Daily Mumtaz:
2025-07-07@03:59:18 GMT

اور ابابیل واپس آ گئے

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

اور ابابیل واپس آ گئے

بیجنگ شہر کے مرکز میں ابابیل کی ایک خاص قسم رہتی ہے جسے بیجنگ سوئفٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ابابیل ہر موسم بہار میں دور دراز افریقہ سے ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں، اور مئی کے آس پاس بیجنگ پہنچتے ہیں۔ جہاں یہ قدیم عمارتوں میں رہتے ہیں اور یہیں نشو ونما پاتے ہیں۔ شہر کے نام سے منسوب بہت کم جنگلی پرندوں میں سے ایک کے طور پر ، ان کا بیجنگ شہر سے گہرا تعلق ہے۔کچھ دن پہلے، شام کے وقت، میں بیجنگ کی ایک قدیم عمارت زینگ یانگ مین کے پاس سے گزر رہی تھی،جس کی تاریخ 600 سال سے زائد ہے۔یہ عمارت اس وقت باڑ سے گھری ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ اس کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے۔یہ دیکھ کر ہمیں تجسس ہوا کہ تعمیراتی کام کے دوران تو بہت شور ہوگا اور بیجنگ سوئفٹ نہیں آئیں گے۔ اس وقت آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے،اور اچانک میری نظر اُن پر پڑی – پہلے ایک ، پھر ایک غول۔ قدیم عمارتوں کے آس پاس اڑتے ہوئے یہ ابابیل بہت پرسکون لگتے ہیں ، اور انسانی سرگرمیوں نے ان کی آزاد زندگی کو بالکل متاثر نہیں کیا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے ؟بعد میں، مجھے پتہ چلا کہ یہ ہم آہنگ منظرنامہ اتفاقاً نہیں تھا.

اطلاعات کے مطابق 2022 میں زینگ یانگ مین کی تزئین و آرائش سوئفٹس کی افزائش نسل کی مدت کے دوران ملتوی کر دی گئی تھی ۔مزید یہ کہ ان کی افزائش کی سہولت کو دیکھتے ہوئے، گھونسلوں کے لیے گزرگاہیں بھی محفوظ کی گئی ہیں . لہٰذا، افزائش نسل کے دوران ان پرندوں کے گھونسلوں کو برقرار رکھنا ، قدیم عمارتوں کی تزئین و آرائش میں ایک تفہیم بن چکی ہے۔درحقیقت،پرندوں کے علاوہ،لوگ دوسری حیات کا بھی تحفظ کر رہے ہیں. حالیہ دنوں ،لوگوں کو باغات میں جھاڑیوں اور شاخوں کے کچھ ڈھیرنظر آ سکتے ہیں۔ باغبان کی غفلت کے بارے میں شکایت کرنے کی جلدی نہ کریں ،کیونکہ یہ ڈھیر جانوروں کے لئے “بینجیس کا ڈھیر یا محفوظ مساکن” ہیں،جس کی تجویز 20 ویں صدی کی 50 کی دہائی میں جرمن گارڈن مینیجر بینجیس برادران نے پیش کی تھی ۔ یہ نہ صرف کیڑے مکوڑوں ، پرندوں اور چھوٹے ممالیہ جانوروں (جیسے ہیج ہوگ ، خرگوش) کو پناہ گاہ فراہم کرسکتے ہیں ، بلکہ شاخیں اور پتے بھی گلنے سڑ نے کے بعد مٹی کی پرورش کرسکتے ہیں اور پودوں کی نشوونما کو فروغ دیتے ہوئے شہر کے ماحولیاتی توازن کو بتدریج برقرار رکھ سکتے ہیں۔”صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں” کے تصور کی رہنمائی میں، لوگوں نے ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے معاشی فوائد اور ماحولیاتی بہتری سے فائدہ اٹھایا ہے. اس عمل میں، ماحولیاتی تحفظ کے امور پیشہ ورانہ اور سائنسی طریقہ کارکی رہنمائی میں مسلسل ارتقاءپذیر ہیں. اب،ماحولیاتی تحفظ صرف پانڈا، سائبیرین شیر اور چیتے جیسے مشہور انواع کا تحفظ نہیں، بلکہ لوگوں کے قریبی ماحولیاتی توازن کا تحفظ بھی لازمی ہے. بینجیس کے ڈھیروں کے علاوہ، لوگوں نے پرندوں کے لئے گھونسلے، کیڑوں کے لئے مساکن بھی بنائے ہیں، اور چھوٹے چھوٹے ویٹ لینڈز ، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کمیونٹیز کی تعمیر جیسے جامع اقدامات کیے ہیں، جس سے لوگوں کے آس پاس شہروں میں حیاتیاتی تنوع کو نمایاں طور پر بہتر بنایا گیا ہے. اب ہمیں خوبصورت پرندے دیکھنے کے لیے چڑیا گھر جانے کی ضرورت نہیں ہے،سڑک کنارے ایک چھوٹے سے گرین لینڈ پر بھی ہمیں پرندوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔اور یہ صرف جانوروں کی انواع میں اضافہ نہیں ، بلکہ پودوں کی اقسام میں اضافے ، زمین کے معیار میں بہتری اور ماحولیاتی توازن کی ترقی کا جامع اظہار بھی ہے۔آج کل ، لوگ آہستہ آہستہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ترقی صرف مواد کا لامحدود مجموعہ نہیں ، بلکہ زندگیوں کے مابین ہم آہنگ نظم ونسق کا قیام بھی ہے۔ یہ نظم و نسق صرف انسانیت کے درمیان تعلقات کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ تمام حیات کے مابین ہم آہنگی کے بارے میں بھی ہے. ہر سال فروری میں بیجنگ سوئفٹ افریقہ سے پہاڑوں ، سمندروں، ریگستانوں کو عبور کرتے ہوئے بالآخر شمال میں واقع قدیم شہر بیجنگ پہنچتے ہیں۔ ان کی ہجرت کے راستے درجنوں ممالک پر محیط ہیں، جو ہمیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کوئی الگ تھلگ عمل نہیں ہے، بلکہ ایک عالمی باہم مربوط تعاون کا کام ہے۔سال بہ سال ،بیجنگ سوئفٹ کی واپسی طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوتی ہے، جو ان کے اپنے پرانے گھونسلوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فطرت اور انسانوں کے درمیان ایک معاہدہ بھی عیاں ہوتا ہے: جب تہذیب ہر زندگی کی حفاظت کرتی ہے، تو انسان حیاتیاتی تنوع سے زیادہ دیرپا طاقت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بیجنگ سوئفٹ بھی ہے

پڑھیں:

جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار

پاکستان اور بھارت کا رشتہ تاریخ، تہذیب اور جغرافیہ کے گہرے روابط رکھنے کے باوجود کشیدگی، بداعتمادی اور تنازعات سے عبارت رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں پر خار دار دیواریں تو موجود ہیں، لیکن قدرتی مسائل، خاص طور پر موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجز، ان کے درمیان کسی سرحد کے پابند نہیں۔فضائی آلودگی، پانی کی کمی، ہیٹ ویوز، سمندری طوفان کے خطرات، طوفانی بارشیں اور برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے جیسے مسائل دونوں ممالک کے شہریوں کو یکساں اور شدید متاثرکررہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان اور بھارت طویل المدتی موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، جو ان کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہمیں ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے کہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ ماحول دوست مستقبل کی جانب بڑھا جائے۔

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ ''South Asia Environmental Outlook 2024'' کے مطابق جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی بحران کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ  کے مطابق ’’بھارت اور پاکستان کے شہری علاقوں میں فضائی آلودگی عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کے باعث بھارت میں سالانہ 1.6 ملین جب کہ پاکستان میں تقریباً 135,000 اموات ہوتی ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ دریائے گنگا اور سندھ کی آلودگی، زمینی پانی کی قلت اور زراعت میں کیمیکل کے بے تحاشا استعمال نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی نے ماحولیاتی تعاون کو محدود کردیا ہے۔ ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا ایک نیا رابطہ پل ثابت ہو سکتا ہے۔

2024 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 467 ملین اور پاکستان میں 71 ملین فعال سوشل میڈیا صارفین موجود ہیں۔ یہ نوجوان صارفین انسٹاگرام، ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے عالمی و مقامی مسائل پر آواز بلند کر رہے ہیں، اگر ان پلیٹ فارمزکو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ماحولیات کے تحفظ اور خطے میں امن کے فروغ کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں، مثال کے طور پر ہیش ٹیگ #IndoPakClimateSolidarity کے ذریعے نوجوانوں نے سرحد پار ماحولیاتی یکجہتی کا اظہارکیا۔ یوٹیوب چینلز جیسے India Pakistan Together نے ماحولیاتی موضوعات پر مثبت مکالمے کو فروغ دیا۔ مختلف این جی اوز نے آن لائن کانفرنسز اور وسمینارز کے ذریعے مشترکہ ماحولیاتی حل تلاش کیے۔ عالمی سطح پر بھی دیکھاجائے تو سوشل میڈیا نے متصادم گروہوں کو ماحولیاتی مسائل  کے حوالے سے  متحدکیا جیسے فلسطین اور اسرائیل کے نوجوانوں نے EcoPeace Middle East کے ذریعے پانی کے تحفظ پر مل کر کام کیا۔ چین اور بھارت کی ڈیجیٹل مہمات نے سرحدی ماحولیاتی خطرات پر توجہ دی۔ اقوام متحدہ کے Climate Action Now جیسے عالمی پروگراموں نے سوشل میڈیا کو مؤثر ماحولیاتی سفارت کاری کا ذریعہ بنایا۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جہاں مواقع  موجود ہوتے ہیں، وہیں چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ بعض گروہ سوشل میڈیا کو تعصب اور دشمنی کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہوئے نفرت انگیز بیانیے کو پروان چڑھاتے ہیں جب کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جعلی خبریں اور اس حوالے سے سازشی نظریات ماحول دوستی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوکمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس کے ساتھ بعض اوقات حکومتیں ریاستی سنسر شپ کے زریعے آن لائن مکالمے پر پابندیاں عائد کردیتی ہیں ۔

 ہمارے پالیسی ساز اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے مشترکہ ماحول دوست مستقبل کو پروان چڑھانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھا سکتے ہیں جیسے، ماحولیاتی یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور انسٹا ایکٹیوسٹس کو ڈیجیٹل بیداری اور تحقیق پر مبنی تربیت دی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے طلبا، محققین اورکارکنان کے درمیان ورچوئل کلائمیٹ کانفرنسز منعقد کی جائیں، دونوں ممالک کے نوجوان فلم ساز ماحولیاتی ڈاکیومنٹریز اور سوشل میڈیا سیریز بنائیں جیسے ’’ سانس ایک، شہر دو‘‘ جامعات ماحولیاتی اور سوشل میڈیا سے متعلق تحقیق کو فروغ دے کر بین الاقوامی تحقیقی گرانٹس حاصل کرسکتی ہیں۔ UNEP،SAARCاور دیگر عالمی ادارے اس ضمن میں سوشل میڈیا بیداری مہمات کو مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کرسکتے ہیں۔

ہمیں جلد از جلد اس امرکا ادراک کرنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا کی ماحولیاتی بقا اب دونوں ممالک کے لیے بقاء کا سوال ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو روایتی سفارتی دروازوں کو کھولے بغیر دلوں کو جوڑ سکتا ہے۔ نوجوانوں کی آوازیں اگر ماحولیاتی انصاف، پانی کی حفاظت اور صاف فضا کے لیے بلند ہوں، تو نہ صرف کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے بلکہ ایک بہتر، مشترکہ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

اب پاکستان اور بھارت کا مستقبل جنگ یا سیاست کے فیصلے نہیں بلکہ مشترکہ ماحولیاتی خطرات طے کریں گے۔ دریاؤں کا پانی،آلودہ فضا،گرم ہوتا موسم اور ختم ہوتی حیاتیاتی تنوع بھی ان مسائل میں شامل ہیں جن کی سرحدیں نہیں ہوتیں، اگر دونوں ملکوں کے نوجوان سوشل میڈیا کو نفرت کے بجائے فہم و فراست کا ذریعہ بنائیں، تو وہ نہ صرف ماحول کو بچا سکتے ہیں بلکہ دشمنی کی برف کو بھی پگھلا سکتے ہیں۔آج ہمیں جنگ کی زبان سے نہیں، ہوا اور پانی کی زبان سے بات کرنی ہے، اور سوشل میڈیا ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم نفرت کے شور میں ماحول کے حق میں ایک نیا نغمہ چھیڑیں۔ سوشل میڈیا، جوکل تک تفریح کا ذریعہ تھا، آج ہمارے ہاتھ میں ایک بااثر ہتھیار ہے، محبت، شعور اور مکالمے کا۔

متعلقہ مضامین

  • واقعہ کربلا کی روشنی میں پاکستان خود دار فلاحی ریاست بن سکتا ہے: وزیراعظم
  • حق کی تلوار اور ظلم کا تخت
  • پاکستان کو ٹونا مچھلی کی برآمد سے 200 ملین ڈالرز آمدن متوقع
  • یوکرینی جنگ میں روس کی شکست قبول نہیں ، چین کا یورپی یونین کو انتباہ
  • جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار
  • نئے صوبے تقسیم نہیں بلکہ تعمیرکا ذریعہ ہیں(آخری حصہ)
  • بیجنگ روس کی یوکرین کے خلاف جنگ میں شکست کو قبول نہیں کر سکتا . چین کا یورپی یونین کو پیغام
  • ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کوئی تحقیقی منصوبہ شامل نہ ہونے کے باعث عملی طور پر ’غیر فعال‘
  • یوکرین کیخلاف جنگ میں روس کی شکست قبول نہیں، چین نے یورپی یونین کو آگاہ کر دیا
  • شام، ابراہام معاہدے اور گولان پہاڑی