خواتین ہوشیار! عمومی جسمانی تکالیف کو نظرانداز کرنا بھاری پڑ سکتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں خواتین کی صحت کے کئی پہلو، خصوصاً دل سے متعلق مسائل یا تو مکمل طور پر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں یا پھر انہیں معمولی سمجھ کر وقتی علاج پر ٹال دیا جاتا ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ خواتین خود بھی اپنی علامات کو اکثر ذہنی دباؤ، کام کی زیادتی یا ہارمونی تبدیلیوں سے جوڑ کر سنجیدگی سے نہیں لیتیں لیکن یہی لاپروائی اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ دل کے امراض صرف مردوں کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر خواتین میں بھی دل کی بیماریاں سب سے زیادہ اموات کی وجہ بن رہی ہیں۔Journal of the American College of Cardiology کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور دنیا بھر میں دل کی بیماریاں خواتین کے سب سے بڑے قاتلوں میں شامل ہیں۔
دل کی صحت کو خواتین کے جسمانی ڈھانچے، ہارمونل سسٹم اور مخصوص طرز زندگی کے ساتھ جوڑ کر سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وقت پر تشخیص اور علاج ممکن ہو سکے۔ ڈاکٹر جین مک سوئینی، جو یونیورسٹی آف آرکنساس (امریکا) میں نرسنگ ریسرچ کی پروفیسر ہیں، کہتی ہیں کہ تولیدی نظام کے بعد دل کا نظام وہ دوسرا جسمانی نظام ہے جس میں مرد و عورت میں سب سے زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق نہ صرف جسمانی ساخت میں ہوتا ہے بلکہ اس سے علامات، تشخیص اور علاج کے طریقہ کار پر بھی اثر پڑتا ہے۔
خواتین کے دل کی شریانیں نسبتاً چھوٹی ہوتی ہیں اور خون کی گردش کا نظام بھی مختلف انداز میں کام کرتا ہے۔ دوسری طرف امریکی ڈاکٹر جین مورگن، جو ایک معروف کارڈیالوجسٹ اور پیڈمنٹ ہسپتال اٹلانٹا کی کووڈ ٹاسک فورس کی کلینیکل ڈائریکٹر ہیں، اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ دل کی بیماریوں کی تشخیص میں صنفی تعصب بدستور موجود ہے، جس کا نقصان خواتین کو اٹھانا پڑتا ہے۔
زیادہ تر لوگ ہارٹ اٹیک کو صرف سینے میں شدید درد، بائیں بازو میں جھٹکا اور غیرمعمولی پسینے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ علامات زیادہ تر مردوں میں پائی جاتی ہیں مگر خواتین میں علامات اکثر مختلف، مبہم اور کم شدت کی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے دل کے دورے اکثر تاخیر سے پہچانے جاتے ہیں، جس کے باعث موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لہذا یہاں ہم بالخصوص خواتین کے لئے ایک معلوماتی اور تحقیقی تحریر پیش کرنے جا رہے ہیں، جو آپ کو ایسی 9 اہم علامات کے بارے میں بتاتی ہے، جن کا تعلق خواتین میں دل کے دورے یعنی ہارٹ اٹیک سے ہے۔ یہ تحقیق رواں برس حال ہی یعنی گزشتہ سے پیوستہ ماہ شائع کی گئی ہے، جس میں نہ صرف علامات کا ذکر کیا گیا بلکہ ان علامات کی وجہ سے دل کی بیماری کا شکار ہونے والے افراد کے تجربات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ تو چلیے اب ان کے بارے میں جانتے ہیں۔
1۔ بازو میں غیر معمولی کیفیت یا سن ہونا
