محرم الحرام کے سماجی و دینی تقاضے
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہر مسلمان کے لیے صرف نئے ہجری سال کی شروعات نہیں بل کہ ایک ایسا روحانی لمحہ ہے جو وقت کے مفہوم، زندگی کے نصب العین اور انسان کے رب تعالی کے ساتھ تعلق کی گہرائی کو تازہ کرتا ہے۔
اسلامی تقویم کا آغاز کسی جشن یا دنیاوی مسرت کی علامت نہیں، بل کہ فکر و احتساب کی صدا ہے، جو ہر مومن کے دل میں یہ سوال جگاتی ہے کہ ایک اور سال گزر گیا، میں نے کیا پایا، کیا کھویا اور آئندہ کی راہ کیسی ہو ؟
قرآن مجید نے جن چار مہینوں کو اشہرِ حرم کا شرف عطا فرمایا، ان میں محرم الحرام کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مہینے صرف چند دنوں کا نام نہیں، بل کہ یہ اسلام کے اس معاشرتی پیغام کی علامت ہیں جو امن، عزتِ نفس، رواداری اور باہمی احترام پر قائم ہے۔ اشہرِ حرم کی حرمت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانیت کی فلاح صرف عبادات میں نہیں، بل کہ اخلاقی عظمت، سماجی ذمہ داری، اور باہمی رواداری میں بھی ہے۔
محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت ایک امانت ہے، جو پل پل گزر کر ہماری زندگی کی داستان رقم کر رہا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ صحت اور فراغت ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیث میں وقت کی اہمیت کو اس خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنا ہر لمحہ قیمتی سمجھنا چاہیے۔ محرم کا مہینہ ہمیں یہ شعور عطا کرتا ہے کہ ہم وقت کو بے مقصد نہ گزاریں، بل کہ ہر دن، ہر ساعت کو نیکی، خیر اور خدمتِ خلق سے روشن کریں۔
نئے ہجری سال کا آغاز تقویمی لحاظ سے اگرچہ سادہ سی تبدیلی ہے، لیکن روحانی اعتبار سے یہ ایک بڑی تبدیلی کا موقع ہے۔ یہ موقع ہے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا، اپنے تعلق مع اﷲ کو گہرا کرنے کا ہے۔ ایک مومن صرف اپنی گزشتہ غلطیوں پر نادم نہیں ہوتا، بل کہ آئندہ کے لیے عزمِ نو بھی کرتا ہے۔ وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں قرآن و سنّت کو اپنی زندگی کا راہ نما بناؤں گا، سچ بولوں گا، وقت کی قدر کروں گا، معاشرے کے لیے خیر کا سبب بنوں گا، اور دنیا میں اسلام کے امن، محبت اور عدل کے پیغام کو عام کروں گا۔
محرم الحرام کا مہینہ ہمیں باطن کی تطہیر، نفس کی تہذیب، اور روح کی بالیدگی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ صرف ظاہری عزت و وقار کا مہینہ نہیں، بل کہ ایک ایسا دورانیہ ہے جو انسان کو اس کی اندرونی حالت پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہر باشعور مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود سے یہ سوال کرے:
کیا میرا دل گناہوں سے پاک ہے؟
کیا میری نیت خالص ہے؟
کیا میری زبان دوسروں کے لیے باعثِ خیر ہے؟
کیا میں دوسروں کے حق ادا کر رہا ہوں؟
کیا میں اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے آسانی کا ذریعہ ہوں؟
یہ مہینہ ہمیں انفرادی اصلاح کے ساتھ اجتماعی فلاح کا پیغام بھی دیتا ہے۔ آج کا مسلمان جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت، افتراق و انتشار، اور باہمی بدگمانی ہے۔ محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک امت ہیں، اور امت کا شیرازہ صرف اس وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کی عزت کریں، اختلاف کو افتراق نہ بنائیں، اور ہر حالت میں عدل و احسان کو اپنا شعار بنائیں۔
دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بل کہ حسنِ اخلاق، حسنِ سلوک اور حسنِ تعلقات بھی دین کا جوہر ہیں۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت گواہ ہے کہ آپ ﷺ نے صرف نماز، روزہ اور حج کی دعوت نہیں دی، بل کہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں نرمی، سچائی، خیر خواہی اور عدل کو بھی دین کا حصہ بنایا۔ محرم ہمیں اسی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ مہینہ معاشرتی خیر خواہی، اصلاحِ باطن، اور فکری بیداری کا موسم ہے۔
