سریاب ریڈرز کلب: فوڈ ڈلیوری ممکن، تو کتاب گھر گھر کیوں نہ پہنچے
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2025ء) کوئٹہ کے چند بلوچ نوجوانوں کا ایک ایسا پراجیکٹ جاری ہے جس میں لوگوں کو ان کے گھروں میں کتابیں مفت پہنچائی جاتی ہیں۔
بلوچوں کی کتاب دوستی کے بارے وسعت اللہ خان کا ایک جملہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”بلوچ جوتا تو ٹوٹا ہوا پہنے گا مگر کتاب نئی خریدے گا۔
" سریاب ریڈرز کلب کو چلانے والے امجد بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو مختصر ترین الفاظ میں بیان کرنا ہو تو ہم 'کتاب دوست‘ کہہ سکتے ہیں۔ محدود وسائل اور مشکل حالات کے باوجود یہ رضاکار 2020 ء سے نہ صرف سریاب ریڈرز کلب چلا رہے ہیں بلکہ مستونگ، خاران اور نوشکی میں بھی ریڈرز کلب کے سلسلے قائم کر چکے ہیں۔ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سریاب ریڈرز کلب کے بنیاد گزار امجد بلوچ کہتے ہیں، ”مطالعہ میرے لیے انفرادی نہیں سماجی سرگرمی ہے۔
(جاری ہے)
اسکول کے دنوں میں کتابوں سے شوق پیدا ہوا، کمرے میں ان کی موجودگی سے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا، اگر آس پاس کتابیں ہیں تو ایسا لگتا کہ جو کچھ درکار ہے وہ پہلے سے موجود ہے، ایک اطمینان کی کیفیت۔ یہی وجہ ہے کہ اسکول کے دنوں میں ڈیڑھ سو کے قریب کتابیں جمع کر لی تھیں۔"ریڈرز کلب کا قیام
بلوچستان یونیورسٹی میں فلسفے کے طالب علم امجد بلوچ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں ، ”ہم دس دوست تھے، عابد عامر ،بلال، شکور ، تنویر ،شعیب مختیار ،طاہر نعمان، احمد دین اور انیس، جن کے ساتھ مل کر میں نے یہ کام شروع کیا تھا۔
ابتدا میں اپنا مہمان خانہ ہی کتاب گھر تھا پھر ہم سریاب روڈ پر ایک کمرے میں منتقل ہو گئے۔"کورونا وبا کے دنوں میں امجد کے پاس کتابیں موجود تھیں لیکن ان کے دوست پریشان ہوئے۔ یونیورسٹی بند ہونے سے لائبریری جانے کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ تب انہیں احساس ہوا کہ بہت سے لوگ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں مگر وسائل ہیں نہ کوئی کتاب دوست سلسلہ۔
وہ کہتے ہیں، ”تب خواتین کے بارے میں بہت شدت سے احساس ہوا، اگر ہمیں مشکلات ہیں تو ایک روایتی معاشرے میں کتابوں کی شوقین خواتین کیا کرتی ہوں گی۔ تب سوچ لیا کہ کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔"
پانچ سال پہلے سریاب روڈ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ مستونگ، خاران اور نوشکی تک پھیل چکا ہے۔ ان کے پاس تقریباً دو ہزار کتابیں موجود ہیں، جو قومی و بین الاقوامی امور، بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ، بلوچی براہوی اور اردو ادب، فلسفے اور فکشن پر مشتمل ہیں۔
گھر گھر کتاب پہنچانے والے رضاکار تھکتے نہیں
امجد بلوچ کہتے ہیں، ”ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بتانا شروع کیا کہ کوئٹہ شہر میں جسے کتاب درکار ہو وہ ہم سے رابطہ کرے، کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی، اگر خود نہیں آ سکتا تو ہم گھر میں پہنچا دیں گے۔ ایک وقت میں ایک کتاب دی جائے گی، پھر واٹس ایپ گروپ بنا لیا جس میں کتابوں کے ٹائٹل شیئر کیے جاتے۔