کئی خواتین دل کے دورے سے پہلے بازو میں جھنجھناہٹ یا سن ہونے کا احساس بیان کرتی ہیں۔ 40 سالہ امریکن اسکول کاؤنسلر ٹارا رابنسن، جنہیں ایک ہی ہفتے میں تین بار ہارٹ اٹیک ہوا، بتاتی ہیں کہ مجھے لگا جیسے میرا بازو سو گیا ہو، شروع میں یہ کیفیت چند منٹ رہتی، پھر غائب ہو جاتی۔ ایک اور خاتون للی روچا نے اپنے بائیں بازو، جبڑے اور سینے میں عمومی تکلیف محسوس کی، جسے وہ سفر کی تھکن سمجھتی رہیں۔ ان کا دل کا دورہ بھی اسی خاموش انداز میں ہوا۔
لہذا بازو کی غیرمعمولی کیفیت یا سن ہونے کے احساس کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کی تھکا دینی گھریلو خدمات کے باعث انہیں جسم میں مختلف دردوں کا سامنا رہتا ہے لیکن بازو کی مذکورہ کیفیت کی صورت میں فوری طور پر معالج سے رجوع کیا جانا چاہیے۔
2۔ جبڑے میں شدید درد
جبڑے میں درد اکثر دانتوں کا مسئلہ یا ٹی ایم جے (ٹمپورومینڈیبولر جوائنٹ) کی خرابی سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ دراصل دل کی طرف سے ریفرڈ پین یعنی منتقل ہونے والی درد ہو سکتی ہے۔
نیویارک کے ایک مشہور ادارے میں بحیثیت کارڈیالوجست فرائض سرانجام دینے والی ڈاکٹر سوزین اسٹینبام بتاتی ہیں کہ یہ درد دراصل دل سے پیدا ہوتا ہے، مگر جبڑے میں محسوس ہوتا ہے۔ ایک مریضہ نے پہلے دانتوں کے ڈاکٹر سے علاج کروایا، پھر دانت نکلوایا، لیکن جب مسئلہ ختم نہ ہوا، تب ہارٹ اٹیک کے بعد اصل تشخیص ہوئی۔
3۔ متلی یا قے کی کیفیت
ایک تحقیق کے مطابق، 55 سال سے کم عمر میں ہارٹ اٹیک کا سامنا کرنے والی دو تہائی خواتین نے معدے میں درد، متلی یا اپھارہ محسوس کیا۔ ایک امریکی خاتون ٹارا رابنسن کہتی ہیں دل کا دورہ پڑنے کے دن مجھے قے کی شدید خواہش ہو رہی تھی۔ ایسی علامات اکثر ہاضمے کے مسئلے یا خوراک کی خرابی سے جوڑ دی جاتی ہیں، جو خطرناک ہو سکتا ہے۔ لہذا یہ ضرورری نہیں قے آنے کی وجہ صرف معدے کی تکلیف ہو بلکہ یہ ہارٹ اٹیک جیسے جان لیوا مرض کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔
4۔ سانس لینے میں دشواری یا گھٹن کا احساس
دل کے کمزور ہونے کی وجہ سے جسم کو آکسیجن کی مناسب مقدار نہیں ملتی، جس کے باعث سانس پھولنے لگتی ہے۔ لیٹنے یا سیڑھیاں چڑھنے پر اگر سانس پھولنے لگے، تو یہ دل کی بیماری کی علامت ہو سکتی ہے۔ ماہر امراض قلب ڈاکٹر سوزین کہتی ہیں جب دل خون کو صحیح طور پر پمپ نہیں کر پاتا تو پھیپھڑوں میں پانی بھرنا شروع ہو جاتا ہے، جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے، جس سے نہ صرف ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بلکہ یہ پھیپھڑوں کے دیگر امراض کے جنم کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
5۔ غیر معمولی تھکن کا احساس
ڈاکٹر سوزین اسٹینبام بتاتی ہیں کہ خواتین عموماً دل کے دورے کی علامات کو اس لیے نظرانداز کر دیتی ہیں کیونکہ ہم ماہواری کے دوران باقاعدگی سے جسمانی تکلیف محسوس کرنے کی عادی ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اصل نکتہ یہ ہے کہ ہم روزمرہ کے کام جو معمول کے مطابق آسان ہوتے ہیں، اگر وہ اچانک مشکل ہو جائیں یا ان کے دوران جسمانی علامات ظاہر ہوں، تو یہ چیک کروانے کا وقت ہے۔