عبادت و بندگی کے اعتبار سے بھی محرم کا مہینہ بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے ’’شہر اﷲ‘‘ یعنی اﷲ کا مہینہ فرمایا اور اس میں روزہ رکھنے کی خاص تاکید کی۔ گو کہ عبادات کا دائرہ پورے سال پر محیط ہے، لیکن محرم کی روحانی فضا دلوں کو عبادت کی طرف کھینچتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان دنوں میں عبادات کے ذریعے اﷲ سے قرب حاصل کریں، دعا کریں کہ یا اﷲ! ہمیں اس نئے سال میں گناہوں سے بچا، نیکیوں کی توفیق دے، اور ہمارے دلوں کو ایمان، محبت، اور خیر سے منور کر۔
جو قومیں وقت کے ساتھ اپنے اہداف مقرر نہیں کرتیں، وہ اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔ محرم ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے لیے ایک واضح لائحہ عمل بنائیں۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم خود کو قرآن کے قریب کریں گے، جھوٹ، غیبت، فریب اور بدگمانی سے بچیں گے، سماج میں نرمی، انصاف اور خیر کو فروغ دیں گے، اور اپنے ہر عمل کو رضائے الٰہی کے تابع بنانے کی سعی کریں گے۔
محرم الحرام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ روحانی بیداری کے بغیر سماجی فلاح ممکن نہیں، اور فرد کی اصلاح کے بغیر امت کی اصلاح ناممکن ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنے، اپنے کردار کو سنوارنے، اور معاشرے میں بھلائی عام کرنے کا سنہری موقع عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع کو رسمی تقویمی تبدیلی نہ سمجھیں، بل کہ اسے ایک بیداری، تجدیدِ عہد، اور عملی اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔
اﷲ رب العزت ہمیں اس مہینے کی روح کو سمجھنے، اس کے پیغام پر عمل کرنے، اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو تقویٰ، اخلاص، اور حسنِ اخلاق سے مزین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارتی مسلمانوں کا سماجی و اقتصادی بائیکاٹ
ریاض احمدچودھری
مودی کے بھارت میں مسلمانوں کا معاشی قتل جاری ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا سوچ پورے معاشرے میں زہر اگل رہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو دبانے کی ہر کوشش ناکام ہونے کے بعد اب انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے معاشی بائیکاٹ کا نیا حربہ سامنے آیا ہے۔عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کا عمل جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر مسلمان دکانداروں اور ہوٹل مالکان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ ہندوؤں کے ذہن میں یہ شک پیدا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دکاندار کھانوں میں گائے کے گوشت، تھوک اور علاظت کی ملاوٹ کرتے ہیں۔ اس منفی پروپیگنڈے کے بعد مقامی ہندو تنظیموں اور سیاست دانوں کی جانب سے مسلمانوں کو دکانیں کرائے پر نہ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ اس گھٹیا پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں سے ان کا ذریعہ معاش چھین کر انہیں دربدر کیا جا رہا ہے۔ یہ معاشی بائیکاٹ مہم اترا کھنڈ، مدھیہ پردیش، راجھستان اور اتر پردیش جیسے بڑے بھارتی ریاستوں میں پھیل چکی ہے۔ اس مہم کے دوران مسلمانوں کے کاروبار، خصوصاً ہوٹلوں اور دکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جہاں انتہاپسند ہندوؤں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان تاجروں کو دکانیں کرائے پر نہ دی جائیں۔اس حوالے سے ایک ہوٹل مالک وسیم احمد کا کہنا ہے کہ اس پروپیگنڈے نے میرے ہوٹل کو ویران کردیا جو پہلے گاہکوں سے بھرا ہوتا تھا۔گاہکوں کی کمی اور کاروبار میں نقصان کے باعث مجھے اپنا ہوٹل بند کرنا پڑا۔اترپردیش میں ایک منظم سازش کے تحت حکم جاری کیا گیا کہ دکانیں باقاعدہ نام کے ساتھ کھولی جائیں۔اس مہم کا مقصد ہندؤوں کو مسلمانوں کی دکانوں سے کچھ نہ خریدنے پر قائل کرنا تھا۔
مسلمانوں کیخلاف اس معاشی بائیکاٹ مہم میں ہندو مذہبی رہنماء بھی ملوث ہیں۔ہندو مذہبی رہنماء سوامی یشویت مہاراج نے اس مہم کی پر زور حمایت کی۔ یہ سلسلہ بھارت کی اترا کھنڈ، مدھیہ پردیش، راجھستان اور اتر پردیش جیسی ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے۔ان ریاستوں میں چھوٹے دکانداروں اور سبزی فروشوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اتر پردیش میں بے شمار ذبح خانے غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیے گئے ہیں۔مودی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کے ذریعہ معاش پر حملہ کیا گیا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق پر واویلا کرنے والی تنظیموں کو بھارت میں مسلمانوں کیخلاف اس معاشی بائیکاٹ پر آواز اٹھانا چاہئے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی ملکیت والے ذبح خانوں کو غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے، جس کے باعث مسلمانوں کے ذریعہ معاش پر حملہ کیا گیا ہے۔ حاجی یوسف قریشی نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی روزگار کے ذرائع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ادیتا ناتھ اور مودی کی جوڑی نے مسلمانوں میں ایک ایسے عدم تحفظ کو جنم دیا ہے جس کی کوئی اور مثال ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس جوڑی نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ان کے اقتدار میں چند رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس عید سے چند دن پہلے ایک 15 سالہ لڑکا اپنے اور دو دوستوں کے ساتھ دہلی سے عید کی خریداری کر کے ماتھورا میں واقع اپنے گھر بذریعہ ٹرین واپس جا رہا تھا۔ ان سب ساتھیوں کا حلیہ ان کے مسلمان ہونے پر دلالت کر رہا تھا۔ سیٹ پر بیٹھنے کے مسئلے پر ڈبہ میں سوار ایک گروہ سے کچھ تکرار ہوئی جو وقفے وقفے سے جاری رہی لیکن زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یہ مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔ اس گروہ نے جنید کی ٹوپی، مسلمان ہونے اور گائے کاگوشت کھانے کے طعنے دیئے اور پھر یہ سارا معاملہ زبردست حملے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس گروہ کے لوگ جو جنید اور اس کے بھائی اور دوستوں سے عمر میں بڑے تھے’ جلد ہی چاقو نکال لئے اور جید کو بے رحمی سے قتل کر دیا۔ ایک شہری کا اس قدر سفاکانہ اور بہیمانہ قتل بھارت کی جمہوریت اور اس کے سیکولر آئین پر اک بدنما داغ ہے۔ مرکزی یا ریاستی حکومت کے کسی ذمہ دار نے اس واقعہ کی مذمت میں کوئی بیان نہیں دیا اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا۔دو سال پہلے دہلی کے قریب ایک اور واقعہ میں ایک 50 سالہ مسلمان عبدالخالق کو یہ افواہ پھیلا کر کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت کھایا جا رہا ہے قتل کر دیا گیا۔ راجستھان میں ایک اور واقعہ میں جہاں ایک مسلمان بدقسمتی سے گائیں منڈی لے کر جا رہا تھا ایک ناکردہ گناہ میں بلوائیوں نے بے رحمانہ طریقے سے موقع پر ہلاک کر دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جون میں۔ اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اب تک 10 مسلمانوں کو گاؤ رکھشا کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہو رہا جب ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمان اقلیت کے خلاف اسلام فوبیا پھیلایا جا رہا ہے۔
گائے ذبح کرنے کے جرم میں عمر قید کے التزام کے قانون کے تحت گجرات میں پہلا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو دس سال کی سزا دی گئی اور ایک لاکھ کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ گائے اور گائے کی نسل کے جانوروں کو مارنے پر عمر قید کے التزام والے قانون (گجرات اینیمل پروٹیکشن (ترمیمی) قانون) 2017 کے تحت ریاست کی کسی عدالت کے ذریعہ دیئے گئے فیصلے کے تحت راجکوٹ ضلع کے دھوراجی کی ایک عدالت نے ایک شخص کو دس سال کی سزا اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی ہے۔استغاثہ کے مطابق سلیم چادر نام کے ملزم نے گائے کا ایک بچھڑا لیا تھا اور بعد میں اس کے قتل کرنے کے بعد بریانی بنا کر اس نے اپنی بیٹی کے گھر آئے مہمانوں کو دعوت دی تھی۔ اس معاملے میں سپتا مجھوٹی نامی شخص نے معاملہ درج کرایا تھا۔ جانچ کے دوران الزام کو سچ قرار دیا گیا تھا۔ لیباریٹری میں جانچ میں بچھڑنے کے قتل کی بات ثابت ہوگئی تھی۔عدالت نے سلیم کو قصوروار قرار دیتے ہوئے یہ سزاسنائی۔
٭٭٭