"مالی وسائل اور مسائل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ، ”شوق اور وسائل کی کشمکش تو رہتی ہے لیکن کبھی شوق کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ کئی بار جگہ تبدیل کرنا پڑی۔ اب ایک شخص نے مفت دکان دے رکھی ہے، زیادہ تر کتابیں مصنفین اور کتاب سے جڑے مخیر حضرات بھیج دیتے ہیں۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہم لوگ ڈیمانڈ کے مطابق کتابیں پہنچانے کے لیے مختلف گھروں کے چکر لگاتے ہیں۔
ٹائم، انرجی اور وسائل لگتے ہیں لیکن اطمینان ہے کہ جس دھرتی کا رزق کھا رہے ہیں اسے خوبصورت بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور تعبیر کے لیے ایک راستہ چن رکھا ہے۔"خواتین اور مزدور پیشہ افراد تک کتابوں کی رسائی
نوشین کاکڑ کوئٹہ سے بی ایس کرنے کے بعد سریاب روڈ پر واقع اپنے گھر میں بچیوں کو پڑھاتی ہیں۔ وہ سریاب ریڈرز کلب سے مستفید ہونے والی بے شمار خواتین میں سے ایک ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ”میری زندگی میں بہت بوریت تھی، بچیوں کو پڑھانے والے دو گھنٹوں کے علاوہ سارا دن موبائل پر سکرولنگ کرتے گزرتا۔ مجھے لگا میں نفسیاتی مریض بن جاؤں گی۔ یکسانیت مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ ایک دن اسکرولنگ کرتے ہوئے سریاب ریڈرز کلب کا پیج دیکھا اور میری زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔
"ان کے بقول، ”میں گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران کئی کتابیں پڑھ چکی ہوں، تاریخ اور ادب سب سے زیادہ پسند ہے۔ جن لوگوں کو پڑھا ان میں منٹو بہت اچھا لگا۔ میری زندگی پر اس کا اتنا گہرا نقش ہے کہ اگر مجھے موقع ملے تو پورے بلوچستان میں ریڈرز کلب کے جال بچھا دوں۔ میری وجہ سے میری دس بارہ سہیلیاں بھی سریاب ریڈرز کلب کی ممبر بنیں اور مفت میں کتابیں انجوائے کر رہی ہیں۔
"عابد بلوچ کہتے ہیں، ”خواتین کے علاوہ مزدور پیشہ افراد کی کتاب سے محبت نے بہت متاثر کیا۔ موٹر گیراج میں کام کرنے والے، فیکٹریوں کے ملازم، چوکیدار اور اس طرح کے دیگر لوگ ہم سب دوستوں کے دل کے بہت قریب ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں سب سے خاص ہیں، ان کی وجہ سے سماج چلتا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ انہیں کبھی شمار ہی نہیں کیا گیا، جیسے ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہو۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے جڑے ہیں، سادہ، عاجز اور پُرخلوص لوگ جو کتاب چھونے سے پہلے ہاتھ دھوتے اور اپنے دامن سے خشک کرتے ہیں کہ کتاب خراب نہ ہو۔"بلوچستان میں کتاب دوستی کی مضبوط روایات
کوئٹہ کی مشہور جناح روڈ کبھی کتابوں کی دکانوں کے لیے مقبول تھی، یہاں سماجی کارکن اور مطالعے کے شوقین اپنی محفلیں سجاتے اور تبادلہ خیالات کرتے تھے۔
ایک عام رائے ہے کہ یہ رجحان تیزی سے دم توڑ رہا ہے۔ مصنف اور دانشور عابد میر اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”یہ غلط اسٹیٹمنٹ ہے۔ کوئٹہ میں کتابوں کی اتنی دکانیں بند نہیں ہوئیں، جتنی نئی کھلی ہیں۔ پچھلے بیس برسوں میں درجن بھر نئے پبلشرز سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں کتابوں کے پانچ چھ نئے آؤٹ لیٹس بنے ہیں جو صوبہ سمیت ملک بھر میں معروف ہوئے ہیں۔ کوئٹہ کے ایسے پبلشرز بھی ہیں جن کے ہاں سے اسلام آباد، لاہور، کراچی کے معروف ادیبوں کی کتابیں چھپ رہی ہیں۔"آپ پنجاب یا اسلام آباد کی لائبریریوں میں جائیں تو بلوچ طلبہ نمایاں تعداد میں نظر آتے ہے۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ جہاں باقی طلبہ کی اکثریت نصابی کتب بینی اور اسائنمنٹس میں مصروف ہوتی ہے، وہاں بلوچ طلبہ تاریخ اور ادب کی کتابوں میں کھوئے ہوتے ہیں۔
