Express News:
2025-05-15@04:15:01 GMT

اکیڈمک فریڈم خطرے میں

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

Academic freedom is the cornerstone of higher education, enabling scholars, researchers, and students to pursue knowledge, explore ideas, and express their thoughts without undue restriction or censorship. It fosters an environment of intellectual curiosity, critical thinking, and creativity, allowing individuals to contribute to the advancement of knowledge and society.

"

 سندھ کے محکمہ بورڈ و جامعات سندھ نے صوبہ بھرکی تمام یونیورسٹیوں میں متنازع موضوعات پر مبنی ہم نصابی سرگرمیوں اور تقریبات پر پابندی لگا دی ہے۔ ایک اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ کے محکمہ بورڈ و جامعات نے تمام پبلک سروس یونیورسٹیوںکے تمام وائس چانسلروں کو ایک مراسلہ بھیجا ہے۔

اس مراسلے میں تمام وائس چانسلر صاحبان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وائس چانسلر صاحبان کو ہم نصابی سرگرمیوں اور تقریبات کے لیے این او سی جاری کرنے سے گریزکرنا چاہیے، خاص طور پر جو متنازع موضوعات پر ہوں۔

اس مراسلے میں یہ بھی تحریرکیا گیا ہے کہ اگر متنازع موضوعات پر مبنی ہم نصابی سرگرمیوں اور تقریبات کے لیے این او سی جاری بھی کردیا گیا تو وہ واپس کیا جائے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک بھر کی غیر سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کو بھی اسی طرح کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اب ملک کی یونیورسٹیوں میں علمی آزادی Academic Freedom کے ادارے کو بھی مفلوج کرنے کے لیے اقدامات پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔

برصغیر ہندوستان میں سب سے پہلی یونیورسٹی 1857میں کلکتہ میں قائم ہوئی۔ اسی سال بمبئی میں یونیورسٹی قائم ہوئی۔ انگریز سرکار نے1882 میں لاہور میں پنجاب یونیورسٹی قائم کی۔ انگریز حکومت نے ہندوستان کے شہریوں کو محدود آزادی دی۔ انگریز حکومت کی اس پالیسی کی بناء پر یونیورسٹیوں میں علمی آزادی کا ایک ادارہ ارتقاء پذیر ہوا تھا۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی علمی آزادی کا ادارہ تقویت پایا تھا مگر حسرت موہانی سمیت چند طالب علم ضرور تھے جنھیں ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کرنے پر علی گڑھ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد جمہوری ادوار میں یونیورسٹیوں میں علمی آزادی کا ادارہ فعال رکھا مگر امریکا سے درآمد شدہ میکارتھی ازم کے اثرات جب پاکستان پر نازل ہوئے تو یونیورسٹیوں میں وہ اساتذہ اور طالب علم جو سوشلسٹ نظریات کا پرچارکرتے تھے یا طلبہ کے مسائل پر آواز اٹھاتے تھے وہ عتاب کا شکار ہوئے۔ غیر سول حکومتوں میں یونیورسٹیوں کے قوانین تبدیل ہوئے۔ وائس چانسلرکے اختیارات پر قدغن لگا دی گئی اور اساتذہ اور طلبہ معتوب ہوئے، جو آمرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔

پنجاب یونیورسٹی میں جب چند اساتذہ جن میں پروفیسر عمر اصغر خان اور ڈاکٹر مہدی حسن شامل تھے نے جنرل ضیاء الحق کی آمد پر احتجاج کیا تو انھیں ملازمتوں سے محروم ہونا پڑا۔ شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر مہدی حسن لاہور ہائی کورٹ کی مداخلت پر برطرفی سے بچ گئے۔ کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو یونیورسٹی کے چانسلر اورگورنرکو خط لکھنے پر نہ صرف ملازمت سے برطرف کیا گیا بلکہ پابند سلاسل کردیا گیا۔

جب سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے مارشل لاء ختم کیا تو سندھ ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل ریویو بورڈ نے ڈاکٹر ظفر عارف کو اس بنیاد پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا کہ محکمہ داخلہ کے پاس ڈاکٹر صاحب کو مزید نظربند رکھنے کے لیے مواد موجود نہیں تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے تین پروفیسر صاحبان پروفیسر جمیل عمر، پروفیسر محمد سلیم اور پروفیسر طارق احسن کو ایک پمفلٹ لکھنے اور تقسیم کرنے پر خصوصی فوجی عدالت کے حکم پر کئی سال جیل میں گزارنے پڑے تھے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر وقار علی شاہ کو انگریز حکومت کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنیوالے پختون رہنماؤں کے بارے میں مقالہ شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور میں قومی کانفرنس میں پیش کرنے پر تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ایک جمہوری قانون یونیورسٹیوں کا نظام چلانے کے لیے نافذ کیا گیا۔ اس قانون میں علمی آزادی کے ادارے کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اس قانون میں ترمیم کردی تھی، یوں علمی آزادی کا ادارہ کمزور ہونے لگا۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی، اسکول اورکالجوں میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کو مکمل خود مختار ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔

اس خود مختاری کی بناء پر یونیورسٹی میں اساتذہ اور طلبہ مل کر یونیورسٹی کا نظام چلاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے مختلف ادارے سینیٹ، سنڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل اور ریسرچ کونسل وغیرہ میں وائس چانسلر کے علاوہ اساتذہ کی بھی نمایندگی ہوتی ہے۔ یہ ادارہ اساتذہ کے تقرر کے لیے اہلیت طے کرتے ہیں، نصاب تیار کرتے ہیں اور طلبہ اور اساتذہ کی تحقیق کے لیے پالیسی تیار کرتے ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے سیمینار، ورکشاپ اور کانفرنس وغیرہ لازمی ہوتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے لیے متعلقہ تعلیمی شعبہ جات کے اساتذہ اور طلبہ مل کر موضوعات طے کرتے ہیں۔

یہ موضوعات زندگی کے کسی بھی موضوع کے بارے میں ہوسکتے ہیں۔ ان سیمینار اورکانفرنسوں میں ملک بھر کے علاوہ دیگر ممالک کے اساتذہ بھی شرکت کرتے ہیں۔ سیمینار اور کانفرنسوں میں پڑھے جانے والے مقالہ جات ریسرچ جرنلز میں شایع ہوتے ہیں۔ جب کسی سیمینار یا کانفرنس میں دیگر یونیورسٹیوں کے علاوہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین شرکت کرتے ہیں تو ایک عام طالب علم کو ماہرین کے خیالات جاننے اور ان سے ملاقات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ طلبہ کے لیے یونیورسٹیوں میں کسی ملکی یا کسی غیر ملکی ماہر سے ملاقات کا موقع ان کی زندگی کا یادگار لمحہ بن جاتا ہے۔

جس سیمینار اور کانفرنس کا موضوع مروجہ سیاسی، معاشی و سماجی اقدار سے ہٹ کر ہوتا ہے طلبہ اور اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ اس سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ان سرگرمیوں میں شریک ہوکر طالب علموں اور اساتذہ کو ایسے موضوعات مل جاتے ہیں جن پر وہ بعد میں خود تحقیق کرتے ہیں اور اپنے اپنے شعبوں میں نام پیدا کرتے ہیں۔ زیبسٹ کے کلیہ سماجی علوم کے ڈین ڈاکٹر ریاض شیخ نے یونیورسٹیوں میں علمی آزادیوں کے ادارہ پر لگائی جانے والی منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ نیا علم ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کرکے ہی تخلیق ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ علم پر سوال اٹھے گا تو پھر نئے علم کی بنیاد پڑتی ہے۔ علوم کے بارے میں نظریات اس وقت تبدیل ہوتے ہیں جب پرانے علوم کو چیلنج کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شیخ عظیم سائنسدان گلولیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلولیو نے نظریہ پیش کیا کہ کائنات کا محور سورج ہے، یوں ایک نیا علم ظہور پذیر ہوا۔ اگر یونیورسٹیوں میں ایسے موضوعات پر بات کرنے سے روک دیا جائے جس کے نتیجہ میں علوم کو چیلنج نہ کیا جائے تو نیا علم تخلیق نہیں ہوسکتا۔ اس مقصد کے لیے نصاب میں ایسا مواد شامل کیا جاتا ہے کہ طلبہ میں جاننے اور تحقیق کی امنگ پیدا نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ نصاب میں شامل مواد کو کانفرنس اور سیمینار وغیرہ کے موضوعات میں شامل کر کے ان موضوعات کو تقویت دی جاتی ہے، اگر علم کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر نئے نظریات پیدا نہیں ہونگے ۔

یورپ میں 500 سال قبل علمی آزادی کے ادارہ کو مستحکم کرنے کی روایت کے آغاز کے ساتھ ہی نئے علوم کا پھیلاؤ شروع ہوا تھا۔ اس سے معاشرہ جدید ترقی کی طرف راغب ہوا۔ موجودہ پابندیاں طلبہ اور اساتذہ کی تخلیق کو مزید متاثر کریں گی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے ابلاغِ عامہ کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں کوئی موضوع متنازع نہیں ہوتا۔ ہر موضوع کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

