WE News:
2025-09-18@17:28:34 GMT

بچوں کوکتابیں کیسے پڑھائی جائیں؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

گزشتہ روز ایک صاحب کا مجھے واٹس ایپ میسج آیا۔ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، مگر فیس بک اور واٹس ایپ کا رابطہ چلا آرہا ہے۔ انہوں نے پہلے میسج کیا کہ آپ کی مدد درکار ہے۔ پھر ایک طویل ٹیکسٹ میسج آیا جس میں انہوں نے بتایا  کہ وہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں جبکہ کمپیوٹرانجینئرنگ، میتھ اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں تین ماسٹرز بھی کرر کھے ہیں۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ آج کل شاید پاکستان سے باہر ہیں، مگر انہوں نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کنٹری بیوٹ کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ انہوں نے  سوچا کہ بچوں کو کتابیں پڑھانی چاہییں کیونکہ بے شمار ریسرچ پیپرز آ چکے ہیں کہ اسکرین ٹائم اور اسکرین لرننگ سے بچوں کا فوکس، ارتکاز کا وقت اوریادداشت بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں کتابوں کی طرف لایا جائے اور اس کا آغازکہانیوں کی کتب ہی سے ہوسکتا ہے جو انہیں اپنے ساتھ جوڑ سکیں۔ جب وہ کہانیاں پڑھنے لگیں گے توپھرنان فکشن بھی پڑھیں گے۔ سیلف لرننگ بھی کتابوں کے ذریعے ہوگی اور علمی، تحقیقی کتابیں بھی پڑھ ہی لیں گے۔ ان کی سوچنے کی عادت بھی ڈویلپ ہوجائے گی۔

ان صاحب کے مطابق وہ پاکستان کے مختلف دورافتادہ علاقوں میں چلڈرن لائبریریاں بنانا چاہ رہے ہیں۔ میانوالی ضلع میں نو جبکہ آزاد کشمیر میں ایک لائبریری بنا چکے ہیں۔۔ میانوالی میں ایک مسجد لائبریری، تلہ گنگ کے ایک گاوں مییں چلڈرن لائبریری جبکہ ایک معروف یونیورسٹی کے کیفے میں کتابوں کا گوشہ بنا رہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ میانوالی اور اس طرف کے علاقوں کے اسکولوں میں لائبریریاں بنائیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ میتھ، سائنس، آئی ٹی، ٹیکنالوجی وغیرہ میں اچھی کتابیں تیار کی جائیں۔ بعض وہ خود لکھنا چاہتے ہیں، کچھ کے تراجم اور چند ایک انگریزی کی کتاب ری پبلش کریں گے۔انہوں نے تاسف سے لکھا، ’کوئی ہم سے پوچھے کہ اردو میں بچوں کے کلاسیک ناول کون سے ہیں؟ تو ہم کیا جواب دیں گے؟ ہرزبان میں بچوں کے لیے بڑے ادب کی تلخیص یا مختصر ایڈیشن (Abridged Edition)  شائع کیے جاتے ہیں۔ ہم اردو کے کون سے ناول بچوں کے لیے تلخیص یا مختصر ایڈیشن کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں؟‘

یہ بھی پڑھیں:   صرف طاقت ہی دیرپا امن قائم کر سکتی ہے

مجھے ان کی بات پڑھ کر یاد آیا کہ ایک بار پرانی کتابوں کی دکان سے برطانیہ کے اسکولوں کے سکستھ گریڈ کے لیے شائع کردہ شیکسپیئرکے ایک ڈرامے کی کتاب دیکھی تھی جس پر لکھا تھا کہ اتنے سو الفاظ کے ذخیرہ الفاظ کے لیے یہ ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ  برطانیہ میں مختلف کلاسز کے بچوں کے لیے شیکسپیئر کے شاہکار ڈرامے ان کی ذہنی سطح اور ان کے ذخیر ہ الفاظ کے  مطابق لکھے جاتے ہیں جیسے سیون گریڈ کے لیے الگ شیکسپیئر مل جائے گا اور او لیول، اے لیول کے لیے الگ سطح پر یہ کتابیں ہوں گی۔

