گستاخوں کے حق میں رپورٹس جھوٹ کا پلندہ ثابت
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے متعلق انکوائری کمیشن کے قیام کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔مذکورہ پٹیشن زیر حراست بدترین گستاخوں کے رشتہ داروں کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ یہ خاکسار اپنے متعدد کالموں میں یہ بات بڑی تفصیل سے لکھ چکا ہے کہ مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے بدترین گستاخوں کے رشتہ داروں کی جانب سے مذکورہ گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے متعلق انکوائری کمیشن کے قیام کے مطالبے کے پس پردہ مقصد یہ ہے کہ گستاخوں کے خلاف ملک بھر کی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو نہ صرف طول دیا جائے، بلکہ انکوائری کمیشن کی بنیاد پر مذکورہ بدترین گستاخوں کو تحفظ بھی فراہم کیا جائے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت مذکورہ پٹیشن کی سماعت جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، توں توں یہ بات بھی واضح ہوتی جارہی ہے کہ اسپیشل برانچ پولیس پنجاب اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی بے بنیاد و من گھڑت رپورٹس کی بنیاد پر انکوائری کمیشن کا قیام عمل میں لاکر صرف مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس کے تحفظ کے مقدس کاز کو نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کی جارہی بلکہ ان رپورٹس کی بنیاد پر انکوائری کمیشن کا قیام عمل میں لانے کی کوششوں کے پس پردہ اصل مقصد توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو متنازع بنانا اور انہیں غیر فعال کرنا ہے۔اس متعلق تفصیلات آئندہ کسی کالم میں بیان کروں گا ان شا اللہ۔لیکن ان باطل قوتوں کے لئے اس خاکسار کا یہ پیغام ہے کہ جب تک پارلیمنٹ میں مذہبی جماعتوں بالخصوص جمعیت علمائے اسلام کی نمائندگی موجود ہے،جب تک قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کا سایہ اس وطن عزیز پر موجود ہے،اس وقت تک نہ تو مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے گستاخوں کو تحفظ دینے کی کوئی سازش کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو متنازع بناکر انہیں غیر موثر کرنے کی کوئی سازش،مورخہ 13 اور 14 فروری 2025 ء کو تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے ایک وفد نے اس خاکسار کے ہمراہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن سے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر کئی گھنٹوں پر محیط تفصیلاً ملاقات کی تھی۔اس ملاقات میں انہیں اسپیشل برانچ پولیس پنجاب اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی بے بنیاد و من گھڑت رپورٹس کی بنیاد پر کی جانے والی گھنائونی سازشوں سے آگاہ کیا گیا تھا۔قائد جمعیت نے اس موقع پر یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ سرزمین پاکستان پر کوئی مائی کا لعل نہ تو مقدس ہستیوں کے گستاخوں کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین میں رد و بدل کرکے انہیں غیر موثر کر سکتا ہے۔
قائد جمعیت نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف تمام مقدمات کے میرٹ پر فیصلے متعلقہ عدالتیں ہی کریں گی۔اس حوالے سے کسی متوازی فورم کو قبول نہیں کیا جائے گا۔اس موقع پر قائد جمعیت نے سینئر قانون دان سینیٹر کامران مرتضی کو یہ ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت مذکورہ پٹیشن کے خلاف تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کی وکالت کریں۔ اس خاکسار کو باوثوق ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قائد جمعیت نے مذکورہ معاملے پر اعلیٰ حکومتی عہدے داران بالخصوص وزیراعظم پاکستان کو بھی واضح اور دو ٹوک پیغام دے دیا ہے۔اسپیشل برانچ پولیس پنجاب اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جن دو رپورٹس کی بنیاد پر سارے گستاخوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے انکوائری کمیشن کے قیام کی کوشش کی جارہی ہے،ان رپورٹس کے متعلق حقائق اب منظر عام پر آچکے ہیں۔سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے متعلق اسپیشل برانچ پولیس پنجاب کی جانب سے مرتب کی گئی سورس انفارمیشن رپورٹ کے متعلق فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ایف آئی اے نے وفاقی وزارت داخلہ کو بھیج دی ہے۔ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر انویسٹیگیشن محمد سلمان کی جانب سے دو صفحات پر مشتمل مرتب کی گئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کے دوران اسپیشل برانچ کے فوکل پرسن اور گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ملزمان کے ورثا سے مذکورہ سورس انفارمیشن رپورٹ میں عائد کئے گئے الزامات کے متعلق ثبوت طلب کئے گئے۔اسپیشل برانچ کا فوکل پرسن اور مذکورہ زیر حراست ملزمان کے اہل خانہ مذکورہ رپورٹ کے حق میں کوئی ایک ثبوت بھی پیش نہ کر سکے۔اس دوران ان تمام افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا،جن پر اسپیشل برانچ کی مذکورہ سورس انفارمیشن رپورٹ میں الزامات عائد کئے گئے تھے۔ان تمام افراد نے مذکورہ رپورٹ میں عائد کئے گئے الزامات کو مسترد کیا‘‘۔
وفاقی وزارت داخلہ کو بھیجی گئی مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات کی تحقیقات میں تمام قانونی تقاضے پورے کئے۔مذکورہ ملزمان کے خلاف مضبوط شواہد موجود ہیں اور تمام ملزمان کا ٹرائل ملک کی مختلف عدالتوں میں جاری ہے‘‘۔مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری سے یہ واضح ہے کہ اسپیشل برانچ کی مذکورہ سورس انفارمیشن رپورٹ میں عائد کئے گئے ان الزامات کے متعلق کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جن میں یہ کہا گیا تھا کہ نوجوانوں کو ٹریپ کرکے بلاسفیمی کے مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے۔جس کے بعد مذکورہ ملزمان کو تحفظ دینے کے لئے ان کی فیملیز سے پیسے مانگے جاتے ہیں۔ مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری سے یہ بھی واضح ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے کسی بھی اہلکار نے مذکورہ مقدمات میں اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا۔‘‘ واضح رہے کہ ایف آئی اے نے مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پر کی تھی۔اسی طرح ایف آئی اے کی خصوصی کمیٹی نے گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے متعلق قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کو بھی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ رپورٹ گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کو قانون کی گرفت سے بچانے کی کوشش اور ملک کے امن و ترقی کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے متعلق قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی اسپیشل برانچ پولیس پنجاب میں ملوث گستاخوں کے خلاف سورس انفارمیشن رپورٹ رپورٹس کی بنیاد پر گستاخوں کو تحفظ انکوائری کمیشن قائد جمعیت نے مقدس ہستیوں اسلام آباد کی جانب سے ایف آئی اے ملزمان کے نے مذکورہ رپورٹ میں بھی واضح کہا گیا کو بھی کے لئے
پڑھیں:
13 سال پرانا مقدمہ: ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو توہین عدالت کا نوٹس جاری
انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) راولپنڈی نے 13 سال پرانے مقدمے میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔
اے ٹی سی راولپنڈی کے جج امجد علی شاہ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو 29 مئی کو جواب سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔
عدالت نے مقدمے کے تفتیشی افسر اور گواہوں کو بھی پیش نہ ہونے پر نوٹس جاری کیے ہیں اور انہیں طلب کرلیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا کہ مقدمہ 13 سال پرانا ہے، تفتیشی افسران کے نہ آنے سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ آرہی ہے۔
نوٹس میں مزید کہا گیا کہ پرانے مقدمہ پر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے ڈائریکشن بھی جاری کر رکھی ہے، ایس ایس پی انویسٹی گیشن سپروائزری آفیسر ہے، اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے، پولیس کا اقدام اے ٹی سی ایکٹ کے سیکشن37 کے تحت توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