امریکی قیدی کی رہائی کا معاہدہ تل ابیب کی سیاسی شکست اور مزاحمت کے لیے بڑی کامیابی قرار
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
حماس اور ٹرمپ کے درمیان معاہدے کے تحت غزہ میں باقی رہ جانے والے واحد امریکی قیدی کی رہائی تل ابیب کی سیاسی شکست ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ صیہونی رژیم فلسطینی عوام پر مزید دباؤ ڈال کر اور انہیں بھوک کا شکار کر کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ اور حماس تحریک کے درمیان براہ راست مذاکرات نے، جس کے نتیجے میں امریکی اسرائیلی اسیر عیدان الیگزینڈر کی رہائی کا معاہدہ انجام پایا، صیہونی رژیم کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ مذاکرات اور معاہدے امریکہ اور یمن کی انصار اللہ تحریک کے درمیان ہونے والے معاہدے کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں امریکہ نے تل ابیب کے بغیر بااثر سیاسی جماعتوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس کے نتیجے میں امریکہ کے کچھ مفادات کی تکمیل ہوئی۔ انصار اللہ یمن کے ساتھ معاہدے میں امریکی جہاز رانی کا تحفظ حاصل کیا گیا جبکہ حماس کے ساتھ معاہدے میں امریکی شہریت کے حامل صہیونی قیدی کی رہائی حاصل ہوئی۔ دونوں معاہدوں میں صیہونی رژیم کے مفادات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ درحقیقت انصار اللہ کے ساتھ امریکی معاہدے میں مقبوضہ علاقوں پر میزائل حملوں کو روکنا یا صیہونی رژیم کی جہاز رانی کی سرگرمیاں شامل نہیں تھیں اور حماس کے ساتھ امریکی معاہدے میں بھی صہیونی قیدیوں کا کوئی تذکرہ شامل نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی منتقلی شامل تھی۔ امریکا اور حماس کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے نے نہ صرف صیہونی رژیم پر امریکی مفادات کی برتری کی نشاندہی کی بلکہ اس سے قبل امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات کا آغاز، شام کے بارے میں امریکی مؤقف اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صیہونی رژیم کے مقابلے میں شام میں ترکی کے کردار کو ترجیح دینا، اسی طرز عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔
صیہونی رژیم کا خیال تھا کہ خطے میں امریکہ کے مفادات مختلف مسائل میں یکساں اور متوازی ہوں گے لیکن اسے اچانک احساس ہوا کہ امریکہ کے مفادات اس کے مفادات پر غالب ہیں۔ اس معاملے میں تل ابیب کی ناکامی دوچندان ہے۔ اول یہ دوسرا موقع ہے جب امریکی حکومت نے حماس کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ ان مذاکرات کا پہلا دور امریکی ایلچی ایڈم بوہلر کے ذریعے انجام پایا تھا۔ اس وقت تل ابیب نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ صیہونی رژیم پوری طرح مطمئن تھی کہ دوبارہ ایسے مذاکرات ہر گز انجام نہیں پائیں گے، خاص طور پر چونکہ ان مذاکرات کے بعد بوہلر کی مدت ملازمت ختم ہو گئی تھی۔ دوم یہ کہ ان مذاکرات کا نتیجہ تل ابیب کو اطلاع دیے بغیر یا اس سے رابطہ برقرار کیے بغیر حماس سے معاہدے پر اختتام پذیر ہوئے۔ اس معاہدے کی اہمیت کئی نکات پر مضمر ہے جن میں سب سے اہم غزہ کی پٹی کی سیاسی اور عسکری صورت حال میں تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی تل ابیب کی طرف سے جنگ بند کرنے یا جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار اور صرف اپنی تجویز کی بنیاد پر مذاکرات میں داخل ہونے پر اصرار کے تناظر میں حاصل ہوئی ہے۔ یوں اگر یہ معاہدہ فریقین کو نئی شرائط کے ساتھ جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے آغاز پر مجبور کر دیتا ہے تو یہ غزہ میں فوجی آپریشن کی توسیع کو بھی روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
جیسا کہ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے حماس اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے بارے میں کہا ہے، یہ معاہدہ تل ابیب کی سیاسی شکست کے مترادف ہے۔ اس معاہدے نے بھوک کے اس ہتھیار کو بھی بے اثر کر دیا ہے جسے صیہونی رژیم حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ غزہ کی پٹی کے مکینوں کو بھوکا مار کر تل ابیب نے حماس کو ایک ایسا معاہدہ قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جس کے مطابق تمام صہیونی قیدیوں میں سے نصف کو انسانی امداد کی منتقلی اور 40 دن کی عارضی جنگ بندی کے بدلے میں رہا کروایا جا سکے اور اس میں مستقل جنگ بندی اور غزہ کے مقببوضہ علاقوں سے فوجی انخلاء شامل نہ ہو۔ مذکورہ بالا معاہدے نے غزہ کی پٹی کے حوالے سے صیہونی رژیم کے نقطہ نظر اور پالیسیوں میں موجود خلا کو بے نقاب کر دیا ہے جس کا خاکہ نیتن یاہو کی کابینہ نے فلسطینیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کو بڑھانے اور قحط کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ اس معاہدے میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ حماس پر دباؤ ڈال کر صہیونی قیدیوں کی رہائی میں ناکامی ہوئی لیکن امریکہ اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات اس امریکی قیدی کی رہائی کا باعث بنے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قیدی کی رہائی صہیونی قیدی صیہونی رژیم میں امریکی معاہدے میں غزہ کی پٹی تل ابیب کی کے مفادات کے درمیان امریکہ کے اور حماس کی سیاسی حماس کے کے ساتھ اور اس کے لیے
