پی ٹی آئی ٹھوس مینڈیٹ اور یقین دہانیوں کے ساتھ مذاکرات کرے تو ہم تیار ہیں، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور سینیٹ خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں پی ٹی آئی کی حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی ٹھوس منڈیٹ اور یقین دہانیوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کے باوجود ’’نہ تو سیاسی عمل رکا ہے اور نہ ہی معیشت کا پہیہ جام ہوا ہے۔‘‘ بانی پی ٹی آئی کے ٹیسٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ عدالتی کارروائی کا حصہ ہے، جس کی پاسداری ہر صورت میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے عمران خان کی موجودہ قانونی پیچیدگیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’عمران خان کو اپنی رہائی کے لیے عدالتی عمل سے گزرنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے پی ٹی آئی پر ماضی میں پاکستان کو ’’دیوالیہ‘‘ کرنے کی کوششوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف کو خطوط لکھ کر ملک کو معاشی بحران میں دھکیلنے کی کوشش کی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’یہ پی ٹی آئی کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔‘‘ سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دفاعی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے نہ صرف بھارت کے ساتھ جنگ جیتی ہے بلکہ سفارت کاری کے میدان میں بھی بہترین مہارت کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اسے فوجی بجٹ نہیں بلکہ ملکی سلامتی اور قومی دفاع کا بجٹ کہنا چاہیے جس میں اضافہ ناگزیر ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف سے متعلق سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ نواز شریف پوری طرح حکومت میں موجود ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خود کہا کہ وہ کوئی بڑا فیصلہ نواز شریف کی مشاورت کے بغیر نہیں لیتے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں نواز شریف کی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے وہ پوری طرح متحرک ہوتے ہیں، ایک سیاسی مدبر کے طور پر نواز شریف اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔نواز شریف جیسے بڑے قد کے لیڈر کیلئے ضروری نہیں کہ وہ روز میڈیا پر آ کر اپنا نظریہ پیش کریں۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی ا ئی نواز شریف نے کہا کہ ہوئے کہا انہوں نے
پڑھیں:
استنبول مذاکرات: عبوری رضامندی اور خطے میں امن کی جانب پیش قدمی
گزشتہ 6 روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیشرفت حاصل کرنا تھا۔
افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا، اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشتگرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا۔
یہ مذاکرات کئی مواقع پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔
مزید پڑھیں:افغان طالبان کی اندرونی دھڑے بندیوں نے استنبول مذاکرات کو کیسے سبوتاژ کیا؟
تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔
آج ہونے والے مذاکرات کے دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
01: فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دوحا میں طے شدہ فائربندی کو پختہ بننے کے قصد سے مذاکرات کیے۔
02: تمام پارٹیوں نے سیز فائر کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا (تاہم یہ رضامندی مشروط ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگردی نہ ہو: اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے)۔
مزید پڑھیں: اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدے کے بعد کون سا احتجاج؟ خواجہ آصف کی ٹی ایل پی پر تنقید
03: مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوگی۔
04: ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور ویریفیکیشن میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی کرنے والی پارٹی پر سزا عائد کرنے کا بھی اختیار رکھے گا۔
05: ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان، فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں اطراف کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
مذاکرات کے دوران پاکستان کا وفد دلائل، شواہد اور اصولی مؤقف کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ پاکستانی وفد نے جس استقامت، بصیرت اور منطقی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کیے، وہ پیشہ ورانہ کمال کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آخر کار عوام کے مفاد کی جیت ہوئی اور افغان وفد ایک عبوری مفاہمت پر آمادہ ہونے پر مجبور ہو گیا۔
اس تمام پس منظر میں جو عبوری پیشرفت حاصل ہوئی ہے، اسے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے عوام بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عالمی سیکیورٹی کے لیے ایک مثبت سنگِ میل قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو دشمنوں کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں، الزامات اور تخریبی ذہنیت کے باوجود دلیل، تدبر اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے جو بات ہوگی تحریری ہوگی اور ترکیہ اور سعودی عرب کی گواہی میں ہوگی، وزیر دفاع خواجہ آصف
پاکستان نے جس سنجیدگی، فہم و فراست اور قومی وقار کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ ساتھ ہی ترکیہ اور قطر جیسے برادر ممالک کی میزبانی اور ثالثی نے اس عبوری کامیابی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح اعلان ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتا ہرگز نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس مؤقف پر یکساں، پُرعزم اور مکمل طور پر متحد ہے، اور اپنی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہر داخلی و خارجی خطرے کا مقابلہ بھرپور تیاری، وسائل اور عزم سے کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول مذاکرات افغانستان پاکستان ترکیہ قطر