بلوچستان میں کتاب دوستی کی روایت کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے عابد میر کہتے ہیں، ”یہاں علم و تعلیم کا سلسلہ خاصی تاخیر سے شروع ہوا۔ موٹے لفظوں میں کہیں تو باضابطہ تحریری سلسلے کو یہاں ابھی سو سال ہی ہوئے ہیں۔ یوں علم کی دنیا میں ہم ابھی ابتدائی زینوں پہ ہیں۔ ہمیں ابھی بہت آگے بڑھنا ہے، اس لیے ہمارے اندر یہ احساس بھی زیادہ ہے۔
‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''دوسری بات، ہمارے جن اکابرین نے پڑھنے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، وہ سب بیک وقت علم، ادب، سیاست و صحافت سے جڑے ہوئے تھے۔ اس لیے ہمارا ہر شخص پڑھتا ہے، ہر طبقے کا آدمی پڑھتا ہے، ہر شعبے کا آدمی پڑھتا ہے۔ یہ اسی روایت کا تسلسل ہے۔ ‘‘
تیسرا یہ کہ بلوچستان کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور بلوچستان کے دیہات کا مطلب ہے بیسیویں یا انیسویں صدی کا سماج۔ جہاں بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی ناپید ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا نام و نشان نہیں یا یہ اپنی بہت ہی ابتدائی شکل میں ہے۔ اس لیے یہاں علم کا، تربیت کا اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ آج بھی کتاب ہے۔ اس لیے بھی ہمارے سماج کی اکثریت کتاب خواں ہے، کتاب دوست ہے۔"
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی ڈبلیو اردو میں کتابوں کتاب دوست کرتے ہوئے امجد بلوچ کتابوں کی کہتے ہیں میں کتاب کی کتاب اس لیے
پڑھیں:
“فائنل تک رسائی کا موقع اب بھی موجود ہے”
لاہور:اسلام آباد یونائیٹڈ کے سلمان علی آغا نے کہا کہ ٹیم ابھی بھی فائنل کی دوڑ میں شامل ہے اور ایلیمینیٹر میں فتح حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔
کوالیفائر 1 میں سامنا کرنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کے مڈل آڈر بیٹر سلمان علی آغا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی ٹیم سامنے آئے، ہماری کوشش ہو گی کہ انہیں شکست دے کر فائنل کی راہ ہموار کریں۔
بولنگ پر بات کرتے ہوئے آغا نے تسلیم کیا کہ ٹیم کو اس شعبے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ ہماری بولنگ میں کچھ کمزوریاں رہی ہیں،
سلمان علی آغا نے کہا کہ خاص طور پر آخری اوورز میں ہم نے زیادہ رنز دیے، لیکن ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور اسے بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔
بیٹر نے کہا کہ ٹی20 فارمیٹ میں مومنٹم بہت اہم ہوتا ہے کہ اگر ٹیم کا مومنٹم صحیح سمت میں ہو تو نتائج بھی بہتر آتے ہیں، ہم اسی تسلسل کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہیڈ کوچ مائک ہیسن کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مائک ہیسن ایک بہترین کوچ ہیں، وہ ٹیم کا ماحول مثبت رکھتے ہیں اور کھلاڑیوں کو اعتماد دیتے ہیں۔ ان کی کوچنگ سے ٹیم کو فائدہ پہنچا ہے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف میچ میں شکست کے حوالے سے انہوں نے اعتراف کیا کہ چند غلطیوں کی وجہ سے ٹیم کو نقصان ہوا کہ آخری اوورز میں ہم نے غیر ضروری رنز دیے اور بیٹنگ میں وکٹیں جلدی گرنے سے ہمارا پلان متاثر ہوا، جس کا نتیجہ ہمارے خلاف گیا۔
Post Views: 1