اس ٹیکسٹ میسج میں ان صاحب نے 4،5 نکات کے حوالے سے مدد کی درخواست کی۔ لکھتے ہیں: ’ہم چلڈرن لائبریریز کے لیے بچوں کی کتب لینے کی کوشش کر رہے ہیں، اس حوالے سے پبلشرز کو ترغیب دی جائے کہ وہ اس کام کی اہمیت کو سمجھیں اور تعاون کریں۔ جبکہ بچوں کے لیے اچھے ادب کی تخلیق کی جائے اور اس مقصد کے لیے ایک نیٹ ورک بنایا جائے، معیاری ادب لکھا جائے اور اسے شائع کیا جائے۔ بچوں کے لیے میگزین گنے چنے رہ گئے ہیں، ایسے رسالے یا میگزین بھی چھپنے چاہییں جو بچوں کے لیے اچھا، بھرپور، متنوع مواد شائع کریں۔ سب سے اہم یہ کہ بچوں اورپھر میٹرک، انٹر کی سطح کے طلبہ کے لیے سائنسی لٹریچر تخلیق ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس میگزین کا آئیڈیا کچھ لوگوں سے ڈسکس کیا، مگر اس جانب لوگ متوجہ نہیں ہو رہے۔ ریڈنگز، بک کارنر جہلم والے چاہیں تو اس حوالے سے لیڈ لے سکتے ہیں۔ آخری نکتہ یہ تھا کہ لائبریریز کے علاوہ عوامی مقامات، کیفے، کینٹین، ہسپتالوں، مساجد، مالز میں چھوٹے چھوٹے بک کارنر بنائے جائیں۔ انہوں نے کتاب دوست کے حوالے سے فیس بک پیج بھی بنا رکھا ہے، اگرچہ اس پر ابھی فالورز نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میں ان تمام باتوں کا بھرپور ہم خیال ہوں۔ یہ وہ کام ہے جو ہونا چاہیے۔ کتابوں کی طرف رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کتاب نہیں بک رہی۔ اچھی کتابیں چھپ بھی رہی ہیں اور ان کے ایڈیشنز بھی فروخت ہوجاتے ہیں، مگر ان کی تعداد کم ہے اور ان کے زیادہ ترقارئین اب 30 پلس ہوچکے ہیں۔ 18 برس سے نیچے عمر کے بچوں کی غالب اکثریت کتابوں سے بہت دور ہے۔ یہ سب سے خطرناک بات ہے۔اگر نئی نسل کوکتابیں نہیں پڑھائیں گے تو پھر چند ہی برسوں میں ایک بڑا خلا پیدا ہوجائے گا۔ سب سے اہم یہ کہ ہم نے کہانیاں، کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور اگر بچوں نے وہ نہیں پڑھیں تو روایتی جنریشن گیپ کے ساتھ ایک کمیونیکیشن گیپ بھی پیدا ہوجائے گا۔

   میں نے اپنے بچوں کو کتابیں پڑھانے کی بہت کوشش کی، ہرطرح کے جتن کیے، کچھ کامیابی ملی، مگر حسب توقع نہیں۔ میری پسندیدہ بچوں کی کہانیوں میں فیروز سنز کی شائع کردہ طلسم ہوشربا سیریز اور داستان امیرحمزہ شامل ہیں۔ یہ 10،10 چھوٹے سائز کی کہانیاں ہیں۔ میں نے چند سال پہلے ایک کتاب میلہ میں دونوں سیٹ خریدے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کو کہا کہ انہیں پڑھو اورجیسے ہی مکمل ہو، اس پر انعام حاصل کرو۔ تب 50 یا 100 روپے فی کہانی کے بچوں کو دیے۔ بڑے صاحبزادے نے لالچ میں 2،4 تو پڑھیں، مگر پھر دیگر کھیل اس پر غالب آگئے، منجھلے بیٹے نے البتہ تمام کہانیاں پڑھیں اور پھر ہرایک کا خلاصہ مجھے سنا کر انعامات بھی وصول کیے۔ اسے پڑھنے کا کچھ حد تک شوق ہے، مگر مسئلہ وہی ہے کہ آج کل بچوں کے پاس اتنے اٹریکٹو متبادل موجود ہیں کہ کاغذ پر لکھے سیاہ الفاظ ان کی توجہ نہیں کھینچ پاتے۔ بے شمار کارٹون ڈرامے، کارٹون فلمیں اور اس سے بھی بڑھ کر موبائل گیمز۔ پب جی، فری فائر وغیرہ سے ہم پریشان تھے، اب پتا چلا کہ یہ بدبخت ’روبلاکس‘ زیادہ پریشان کن ہے،بچے بڑے سب اس میں انوالو ہوچکے ہیں۔ ان گیمز میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے بچے اکٹھے گیم کھیل سکتے ہیں اور مائیک تک شیئر کر لیتے ہیں۔ اب تو ورچوئل گیمزآ رہی ہیں جو مزید تباہ کن ثابت ہوں گی۔ کبھی تومجھے لگتا ہے کہ ایسے میں کہانیاں اور کتابیں پڑھانے کی  مہم ایک ہاری ہوئی جنگ ہے۔ پھر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس جنگ کو ہمیں ہر حالت میں کامیاب بنانا ہے کیونکہ شکست کی صورت میں ہماری نئی نسل ہی برباد ہوجائے گی۔ سب سے اہم یہ کہ مغرب نے اور جاپان، چین وغیرہ نے اس سب کچھ کی یلغار کے باوجود بچوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی، یوں وہاں بچے بڑے سب کتابیں پڑھتے ہیں۔

