WE News:
2025-11-02@14:42:23 GMT

نسل کش روایتیں، سماجی پہلو اور نفسیاتی اثرات

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

نسل کش روایتیں، سماجی پہلو اور نفسیاتی اثرات

ماں بننا ہر عورت کے لیے ایک خواب ہوتا ہے، لیکن جب یہی خواب ایک نہ ختم ہونے والے درد اور خوف میں بدل جائے تو وہ ماں ہر لمحہ جیتی اور مرتی ہے۔

میانوالی کی رابعہ بھی ایسی ہی ایک ماں ہے، جس کے 2 بچے جینیاتی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوئے۔ وہ ہر دن اپنے بچوں کی سانسیں گِن کر گزارتی ہے۔

رابعہ کی کہانی صرف ایک خاندان کی نہیں، بلکہ ان ہزاروں خاندانوں کی نمائندگی کرتی ہے جو قریبی رشتہ داروں میں شادی کے نتیجے میں نسل در نسل بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

’ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ چچا کے بیٹے سے شادی، ہماری آنے والی نسل کی تباہی کا باعث بنے گی‘، رابعہ دکھ بھری آواز میں کہا۔

رابعہ کی شادی چچا کے بیٹے سے ہوئی تھی، یہ فیصلہ خاندان کی روایت کے تحت کیا گیا تھا۔ اس کا پہلا بیٹا دل کے پیدائشی مرض (Congenital Heart Disease) میں مبتلا ہے، جبکہ دوسرا تھیلیسیمیا (Thalassemia) کا مریض ہے۔
یہ دونوں بیماریاں جینیاتی ہیں، جو عموماً قریبی رشتہ داروں میں شادی کی وجہ سے آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر سہیل فاروق ایک تجربہ کار چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں، وہ برسوں سے میانوالی میں بچوں کے مختلف امراض کے علاج معالجے اور تحقیق میں مصروف ہیں، ڈاکٹر سہیل کے مطابق، ’ہمارے پاس روزانہ ایسے کئی کیسز آتے ہیں جن میں بچے پیدائشی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے سے تھیلیسیمیا، سسٹک فائبروسس، دماغی معذوری، ہیموفیلیا، نیورولوجیکل ڈس آرڈرز، ذیابیطس، اور دیگر سنگین بیماریاں سامنے آتی ہیں‘۔

پاکستان میں 60 سے 70 فیصد شادیاں قریبی رشتہ داروں کے درمیان ہوتی ہیں، جن میں پنجاب اور سندھ سرفہرست ہیں۔ ان شادیوں کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں بچے مختلف جینیاتی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 بچے تھیلیسیمیا کے مریض کے طور پر رجسٹر کیے جاتے ہیں، اور قریبی رشتہ داروں کی شادیاں اس کی اہم وجہ ہیں۔
ڈاکٹر ماہرہ نسا میانوالی میں گائناکالوجسٹ ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ، ’قریبی رشتہ داروں میں شادی کی صورت میں خواتین کو حمل کے دوران پیچیدگیوں، مردہ بچوں کی پیدائش، بار بار اسقاط حمل، اور خون کی شدید کمی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ کم عمری میں شادی کی صورت میں یہ خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں کیونکہ جسمانی نشوونما مکمل نہیں ہوتی‘۔

اس حوالے سے مذہبی نقطہ نظر بھی قابلِ غور ہے۔ مفتی عبدالعزیز اسلامی علوم کے ماہر ہیں، وہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ، ’اسلام عقل و فہم اور صحت کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ اگر کوئی عمل نسل کی بیماری کا سبب بنے تو وہ عمل قابلِ غور و اجتناب ہے۔ قریبی شادی بذات خود منع نہیں، لیکن اگر اس سے نقصانات واضح ہوں تو شریعت اسے ناپسند کرتی ہے۔

مفتی عبدالعزیز نے قرآن مجید کا حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالی قران مجید میں ارشاد ہیں، ’ وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّهْلُكَةِ ترجمہ، اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو‘۔

میانوالی ہی سے ڈاکٹر عائشہ ناصر جینیاتی تحقیق کی ماہر ہیں، وہ شادی سے مطلق مشورہ دیتی ہوئی کہتی ہیں کہ ’شادی سے پہلے جینیاتی ٹیسٹنگ، خاص طور پر تھیلیسیمیا اور دیگر بیماریوں کے لیے، نہایت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس بارے میں شعور نہ ہونے کے برابر ہے‘۔

