Daily Mumtaz:
2025-11-03@18:59:13 GMT

اور ابابیل واپس آ گئے

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

اور ابابیل واپس آ گئے

بیجنگ شہر کے مرکز میں ابابیل کی ایک خاص قسم رہتی ہے جسے بیجنگ سوئفٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ابابیل ہر موسم بہار میں دور دراز افریقہ سے ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں، اور مئی کے آس پاس بیجنگ پہنچتے ہیں۔ جہاں یہ قدیم عمارتوں میں رہتے ہیں اور یہیں نشو ونما پاتے ہیں۔ شہر کے نام سے منسوب بہت کم جنگلی پرندوں میں سے ایک کے طور پر ، ان کا بیجنگ شہر سے گہرا تعلق ہے۔کچھ دن پہلے، شام کے وقت، میں بیجنگ کی ایک قدیم عمارت زینگ یانگ مین کے پاس سے گزر رہی تھی،جس کی تاریخ 600 سال سے زائد ہے۔یہ عمارت اس وقت باڑ سے گھری ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ اس کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے۔یہ دیکھ کر ہمیں تجسس ہوا کہ تعمیراتی کام کے دوران تو بہت شور ہوگا اور بیجنگ سوئفٹ نہیں آئیں گے۔ اس وقت آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے،اور اچانک میری نظر اُن پر پڑی – پہلے ایک ، پھر ایک غول۔ قدیم عمارتوں کے آس پاس اڑتے ہوئے یہ ابابیل بہت پرسکون لگتے ہیں ، اور انسانی سرگرمیوں نے ان کی آزاد زندگی کو بالکل متاثر نہیں کیا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے ؟بعد میں، مجھے پتہ چلا کہ یہ ہم آہنگ منظرنامہ اتفاقاً نہیں تھا.

اطلاعات کے مطابق 2022 میں زینگ یانگ مین کی تزئین و آرائش سوئفٹس کی افزائش نسل کی مدت کے دوران ملتوی کر دی گئی تھی ۔مزید یہ کہ ان کی افزائش کی سہولت کو دیکھتے ہوئے، گھونسلوں کے لیے گزرگاہیں بھی محفوظ کی گئی ہیں . لہٰذا، افزائش نسل کے دوران ان پرندوں کے گھونسلوں کو برقرار رکھنا ، قدیم عمارتوں کی تزئین و آرائش میں ایک تفہیم بن چکی ہے۔درحقیقت،پرندوں کے علاوہ،لوگ دوسری حیات کا بھی تحفظ کر رہے ہیں. حالیہ دنوں ،لوگوں کو باغات میں جھاڑیوں اور شاخوں کے کچھ ڈھیرنظر آ سکتے ہیں۔ باغبان کی غفلت کے بارے میں شکایت کرنے کی جلدی نہ کریں ،کیونکہ یہ ڈھیر جانوروں کے لئے “بینجیس کا ڈھیر یا محفوظ مساکن” ہیں،جس کی تجویز 20 ویں صدی کی 50 کی دہائی میں جرمن گارڈن مینیجر بینجیس برادران نے پیش کی تھی ۔ یہ نہ صرف کیڑے مکوڑوں ، پرندوں اور چھوٹے ممالیہ جانوروں (جیسے ہیج ہوگ ، خرگوش) کو پناہ گاہ فراہم کرسکتے ہیں ، بلکہ شاخیں اور پتے بھی گلنے سڑ نے کے بعد مٹی کی پرورش کرسکتے ہیں اور پودوں کی نشوونما کو فروغ دیتے ہوئے شہر کے ماحولیاتی توازن کو بتدریج برقرار رکھ سکتے ہیں۔”صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں” کے تصور کی رہنمائی میں، لوگوں نے ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے معاشی فوائد اور ماحولیاتی بہتری سے فائدہ اٹھایا ہے. اس عمل میں، ماحولیاتی تحفظ کے امور پیشہ ورانہ اور سائنسی طریقہ کارکی رہنمائی میں مسلسل ارتقاءپذیر ہیں. اب،ماحولیاتی تحفظ صرف پانڈا، سائبیرین شیر اور چیتے جیسے مشہور انواع کا تحفظ نہیں، بلکہ لوگوں کے قریبی ماحولیاتی توازن کا تحفظ بھی لازمی ہے. بینجیس کے ڈھیروں کے علاوہ، لوگوں نے پرندوں کے لئے گھونسلے، کیڑوں کے لئے مساکن بھی بنائے ہیں، اور چھوٹے چھوٹے ویٹ لینڈز ، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کمیونٹیز کی تعمیر جیسے جامع اقدامات کیے ہیں، جس سے لوگوں کے آس پاس شہروں میں حیاتیاتی تنوع کو نمایاں طور پر بہتر بنایا گیا ہے. اب ہمیں خوبصورت پرندے دیکھنے کے لیے چڑیا گھر جانے کی ضرورت نہیں ہے،سڑک کنارے ایک چھوٹے سے گرین لینڈ پر بھی ہمیں پرندوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔اور یہ صرف جانوروں کی انواع میں اضافہ نہیں ، بلکہ پودوں کی اقسام میں اضافے ، زمین کے معیار میں بہتری اور ماحولیاتی توازن کی ترقی کا جامع اظہار بھی ہے۔آج کل ، لوگ آہستہ آہستہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ترقی صرف مواد کا لامحدود مجموعہ نہیں ، بلکہ زندگیوں کے مابین ہم آہنگ نظم ونسق کا قیام بھی ہے۔ یہ نظم و نسق صرف انسانیت کے درمیان تعلقات کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ تمام حیات کے مابین ہم آہنگی کے بارے میں بھی ہے. ہر سال فروری میں بیجنگ سوئفٹ افریقہ سے پہاڑوں ، سمندروں، ریگستانوں کو عبور کرتے ہوئے بالآخر شمال میں واقع قدیم شہر بیجنگ پہنچتے ہیں۔ ان کی ہجرت کے راستے درجنوں ممالک پر محیط ہیں، جو ہمیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کوئی الگ تھلگ عمل نہیں ہے، بلکہ ایک عالمی باہم مربوط تعاون کا کام ہے۔سال بہ سال ،بیجنگ سوئفٹ کی واپسی طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوتی ہے، جو ان کے اپنے پرانے گھونسلوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فطرت اور انسانوں کے درمیان ایک معاہدہ بھی عیاں ہوتا ہے: جب تہذیب ہر زندگی کی حفاظت کرتی ہے، تو انسان حیاتیاتی تنوع سے زیادہ دیرپا طاقت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بیجنگ سوئفٹ بھی ہے

