اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ذوالحج کاچاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج اسلام آباد میں ہو گا۔

سپارکو کے مطابق آج چاند کے نظر آنے کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں ،کیونکہ 27 مئی کو غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر 11 گھنٹے ہوگی۔

سپارکو کے مطابق یکم ذو الحج 29 مئی کو متوقع ہے۔اس حساب سے ملک بھر میں عیدالاضحٰی 7 جون کو ہونے کا امکان ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب میں بھی ذو الحج کا چاند دیکھنے کے لیے اجلاس آج ہوگا۔

سعودی ماہر فلکیات کے مطابق آج چاند نظر آنے کا امکان ہے ۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے فلکیاتی مرکز کا بھی کہنا ہے کہ آج ذوالحج کا چاند آج نظر آنے کا امکان ہے۔

متحدہ عرب امارات میں عیدالاضحیٰ 6 جون کو ہو سکتی ہے ۔

پنجاب میں 27 سے 31 مئی کے دوران آندھی اور بارشوں کا الرٹ جاری

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے

آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے WhatsAppFacebookTwitter 0 11 July, 2025 سب نیوز

تحریر: مصطفےٰ صفدر بیگ

پولیس نے ڈی ایچ اے کراچی کے فلیٹ کی چابیاں مرکزی تالے میں گھمائیں تو دروازے کے پیچھے جو منظر کھلا، وہ کسی ہارر فلم کا سین نہیں بلکہ پورے معاشرے کا اپنا چہرہ تھا۔ حمیرا اصغر علی کی نیم گلی سڑی، ناقابلِ شناخت لاش اپنے ہی صوفے پر اس طرح پڑی تھی جیسے کوئی ٹوٹی ہوئی گڑیا ہو۔ نو ماہ! جی ہاں پورے نو ماہ تک یہ “گڑیا” ایسے ہی پڑی رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کا جسم اندھیرے کمرے میں وقت کے ساتھ سڑتا رہا۔ بجلی کٹ چکی تھی، فریج میں کھانا پہلے ہی سڑ چکا تھا اور باہر دنیا اپنی دوڑ میں مصروف تھی۔ یہ المیہ صرف ایک موت نہیں بلکہ جدید انسان کی سب سے بڑی شکست ہے۔ یہ تنہائی کی وہ خوفناک موت ہے جس میں زندہ لوگ مردوں کو بھی یاد نہیں رکھتے۔


سوچیے کہ نو ماہ میں ایک بچہ رحم مادر میں پورا وجود پکڑ لیتا ہے اور نو ماہ سے بھی کم عرصے میں فصلیں پک کر تیار ہو جاتی ہیں مگر حمیرا کے لیے نو ماہ وہ عرصہ تھا جب اس کا فلیٹ اس کی قبر بنا رہا اور کوئی پوچھنے تک نہ آیا۔ پولیس رپورٹس بتاتی ہیں کہ فریج میں موجود اشیاء کی ایکسپائری اکتوبر 2024 کی تھی۔ فلیٹ مالک کا آخری رابطہ بھی اسی عرصہ میں ہوا تھا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ہمارے اجتماعی ضمیر پر کُند چھری سے رقم کی گئی ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں انسانوں کی اہمیت ان کے فون سے کیے جانے والے آخری میسج کی تاریخ تک ہی ہوتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں لاکھوں لوگ سڑکوں پر چپکے رہتے ہیں وہاں ایک عورت اپنے گھر میں گل سڑ گئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ کیا یہ شہر نہیں، کوئی جنگل تھا؟


حمیرا کے والد اور بھائی کا بیان پڑھیں، جو کہتے ہیں کہ ہم پہلے ہی لاتعلق تھے، اسے عاق کردیا تھا۔ یہ وہ جملے ہیں جو جدید خاندانی ڈھانچے کی کھوکھلی بنیادوں کو دھڑام سے گرا دیتے ہیں۔ حمیرا کے پرانے انٹرویو دیکھیں تو وہ والدہ کی سپورٹ کا ذکر کرتی ہے جو اس کی واحد پناہ گاہ تھی۔ ماں کے بعد؟ بھائی اور باپ کا دباؤ، پروڈکشن ہاوسز کی جانب سے وزن کم کرنے کی شرط اور فیملی کا مسترد کرنا حمیرا کو تنہائی کی گود میں لے گیا۔ یہ المیہ صرف اس کا نہیں، ہمارے معاشرے میں لاکھوں حمیرائیں زندہ قبروں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ جب تک وہ “فیملی آنر” برقرار رکھتی ہیں، سب انہیں گلے لگاتے ہیں۔ جب وہ اپنے خواب چنتی ہیں تو رشتے کفن پہن لیتے ہیں۔ کیا رشتوں کی یہی تعریف ہم نے سیکھی ہے؟


آج ہر چینل حمیرا پر خصوصی پروگرام چلا رہا ہے۔ اس کے پرانے انٹرویوز، زندگی کے راز، “پُراسرار موت” کے تھیمر سب چلائے جارہے ہیں مگر ایک سوال کسی نے نہیں پوچھا کہ “جب وہ زندہ تھی، تنہائی سے اندر ہی اندر گھُٹے چلے جا رہی تھی تو کیا کسی ساتھی اداکار، اداکارہ، پروگرام اینکر یا پروڈیوسر نے اسے فون کیا؟ ہمارے میڈیا کلچر کا المیہ یہی ہے کہ یہ لاشوں کو ریٹنگز میں تبدیل کرتا ہے لیکن یہ زندہ انسانوں کو نہیں دیکھتا۔ یاد رکھیں کہ حمیرا کی موت کو نو ماہ ہوچکے تھے، مگر جب سے حمیرا کی لاش ملی ہے، میڈیا کے لیے یہ ایک نئی “سیل ایبل پراڈکٹ” اور نیا اسکینڈل بن چکا ہے۔ کیا یہ منافقانہ روش نہیں کہ ہم مُردوں کو تو شیئر کرتے ہیں لیکن زندوں کو نظرانداز کرتے ہیں؟


فیس بک پر آج #حمیرا_اصغر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ہیش ٹیگز، آنسوؤں کے ایموجیز اور “اللہ مغفرت کرے” کے پیغامات شیئر ہورہے ہیں لیکن کل تک کون تھی حمیرا؟ کسے خبر تھی؟ یہ جعلی سوگ درحقیقت ہماری اپنی بے حسی کو چھپانے کا طریقہ ہے۔ ہم پوسٹ “شیئر” کرکے اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے محلے یا آپ کے فلیٹ کمپلیکس میں کوئی تنہا بوڑھا، کوئی غیر شادی شدہ خاتون یا کوئی بیمار شخص ایسا تو نہیں جو حمیرا بننے کے راستے پر گامزن ہو؟ ہم سب جانتے ہیں مگر آنکھیں بند کر لیتے ہیں کیونکہ جدید زندگی کا اصول ہے کہ اپنا کام، اپنا گھر اور بس اپنی دنیا اور باقی سب تماشا۔


حمیرا کا فلیٹ ڈیفنس میں تھا جو پاکستان کا امیر ترین علاقہ کہلاتا ہے مگر کیا کسی پڑوسی کو خیال آیا کہ اس کے گھر سے بدبو کیوں آرہی ہے؟ دروازہ کئی ماہ سے کیوں بند ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہماری اجتماعی روح کو چھلنی کر دیتا ہے۔ ہم نے “پڑوسی” کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ آج پڑوسی وہ ہے جو آپ کے وٹس ایپ گروپ میں ہو اور آپ کی فیس بک یا انسٹاگرام پوسٹ پر لائک کرے۔ حقیقی پڑوسی تو پردے کی چیز بن کر رہ گیا۔
حمیرا کے انٹرویو دیکھیں، وہ کہتی ہے کہ میں چیلنجز سے لڑتی رہی، یہ میرے خون میں ہے مگر جب اصل چیلنج آیا یعنی تنہائی، معاشی دباؤ اور خاندانی بے رخی، تو اس کے “فن” نے اسے نہیں بچایا لیکن اب؟ اب میڈیا میں اسے “ہیروئن” بنا دیا جائے گا اور “تنہائی کے خلاف” مہم چلے گی مگر یہ سلسلہ رُکے گا نہیں۔ کل کوئی دوسری حمیرا گھُٹ گھُٹ کر مرے گی تو پھر وہی کہانی دہرائی جائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے حل ڈھونڈنے بند کردیے ہیں، ہم صرف “مردہ ہیرو کلچر” میں یقین رکھتے ہیں، ہم زندہ انسانوں کو بچانے میں یقین نہیں رکھتے۔ آخر کیوں؟


حمیرا کی موت کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی قتل ہے۔ ہم سب اس کے قاتل ہیں۔ وہ خاندان جس نے حمیرا کو عاق کردیا تھا، وہ پڑوسی جنہوں نے بدبو کو نظرانداز کردیا تھا، وہ لینڈ لارڈ جسے کرایے کے سوا اور کسی بات سے سروکار نہ تھا، وہ میڈیا جس نے زندہ حمیرا کو “سیلبریٹی” نہ سمجھا، وہ ریاست جس کے پاس تنہا شہریوں کا ڈیٹا بیس تک نہیں اور آپ اور میں، جو اپنے کسی جاننے والے کو برسوں نہیں ملتے، نہ ان کی کوئی خیر خبر رکھتے ہیں۔
سوچیے کہ آپ کے موبائل میں کتنے قریبی دوست محفوظ ہیں جنہیں آپ نے گزشتہ نو ماہ میں فون تک نہیں کیا؟ حمیرا شاید ان میں سے ایک تھی۔ کل کوئی اور ہوسکتا ہے۔


یہ المیہ ختم ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہم آج سے اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنے گمشدہ رشتوں کو ڈھونڈیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مہینوں بعد اپنے اس پیارے کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹائیں تو اندر سے گلی سڑی لاش کرانتی ویر کے پرتاپ نرائن تلک کے انداز میں طنزیہ قہقہے لگانے شروع کردے۔
آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے؟

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور ویتنام کے مابین تجارتی تعاون بڑھانے پر اتفاق سرکاری ملازمین اور ٹیکس کی وصولی اسیرانِ لاہور کا خط اور پی۔ٹی۔آئی کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت آئینی لغزش: آزاد پھر سے آزاد ہو گئے پی ٹی آئی کی آئینی غلط فہمی اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت کی بھاری قیمت سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں ‘ریورس انجینئرنگ’ کو مسترد کر دیا حق کی تلوار اور ظلم کا تخت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • حمیرا اصغر کی موت کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم
  • پی ٹی آئی کے 26 اراکین کا نااہلی ریفرنس: مذاکرات کا دوسرا دور آج ہوگا
  • نمبر پلیٹس کا معاملہ، ایم کیو ایم اراکین سندھ اسمبلی کی وزیر ایکسائز سے ملاقات
  • پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا قافلہ اسلام آباد سے لاہور پہنچ گیا
  • ڈینگی و ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیٹی کا اجلاس، ڈینگی کنٹرول کیلئے ہنگامی اقدامات کا فیصلہ
  • اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خط پر غور، سپریم جوڈیشل کونسل کا اہم اجلاس آج ہوگا
  • اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خط پر غور؛  سپریم جوڈیشل کونسل کا اہم اجلاس آج ہوگا
  • چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کی زیر صدارت اجلاس، اسلام آباد کو مزید خوبصورت بنانے کیلئے بیوٹیفکیشن پلان پر عملدرآمدپر جائزہ
  • آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے
  • علی امین گنڈاپور کی کل عمران خان سے ملاقات کا امکان