڑی خواہش دنیا میں امن و استحکام قائم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کہ وہ پیر کے روز واشنگٹن میں پُرتشدد جرائم کے خاتمے کے لیے اقدامات سے متعلق پریس کانفرنس کریں گے، واشنگٹن اس وقت دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں شامل ہے لیکن جلد ہی اسے محفوظ ترین شہروں میں شامل کر دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین تنازعات کے حل کے لیے امن معاہدے پر اتفاق

یاد رہے کہ گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں آذربائیجان کے صدر اور آرمینیا کے وزیراعظم نے مکمل جنگ بندی اور امن کے معاہدے پر دستخط کیے۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے اس پیشرفت پر امریکی صدر کو نوبل امن انعام دینے کی سفارش بھی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آذربائیجان آرمینیا امریکا امن معاہدہ جنگ بندی ڈونلڈ ٹرمپ

متعلقہ مضامین

  • غزہ کی پٹی پر مکمل قبضے کیلئے اسرائیل کیجانب سے 4 لاکھ سے زائد ریزرو فورس طلب
  • نیتن یاہو کی پالیسیاں امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں، حماس رہنماء محمود مرداوی
  • تل ابیب میں غزہ جنگ بندی کیلئے ہزاروں افراد کا نیتن یاہو کیخلاف احتجاج
  • آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کا خاتمہ تاریخی کامیابی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر سے اہم ملاقات کی تاریخ کا اعلان کردیا
  • وزیراعظم کا آذربائیجان آرمینیا امن معاہدے کا خیرمقدم
  • آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تاریخی امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں : وزیر اعظم
  • پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت ، بلاول کی وزیراعظم سے ملاقات سیاسی نہیں تھی: رانا ثناء 
  • ٹرمپ نے ایک اور جنگ رُکوا دی، آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدہ کرا دیا
  • صیہونی کابینہ کے فیصلے پر اسلامی مزاحمتی گروہوں کا ردعمل