پڑھیں:

پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل  آئی نے تاریخ رقم کردی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) نے طبّی تاریخ میں شاندار سنگِ میل عبور کرلیا ہے۔

ادارے نے جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے صفِ اول کے ٹرانسپلانٹ مراکز میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ یہ کامیابی پاکستان کے شعبۂ صحت کے لیے غیر معمولی پیش رفت اور عالمی سطح پر ملک کی ساکھ میں اضافہ ہے۔

پی کے ایل آئی کے قیام کا خواب 2017 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے دیکھا تھا۔ ان کا مقصد ایسا عالمی معیار کا اسپتال قائم کرنا تھا جہاں عام شہریوں کو گردے اور جگر کے امراض کا علاج جدید سہولتوں کے ساتھ مفت فراہم کیا جا سکے۔ آج وہ خواب عملی شکل اختیار کر چکا ہے اور ہزاروں مریضوں کی زندگیاں بچائی جا چکی ہیں۔

ترجمان کے مطابق ادارے نے اب تک جگر کے 1000، گردے کے 1100 اور بون میرو کے 14 کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کیے ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ 40 لاکھ سے زائد مریض پی کے ایل آئی کی سہولتوں سے استفادہ کر چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد کو عالمی معیار کے مطابق بالکل مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح استطاعت رکھنے والے مریضوں کے لیے جگر کے ٹرانسپلانٹ کی لاگت تقریباً 60 لاکھ روپے ہے، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔

ترجمان نے انکشاف کیا کہ سابق حکومت کے دور میں ادارے کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، فنڈز منجمد کیے گئے اور غیر ضروری تحقیقات میں الجھایا گیا، جس کے باعث ٹرانسپلانٹس کا عمل تقریباً رک گیا تھا، تاہم 2022 میں شہباز شریف کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پی کے ایل آئی کو مکمل بحالی ملی۔

اس کے بعد ادارہ ایک بار پھر اپنے اصل مشن کی جانب لوٹا اور ریکارڈ رفتار سے ٹرانسپلانٹس انجام دیے۔ صرف 2022 میں 211، 2023 میں 213، 2024 میں 259 اور 2025 میں اب تک 200 سے زائد جگر کے کامیاب آپریشنز مکمل کیے جا چکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بیرونِ ملک جگر کا ٹرانسپلانٹ 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر میں ہوتا ہے، جب کہ پہلے ہر سال تقریباً 500 پاکستانی مریض بھارت کا رخ کرتے تھے۔ پی کے ایل آئی نے نہ صرف ان اخراجات کا بوجھ ختم کیا بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی ملک میں محفوظ رکھا۔

یہ منفرد اور مثالی ادارہ اب صرف ٹرانسپلانٹ تک محدود نہیں رہا بلکہ یورالوجی، گیسٹروانٹرولوجی، نیفرو لوجی، انٹروینشنل ریڈیالوجی، ایڈوانس اینڈوسکوپی اور روبوٹک سرجری جیسے جدید شعبوں میں بھی عالمی معیار پر خدمات انجام دے رہا ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی سرپرستی اور حکومت کے تعاون سے پی کے ایل آئی تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اب یہ اسپتال محض ایک طبی ادارہ نہیں بلکہ قومی فخر، خود انحصاری اور انسانیت کی خدمت کی علامت بن چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • انتظامیہ نے حکومت کی ایماء پر کوئٹہ میں جلسے کی اجازت نہیں دی، تحریک تحفظ آئین
  • پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل  آئی نے تاریخ رقم کردی
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پنجاب میں عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں،جماعت اسلامی
  • کوئٹہ کے نوجوان ہائیکر ماحولیاتی تحفظ کے سفیر
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور