Daily Ausaf:
2025-07-23@18:32:52 GMT

یومِ تکبیر سے فتح مبین تک

اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT

28 مئی 1998ء وہ تاریخی دن تھا جب چاغی کے سنگلاخ پہاڑوں نے پاکستان کی عظمت کی گواہی دی۔ یہ محض ایک سائنسی فتح نہیں تھی بلکہ ایک قوم کے عزم، اس کی غیرت اور اس کی خودمختاری کا آہنی اعلان تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ وہ ایک ناقابلِ تسخیر، ذمہ دار اور باوقار قوم ہے۔ یومِ تکبیر ایک دن نہیںبلکہ ایک جذبہ ہے، ایک ایسی داستان جو ہر پاکستانی کے دل میں فخر کی لہر جگاتی ہے۔ آج اگر ہم بھارت کے مقابلے میں سرخرو ہیں تو یہ اسی دن کی بدولت ہے، جب ہم نے اپنی سائنسی مہارت، سفارتی جرأت، اور قیادت کی دوراندیشی سے عالمی منظرنامے پر اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ دوسری طرف بھارت، جو اپنے جوہری پروگرام کی بدانتظامی، چوریوں، اور شرمناک ناکامیوں سے عالمی سطح پر رسوا ہو رہا ہے، اس کی ذلت ہمارے فخر کا آئینہ ہے۔
یہ دن ہمارے قومی ہیروز کی لازوال قربانیوں کی داستان ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، وہ عظیم سائنسدان جن کا نام پاکستان کی عزت کا استعارہ ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ دن رات ایک کر کے، عالمی پابندیوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ناممکن کو ممکن بنایا۔ وہ ہمارے سچے محسن ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی اس قوم کے دفاع کے لیے وقف کر دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ خواب کہ ’’ہم گھاس کھائیں گے، لیکن ایٹم بم بنائیں گے‘‘ آج بھی ہر پاکستانی کے خون میں جوش بھردیتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق ، مرد مجاہد جس نے عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس پروگرام کو منزل تک پہنچایا۔ بے نظیر بھٹو جس نے میزائل پروگرام کی مضبوط بنیاد رکھ کر ہمارے دفاع کو نئی بلندیوں تک پہنچایا اور پھر نواز شریف، تمام تر اختلافات کے باوجود اعتراف لازم ہے کہ نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکوں کا تاریخی فیصلہ کیا، وہ فیصلہ جو پاکستان کو عالمی نقشے پر ناقابلِ شکست طاقت بنا گیا۔ یہ ہمارے ہیروز ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں اس قوم کی عزت اور سربلندی کے لیے نچھاور کیں، ایک اور نام بھی ہےجس کا احسان یہ قوم کبھی نہیں چکا سکتی ، غلام اسحاق خان ، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا وہ امین جس نے سیکریٹری خزانہ سے لے کر صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ تک اس پروگرام کی مالی ضروریات کو ایسے پورا کیا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوسکی اور ایک لمحے کو بھی ایٹمی منصوبوں کو مالی تنگدستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، سینکڑوں داستانیں ہیں جو اس مرد قلندر کی عظمت کردار کی گواہی دیتی ہیں ، فرض شناس اتنا کہ جب سیاسی کشمکش کے نتیجہ میں اسے منصب سے الگ ہونا پڑا تو بزعم خود ایک ’’بڑے ‘‘ صحافی نے ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے سوال کیا تو ،کہا ’’ہاں، کبھی ہم اس کے نگہبان تھے، اب کچھ اور لوگ اس کے امین ہیں۔‘‘
وقت کا گزرتا ہوا ہرلمحہ ثابت کررہا ہےکہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے جس نے اپنے جوہری پروگرام کو نہ صرف مضبوط بلکہ عالمی معیار کے مطابق محفوظ بنایا۔ ہمارے حفاظتی پروٹوکولز دنیا بھر میں تسلیم کیے جاتے ہیں اور ہماری قوم اپنی خودمختاری اور دفاع کے لیے ہرقربانی دینےکو تیار ہے،لیکن بھارت کا کیا حال ہے؟ وہ بھارت، جو اپنے جوہری پروگرام کی بدانتظامی، چوریوں اورشرمناک ناکامیوں سے عالمی برادری کی نظروں میں ذلیل ہو رہا ہے۔ بھارت میں یورینیم کی چوریوں نے جوہری تحفظ کے پروٹوکولز پر سنگین سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ بھارت میں جوہری مواد کی چوری، اسمگلنگ اور تابکار حادثات کا تسلسل عالمی برادری کو شدید تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس کی جوہری تنصیبات اور مواد کی تیاری سے متعلق حفاظتی اقدامات میں مسلسل کوتاہیاں سامنے آ رہی ہیں، جو نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
ساؤتھ ایشیا اسٹریٹجک اسٹیبیلٹی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، 1994 سے 2021 تک بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے 18 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں چوری ہونے والے مواد کی مقدار 200 کلوگرام سے متجاوز ہے۔ ان واقعات میں متعدد کیسز میں ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے یورینیم یا کیلیفورنیم جیسے خطرناک تابکار مادے برآمد ہوئے۔ نیوکلئیر تھریٹ انیشی ایٹو (NTI) کی 2024 کی رپورٹ بھی بھارت کے جوہری تحفظ کے نظام پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کو 22 ممالک کی فہرست میں 20ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جبکہ ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے عالمی انڈیکس میں بھارت 47 ممالک میں سے 40ویں نمبر پر ہے۔ NTI نے کئی بار بھارت میں ممکنہ جوہری حادثات سے قبل خبردار کیا لیکن بھارتی حکومت کی عدم توجہی نے ان خطرات کو حقیقت بنادیا۔
واقعات کی تفصیلات بھارت کی شرمناک بدانتظامی کو عیاں کرتی ہیں۔ نومبر 1994 میں دومقامات سے 2.

5 کلوگرام یورینیم اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنائی گئی۔ 1998 میں 100 کلوگرام سے زائد یورینیم کی اسمگلنگ کی کوشش ریکارڈ پر ہے۔ اسی سال جولائی میں تامل ناڈو سے 8 کلوگرام، مئی 2000 میں ممبئی سے 8.3 کلوگرام، اور اگست 2001 میں مغربی بنگال سے 200 گرام نیم تیار شدہ یورینیم برآمد ہوا۔ حالیہ برسوں میں بھی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ 2018 میں کولکتہ میں پانچ افراد کے قبضے سے 1 کلوگرام یورینیم برآمد ہوا۔ مئی 2021 میں مہاراشٹرا سے 7 کلوگرام یورینیم اور جون 2021 میں جھارکھنڈ سے 6.4 کلوگرام یورینیم قبضے میں لیا گیا۔ اسی سال کولکتہ ایئرپورٹ پر 250 گرام کیلیفورنیم برآمد کیا گیا، جو شدید تابکار اور انتہائی مہنگا مواد ہے۔ جولائی 2024 میں بھارت کے حساس ترین ادارے، بھابھا ایٹمی تحقیقاتی مرکز سے تابکار آلے کی چوری بھارتی جوہری تحفظ کے لیے کھلا طمانچہ تھی۔ اگست 2024 میں ایک اورتابکار مادہ، جو کیلیفورنیم سے مشابہت رکھتا تھا، قبضےمیں لیا گیا۔ ان تمام واقعات نے عالمی اداروں اور ماہرین کو مجبور کر دیا کہ وہ بھارت کی جوہری سلامتی پر نظر ثانی کریں۔
بھارتی پارلیمانی رپورٹس بھی اس غفلت کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1995 سے 1998 کے درمیان 147 حفاظتی حادثات رپورٹ کیے گئے جو حکومتی اور انتظامی سطح پر بدترین لاپروائی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ کمزوریاں نہ صرف خود اس کے لیے خطرناک ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں جوہری تحفظ کے عالمی پروٹوکولز کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تابکار مواد کی بار بار چوری اور اس کی اسمگلنگ کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت جوہری ہتھیار رکھنے کے باوجود بین الاقوامی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا بھارت جیسے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت برقرار رکھنے دی جائے، جبکہ اس کے اندرونی حفاظتی نظام اتنے غیر محفوظ اور ناقابلِ اعتماد ثابت ہو چکے ہیں؟
یہ شرمناک سلسلہ بھارت کی بدانتظامی اور غیر ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے جبکہ پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام کو ہمیشہ ذمہ داری اور عزت کے ساتھ سنبھالا۔ ہمارے حفاظتی نظام عالمی معیار پر پورا اترتے ہیں، اور ہماری قوم اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیےہرقربانی دینے کو تیار ہے۔ بھارت کی یہ ناکامی ہمارے فخر کو اور بلند کرتی ہے، ہم اپنے ماہرین اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جب بھارت دنیا بھر میں رسوا ہو رہا ہے تو وہی پاکستان کا نام ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کے طور پر لیتی ہے ۔ یہ وہی فخر ہے ، یہی وہ اعتماد ہےجو پاکستانی نوجوان کو یہ بےفکری عطا کرتا ہے کہ وہ جنگ کے ایام میں بھی دشمن کا تمسخر اڑاتا ہےاور چیلنج کرتا ہے کہ’’ خبردار، ہماری سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو آنکھیں نوچ لیں گے ۔‘‘ اور اسی قوم کے شہبازوں نے دشمن کی آنکھیں نوچ کر دکھا دیں ، دنیا کو بتادیا کہ 28مئی ہمارے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان تھا تو 10مئی ہمارے نوجوانوں کی جدید حربی ٹیکنالوجی میں مہارتوں کا عملی اعلان ، یومِ تکبیر ایک دن نہیں ، استعارہ ہے ، ایک جذبہ، ترقی، خودمختاری، اور عزت کے سفر کا آغاز ۔ دشمن جان لیں کہ پاکستان وہ سرزمین ہے جو اپنی غیرت اور دفاع کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ 10 مئی کا دن اسی عزم کا اعلان تھا کہ ہماری سرحدیں ناقابلِ عبور ہیں۔ یہ سفر، جو 28 مئی 1998ء کو شروع ہوا، انشاء اللہ کبھی نہیں رکے گا۔ ہم اپنے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ بھارت کی ذلت ہمارے فخر کی گواہی ہے، اور پاکستان ہمیشہ سربلند رہے گا۔انشاءاللہ

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اپنے جوہری پروگرام جوہری تحفظ کے پروگرام کی بھارت میں بھارت کی کرتے ہیں کی چوری نے اپنی مواد کی رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کا غزہ میں فوری جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے حل پر زور

پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب میں مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کرائی جائے، جب کہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات کا فوری اور منصفانہ حل نکالنا عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔

اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں اب تک 58 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی برادری ان مظالم پر خاموشی ترک کرے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف اپنے خطے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے، تاہم خطے میں امن کے لیے پاکستان کی یکطرفہ کوششیں کافی نہیں، تمام فریقین کو بامعنی مذاکرات کی طرف آنا ہوگا۔

نائب وزیراعظم نے جموں و کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک دیرینہ تنازع قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ عالمی سطح پر متنازع تسلیم کیا گیا ہے اور اس کا حل کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ نے بھی کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کر رکھا ہے۔

اسحاق ڈار نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان 65 سال پرانا اور انتہائی اہم ہے، لیکن بھارت نے غیرقانونی طور پر 240 ملین پاکستانیوں کا پانی روکنے کی بات کی ہے جو قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا رہے گا اور اصولوں کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے۔ اس موقع پر انہوں نے سلامتی کونسل کی جانب سے تنازعات کے پرامن حل سے متعلق قرارداد کی منظوری کو خوش آئند قرار دیا۔

اختتام پر اسحاق ڈار نے کہا کہ دنیا بھر میں انصاف اور امن کے نظام کو درپیش خطرات کی بڑی وجہ یہی ہے کہ کئی عالمی تنازعات دہائیوں سے حل طلب ہیں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسحاق ڈار اقوام متحدہ پاکستان غزہ جنگ بندی مسئلہ کشمیر وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • مصدق ملک کی آذربائیجان میں کوپ 29 کے سربراہ سے ملاقات
  • یہ کون لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے لیے سیلاب میں اترتے ہیں؟
  • معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے؛ عالمی بینک
  • جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
  • ہم اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں، ایرانی صدر
  • برطانیہ نے نئے ایٹمی پلانٹ کی منظوری دے دی
  • عالمی تنازعات کے پرامن حل کے لیے پاکستان کی قرارداد سلامتی کونسل میں متفقہ طور پر منظور
  • پاکستان کا غزہ میں فوری جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے حل پر زور
  • اسرائیل کی خاطر ایکبار پھر امریکہ یونسکو سے دستبردار
  • بھارتی اقدام نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی، عالمی آبی معاہدے خطرے میں