سماجی دباؤ اس مسئلے کو اور بھی پیچیدہ بناتا ہے۔ رابعہ کی ساس نے کہا تھا، ’باہر کی بہو کیا جانے ہمارے رسم و رواج کیا ہوتے ہیں؟‘۔ ایسے جملے لڑکیوں کو اپنے حقِ رائے سے محروم کر دیتے ہیں۔

لڑکیوں کی مرضی اکثر دباؤ، غیرت، اور خاندانی عزت کے نام پر دبا دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قریبی شادیوں کو ترجیح دی جاتی ہے، چاہے اس کے نتائج کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔

معروف سماجی کارکن زینب یوسف قریبی رشتہ داروں میں شادی سے پیدا ہونے والے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’ہم اکثر صرف جسمانی بیماریوں پر بات کرتے ہیں، لیکن ایسے خاندانوں میں جہاں ایک یا ایک سے زیادہ بچے مستقل بیمار رہتے ہیں، والدین، خاص طور پر مائیں شدید ذہنی دباؤ، مایوسی اور معاشرتی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ دیہات میں تو لوگ الزام بھی ماں پر دھر دیتے ہیں کہ یہ اُس کی نحوست ہے۔

زنیب کہتی ہیں کہ دیہاتی علاقوں میں کمیونٹی سطح پر آگاہی سیشنز اور خواتین کے لیے جذباتی معاونت کی محفلیں ہونی چاہئیں، تاکہ وہ اپنی بات کھل کر بیان کر سکیں۔ اگر گھر کی عورت کو علم ہو کہ بیماری کا تعلق رسم سے ہے، تو وہ خاموشی سے قربانی نہیں دے گی۔

اس صورتِ حال کی گہرائی کو بیان کرتے ہوئے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نادیہ اکرام کہتی ہیں، ’جینیاتی بیماریوں میں مبتلا بچوں کے والدین، خاص طور پر مائیں اکثر بے چینی، ذہنی دباؤ، احساسِ گناہ اور ناکامی کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ جب بچے بار بار بیمار ہوں، بول نہ سکیں یا خود سے کھانے پینے کے قابل نہ ہوں تو ماں کی نیند، ذہنی سکون، اور یہاں تک کہ اُس کی اپنی صحت بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے کیسز میں نفسیاتی مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہسپتالوں میں جینیاتی بیماریوں کے مریض بچوں کے والدین کے لیے نفسیاتی مشاورت کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے۔ جب ماں کو سنا جائے گا، اس کے دکھ کو تسلیم کیا جائے گا، تبھی وہ ذہنی طور پر سنبھل کر بچے کی بہتر دیکھ بھال کر سکے گی۔

میڈیکل ریسرچ کیا کہتی ہے؟

آج میڈیکل سائنس نے کزن میریج یا قریبی شادیوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی بارے بتا دیا، اب اگر کوئی باوجود ثابت شدہ تحقیق کو نہیں مانتا تو وہ اپنی نسلوں کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے۔

قریبی رشتہ داروں میں شادی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے نام درج ذیل ہیں،

1.

تھیلیسیمیا (Thalassemia)

2. سائسٹک فائبروسس (Cystic Fibrosis)

3. سپائنل مسکیولر ایٹروفی (Spinal Muscular Atrophy)

4. سنسورینورل سماعت کی کمی (Sensorineural Hearing Loss)

5. مائیکروسیفالی (Microcephaly)

6. پیدائشی دل کی بیماریاں (Congenital Heart Diseases)

7. نیورولوجیکل ڈس آرڈرز (Neurological Disorders)

8. آٹو سومی ریسیسیو ڈس آرڈرز (Autosomal Recessive Disorders)

9. دماغی معذوری (Intellectual Disability)

10. ہیموفیلیا (Hemophilia)

11. ذیابیطس کی بعض اقسام (Certain Types of Diabetes)

اگرچہ پاکستان میں کم عمری کی شادی اور جینیاتی بیماریوں کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، مگر ان کا عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ شادی سے پہلے جینیاتی مشاورت، شعور اور آگاہی مہمات کا آغاز ہو تو آنے والی نسلوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے سکول، کالج، یونیورسٹی، مسجد و مدرسہ، سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

صرف رسم و رواج کے نام پر اپنی آنے والی نسلوں کو بیماریوں کے سپرد کرنا اخلاقی، سماجی، مذہبی اور طبی جرم ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم عقل و دانش اور آگاہی کی روشنی میں فیصلے کریں تاکہ آنے والی نسلیں صحت مند اور خوشحال ہوں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہ پارا ذوالقدر

