Express News:
2025-10-04@22:54:06 GMT

اکیڈمک فریڈم خطرے میں

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

Academic freedom is the cornerstone of higher education, enabling scholars, researchers, and students to pursue knowledge, explore ideas, and express their thoughts without undue restriction or censorship. It fosters an environment of intellectual curiosity, critical thinking, and creativity, allowing individuals to contribute to the advancement of knowledge and society.

"

 سندھ کے محکمہ بورڈ و جامعات سندھ نے صوبہ بھرکی تمام یونیورسٹیوں میں متنازع موضوعات پر مبنی ہم نصابی سرگرمیوں اور تقریبات پر پابندی لگا دی ہے۔ ایک اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ کے محکمہ بورڈ و جامعات نے تمام پبلک سروس یونیورسٹیوںکے تمام وائس چانسلروں کو ایک مراسلہ بھیجا ہے۔

اس مراسلے میں تمام وائس چانسلر صاحبان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وائس چانسلر صاحبان کو ہم نصابی سرگرمیوں اور تقریبات کے لیے این او سی جاری کرنے سے گریزکرنا چاہیے، خاص طور پر جو متنازع موضوعات پر ہوں۔

اس مراسلے میں یہ بھی تحریرکیا گیا ہے کہ اگر متنازع موضوعات پر مبنی ہم نصابی سرگرمیوں اور تقریبات کے لیے این او سی جاری بھی کردیا گیا تو وہ واپس کیا جائے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک بھر کی غیر سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کو بھی اسی طرح کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اب ملک کی یونیورسٹیوں میں علمی آزادی Academic Freedom کے ادارے کو بھی مفلوج کرنے کے لیے اقدامات پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔

برصغیر ہندوستان میں سب سے پہلی یونیورسٹی 1857میں کلکتہ میں قائم ہوئی۔ اسی سال بمبئی میں یونیورسٹی قائم ہوئی۔ انگریز سرکار نے1882 میں لاہور میں پنجاب یونیورسٹی قائم کی۔ انگریز حکومت نے ہندوستان کے شہریوں کو محدود آزادی دی۔ انگریز حکومت کی اس پالیسی کی بناء پر یونیورسٹیوں میں علمی آزادی کا ایک ادارہ ارتقاء پذیر ہوا تھا۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی علمی آزادی کا ادارہ تقویت پایا تھا مگر حسرت موہانی سمیت چند طالب علم ضرور تھے جنھیں ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کرنے پر علی گڑھ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد جمہوری ادوار میں یونیورسٹیوں میں علمی آزادی کا ادارہ فعال رکھا مگر امریکا سے درآمد شدہ میکارتھی ازم کے اثرات جب پاکستان پر نازل ہوئے تو یونیورسٹیوں میں وہ اساتذہ اور طالب علم جو سوشلسٹ نظریات کا پرچارکرتے تھے یا طلبہ کے مسائل پر آواز اٹھاتے تھے وہ عتاب کا شکار ہوئے۔ غیر سول حکومتوں میں یونیورسٹیوں کے قوانین تبدیل ہوئے۔ وائس چانسلرکے اختیارات پر قدغن لگا دی گئی اور اساتذہ اور طلبہ معتوب ہوئے، جو آمرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔

پنجاب یونیورسٹی میں جب چند اساتذہ جن میں پروفیسر عمر اصغر خان اور ڈاکٹر مہدی حسن شامل تھے نے جنرل ضیاء الحق کی آمد پر احتجاج کیا تو انھیں ملازمتوں سے محروم ہونا پڑا۔ شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر مہدی حسن لاہور ہائی کورٹ کی مداخلت پر برطرفی سے بچ گئے۔ کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو یونیورسٹی کے چانسلر اورگورنرکو خط لکھنے پر نہ صرف ملازمت سے برطرف کیا گیا بلکہ پابند سلاسل کردیا گیا۔

جب سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے مارشل لاء ختم کیا تو سندھ ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل ریویو بورڈ نے ڈاکٹر ظفر عارف کو اس بنیاد پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا کہ محکمہ داخلہ کے پاس ڈاکٹر صاحب کو مزید نظربند رکھنے کے لیے مواد موجود نہیں تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے تین پروفیسر صاحبان پروفیسر جمیل عمر، پروفیسر محمد سلیم اور پروفیسر طارق احسن کو ایک پمفلٹ لکھنے اور تقسیم کرنے پر خصوصی فوجی عدالت کے حکم پر کئی سال جیل میں گزارنے پڑے تھے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر وقار علی شاہ کو انگریز حکومت کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنیوالے پختون رہنماؤں کے بارے میں مقالہ شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور میں قومی کانفرنس میں پیش کرنے پر تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ایک جمہوری قانون یونیورسٹیوں کا نظام چلانے کے لیے نافذ کیا گیا۔ اس قانون میں علمی آزادی کے ادارے کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اس قانون میں ترمیم کردی تھی، یوں علمی آزادی کا ادارہ کمزور ہونے لگا۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی، اسکول اورکالجوں میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کو مکمل خود مختار ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔

اس خود مختاری کی بناء پر یونیورسٹی میں اساتذہ اور طلبہ مل کر یونیورسٹی کا نظام چلاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے مختلف ادارے سینیٹ، سنڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل اور ریسرچ کونسل وغیرہ میں وائس چانسلر کے علاوہ اساتذہ کی بھی نمایندگی ہوتی ہے۔ یہ ادارہ اساتذہ کے تقرر کے لیے اہلیت طے کرتے ہیں، نصاب تیار کرتے ہیں اور طلبہ اور اساتذہ کی تحقیق کے لیے پالیسی تیار کرتے ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے سیمینار، ورکشاپ اور کانفرنس وغیرہ لازمی ہوتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے لیے متعلقہ تعلیمی شعبہ جات کے اساتذہ اور طلبہ مل کر موضوعات طے کرتے ہیں۔

یہ موضوعات زندگی کے کسی بھی موضوع کے بارے میں ہوسکتے ہیں۔ ان سیمینار اورکانفرنسوں میں ملک بھر کے علاوہ دیگر ممالک کے اساتذہ بھی شرکت کرتے ہیں۔ سیمینار اور کانفرنسوں میں پڑھے جانے والے مقالہ جات ریسرچ جرنلز میں شایع ہوتے ہیں۔ جب کسی سیمینار یا کانفرنس میں دیگر یونیورسٹیوں کے علاوہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین شرکت کرتے ہیں تو ایک عام طالب علم کو ماہرین کے خیالات جاننے اور ان سے ملاقات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ طلبہ کے لیے یونیورسٹیوں میں کسی ملکی یا کسی غیر ملکی ماہر سے ملاقات کا موقع ان کی زندگی کا یادگار لمحہ بن جاتا ہے۔

جس سیمینار اور کانفرنس کا موضوع مروجہ سیاسی، معاشی و سماجی اقدار سے ہٹ کر ہوتا ہے طلبہ اور اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ اس سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ان سرگرمیوں میں شریک ہوکر طالب علموں اور اساتذہ کو ایسے موضوعات مل جاتے ہیں جن پر وہ بعد میں خود تحقیق کرتے ہیں اور اپنے اپنے شعبوں میں نام پیدا کرتے ہیں۔ زیبسٹ کے کلیہ سماجی علوم کے ڈین ڈاکٹر ریاض شیخ نے یونیورسٹیوں میں علمی آزادیوں کے ادارہ پر لگائی جانے والی منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ نیا علم ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کرکے ہی تخلیق ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ علم پر سوال اٹھے گا تو پھر نئے علم کی بنیاد پڑتی ہے۔ علوم کے بارے میں نظریات اس وقت تبدیل ہوتے ہیں جب پرانے علوم کو چیلنج کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شیخ عظیم سائنسدان گلولیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلولیو نے نظریہ پیش کیا کہ کائنات کا محور سورج ہے، یوں ایک نیا علم ظہور پذیر ہوا۔ اگر یونیورسٹیوں میں ایسے موضوعات پر بات کرنے سے روک دیا جائے جس کے نتیجہ میں علوم کو چیلنج نہ کیا جائے تو نیا علم تخلیق نہیں ہوسکتا۔ اس مقصد کے لیے نصاب میں ایسا مواد شامل کیا جاتا ہے کہ طلبہ میں جاننے اور تحقیق کی امنگ پیدا نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ نصاب میں شامل مواد کو کانفرنس اور سیمینار وغیرہ کے موضوعات میں شامل کر کے ان موضوعات کو تقویت دی جاتی ہے، اگر علم کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر نئے نظریات پیدا نہیں ہونگے ۔

یورپ میں 500 سال قبل علمی آزادی کے ادارہ کو مستحکم کرنے کی روایت کے آغاز کے ساتھ ہی نئے علوم کا پھیلاؤ شروع ہوا تھا۔ اس سے معاشرہ جدید ترقی کی طرف راغب ہوا۔ موجودہ پابندیاں طلبہ اور اساتذہ کی تخلیق کو مزید متاثر کریں گی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے ابلاغِ عامہ کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں کوئی موضوع متنازع نہیں ہوتا۔ ہر موضوع کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

ان آراء کو سننا ، پڑھنا اور اپنا موقف تیارکرنا طالب علموں کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح طلبہ میں نہ صرف رواداری بلکہ برداشت کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ یونیورسٹیوں کے معزز وائس چانسلر صاحبان کو ہدایات دینا جمہوری عمل پر یقین رکھنے والی حکومت کے لیے شرم کا باعث ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یونیورسٹیوں سے علمی آزادی کا ادارہ ختم کرنا شروع کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ حکومت امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت سے خوفزدہ تھی مگر موجودہ حکومت کس بات سے خوفزدہ ہے؟ اگر یہ مراسلہ منسوخ نہ ہوا تو یونیورسٹیاں بانجھ ہوجائیں گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یونیورسٹیوں میں علمی آزادی وائس چانسلر صاحبان کو علمی آزادی کا ادارہ طلبہ اور اساتذہ یونیورسٹیوں کے یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے کہتے ہیں کہ کے بارے میں اساتذہ اور موضوعات پر اساتذہ کی کرتے ہیں اور طلبہ طالب علم جاتا ہے کیا گیا کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

مجاہد چنا کی نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس کے دھاوے و صحافیوں پر تشدد کی شدید مذمت

اپنے مذمتی بیان میں جماعت اسلامی سندھ کے سیکریٹری اطلاعات نے واقعے کی تحقیقات اور ذمہ دار اہلکاروں، ماسٹر مائنڈ کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی سندھ کے سیکرٹری اطلاعات مجاہد چنا نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس کے دھاوے اور صحافیوں پر تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیپٹل پولیس کا یہ اقدام آزادی اظہارِ رائے اور آزادی صحافت پر براہِ راست حملہ ہے، جس نے دور آمریت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، کسی بھی جمہوری اور مہذب معاشرے میں اس طرح کے صحافت اور انسانیت دشن اقدام کو کسی طور برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مذمتی بیان میں مجاہد چنا نے کہا کہ کراچی سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کے بعد اب دارالخلافہ اسلام آباد کا نیشنل پریس کلب بھی پولیس گردی سے محفوظ نہیں رہا، جو کہ صحافتی تنظیموں کے رہنماﺅں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کا کہ نیشنل پریس کلب پر پولیس کا دھاوا جمہوری اصولوں اور آئینی آزادیوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

مجاہد چنا نے کہا کہ صحافیوں پر تشدد آمریت کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے اور حکمرانوں کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے، قلم و کیمرہ ہمیشہ حکمرانوں کو آئینے میں انکا اصل چہرہ دکھاتا ہے، قلم اور کیمرہ توڑنے والے دراصل جمہوریت کے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہارِ رائے کو دبانے کی ہر کوشش ناکام ہوگی اور جماعت اسلامی ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی، ملک میں آزادی صحافت اور صحافی برادری کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ مجاہد چنا نے واقعے کی تحقیقات اور ذمہ دار اہلکاروں، ماسٹر مائنڈ کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مجاہد چنا کی نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس کے دھاوے و صحافیوں پر تشدد کی شدید مذمت
  • غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے کیلیے فریڈم فلوٹیلا کا نیا مشن غزہ کی جانب روانہ
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی کنیئرڈ کالج فار وومن یونیورسٹی میں اساتذہ و طالبات سے خصوصی ملاقات
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی کنیئرڈ کالج فار ویمن یونیورسٹی کا دورہ، اساتذہ اور طالبات سے گفتگو
  • داؤد یونیورسٹی انتظامیہ کا آمرانہ رویہ قبول نہیں،  اسلامی جمعیت طلبہ کا پٹیشن دائر کرنے کا اعلان
  • سائیکلون شکتی نے بحیرہ عرب میں خطرے کی گھنٹی بجا دی، سندھ میں بھی ہائی الرٹ
  • لاہور، فلسطین کے مظلوم عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے طلبہ ریلی
  • داﺅد یونیورسٹی: طلبہ کے ایڈمیشن منسوخی ناقابل قبول، اصل جڑ طلبہ یونین پر پابندی، پی ایس ایف
  • سربیا کے 800 سے زائد اسکولوں میں بم کی دھمکیاں، طلبہ و اساتذہ محفوظ مقام پر منتقل
  • مقبوضہ کشمیر میں صحافی مسلسل پر خطر ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں، آر ایس ایف