28 مئی 1998ء وہ تاریخی دن تھا جب چاغی کے سنگلاخ پہاڑوں نے پاکستان کی عظمت کی گواہی دی۔ یہ محض ایک سائنسی فتح نہیں تھی بلکہ ایک قوم کے عزم، اس کی غیرت اور اس کی خودمختاری کا آہنی اعلان تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ وہ ایک ناقابلِ تسخیر، ذمہ دار اور باوقار قوم ہے۔ یومِ تکبیر ایک دن نہیںبلکہ ایک جذبہ ہے، ایک ایسی داستان جو ہر پاکستانی کے دل میں فخر کی لہر جگاتی ہے۔ آج اگر ہم بھارت کے مقابلے میں سرخرو ہیں تو یہ اسی دن کی بدولت ہے، جب ہم نے اپنی سائنسی مہارت، سفارتی جرأت، اور قیادت کی دوراندیشی سے عالمی منظرنامے پر اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ دوسری طرف بھارت، جو اپنے جوہری پروگرام کی بدانتظامی، چوریوں، اور شرمناک ناکامیوں سے عالمی سطح پر رسوا ہو رہا ہے، اس کی ذلت ہمارے فخر کا آئینہ ہے۔
یہ دن ہمارے قومی ہیروز کی لازوال قربانیوں کی داستان ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، وہ عظیم سائنسدان جن کا نام پاکستان کی عزت کا استعارہ ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ دن رات ایک کر کے، عالمی پابندیوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ناممکن کو ممکن بنایا۔ وہ ہمارے سچے محسن ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی اس قوم کے دفاع کے لیے وقف کر دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ خواب کہ ’’ہم گھاس کھائیں گے، لیکن ایٹم بم بنائیں گے‘‘ آج بھی ہر پاکستانی کے خون میں جوش بھردیتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق ، مرد مجاہد جس نے عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس پروگرام کو منزل تک پہنچایا۔ بے نظیر بھٹو جس نے میزائل پروگرام کی مضبوط بنیاد رکھ کر ہمارے دفاع کو نئی بلندیوں تک پہنچایا اور پھر نواز شریف، تمام تر اختلافات کے باوجود اعتراف لازم ہے کہ نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکوں کا تاریخی فیصلہ کیا، وہ فیصلہ جو پاکستان کو عالمی نقشے پر ناقابلِ شکست طاقت بنا گیا۔ یہ ہمارے ہیروز ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں اس قوم کی عزت اور سربلندی کے لیے نچھاور کیں، ایک اور نام بھی ہےجس کا احسان یہ قوم کبھی نہیں چکا سکتی ، غلام اسحاق خان ، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا وہ امین جس نے سیکریٹری خزانہ سے لے کر صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ تک اس پروگرام کی مالی ضروریات کو ایسے پورا کیا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوسکی اور ایک لمحے کو بھی ایٹمی منصوبوں کو مالی تنگدستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، سینکڑوں داستانیں ہیں جو اس مرد قلندر کی عظمت کردار کی گواہی دیتی ہیں ، فرض شناس اتنا کہ جب سیاسی کشمکش کے نتیجہ میں اسے منصب سے الگ ہونا پڑا تو بزعم خود ایک ’’بڑے ‘‘ صحافی نے ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے سوال کیا تو ،کہا ’’ہاں، کبھی ہم اس کے نگہبان تھے، اب کچھ اور لوگ اس کے امین ہیں۔‘‘
وقت کا گزرتا ہوا ہرلمحہ ثابت کررہا ہےکہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جس نے اپنے جوہری پروگرام کو نہ صرف مضبوط بلکہ عالمی معیار کے مطابق محفوظ بنایا۔ ہمارے حفاظتی پروٹوکولز دنیا بھر میں تسلیم کیے جاتے ہیں اور ہماری قوم اپنی خودمختاری اور دفاع کے لیے ہرقربانی دینےکو تیار ہے،لیکن بھارت کا کیا حال ہے؟ وہ بھارت، جو اپنے جوہری پروگرام کی بدانتظامی، چوریوں اورشرمناک ناکامیوں سے عالمی برادری کی نظروں میں ذلیل ہو رہا ہے۔ بھارت میں یورینیم کی چوریوں نے جوہری تحفظ کے پروٹوکولز پر سنگین سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ بھارت میں جوہری مواد کی چوری، اسمگلنگ اور تابکار حادثات کا تسلسل عالمی برادری کو شدید تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس کی جوہری تنصیبات اور مواد کی تیاری سے متعلق حفاظتی اقدامات میں مسلسل کوتاہیاں سامنے آ رہی ہیں، جو نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
ساؤتھ ایشیا اسٹریٹجک اسٹیبیلٹی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، 1994 سے 2021 تک بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے 18 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں چوری ہونے والے مواد کی مقدار 200 کلوگرام سے متجاوز ہے۔ ان واقعات میں متعدد کیسز میں ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے یورینیم یا کیلیفورنیم جیسے خطرناک تابکار مادے برآمد ہوئے۔ نیوکلئیر تھریٹ انیشی ایٹو (NTI) کی 2024 کی رپورٹ بھی بھارت کے جوہری تحفظ کے نظام پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کو 22 ممالک کی فہرست میں 20ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جبکہ ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے عالمی انڈیکس میں بھارت 47 ممالک میں سے 40ویں نمبر پر ہے۔ NTI نے کئی بار بھارت میں ممکنہ جوہری حادثات سے قبل خبردار کیا لیکن بھارتی حکومت کی عدم توجہی نے ان خطرات کو حقیقت بنادیا۔
واقعات کی تفصیلات بھارت کی شرمناک بدانتظامی کو عیاں کرتی ہیں۔ نومبر 1994 میں دومقامات سے 2.