روبسن کو یاد ہے کہ جب وہ شاور کی صفائی کے بعد اپنے کمرے تک رینگ کر واپس گئیں کیونکہ وہ خود کو بے حد کمزور محسوس کر رہی تھیں اور صرف سونا چاہتی تھیں۔ ڈاکٹر میک سوینی ایک مریضہ کی مثال دیتی ہیں جو اتنی تھکی ہوئی تھیں کہ وہ اپنا بستر بھی مکمل طور پر لگا نہ سکیں۔ ڈاکٹر میک سوینی، جو امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے ’’خواتین اور امراضِ قلب‘‘ کے شعبہ سے منسلک ہیں، کہتی ہیں کہ ایسا ہر خاتون کے ساتھ شدت سے نہیں ہوتا، لیکن اگر تھکن وقت کے ساتھ بڑھتی جائے، یا نیند کے باوجود آپ خود کو بہتر محسوس نہ کریں، تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
6۔ کمر کے اوپری حصے میں درد
یہ درد کندھوں کے درمیان محسوس ہوتا ہے اور بعض اوقات تیز چھبنے جیسا ہوتا ہے۔ ہارٹ اٹیک کا نشانہ بننے والی مریضہ ٹارا رابنسن کہتی ہیں کہ مجھے ایسا لگا جیسے دل کے پیچھے کوئی چیز چبھ رہی ہو۔
7۔ سینے میں دباؤ، جکڑن یا عجیب سا احساس
بعض خواتین اسے بوجھ یا جھرجھری کی کیفیت کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ للی روچا نے اسے برقی رو جیسا احساس قرار دیا، جو چند منٹ آ کر غائب ہو جاتا تھا اور بعدازاں پھر یہی احساس ان کے لئے ہارٹ اٹیک کا باعث بن گیا۔
8۔ فلو جیسی علامات
اکثر خواتین تھکن، بخار یا جسم درد کو وائرل انفیکشن سمجھ کر خود ہی دوا لے لیتی ہیں۔ یہ علامات اگر معمول سے مختلف ہوں یا چند دنوں میں نہ جائیں، تو یہ دل کی بیماری کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔
9۔ بلند فشار خون اور حمل کی پیچیدگیاں
اگر حمل کے دوران پری ایکلیمپسیا یعنی ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس ہو، تو ماہرین کے مطابق دل کی بیماری کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے زیادہ تر خواتین بچے کی پیدائش کے بعد کارڈیالوجسٹ سے رابطہ نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مونٹانا کہتی ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر خواتین میں دل کی ناکامی کا خطرہ تین گنا بڑھا دیتا ہے، خاص طور پر اگر اس کے ساتھ ہارمونی تبدیلیاں یا قبل از وقت بچے کی پیدائش ہو۔
دنیا کے معروف طبی ماہرین کی رائے کے مطابق خواتین کو خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر جین مورگن بتاتی ہیں کہ خواتین کی بہتر تشخیص اس وقت ممکن ہوتی ہے جب وہ کسی خاتون کارڈیالوجسٹ کے پاس جائیں۔ بدقسمتی سے، 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق صرف 22 فیصد جنرل فزیشن اور 42 فیصد کارڈیالوجسٹ خواتین میں دل کے مرض کا صحیح اندازہ لگا پاتے ہیں۔ اگرچہ دل کی بیماری ایک خاموش قاتل ہے، لیکن آگاہی اور بروقت تشخیص کے ذریعے اس کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی جسمانی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لیں، ہر غیر معمولی علامت کو ذہنی دباؤ نہ سمجھیں اور اگر کوئی بھی ایسی علامت مسلسل رہے تو فوراً طبی مشورہ لیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دل کی بیماری خواتین میں دل کے دورے خواتین کے کہ خواتین کے مطابق سکتا ہے ہوتا ہے ہو جاتا کے ساتھ جاتا ہے کا خطرہ کے بعد کی وجہ
پڑھیں:
موجودہ ترقیاتی ماڈل 25 کروڑ آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، گورنر اسٹیٹ بینک
