اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ججز ٹرانسفرز کیس میں سپریم کورٹ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ قانونی سوالات پر کرنا ہے۔ جسٹس شاہد بلال نے کہا کہ ماضی میں لاہور ہائیکورٹ کے تین ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ آرٹیکل 175/3 کے تحت عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ رکھا گیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سنیارٹی کا تعین کون کرے؟۔ وکیل نے بتایا کہ سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس کرے گا۔ جسٹس مظہر نے کہا کہ چیف جسٹس کی جانب سے سنیارٹی تعین کا اختیار انتظامی ہے، چیف جسٹس کے انتظامی فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کہاں رجوع کرے گا۔ وکیل نے کہا کہ متاثرہ فریق مجاز عدالت سے داد رسی کے لیے رجوع کرے گا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس سردار اسلم کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔ منیر اے ملک نے کہا جسٹس سردار اسلم کی تقرری آرٹیکل 193  کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی، جسٹس سردار اسلم کا تبادلہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تعیناتی کی گئی تھی۔ صدر نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے تبادلہ کا نہیں تقرری کا اختیار استعمال کیا۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ اس وقت 18 ترمیم اور جوڈیشل کمیشن نہیں تھا، اس وقت تقرری کا مکمل اختیار صدر پاکستان کے پاس تھا۔ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا آفس مختلف ہوتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر ہائیکورٹس میں تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل مختلف ہوتی ہے، ہر ہائیکورٹ کے جج کا حلف الگ اور حلف لینے والا بھی الگ ہوتا ہے، تبادلہ پر آئے ججز کا عمل حلف اٹھانے سے مکمل ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ تبادلہ پر آیا جج نیا حلف لے گا اس پر آئین خاموش ہے۔ آرٹیکل 200  کو آرٹیکل 175اے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے کبھی جج کا ٹرانسفر نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 175 اے سے ملایا تو نئی تقرری ہوگی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کوئی جج مستقل جج کا حلف اٹھاتا ہی نہیں ہے، پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے، پھر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے، پھر اگر وہ جج چیف جسٹس بنے تو حلف لیتا ہے، ٹرانسفر کو نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وکیل حامد خان  کہا کہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن133 سال پرانی ہے، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے 25 ہزار وکلا ممبرز ہیں اور ججز کے تبادلہ پر وکلا کو بڑی تشویش ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ  کوشش کریں کہ منیر اے ملک کے دلائل نہ دہرائے جائیں۔ جسٹس شاہد بلال نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کو کتنا اختیار دیا گیا۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ حلف صرف فارملٹی نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے، ججز مایوس ہیں اس لیے انہوں نے خط لکھ کر جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ بتا دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ  آپ کب تک خطوط پڑھیں گے کچھ آئینی سوالات بتا دیں، ان خطوط کا فائدہ نہیں یہ سب پڑھے ہوئے ہیں اور ہم ان خطوط کا کیا کریں گے۔ یہ لارجر بینچ میں زیر سماعت ہیں، ہم اس معاملے پر نہ کوئی حکم دے سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اپنے دلائل کے طریق کار میں کوئی آئینی سوالات بھی لے آئیں جو متعلقہ ہوں۔ جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ ان خطوط کو پڑھ کر آپ کیا بدنیتی ثابت کرنا چاہتے ہیں؟۔ وکیل  نے کہا کہ میں کچھ حقائق عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ میرے علم میں ایک بات آئی ہے، لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور بار کے صدور ایک سیاسی جماعت کے عہدے دار ہیں، دونوں صدور اس سیاسی جماعت کے عہدے دار ہیں جس جماعت کے آپ سینیٹر ہیں، بار کی سیاست میں قومی سیاست آچکی ہے۔ حامد خان سے مکالمہ میں جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ یہ کام آپ کے مخالف گروپ نے شروع کیا، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے درخواست کیوں واپس لی۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ یہاں ججز پیچھے ہٹ جاتے ہیں یہ تو پھر بے چارے بار کے صدر ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز کے خط کے معاملے پر ازخود اور ریفرنس زیر التوا ہے، بہتر ہے اس پر بات نہ کریں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ججز ازخود نوٹس پر آپ تمام ہائیکورٹس کے جواب پڑھ کہ یہی کہیں گے کہ ایجنسیوں نے مداخلت کی، بہتر ہے یہیں سے آگے بڑھیں اور آئینی نکات پر بات کریں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ لاہور ہائیکورٹ جسٹس شاہد بلال ہائیکورٹ کے منیر اے ملک نے کہا کہ چیف جسٹس ہوتا ہے

پڑھیں:

ججز میں تنازع ہے، میں کیوں دکھاوا کروں کہ تنازع نہیں ہے؟جسٹس سردار اعجاز اسحاق کے ریمارکس

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس لارجر بنچ منتقل کرنے کیخلاف کیس میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ میں توہین عدالت کی یہ کارروائی آگے بڑھاؤں گا اور فیصلہ لکھوں گا، فیصلہ لکھوں گا کہ کیا چیف جسٹس کے پاس ایک جج سے توہین عدالت کیس واپس لینے کااختیار ہے،یہ اس ادارے کی بنیاد پر زور دار حملہ ہے،جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہاکہ ججز میں تنازع ہے، میں کیوں دکھاوا کروں کہ تنازع نہیں ہے؟

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی عدالت سے توہین عدالت کیس لارجر بنچ منتقل کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈپٹی رجسٹرار اور دیگر کیخلاف توہین عدالت کی سماعت کی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ سے توہین عدالت کی کارروائی معطل کرنے کے آرڈر پر سنگل بنچ نے حیرت کااظہار کیا۔

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ فائنل کے انعامی رقم کا اعلان کردیا گیا، فاتح ٹیم کو کتنی رقم ملے گی؟ جانیے 

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہاکہ آپ ڈویژن بنچ کا آرڈر بتا رہے ہیں کہ اس عدالت کو توہین عدالت کیس چلانے سے روک دیا گیا ہے،یہ تو ڈویژن بنچ کی جانب سے اختیار سے تجاوز کیاگیا ہے،طے شدہ قانون ہے کہ ایک جج کے عبوری آرڈر کے خلاف انٹراکورٹ اپیل قابل سماعت نہیں ہوتی،جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہاکہ ڈویژن بنچ کا یہ آرڈر اپنے سینئر ساتھی جج کی اتھارٹی کے خلاف ہے،اگر میں اختیار کے اس تجاوز کو تسلیم کر لوں تو سائلین کو میری عدالت پر اعتماد کیوں رہے گا؟کل کو میری عدالت سے جاری آرڈر پر کوئی عملدرآمد کیوں کرے گا۔

وزیر اعظم، آرمی چیف کے ہمراہ سکواڈرن لیڈر عثمان یوسف شہید کے گھر پہنچ گئے، شہید کے اہلِخانہ سے ملاقات

عدالت نے کہاکہ آرڈرز پر عملدرآمد کیوں ہوگا کہ جس لمحے میں توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کروں وہ ڈویژن بنچ معطل کر دے گا، عدالت نے ایڈیشل و ڈپٹی رجسٹرار سے استفسار کیا کہ آپ نے انٹراکورٹ اپیل دائر کرنے والی بات عدالت سے کیوں چھپائی؟جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہاکہ انہوں نے آپ کو سنا اور سمجھ لیا کہ میں غلط ہوں، مجھے قانون آتا ہی نہیں ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کو مذاق بنا رہے ہیں؟میں نے آپ کو تسلی دی تھی کہ آپ نے پریشان نہیں ہونا آپ کے خلاف کارروائی نہیں کروں گا، آپ نے پھر بھی انٹراکورٹ اپیل دائر کردی یا پھر آپ کو اپیل دائر کرنے کیلئے مجبور کیاگیا، یہاں چاہے سردار اعجاز بیٹھا ہو یا کوئی اور جج، یہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی کورٹ نمبر 5ہے،جب ڈویژن بنچ میں کیس آیا تو اس عدالت کی نمائندگی کہاں ہے؟یکطرفہ آرڈر ہوا ہے،سنگل بنچ کے عبوری آرڈر کے خلاف انٹراکورٹ اپیل قابل سماعت ہی نہیں ہے،حیران ہوں کہ ایڈیشنل اور ڈپٹی رجسٹرار 30سال کی سروس کے بعد بھی اس بات سے لاعلم تھے، کیا ڈویژن بنچ کو بھی معلوم نہیں تھا کہ عبوری آرڈر کیخلاف انٹراکورٹ اپیل قابل سماعت نہیں۔

ملک بھر کے بجلی صارفین کے لیے بڑی خوشخبری، اربوں روپے کا ریلیف ملنے کا امکان

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ میں توہین عدالت کی یہ کارروائی آگے بڑھاؤں گا اور فیصلہ لکھوں گا، فیصلہ لکھوں گا کہ کیا چیف جسٹس کے پاس ایک جج سے توہین عدالت کیس واپس لینے کااختیار ہے،یہ اس ادارے کی بنیاد پر زور دار حملہ ہے،عدالتی معاون نے کہاکہ ڈویژن بنچ کے آرڈر میں ابہام ہے ، وضاحت تک ایڈیشنل اورڈپٹی رجسٹرار کی حد تک کارروائی آگے نہ بڑھائی جائے،اس طرح تاثر جاتا ہے کہ جیسے ہائیکورٹ کے ججز میں تنازع ہے،جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہاکہ ججز میں تنازع ہے، میں کیوں دکھاوا کروں کہ تنازع نہیں ہے؟

شان مسعود کو قومی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے امکان، ممکنہ متبادل نام بھی سامنے آگیا

مزید :

متعلقہ مضامین

  • عافیہ صدیقی کیس تحریک بن چکا، پٹیشن ختم کرنے سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز میں تنازع ہے، میں کیوں دکھاوا کروں کہ تنازع نہیں، جسٹس اعجاز اسحٰق
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز میں تنازع ہے، میں کیوں دکھاوا کروں کہ تنازع نہیں، جسٹس اعجاز اسحٰق
  • ججز میں تنازع ہے، میں کیوں دکھاوا کروں کہ تنازع نہیں ہے؟جسٹس سردار اعجاز اسحاق کے ریمارکس
  • ججز ٹرانسفرز کیس؛ حقائق کی بنیاد پر نہیں قانونی سوالات پر فیصلہ کرنا ہے، سپریم کورٹ
  • ججز سینیارٹی کیس: تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا اس پر آئین خاموش ہے، جسٹس محمد علی مظہر
  • عمران خان پیرول درخواست: اعتراضات پر آرڈر پاس کردوں گا. قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
  • ججز تبادلہ کیس: تبادلوں کی اصل وجہ حساس اداروں کی مداخلت پر خط تھا، منیر اے ملک کا دعویٰ
  • جو اعتراضات لگے ہیں میں ان پر آرڈر پاس کروں گا،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے عمران خان کی پیرول پر رہائی کی درخواست پر ریمارکس