جویریہ سعود کو اپنی والدہ کو ’کول ساس‘ قرار دینے پر تنقید کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
پاکستان کی معروف اداکارہ و میزبان جویریہ سعود اپنی والدہ کو بہترین ساس قرار دینے پر تنقید کی زد میں آگئیں۔
اداکارہ جوریہ سعود نے حال ہی میں منائے گئے ’ماؤں کے عالمی دن‘ کے موقع پر نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں اپنی والدہ کے ہمراہ شرکت کی۔
اس دوران انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ بہت ’کول ساس‘ ہیں۔
اداکارہ نے کہا میں اپنی والدہ کے ہمراہ دو دن کے لیے حیدرآباد گئی تھی، میری اپنی والدہ سے بہت اچھی دوستی ہے، میں نے حیدرآباد میں اپنی والدہ کو گھر میں دیکھا تو انہیں کہا کہ میری بھابھیوں کو سلام ہے جو آپ کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)
جویریہ سعود کے اس جملے پر ان کی والدہ نے کہا کہ بھابھیوں کو کیا سلام ہے، بھابھیاں اپنا کھانا بنا کر کھا پی کر اوپر اپنی منزل پر چلی جاتی ہیں، میرے ساتھ میری بہوئیں نیچے گھر میں رہیں گی تو پریشانی ہوگی۔
اس پر اداکارہ جویریہ نے بتایا کہ میں امی کے گھر گئی، دن کے 12 بج گئے تھے، میں نے امی سے پوچھا کہ بھابھیاں کہاں ہیں تو والدہ نے بتایا کہ سو رہی ہیں، میں نے پوچھا کہ آپ نے انہیں اٹھایا نہیں تو میری والدہ نے جواب دیا کہ جیسے میں نیند میں سے تمہیں نہیں اٹھاتی تھی اسی طرح میں اپنی بہوؤں کو نہیں اٹھاتی ہوں، چھٹی کا دن ہے اچھا ہے سونے دو۔
اداکارہ نے کہا کہ میں نے والدہ کی اس بات پر کہا کہ واہ یہ اچھا ہے۔
مارننگ شو سے جویریہ سعود کا یہ مختصر کلپ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر وائرل ہے جس پر صارفین اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔
متعدد صارفین کا کہنا ہے کہ ’ہر بیٹی کو اپنی والدہ کول ساس ہی نظر آتی ہیں، ساس مزاج کی کیسی ہیں، یہ ہمیشہ بہو کی صحیح بتا سکتی ہے‘۔
کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ جویریہ سعود اپنے میکے میں عمل دخل دینے کی عادت کو اونچی ہنسی میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ لائیو ٹی وی پر بیٹھ کر جویریہ سعود کتنی آسانی سے اپنی بھابھی کی برائی کر رہی ہیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اپنی والدہ کو جویریہ سعود میں اپنی رہی ہیں کہا کہ
پڑھیں:
غزہ: ایک تہائی آبادی کو مسلسل فاقوں کا سامنا، ڈبلیو ایف پی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ غزہ میں بیشتر خاندان روزانہ ایک وقت کے کھانے پر گزارا کر رہے ہیں جبکہ ایک تہائی آبادی کو کئی روز فاقوں کا سامنا رہتا ہے۔
غزہ کے شہریوں کو محدود مقدار میں جو امدادی خوراک میسر آتی ہے اس میں غذائیت کا فقدان ہوتا ہے۔ یہ عموماً پتلے شوربے، دالوں یا چاول اور تھوڑی سی روٹی یا بسا اوقات جڑی بوٹیوں اور زیتون کے تیل کے مرکب پر مشتمل ہوتی ہے جسے دقہ بھی کہتے ہیں۔
Tweet URLادارے کے مطابق بچوں، معمر اور بیمار افراد کو خوراک مہیا کرنے کے لیے بڑے عام طور پر فاقے کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
جنوری کے بعد روزانہ اوسطاً 112 بچوں کو شدید غذائی قلت کے علاج کی غرض سے طبی مراکز میں لایا جا رہا ہے۔ایک شخص نے بتایا کہ رات کو جب ان کے بچے بھوک کے مارے جاگ اٹھتے ہیں تو وہ انہیں کہتے ہیں کہ پانی پی کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ یہ صورتحال نہایت دل شکن ہوتی ہے۔ بھوک لگنے پر وہ خود بھی پانی پیتے اور صبح ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
خوراک کے لیے جان کا خطرہغزہ کے طبی حکام کا کہنا ہےکہ شدید غذائی قلت کے باعث لوگ اپنی جان کا خطرہ مول لے کر اسرائیل کے قائم کردہ امدادی مراکز پر خوراک لینے جاتے ہیں۔
27 مئی کے بعد ان مراکز پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور دیگر واقعات میں 549 فلسطینی ہلاک اور 4,066 خمی ہو چکے ہیں۔مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار جوناتھن وٹل نے کہا ہے کہ ان جگہوں پر بیشتر ہلاکتیں فائرنگ یا گولہ باری سے ہوئی ہیں۔ یہ مراکز سوچے سمجھے انداز میں ایسے جگہوں پر قائم کیے گئے ہیں جہاں عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔
ایک شہری نے 'ڈبلیو ایف پی' کو بتایا کہ لوگ خوراک لینے کے لیے ان مراکز پر نہیں جانا چاہتے لیکن ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔ بچے بھوک سے بلکتے ہیں تو والدین رات کو سو نہیں پاتے۔ چاروناچار لوگ اس امید پر خوراک لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ وہ زندہ واپس آ جائیں گے۔
پینے کے پانی کی قلتطویل جنگ اور متواتر بمباری کے باعث غزہ میں تقریباً تمام خدمات کی فراہمی بند ہو جانے کا خدشہ ہے۔
غزہ میں ایندھن کی شدید قلت کے باعث پینے کا پانی فراہم کرنے کی صرف 40 فیصد تنصیبات ہی فعال ہیں جبکہ 93 فیصد گھرانوں کو آبی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ ایندھن کی عدم دستیابی کے نتیجے میں طبی خدمات کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
19 مئی سے غزہ میں محدود پیمانے پر امدادی خوراک کی فراہمی بحال ہونے کے بعد کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے طبی سازوسامان لے کر 9 ٹرک ہی علاقے میں آئے ہیں۔
42 روزہ جنگ بندی کے بعد 18 مارچ کو غزہ میں اسرائیل کی بمباری دوبارہ شروع ہونے کے بعد 684,000 فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔
غزہ کے 82 فیصد سے زیادہ علاقے میں اسرائیل کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں یا وہاں سے لوگوں کو انخلا کے احکامات دیے گئے ہیں۔نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو گنجان پناہ گزین کیمپوں، عارضی خیموں، تباہ شدہ عمارتوں اور بعض اوقات کھلے آسمان تلے رہنا پڑتا ہے۔ سکول اب پڑھنے اور سیکھنے کی جگہوں کے بجائے پناہ گاہوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے کہا ہے کہ ان پناہ گاہوں میں رہن سہن کے حالات انتہائی مخدوش ہیں۔
یکم مارچ کے بعد پناہ کا کوئی سامان غزہ میں نہیں آیا۔ اگرچہ محدود مقدار میں بعض چیزوں کو علاقے میں لانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن خیموں، لکڑی، ترپالوں اور ایسے دیگر سامان پر بدستور پابندی ہے۔امید کی علامتفلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی ادارہ (انروا) اس جنگ کے آغاز سے ہی بے گھر اور زخمی شہریوں کو کئی طرح کی مدد فراہم کر رہا ہے۔
غزہ شہر میں ادارے کے ترجمان حسین نے بتایا کہ لوگوں کی تمام امیدیں 'انروا' سے ہی وابستہ ہیں۔ ادارے کے اہلکار لوگوں کو صرف خدمات ہی مہیا نہیں کرتے بلکہ وہ ان کے لیے امید کی علامت بھی ہیں۔جنوبی علاقے خان یونس میں 'انروا' کی ایک کارکن نے بتایا کہ ادارے کے پاس اپنا کام کرنے کے ذرائع نہیں رہے اسی لیے لوگوں کو مدد پہنچانے کے لیے حالات کے مطابق طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بمباری، تباہی اور بھوک کے نتیجے میں بچے مایوس ہونے لگے ہیں اور انہیں خودکشی کے خیالات بھی آتے ہیں۔ ایک روز انہوں نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ اس کے مرحوم والد خدا کے پاس ہیں جہاں وہ کھاتے پیتے ہیں۔ یہ سننے کے بعد ان کی بچی اکثر روتی اور کہتی ہے کہ اسے بھوک لگی ہے اور وہ اپنے والد کے پاس جانا چاہتی ہے کیونکہ وہ انہیں کھانا دے سکتے ہیں۔