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: قریبی رشتہ داروں میں شادی جینیاتی بیماریوں کے آنے والی نسل حوالے سے کہتی ہیں کے ساتھ کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات

اسلام ٹائمز: 1979 میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد عوامی توقع یہ تھی کہ امریکہ، جو شاہِ ایران (محمد رضا پہلوی) کا قریبی حامی تھا، اب نئے ایران کے ساتھ تعلقات میں احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائے گا۔ لیکن چند مہینوں میں واضح ہو گیا کہ امریکہ اب بھی ایران کے اندرونی معاملات میں اثراندازی کر رہا ہے۔ وہ شاہ کے مجرم ہونے کے باوجود اُسے پناہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بدستور خفیہ سرگرمیوں (جاسوسی) کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان عوامل نے انقلابی نوجوانوں، خصوصاً دانشجویانِ پیرو خطِ امام (طلبۂ پیروانِ خط امام) کو شدید طور پر مشتعل کر دیا۔ خصوصی رپورٹ

امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے میں متعدد عوامل کارفرما تھے، جن میں سب کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں انقلابِ اسلامی ایران کے خلاف امریکی حکومت کی پالیسیوں سے تھا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے باوجود ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ امام خمینیؒ کی طرف سے ۱۰ آبان ۱۳۵۸ (نومبر 1979) کو قوم کے نام ایک اہم پیغام نشر ہوا، جو مسلمان طلبہ کے لیے ایک نئی انقلابی تحریک کا محرک بنا۔ 

امامؒ نے اس پیغام میں فرمایا کہ طلبہ، جامعات اور دینی علوم کے طلبہ پر لازم ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف وسعت دیں، امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ اس معزول اور جنایتکار شاہ کو واپس ایران کے حوالے کرے، اور اس بڑی سازش کی شدید مذمت کریں۔ یہ پیغام اُس وقت جاری ہوا جب عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے امریکی صدر کارٹر کے مشیرِ قومی سلامتی زبیگنیو برژینسکی سے ملاقات کی تھی۔ انقلابی حلقوں نے اس ملاقات اور امامؒ کے پیغام کو ایک واضح اشارہ سمجھا کہ اب ایک فیصلہ کن انقلابی اقدام کیا جائے۔ ۱۰ آبان کے روز، جو عید قربان کا دن تھا، امامؒ کا یہ بیان امریکہ کے خلاف ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ 

طلبہ نے اسے ایک اصولی بنیاد کے طور پر لیا اور فیصلہ کیا کہ امریکہ کے خلاف احتجاج کو عملی شکل دی جائے۔ ان کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ دنیا کے سامنے ایرانی عوام کی مظلومیت کو اجاگر کریں، خاص طور پر اُن بین الاقوامی صحافیوں کے ذریعے جو امریکی سفارتخانے میں موجود تھے۔ چنانچہ طلبہ نے امریکی سفارتخانے میں داخل ہو کر احتجاج کیا کہ امریکہ نے اُس مفرور شاہ کو اپنے ملک میں پناہ کیوں دی ہے اور اُسے ایران واپس کیوں نہیں کیا جا رہا؟ یہی عمل بعد میں تسخیرِ لانۂ جاسوسی (امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ) کے نام سے تاریخ میں ثبت ہوا، جو انقلابِ اسلامی کے بعد ایران کی داخلی و خارجی سیاست میں ایک اہم موڑ بن گیا۔

 پس منظر: 
1979 میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد عوامی توقع یہ تھی کہ امریکہ، جو شاہِ ایران (محمد رضا پہلوی) کا قریبی حامی تھا، اب نئے ایران کے ساتھ تعلقات میں احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائے گا۔ لیکن چند مہینوں میں واضح ہو گیا کہ امریکہ اب بھی ایران کے اندرونی معاملات میں اثراندازی کر رہا ہے۔ وہ شاہ کے مجرم ہونے کے باوجود اُسے پناہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بدستور خفیہ سرگرمیوں (جاسوسی) کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان عوامل نے انقلابی نوجوانوں، خصوصاً دانشجویانِ پیرو خطِ امام (طلبۂ پیروانِ خط امام) کو شدید طور پر مشتعل کر دیا۔