ان آراء کو سننا ، پڑھنا اور اپنا موقف تیارکرنا طالب علموں کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح طلبہ میں نہ صرف رواداری بلکہ برداشت کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ یونیورسٹیوں کے معزز وائس چانسلر صاحبان کو ہدایات دینا جمہوری عمل پر یقین رکھنے والی حکومت کے لیے شرم کا باعث ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یونیورسٹیوں سے علمی آزادی کا ادارہ ختم کرنا شروع کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ حکومت امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت سے خوفزدہ تھی مگر موجودہ حکومت کس بات سے خوفزدہ ہے؟ اگر یہ مراسلہ منسوخ نہ ہوا تو یونیورسٹیاں بانجھ ہوجائیں گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یونیورسٹیوں میں علمی آزادی وائس چانسلر صاحبان کو علمی آزادی کا ادارہ طلبہ اور اساتذہ یونیورسٹیوں کے یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے کہتے ہیں کہ کے بارے میں اساتذہ اور موضوعات پر اساتذہ کی کرتے ہیں اور طلبہ طالب علم جاتا ہے کیا گیا کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

حکومت ریاستی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے باضابطہ کوشش کرے، سپریم کورٹ بار

حکومت ریاستی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے باضابطہ کوشش کرے، سپریم کورٹ بار WhatsAppFacebookTwitter 0 13 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد نے گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل سے ملاقات کے دوران حکومت پر زور دیا کہ ریاستی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کوششیں کریں اور بات چیت کا آغاز کریں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے جاری اعلامیے کے مطابق گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل سے صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن رف عطا کی سربراہی میں وفد نے ملاقات کی۔اعلامیے میں بتایا گیا کہ ملاقات میں مشرقی سرحدوں سمیت دیگر امور پر بات ہوئی، فریقین نے آپریشن بنیان مرصوص کے دوران مسلح افواج کی جرات اور بہادری کو سراہا اور کہا کہ پاک افواج کا ردعمل ایسا تھا کہ مخالف کوئی توڑ نہ نکال سکا۔
ملاقات کے دوران کہا گیا کہ پاک سر زمین کی سالمیت کی کسی خلاف ورزی کو برادشت نہیں کیا جائے گا، آئندہ کسی بھی جارحیت کی کوشش کا مکمل طاقت سے جواب دیا جائے گا۔صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران قومی اتحاد کے لیے سیاسی جماعتوں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کردار قابل تحسین ہے، 10 مئی کو ہر سال مسلح افواج کی کامیابی کے طور پر منانے کے حکومتی فیصلے کو سراہتے ہیں اور توقع ہے جنگ بندی تسلسل سے قائم رہے گی۔
اعلامیے کے مطابق ملاقات میں سندھ طاس معاہدے کی بحالی اور مقبوضہ کشمیر پر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق با معنی مذکرات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ ریاستی سطح پر حکومت پاکستان مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے باضابطہ کوشش اور بات چیت کا آ غاز کرے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹرمپ کا دورہ ،امریکا اور سعودی عرب کے درمیان 142ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط ٹرمپ کا دورہ ،امریکا اور سعودی عرب کے درمیان 142ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط بھارت کا پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر ملک چھوڑنے کا حکم بھارت کا جنگی جنون جنوبی ایشیا کے امن کیلئے خطرناک ہے،اعزازی سفیر برائے سیاحت اٹلی ظہیر الدین ظفر انفارمیشن گروپ کے 4افسران کو گریڈ 20سے 21میں ترقی دیدی ، نوٹیفکیشن سب نیوز پر ایف بی آر نے مشروب ساز کمپنیوں کی سخت نگرانی کیلئے 50سے زائد ریونیو افسران تعینات کر دیئے اسلام آباد کی تعمیر وترقی و خوشحالی اور سیکٹر ڈویلپمنٹ سی ڈی اے کی اولین ترجیح ہے ، چیئرمین محمد علی رندھاوا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت نے شادی شدہ خواتین اساتذہ کا بڑا مسئلہ حل کردیا
  • سکولوں میں ہزاروں نئی بھرتیوں سے متعلق بڑی خوشخبری سنا دی گئی ، جانئے تفصیل
  • مودی سرکار کا آزادی صحافت پر حملہ، غیر ملکی میڈیا نشانے پر
  • مودی سرکار کا آزادی صحافت پر حملہ، غیر ملکی میڈیا نشانے پر،گودی میڈیا کو کھلی چھوٹ دے دی گئی
  • پنجاب یونیورسٹی، جمعیت کے 2 اہم عہدیدار گرفتار، جمیعت کا احتجاج
  • حکومت ریاستی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے باضابطہ کوشش کرے، سپریم کورٹ بار
  • مذاکرات میں آبی تنازع حل نہ ہوا تو پاک بھارت جنگ بندی خطرے میں پڑسکتی ہے، اسحٰق ڈار
  • مذاکرات میں آبی تنازع حل نہ ہوا تو پاک بھارت جنگ بندی خطرے میں پڑسکتی ہے، اسحاق ڈار
  • مفتی اعظم عمان کا پاکستان کی حمایت اور بھارت کو پیغام