بھارتی پارلیمانی رپورٹس بھی اس غفلت کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1995 سے 1998 کے درمیان 147 حفاظتی حادثات رپورٹ کیے گئے جو حکومتی اور انتظامی سطح پر بدترین لاپروائی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ کمزوریاں نہ صرف خود اس کے لیے خطرناک ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں جوہری تحفظ کے عالمی پروٹوکولز کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تابکار مواد کی بار بار چوری اور اس کی اسمگلنگ کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت جوہری ہتھیار رکھنے کے باوجود بین الاقوامی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا بھارت جیسے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت برقرار رکھنے دی جائے، جبکہ اس کے اندرونی حفاظتی نظام اتنے غیر محفوظ اور ناقابلِ اعتماد ثابت ہو چکے ہیں؟
یہ شرمناک سلسلہ بھارت کی بدانتظامی اور غیر ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام کو ہمیشہ ذمہ داری اور عزت کے ساتھ سنبھالا۔ ہمارے حفاظتی نظام عالمی معیار پر پورا اترتے ہیں، اور ہماری قوم اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیےہرقربانی دینے کو تیار ہے۔ بھارت کی یہ ناکامی ہمارے فخر کو اور بلند کرتی ہے، ہم اپنے ماہرین اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جب بھارت دنیا بھر میں رسوا ہو رہا ہے تو وہی پاکستان کا نام ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کے طور پر لیتی ہے ۔ یہ وہی فخر ہے ، یہی وہ اعتماد ہےجو پاکستانی نوجوان کو یہ بےفکری عطا کرتا ہے کہ وہ جنگ کے ایام میں بھی دشمن کا تمسخر اڑاتا ہےاور چیلنج کرتا ہے کہ’’ خبردار، ہماری سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو آنکھیں نوچ لیں گے ۔‘‘ اور اسی قوم کے شہبازوں نے دشمن کی آنکھیں نوچ کر دکھا دیں ، دنیا کو بتادیا کہ 28مئی ہمارے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان تھا تو 10مئی ہمارے نوجوانوں کی جدید حربی ٹیکنالوجی میں مہارتوں کا عملی اعلان ، یومِ تکبیر ایک دن نہیں ، استعارہ ہے ، ایک جذبہ، ترقی، خودمختاری، اور عزت کے سفر کا آغاز ۔ دشمن جان لیں کہ پاکستان وہ سرزمین ہے جو اپنی غیرت اور دفاع کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ 10 مئی کا دن اسی عزم کا اعلان تھا کہ ہماری سرحدیں ناقابلِ عبور ہیں۔ یہ سفر، جو 28 مئی 1998ء کو شروع ہوا، انشاء اللہ کبھی نہیں رکے گا۔ ہم اپنے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ بھارت کی ذلت ہمارے فخر کی گواہی ہے، اور پاکستان ہمیشہ سربلند رہے گا۔انشاءاللہ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اپنے جوہری پروگرام جوہری تحفظ کے پروگرام کی بھارت میں بھارت کی کرتے ہیں کی چوری نے اپنی مواد کی رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
کراچی:’’یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘ جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم منیجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔
تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کے لیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کو جانے کا کہہ دیا، انہیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا، بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو انہیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا، اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بیحد منفی رہا، بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے، اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی۔
نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا، پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔
پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہوگی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے، شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے، پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا۔
البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟ کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جا رہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا، ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی۔
جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں، جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے، ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرنا ہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔
اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں، البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے، ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟ ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟۔
آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے، پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا، فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل رائونڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا۔
صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا، بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آئوٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے، یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہوگیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔
کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