پڑھیں:
مسٹر بیسٹ کا ہم شکل امریکی پارلیمنٹ تک پہنچ گیا
امریکہ کے سیاست میں ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف سیاسی حلقوں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ 22 سالہ بریڈی پینفیلڈ نے جو ویسکانسن کے رہائشی ہیں، حال ہی میں ریاستی اسمبلی میں حصہ لینے کے لیے امیدوار کا اعلان کیا۔ دلچسپی صرف اس بات میں نہیں تھی کہ وہ ایک نئی سیاسی شخصیت ہیں، بلکہ اس کے انداز اور ظاہری شکل کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا پر خاصے مقبول ہو گئے۔
پینفیلڈ کی مسٹر بیسٹ، یعنی جمی ڈونلڈسن سے غیر معمولی مماثلت نے انٹرنیٹ صارفین کو حیران کر دیا۔ جیسے ہی انہوں نے ایکس پر اپنی تصویر شیئر کی، تب سے صارفین کے تبصرے جاری ہیں، جن میں کسی نے کہا کہ وہ ”مسٹر بیسٹ سے بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں“ اور کسی نے مذاق میں پوچھا، ”مسٹر بیسٹ، تم نے سیاست شروع کر دی؟“ اس طرح کی مماثلت کی خبروں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کس حد تک ہم بصری مماثلت کو حقیقت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اس کا انسانی رویے پر کیا اثر پڑتا ہے۔
بریڈی پینفیلڈ نے اس شباہت کو تسلیم کیا اور کہا کہ کئی لوگوں نے یہ بات ان سے کہی ہے۔ وہ یونیورسٹی آف ویسکانسن ریور فالز کے فارغ التحصیل ہیں، جہاں انہوں نے کالج ریپبلکنز چپٹر کی بنیاد رکھی اور اس کی قیادت کی۔ ان کا سیاسی پس منظر ٹرننگ پوائنٹ ایکشن کے فیلڈ نمائندے کے طور پر کام کرنے اور طلبہ و اساتذہ کے ایک وسیع نیٹ ورک کو بنانے پر مشتمل ہے۔
اپنے تعارف میں پینفیلڈ نے بتایا کہ وہ ایک ڈیموکریٹک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ہائی اسکول کے تیسرے سال، 2020 میں، کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران کنزرویٹو نظریات کو اپنانا شروع کیا۔ یہ ایک دلچسپ پہلو ہے، جو نوجوانوں میں سیاسی رجحانات کی تبدیلی اور وقت کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کس طرح ذاتی تجربات اور عالمی حالات نوجوان ذہنوں میں سیاسی سمت متعین کرتے ہیں۔
Ain’t no way bro https://t.co/vx4DaYCP91 pic.twitter.com/t428L8GJg4
— Bx (@bx_on_x) November 8, 2025
مسٹر بیسٹ، یعنی جمی ڈونلڈسن، ایک مشہور یوٹیوبر، کاروباری شخصیت اور فلاحی کارکن ہیں۔ وہ اپنے وائرل چیلنجز، بڑے پیمانے پر انعامات، اور فلاحی سرگرمیوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی نمایاں مہمات میں ”ٹیم ٹریز“ کے تحت لاکھوں درخت لگانا اور ”فیڈنگ امیریکا“ کے ذریعے خوراک کی فراہمی شامل ہے۔ اس کے ذریعے وہ نوجوانوں اور سوشل میڈیا صارفین کو مثبت اثر ڈالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یہ مماثلت ہمیں ایک دلچسپ سوال بھی دیتی ہے، آج کے دور میں میڈیا اور عوامی تاثر کس طرح کسی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرتا ہے؟ جب ایک نوجوان سیاستدان اور ایک یوٹیوبر کے ظاہری فرق کو کم کر کے لوگ فوری طور پر شناخت کر لیتے ہیں، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بصری تاثر کس حد تک ہماری سوچ اور توقعات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بریڈی پینفیلڈ کی مثال اس بات کا عکاس ہے کہ نوجوان سیاستدان صرف سیاسی ایجنڈا ہی نہیں، بلکہ اپنی شخصیت، طرزِ بیان اور یہاں تک کہ ظاہری شکل کے ذریعے بھی عوام کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا کے اس اثر نے یہ واضح کیا کہ آج کے دور میں سیاست اور تفریح کے درمیان سرحدیں کتنی دھندلی ہو چکی ہیں۔
آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا پینفیلڈ اس شباہت کو اپنی سیاسی شناخت کے لیے استعمال کرتے ہیں یا پھر صرف ایک تفریحی مباحثہ بن کر رہ جائے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت آج ہر نئے سیاسی اور عوامی چہرے کے لیے ایک اہم عنصر بن چکی ہے، جو نہ صرف ان کی شناخت بلکہ عوام کے ردعمل کو بھی شکل دیتی ہے۔