امام خمینیؒ کا پیغام اور نیا موڑ
10 آبان 1358 (عید قربان) کے موقع پر امام خمینیؒ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا کہ یونیورسٹی و مدارسِ دینیہ کے طلبہ اپنی تمام تر قوت امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں صرف کریں، اور امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ اس مخلوع و جنایتکار شاہ کو واپس ایران کے حوالے کرے۔ یہ پیغام اُس وقت آیا جب عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے الجزائر میں برژینسکی (امریکی مشیرِ قومی سلامتی) سے ملاقات کی، اور یہ ملاقات انقلابی حلقوں کے نزدیک "امریکی مفاہمت" کی علامت سمجھی گئی۔ یوں امامؒ کا پیغام طلبہ کے لیے ایک انقلابی اشارہ بن گیا۔

طلبہ کا فیصلہ اور منصوبہ بندی
امام کے پیغام کے بعد مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے دانشجویان پیرو خط امام (امام کی رہ لائن کے پیروکار طلبہ) کے نام سے ایک خفیہ اتحاد تشکیل دیا۔ ان طلبہ نے چند روزہ مشاورت اور خفیہ میٹنگز کے بعد امریکی سفارتخانے پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ مقصد یہ تھا کہ شاہ کو واپس لانے کا مطالبہ عالمی سطح پر بلند کیا جائے اور ایران کے خلاف امریکی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اس تحریک کی قیادت میں تہران یونیورسٹی، شریف ٹیکنالوجی یونیورسٹی، اور چند مذہبی مدارس کے طلبہ شامل تھے۔

4 نومبر 1979، قبضے کا دن 
صبح تقریباً 10 بجے سیکڑوں طلبہ نے تہران میں امریکی سفارتخانے کے گرد جمع ہو کر نعرے لگائے: مرگ بر آمریکا (امریکہ مردہ باد)، کچھ دیر بعد وہ دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے۔ امریکی عملے کو قابو میں کر لیا گیا اور سفارتخانے کی عمارت پر ایران کا پرچم لہرایا گیا۔ 52 امریکی سفارتکار 444 دن تک یرغمال رہے۔

امام خمینیؒ کا ردِعمل
امام خمینیؒ نے طلبہ کے اقدام کو فوراً انقلابِ دوم (دوسرا انقلاب) قرار دیا، فرمایا: یہ عمل اس انقلاب سے بھی عظیم تر ہے جو شاہ کے خلاف ہوا تھا۔ عبوری حکومت کے وزیراعظم مہدی بازرگان نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ یوں عبوری حکومت کا دور ختم ہوا اور انقلابی اداروں نے عملاً ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔

نتائج اور اثرات: 
1۔ ایران میں امریکی اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ انقلابی قوتوں کو مضبوط عوامی جواز حاصل ہوا۔ ایران میں ضدِ استکبار (Anti-Imperialism) کی سوچ مرکزی نعرہ بن گئی۔
2۔ بین الاقوامی سطح پر ایران امریکہ تعلقات منقطع ہو گئے۔ امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ اقوامِ متحدہ میں ایران کے خلاف سفارتی دباؤ بڑھا۔
3۔ نظریاتی سطح پر یہ تحریک ایک "عالمی انقلاب" کے نظریے کی بنیاد بنی۔ خطِ امام کے پیروکاروں نے اس کو عالمی استکبار کے خلاف نمونۂ عمل قرار دیا۔

ردِعمل
امریکی حکومت نے اس واقعے کو “Hostage Crisis” (یرغمال بحران) قرار دیا۔ صدر جمی کارٹر (Jimmy Carter) نے اسے امریکی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون پر حملہ کہا۔ ایران سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے گئے۔ ایران کے تمام اثاثے (تقریباً 8 بلین ڈالر) منجمد (Freeze) کر دیے گئے۔ 7 اپریل 1980 کو امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ یہ بحران کارٹر حکومت کے لیے سیاسی زوال کا باعث بنا۔ عوام نے اسے امریکہ کی "ذلت" کے طور پر دیکھا۔ یہی مسئلہ بعد میں رونالڈ ریگن کی فتح (1980 کے انتخابات) میں اہم عنصر ثابت ہوا۔

اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کا ردِعمل: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فوری طور پر ایران سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) نے بھی ایران کے خلاف فیصلہ سنایا کہ “سفارتی تحفظ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ تاہم ایران نے مؤقف اختیار کیا کہ: “یہ واقعہ عوامی انقلاب کا عمل تھا، نہ کہ سرکاری پالیسی کا۔ نتیجتاً، اقوامِ متحدہ ایران پر عملی دباؤ نہ ڈال سکی یہ انقلابی خودمختاری کی ایک مثال بن گئی۔

