Express News:
2025-11-03@07:43:24 GMT

فلم اسٹار رنگیلا کو مداحوں سے بچھڑے 20 برس بیت گئے

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے فلم اسٹار رنگیلا کو مداحوں سے بچھڑے 20 سال گزر گئے۔

یکم جنوری 1937 میں کرم ایجنسی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے محمد سعید خان عرف رنگیلا کا جنم گویا اس دور میں ہوا، جب اسکرین پر سنجیدگی کے سائے گہرے تھے۔ انہوں نے اس سائے کو روشنی میں بدلا، رنگوں سے اجالا کیا اور مزاح کی روح کو زندگی بخشی۔

ایک معمولی پینٹر کی حیثیت سے فلموں کے پوسٹر بناتے بناتے، قسمت نے انہیں خود فلم اسٹار بنا دیا۔ چار دہائیوں تک اپنی منفرد کامیڈی سے محظوظ کرنے والے رنگیلا نے ان گنت کردار نبھائے جو آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔  

رنگیلا نے اپنے وقت کے نامور فنکاروں کے ساتھ کام کیا تاہم شہنشاہ ظرافت منور ظریف کے ساتھ ان کی جوڑی کا چرچہ خوب رہا۔ اپنے فنی سفر کے دوران رنگیلا نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا جبکہ بطور ڈائریکٹر، رائٹر اور پروڈیوسر بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ 

انہوں نے دیا اور طوفان، کبڑا عاشق، رنگیلا، مولا جٹ، عورت راج، بازار حسن اور میڈم باوری جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا۔ اداکار رنگیلا کو فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ سمیت متعدد اعلی اعزازات سے نوازا گیا۔

رنگیلا 2005 میں 68 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ آج ان کی 20ویں برسی منائی جارہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ڈپریشن یا کچھ اور

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔

ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔

اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔

دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔

انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔

ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔

پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔

یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟

دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔

سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔

اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بلبل صحرا گلوکارہ ریشماں کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس بیت گئے
  • شاہ رخ خان نے شوبز کیریئر کے آغاز میں فلموں میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: صائم ایوب اور کوئنٹن ڈی کاک نے کونسے ناپسندیدہ ریکارڈ اپنے نام کرلیے؟
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • اسپینش فٹبال اسٹار لامین یامال ناقابل علاج انجری کا شکار
  • مارشل آرٹس اسٹار راشد نسیم نے مزید 4 نئےعالمی ریکارڈز بنا ڈالے
  • بالی ووڈ کے سُپر اسٹار 89 سالہ دھرمیندر کی طبیعت بگڑ گئی؛ اسپتال میں داخل
  • اسپیس ایکس کا ایک اور کامیاب مشن، 29 اسٹار لنک سیٹلائٹس خلا میں روانہ
  • باہوبلی کے مداحوں کے لیے بڑا سرپرائز، پروڈیوسر نے تصدیق کردی