بھارتی ہائی کمیشن کا اہلکار ناپسندیدہ سخصیت قرار،فوری پاکستان چھوڑنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کے اہلکار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر 24 گھنٹے میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔ اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ بھارتی اہلکار کو سفارتی آداب کے منافی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارتی ناظم الامور گیتکا سری واستو کو وزارت خارجہ طلب کیا گیا، بھارتی ناظم الامور کو احتجاجی مراسلہ تھمایا گیا۔ شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ بھارتی ناظم الامور کو سفارتی اہلکاروں کو سفارتی آداب کے منافی سرگرمیوں سے روکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار کو ناپسندیدہ قرار دے کر بھارت چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پاکستان میں جعلی اہلکاروں کا بڑھتا نیٹ ورک: جعلی جج کی گرفتاری نے الارم بجا دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (خصوصی رپورٹ / محمد علی فاروق) پاکستان میں جعل سازی کا عفریت خطرناک حد تک پھیل چکا ہے۔ جعلی ڈاکٹروں، پولیس افسران، انسپکٹروں کے بعد اب جعلی جج بھی منظر عام پر آ گیا ہے، جس کی گرفتاری نے پورے نظام کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے۔ یہ بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ عدالتی اور انتظامی نظام کے لیے بھی لمحہ فکریہ بن چکا ہے، جہاں عوام کو حکومتی اداروں کے نام پر بے دریغ لوٹا جا رہا ہے۔ پولیس نے خود کو ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ظاہر کرنے والا ایک جعلساز رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ شخص ایک “فلمی” انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس کے پاس جعلی نیلی بتی، سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی، آٹومیٹک اسلحہ اور پرائیویٹ گن مین بھی موجود تھا۔ وہ لوگوں پر رعب جماتا اور مختلف طریقوں سے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس کے اس ڈرامے کا خاتمہ کر دیا اور اسے گرفتار کر لیا۔یہ واقعہ اپنی نوعیت کا اکیلا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی سے ایسے کئی عناصر کو گرفتار کیا گیا ہے جو جعلی سرکاری اہلکار بن کر عوام کو لوٹ رہے تھے۔ پچھلے دنوں ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں سے کئی ایسے گروہ پکڑے گئے جو خود کو پولیس اہلکار ظاہر کرکے شہریوں سے لوٹ مار کرتے تھے۔ یہ ملزمان عام طور پر پولیس کی وردی یا ایسے لباس پہنتے تھے جو انہیں پولیس اہلکار ظاہر کرے اور ناکے لگا کر یا گھروں میں گھس کر وارداتیں کرتے تھے۔ بعض واقعات میں ایسے ملزمان بھی پکڑے گئے جو خود کو حساس اداروں کا اہلکار ظاہر کرکے لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے اور ان سے مال بٹورتے تھے۔ ان کے پاس اکثر جعلی شناختی کارڈز اور بعض اوقات سرکاری اداروں سے ملتی جلتی گاڑیاں بھی ہوتی تھیں۔ جعلی اہلکاروں کا یہ رجحان صرف پولیس اور عدلیہ تک محدود نہیں، بلکہ صحت، تعلیم اور ٹیکس کے محکموں میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو خود کو سرکاری اہلکار ظاہر کرکے لوگوں سے فراڈ کرتے ہیں۔ یہ جعلی ڈاکٹر، جعلی انسپکٹر اور جعلی سرکاری افسر بن کر عوام کی صحت، تعلیم اور مالیات سے کھلواڑ کرتے ہیں۔اس طرح کے واقعات ملک کے نظام پر سنگین سوالات کھڑے کرتے ہیں،ایک عام شہری اتنی آسانی سے سرکاری اہلکار کا روپ دھار کر کیسے گھومتا رہا۔اسے جعلی دستاویزات، وردیاں، سرکاری اشیاء اور اسلحہ کہاں سے حاصل ہوا۔کیا یہ کسی منظم گروہ کا حصہ ہے جو بڑے پیمانے پر فراڈ میں ملوث ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے عناصر کو روکنے میں کیوں مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔عوام میں بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ جب سرکاری اہلکاروں کے روپ میں ایسے فراڈ ممکن ہیں، تو وہ کس پر اعتماد کریں۔ یہ صورتحال نہ صرف عدالتی اور انتظامی نظام کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرتی اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہے۔پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس معاملے کی تہہ تک پہنچ کر ایسے تمام جعل سازوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنی چاہیے۔ مزید یہ کہ عوام کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی سرکاری اہلکار کی شناخت پر شبہ ہونے کی صورت میں فوری طور پر متعلقہ محکمے یا مددگار 15 پر اطلاع دینی چاہیے۔ حکومت کو بھی سرکاری شناخت اور دستاویزات کے تحفظ کے لیے مزید سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