مہاراشٹرا میں زبان کا تنازع برقرار، سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی بے اثر
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
ممبئی: بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں زبان کے تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے حالانکہ بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ سائن بورڈز پر صرف مراٹھی زبان کے استعمال کے مقامی بلدیاتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص پیزا ڈیلیوری بوائے سے کہتا ہے کہ “جب تک تم مراٹھی نہیں بولو گے، پیسے نہیں ملیں گے”۔ اس واقعے نے عوامی سطح پر غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، یہ صرف رابطے کا ذریعہ ہے جو لوگوں کو قریب لاتی ہے، اور کسی پر مخصوص زبان مسلط کرنا آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔
ایک بھارتی نیوز ویب سائٹ نے اس ویڈیو کے ساتھ گزشتہ ماہ کی کئی دیگر ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں، جن میں مہاراشٹرا کے کچھ مقامی لوگ دوسرے صوبوں سے آئے افراد کو زبردستی مراٹھی بولنے پر مجبور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مخصوص نشستیں کیس: فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا‘ عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251003-08-30
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے ہے کہ فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی، عدالت عظمیٰ کو آئین کی تشریح کرتے ہوئے اسے دوبارہ لکھنے کا اختیار نہیں۔ فیصلے کے مطابق مکمل فراہمی انصاف کیلئے سپریم کورٹ یقینی طور پر ہدایات جاری کرسکتی ہے، 187 کا استعمال یقینی طور پر حقائق اور قانون کے مطابق ہی کیا جاسکتا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔فیصلے میں عدالت عظٖمیٰ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نہ عدالت عظمیٰ میں فریق تھی، نہ پشاور ہائی کورٹ اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں فریق تھی، پی ٹی آئی کے جن امیدواروں کو ریٹرننگ افسران نے آزاد قرار دیا اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ یا ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا، عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہیں نہیں کہا پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑسکتی۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدواران نے غلط سمجھا کہ انہیں آزاد قرار دے دیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواران عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو غلط سمجھنے کے برابر کے ذمے دار ہیں، مکمل انصاف کے نام پر اس فریق کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا جو مقدمے میں فریق ہی نہ ہوعدالت عظمیٰ نے مخصوص نشستوں کے مرکزی کیس فیصلے میں پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا جس کا اسے اختیار ہی نہیں تھا۔عدالت عظمیٰنے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی ججز کا اقلیتی ججوں کو نکال کر اپنے طور پر خصوصی بینچ تشکیل دینا غیر قانونی ہے، ایسی کوئی مثال بھی نہیں ملتی، آئین میں دی ہوئی ٹائم لائن تو پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کر سکتا ہے،آئین میں دی گئی واضح ٹائم لائنز کو تبدیل کرنا اختیارات کی تقسیم کی تکون کے نظریہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا حدود سے تجاوز بھی ہے۔فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰکو یہ اختیار کسی نے نہیں دیا کہ وہ آئینی کی تشریح کرتے کرتے آئین کو ہی دوبارہ تحریر کر ڈالے، سپریم کورٹ یا اس کے کسی جج کو قطعی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر آئین کی تشریح کرے۔