اسپیشل ٹیکنالوجی زونز: کاغذی اصلاحات سے ملک ترقی نہیں کر سکتا
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مئی 2025ء) پاکستان کے معروف ماہرمعاشیات قیصر بنگالی کے بقول، '’’ملک میں کئی صنعتی علاقے اور خصوصی اقتصادی زونز پہلے سے ہی ہیں لیکن ان میں عملی طور پر کوئی صنعت قائم نہیں کی گئی، جو اس بات کا مظہر ہے کہ صرف ترامیم کرنے یا ادارے بنانے سے ترقی ممکن نہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے ایک خصوصی انٹرویو میں بنگالی نے مزید کہا، ’’پاکستان میں ادارہ جاتی فریم ورک کی موجودگی اور اس میں بہتری خوش آئند تو ہے لیکن صرف ادارے قائم کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
‘‘ ترقی کی راہ میں بڑی پیش رفت یا محض کاغذی وعدے؟پاکستان کی قومی اسمبلی نے حال ہی میں اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی بل 2025 کثرت رائے سے منظور کیا ہے، جس کے تحت آزاد اراکین کی تقرری وزیراعظم کی منظوری اور متعلقہ سیکرٹری کی سفارش سے ہو گی۔
(جاری ہے)
پاکستانی حکومت کا دعوی ہے کہ یہ ترمیمی بِل پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کے فروغ اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے نہایت اہم ہے۔
لیکن کئی غیر حکومتی ماہرین کا خیال ہے کہ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی (ایس ٹی زیڈ اے) کی کامیابی صرف کاغذی اصلاحات سے ممکن نہیں بلکہ یہ شفاف، مؤثر اور مربوط نظام عملداری سے مشروط ہے۔ سینیٹ سے بھی منظور ہو جانے والا یہ بل اب صدرِ مملکت کی منظوری کا منتظر ہے۔
ٹیک ویلی ایبٹ آباد کے سربراہ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ صرف قانون سازی کافی نہیں بلکہ ایک مؤثر اور قابلِ عمل ماحولیاتی ڈھانچے کی تشکیل بھی ناگزیر ہے۔
ان کے مطابق ماضی میں اصلاحات کے باوجود پالیسیوں کے تسلسل اور مؤثر نفاذ کی کمی مسائل کا باعث بنتی رہی ہے۔ اگر موجودہ ترامیم شفافیت، کارکردگی اور پیش بینی کے ساتھ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کو مضبوط بنیاد فراہم کریں، تو یہ دفتری رکاوٹیں کم کر کے سرمایہ کاری اور ترقی کے لیے سازگار ماحول مہیا کر سکتی ہیں۔
کوئی نمایاں بہتری نہیں؟کینیڈا میں مقیم بیرونِ ملک پاکستانی سرمایہ کار رانا احمد نے کہا کہ حکومت ماضی سے ہی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کی کوشش کرتی رہی ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی نے ان کے قومی جذبے کو مزید تقویت بخشی ہے، جو حکومت کے لیے پالیسی سازی کا ایک سنہری موقع ہے۔
تاہم رانا احمد کا کہنا ہے کہ گوادر میں گزشتہ پندرہ برسوں سے 'ون ونڈو آپریشن‘ زمینوں کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن اور پٹواری نظام کے خاتمے جیسے دعوے تو کیے جا رہے ہیں لیکن زمینی حقائق میں کوئی نمایاں بہتری دکھائی نہیں دیتی ہے۔
ملکی معیشت کے لیے کیا ضروری ہے؟ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے مضبوط تعلیمی نظام، تحقیقی بنیاد اور شفاف و مؤثر ادارہ جاتی حکمتِ عملی ضروری ہے، جو فی الحال کمزور ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس کا غیر مناسب ڈھانچہ سروس انڈسٹری کو نقصان پہنچاتا ہے۔ عمر فاروق کے بقول خصوصی ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی سے وابستہ اصلاحات کی کامیابی کا دارومدار زمینی سطح پر فوری مربوط اور مؤثر عملی اقدامات پر ہے۔
سرمایہ کاری کے لیے ماحول کیسے سازگار ہو سکتا ہے؟عمر فاروق کا اصرار ہے کہ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کی کامیابی کے لیے تین عوامل نہایت اہم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان میں پہلا اہم ایکشن ایک فعال اور مؤثر "ون ونڈو" نظام کا قیام ہے، جو وفاقی و صوبائی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بناتے ہوئے سرمایہ کاروں کو دفتری رکاوٹوں سے پاک سہولیات فراہم کرے۔عمر فاروق کے مطاق دوسرا اہم نکتہ بنیادی ڈھانچے کی فوری بہتری ہے، جس میں تیز رفتار انٹرنیٹ، بلا تعطل بجلی اور جدید سہولیات کا ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کا کہ اس حوالے تیسرا اہم جزو پالیسیوں میں تسلسل اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی ہو گا تاکہ ٹیکس اور زرمبادلہ سے متعلق مستحکم پالیسیوں کے ذریعے مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے دو بنیادی ضروریات ہیں، سستی اور بلاتعطل بجلی، اور تیز رفتار، بلا رکاوٹ انٹرنیٹ کی فراہمی، جس میں سکیورٹی اداروں کی غیر ضروری مداخلت نہ ہو۔
ان کے بقول جب تک یہ بنیادی سہولیات مہیا نہیں کی جائیں گی، سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ٹیکنالوجی یا سروس سیکٹر مستحکم ہو سکتا ہے۔ چھوٹے کاروبار ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں؟عمر فاروق کے مطابق پیچیدہ سرکاری طریقہ کار اور بلند اخراجات چھوٹے کاروباروں کو حکومتی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بل پاکستان کے لیے عالمی ڈیجیٹل معیشت میں جگہ بنانے کا تاریخی موقع ہے لیکن محض قانون سازی کافی نہیں۔انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو زمینی حقائق کو سمجھ کر فوری اور جامع اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ ڈیجیٹل انقلاب صرف خواب ہی رہے گا۔
رانا احمد نے ابھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ قوانین کو بنانا اور اس میں بہتر ی لانا ضروری ہے مگر اس سے بھی اہم عنصر مؤثر عملدرآمد، شفافیت اور کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ ممکن ہو جائے تو بیرونی سرمایہ کاری پر انحصار ختم ہو گا اور ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری عمر فاروق نے کہا کہ ضروری ہے انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-6
میر بابر مشتاق
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…
کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔
صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔
کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