امریکی فوجی کارروائی کی ناکامی اور اثرات: اپریل 1980 میں آپریشن ایگل کلا (Operation Eagle Claw) کے نام سے یرغمالیوں کو چھڑانے کی خفیہ فوجی کوشش کی گئی۔ 8 ہیلی کاپٹر اور 6 طیارے ایران کے صحرائے طبس میں اتارے گئے۔ ریت کے طوفان اور تکنیکی خرابی کے باعث آپریشن ناکام ہوا۔ 8 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ خدا نے شن‌های طبس (طبس کی ریت) سے انقلاب کی مدد کی۔ یہ واقعہ ایرانی عوام کے لیے معجزاتی فتح کی علامت بن گیا۔ 

مغربی میڈیا اور رائے عامہ: مغربی میڈیا نے اسے “Iranian Hostage Crisis” کے عنوان سے روزانہ نشر کیا۔ امریکی ٹی وی چینلز (خصوصاً ABC News) نے خصوصی پروگرام “America Held Hostage” شروع کیا — جو بعد میں “Nightline” کے نام سے مشہور ہوا۔ مغربی عوام میں ایران مخالف جذبات بڑھے، لیکن تیسری دنیا اور مسلم ممالک میں ایران کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ بہت سے ماہرین نے لکھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب ایک مسلمان قوم نے مغرب کے سامنے مزاحمت کے ساتھ اپنی سیاسی خودمختاری کا اعلان کیا۔

مسلم دنیا اور غیر جانب دار ممالک کا ردِعمل: کئی عرب ممالک (خصوصاً سعودی عرب اور مصر) نے اس اقدام کی مخالفت کی، جبکہ لیبیا، شام، یمن، اور فلسطینی تنظیمیں ایران کے حق میں بولیں۔ پاکستان میں عوامی سطح پر امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ بھارت اور الجزائر نے ثالثی کی پیشکش کی۔ سوویت یونین (USSR) نے رسمی طور پر غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا لیکن پسِ پردہ ایران کے موقف کو مغرب کے خلاف ایک مفید دباؤ کے طور پر دیکھا۔ بحران کا اختتام
الجزائر معاہدہ (Algiers Accord): 20 جنوری 1981 کو، رونالڈ ریگن کے حلف برداری کے دن، ایران اور امریکہ کے درمیان الجزائر معاہدے کے تحت یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔ ایران نے اس کے بدلے میں اپنے منجمد اثاثے واپس لینے کا حق حاصل کیا۔ یہ سمجھوتہ ایران کے اصولی مؤقف کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا۔ امریکی سفارتخانے پر قبضہ ایک وقتی احتجاج نہیں بلکہ ایران کے فکری استقلال، سیاسی خوداعتمادی اور عالمی استعمار کے خلاف اعلانِ مزاحمت تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اسلامی انقلاب عالمی سطح پر ایک نظریاتی چیلنج کے طور پر ابھرا جو آج بھی ایران کی خارجہ پالیسی اور فکری بیانیے کی بنیاد ہے۔

عالمی سطح پر طویل المدت اثرات
یہ واقعہ ایک ایسے عالمی دور کی ابتدا تھا، جس میں طاقت اور خودمختاری کے بیانیے ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہو گئے۔ ایران نے فکر، ایمان، اور مزاحمت کو اپنی طاقت بنایا، جبکہ امریکہ نے طاقت کو اخلاقی برتری کا نام دے کر نیا عالمی نظم تشکیل دینے کی کوشش کی۔ تسخیرِ لانۂ جاسوسی کے اثرات آج بھی واضح ہیں، ایران اپنی انقلابی شناخت پر قائم ہے، امریکہ اب بھی اسے نظمِ عالم کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اور عالمِ اسلام کے کئی حصے اب بھی اس واقعے سے خودمختاری، مزاحمت، اور فکری بیداری کا استعارہ اخذ کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فیصل کپاڈیہ اور ڈمپل کپاڈیہ کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟
  • جہادِ افغانستان کے اثرات
  • امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
  • مفیصل کپاڈیا کا ڈمپل کپاڈیا سے کیا رشتہ ہے؟ گلوکار کا انٹرویو میں انکشاف
  • پنجاب میں ائیر کوالٹی انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گیا، شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے
  • فیصل کپاڈیہ کا بھارتی اداکارہ ڈمپل کپاڈیہ سے کیا رشتہ ہے؟
  • پاکستان میں ذہنی امراض بڑھ گئے، گزشتہ سال 1 ہزار افراد کی خودکشی
  • شہری سے بھتا طلب کرنے والا ملزم قریبی رشتے دار نکلا
  • ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات