ایران امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے تیار، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مئی 2025ء) ایک اعلیٰ ایرانی اہلکار نے امریکہ کے این بی سی نیوز کو بدھ کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایران اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے بدلے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی نے کہا کہ تہران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گا، انتہائی افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے کو ختم کرے گا، یورینیم کو صرف نچلی سطح تک افزودہ کرنے پر راضی ہو گا جو شہری استعمال کے لیے درکار ہے، اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کو اس عمل کی نگرانی کرنے کی اجازت دے گا۔
ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت
یہ پوچھے جانے پر کہ اگر ان شرائط کو پورا کیا جائے تو کیا ایران آج معاہدے پر دستخط کرنے پر راضی ہو جائے گا؟ تو شمخانی نے کہا، "ہاں۔
(جاری ہے)
"
شمخانی کا تبصرہ جوہری معاہدے تک پہنچنے کے لیے ایران کی توقعات اور آمادگی کے حوالے سے اب تک کا سب سے واضح عوامی بیان معلوم ہوتا ہے۔
اگلے امریکی ایرانی جوہری مذاکرات ملتوی، ٹرمپ کی نئی دھمکی
شمخانی نے کہا، "یہ اب بھی ممکن ہے۔
اگر امریکی ان کے کہنے کے مطابق عمل کریں تو یقینی طور پر ہمارے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا، "یہ مستقبل قریب میں بہتر صورت حال کا باعث بن سکتا ہے۔" قطر سے مدد کی اپیلقبل ازیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز قطر پر زور دیا کہ وہ ایران پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے تہران کی قیادت کو امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے پر آمادہ کرے۔
ٹرمپ، جو مشرق وسطیٰ کے تین ممالک کے دورے پر ہیں، نے یہ اپیل قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیے گئے ایک سرکاری عشائیہ کے دوران کی۔ قطر نے گزشتہ برسوں سے امریکہ اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔
ٹرمپ نے رسمی عشائیہ میں تقریر کے دوران کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ ایران کی صورتحال میں میری مدد کر سکتے ہیں۔
"یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، اور ہم صحیح کام کرنا چاہتے ہیں۔""ٹرمپ نے ریاض میں خلیج تعاون کونسل کے رہنماؤں سے بھی کہا کہ وہ ایک معاہدے کے لیے تیار ہیں، لیکن اصرار کیا کہ ایران کو مستقبل کے کسی بھی معاہدے کے حصے کے طور پر پورے خطے میں پراکسی گروپوں کی حمایت کو روکنا چاہیے۔
امریکہ اور ایران نے 2015 میں صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے دوران ایک جوہری معاہدہ کیا تھا، جس میں ایران نے اپنے یورینیم کے ذخیرے کو بڑی حد تک کم کرنے اور صرف 3.
امریکہ اور ایران نے ملک کے جوہری پروگرام کے بارے میں گزشتہ ماہ کے اوائل سے چار دور کی بات چیت کی ہے۔ ٹرمپ نے ایک معاہدے تک پہنچنے کے بارے میں امید کا اظہار کیا ہے، حالانکہ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ یہ موقع بہت زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتا۔
ایرانی اور یورپی سفارت کاروں کی ملاقاتایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے بدھ کے روز کہا ہے کہ دو مئی کو طے شدہ ملاقات ملتوی ہونے کے بعد ایران جمعے کو یورپی فریقوں کے ساتھ اپنے جوہری معاہدے کے لیے استنبول میں مذاکرات کرے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے قبل ازیں اطلاع دی تھی کہ ایرانی نائب وزیرِ خارجہ فرانسیسی، برطانوی اور جرمن سفارت کاروں سے بات چیت برقرار رکھنے اور اس بات پر تبادلہ خیال کرنے کی غرض سے ملاقات کریں گے کہ وہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے ممکنہ نئے جوہری معاہدے کے معیارات کا کیا تصور رکھتے ہیں۔
عراقچی نے کہا کہ 11 مئی کو منعقدہ ایران-امریکہ مذاکرات کا چوتھا دور "مشکل" تھا کیونکہ ان کی توجہ افزودگی کے متنازعہ مسئلے پر تھی۔ انہوں نے مزید یہ امید ظاہر کی کہ ایران کا بنیادی موقف بہتر طور پر سمجھنے کے بعد دوسرے فریق کا طرز عمل "زیادہ حقیقت پسندانہ" ہو گا۔
ادارت: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری معاہدے امریکہ کے معاہدے کے کہ ایران کے ساتھ کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
یوکرین کو زمین سے متعلق کسی بھی امن معاہدے میں شامل ہونا چاہیے،صدرٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین کو زمین سے متعلق کسی بھی ممکنہ جنگ بندی یا امن معاہدے کا براہِ راست حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کی سرزمین پر صرف یوکرینی قیادت کو بات کرنے کا حق ہے، کوئی بیرونی طاقت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔
یہ بیان صدر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے جمعہ کو الاسکا میں ہونے والی ممکنہ ملاقات سے قبل دیا۔ اس سے پہلے ٹرمپ کی یورپی اتحادیوں کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ ہوئی جس میں برطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون، جرمن چانسلر فریڈرک میرٹز، نیٹو چیف اور دیگر یورپی رہنما شامل تھے۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی۔
یورپی تحفظات اور خدشات
یورپی رہنماؤں اور زیلنسکی کا مقصد واضح تھا: ٹرمپ کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ پیوٹن کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہ کریں جو یوکرین کی خودمختاری یا یورپی سیکیورٹی مفادات کو نقصان پہنچائے۔
انہیں خدشہ ہے کہ اگر زمین کے تبادلے کی بنیاد پر کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو روس کو یوکرین کے پانچویں حصے پر مستقل کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے، جو ماسکو کی 11 سالہ جارحیت کو “انعام” دینے کے مترادف ہوگا۔
ٹرمپ کا مؤقف اور ممکنہ اگلا قدم
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس جنگ نے ہزاروں جانیں لی ہیں اور لاکھوں افراد کو بے گھر کیا ہے، اگر اس کا خاتمہ چاہتے ہیں تو دونوں فریقین کو کچھ نہ کچھ دینا ہوگا۔
انہوں نے زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقات کو 10 میں سے 10قرار دیا اور کہا کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو وہ جلد پیوٹن اور زیلنسکی کے ساتھ ایک اور ملاقات کے خواہاں ہوں گے۔ تاہم ساتھ ہی خبردار بھی کیااگر مجھے وہ جواب نہیں ملا جس کی توقع ہے تو دوسری ملاقات نہیں ہوگی، اور اگر پیوٹن جنگ کے خاتمے پر تیار نہ ہوئے تو نتائج بہت سنگین ہوں گے۔
یورپی حمایت اور یوکرین کا مؤقف
برطانوی وزیراعظم کے دفتر نے زور دیا کہ کسی بھی امن معاہدے میں یوکرین کو قابلِ بھروسا سیکیورٹی ضمانتیں دی جانی چاہئیں۔
فرانسیسی صدر میکرون نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ یوکرینی زمین پر صرف زیلنسکی بات چیت کر سکتے ہیں۔
جرمن چانسلر میرٹز نے کہا کہ روس کے زیر قبضہ علاقوں کو قانونی حیثیت دینا ناقابلِ قبول ہے۔ جنگ بندی ضرور ہونی چاہیے، مگر یوکرین کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔زیلنسکی نے پیوٹن، ٹرمپ اور خود پر مشتمل ایک سہ فریقی ملاقات کی تجویز بھی دی ہے تاکہ کوئی حقیقی اور متوازن امن فارمولہ تلاش کیا جا سکے۔