اسلام آباد:اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمدنے کہا ہے کہ پاکستان کا موجودہ معاشی ترقیاتی ماڈل 25 کروڑسے زائدآبادی کے تقاضے پورے کرنے کے قابل نہیں رہا،جبکہ مستقل بنیادوں پر مستحکم پالیسیوں کاجاری رہنابھی نہ توممکن ہے اور نہ ہی معیشت کیلیے فائدہ مند، وہ پاکستان بزنس کونسل کے ’معیشت پر مذاکرات‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔
گورنر نے بتایا کہ پاکستان کی معاشی نموگزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل تنزلی کاشکار ہے،جو 30 سال کے اوسط 3.9 فیصدسے کم ہوکرگزشتہ پانچ سال میں صرف 3.4 فیصد پر آگئی ہے۔
ان کے مطابق کاروباری چکر مختصر ہو رہے اور موجودہ ماڈل ملک کوطویل مدتی استحکام فراہم نہیں کرسکتا، طویل عرصے سے جاری اقدامات نے عوام اورکاروباری طبقے کوبھاری ٹیکسوں اور مہنگی توانائی کے ذریعے متاثرکیا ہے۔
جبکہ حکومتی اخراجات پر مؤثرکنٹرول نظر نہیں آتا، موجودہ حالات میں بے روزگاری 21 سال کی بلند ترین سطح 7.1 فیصد پر پہنچ چکی ہے،جبکہ عالمی بینک کے مطابق غربت کی شرح 44.7 فیصد ہے۔
گورنر نے واضح کیا کہ ملک ایک ’’انفلیکشن پوائنٹ‘‘ پرکھڑاہے، جہاں فوری طور پر قلیل مدتی استحکام سے ہٹ کر دیرپا اور جامع معاشی نموکی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے پالیسی سازوں کو طویل المدتی اصلاحات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کاروباری طبقے کوخبردارکیاکہ وہ مختصر منافع کے لالچ میں مستقبل کی مسابقت کوقربان نہ کریں،نجی شعبے کو اندرونی مارکیٹ پر انحصار چھوڑکر عالمی منڈیوں میں مسابقت کیلیے آگے آنا ہوگا۔
اپنی پیداواری صلاحیت جدید خطوط پر استوارکرنا ہوگی اور غیر رسمی شارٹ کٹس کے بجائے حقیقی مسابقت اختیارکرنا ہوگی۔
جمیل احمد کے مطابق اسٹیٹ بینک نے معیشت کو دوبارہ ’’بوم اینڈبسٹ‘‘ کے چکر میں جانے سے روکنے کیلیے پالیسی سازی کومزید پیشگی تجزیوں پر مبنی بنا دیا ہے، مہنگائی کم ہوچکی ہے اور آئندہ برسوں میں 5 تا 7 فیصدکے ہدف کے اندر رہنے کا امکان ہے۔
حکومت پچھلے تین برسوں سے مسلسل اپنی پرائمری سرپلس کے اہداف کو نہ صرف پوراکر رہی ہے،بلکہ انہیں عبور بھی کیا ہے،جس سے مالیاتی استحکام میں بہتری آئی ہے۔
گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ دو برس میں حکمتِ عملی کے تحت مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر ڈالرخرید کر زرِمبادلہ ذخائر کو مضبوط کیا ہے۔
جمیل احمد نے زور دیا کہ پاکستان کو ہنگامی بنیادو ں پر مضبوط، پائیدار اور بیرونی دنیا سے مربوط معاشی نموکے ماڈل پرمنتقل ہونا چاہیے، ملک بار بار معاشی نمو اور استحکام کے تکلیف دہ اقدامات کے ادوارسے گذر چکا، موجودہ حالات طویل مدتی تبدیلی لانے کاحقیقی موقع فراہم کرتے ہیں ۔
گورنر نے وضاحت کی کہ موجودہ استحکام کامرحلہ گذشتہ ادوارسے کیوں مختلف ہے،اب کلی معاشی نظم و ضبط ہم آہنگ ،مستقبل بین زری اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے مستحکم ہواہے اور اسی کی مددسے اس قبل از وقت نرمی سے بچاجاسکاہے،جو ماضی میں استحکام کومتاثرکرتی رہی ہے۔
سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایاکہ پاکستان کی باضابطہ معیشت کاحجم تقریباً 350 ارب ڈالر ہے،مگر اسمگلنگ اور بغیر ٹیکس چلنے والی غیر رسمی معیشت کوشامل کیاجائے تو مجموعی حجم تقریباً 700 ارب ڈالر بنتاہے۔