مزید پڑھیے: وہ واقعی چیمپیئن تھا

اچھے اسکولوں میں ایک فائدہ ہے کہ وہاں پرکئی کہانیوں، ناولوں کی کتابیں کورس کا حصہ ہیں، پڑھنا ضروری ہیں۔ تیسری چوتھی کلاس ہی سے کئی بک ریڈرلگے ہوتے ہیں۔ چھوٹا بیٹا عبداللہ پاک ترک اسکول میں پڑھتا ہے، ابھی 5واں گریڈ پاس کیا ہے، مگر اب تک وہ درجنوں کتابیں پڑھ چکا ہے، پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں انہیں ایک ٹاسک یہ بھی دیا گیا کہ اسپورٹس کے حوالے سے ایک ناول یا ناولٹ لکھا جائے۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں، ہمارے صاحبزادے نے ایک انگریزی مختصر ناول (ناویلا) لکھ ڈالا جس میں ان کے فیورٹ فٹ بال سپر اسٹار رونالڈو کے حوالے سے کہانی بنائی گئی تھی۔ چوتھی کلاس کے بچے سے ناول لکھوانا اسکول کی کامیابی سمجھی جائے گی۔

   عبداللہ کے اسکول میں ایک معروف برطانوی ناول نگار رولڈڈاہل(Roald Dahl)کے ناول شامل ہیں۔ ہمارے ابوعہ کا یہ فیورٹ ادیب ہے۔ کتاب میلے سے اس نے 3،4 ناول خرید رکھے ہیں، وہاں سے تو خیر ہزار 1200 سے کم نہیں ملے، البتہ انار کلی کے پرانی کتابوں کے بازار سے میں 100 روپے فی کس کے حساب سے 2،3 ناول لے آیا۔ ان میں سے ایک ناول کا ممتاز مترجم، ادیب شوکت نیازی نے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ بک کارنر جہلم نے اسے شائع کیا ہے۔ میں نے اسے پڑھا توبہت پسند آیا۔ شوکت نواز نیازی کا ترجمہ ایسا رواں اور معیاری ہے جیسے یہ ناول اردو میں ہی لکھا گیا ہو۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ہمارے سرکاری ادارے کسی کام کے ہوتے تو شوکت نواز نیازی جیسے لوگوں سے بچوں کے لیے انگریزی ناولز کے تراجم کرواتے۔ انہیں بہت اچھا معاوضہ دیا جائے اور دیگر سہولتیں بھی تاکہ وہ دن رات اسی پر کام کریں اور یوں 2،3 برسوں میں کئی عمدہ کتابیں اردو میں ترجمہ ہوجائیں لیکن افسوس کہ یہ صرف خیال ہی رہے گا۔

پاکستان کے جن چند اسکولوں میں اردو یا انگریزی ناولوں کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے، وہ قابل تعریف ہیں۔ تاہم ایسا بیشتر اسکولوں میں نہیں۔ ویسے بھی 99 فیصد اسکول سسٹمز میں بچوں کو صرف 90، 95 فیصد نمبر لانے کی دوڑ میں ڈال دیا گیا ہے۔ بچوں کو اب 8ویں کلاس پڑھائی ہی نہیں جاتی اور پری نائنتھ کے نام پر وہ دن رات میرٹ بنانے کے گھن چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ میٹرک کے امتحان دیتے ہی اگلے روز سے اکیڈمی جوائن کر لیتے ہیں تاکہ فرسٹ ایئر کی کلاسز شروع ہونے سے پہلے ہی نصاب کا ایک حصہ پڑھ ڈالیں۔ مقصد یہی کہ ایف ایس سی میں 95 فیصد نمبر لیے جائیں۔ اتنے نمبرز تو چند سو کے آتے ہیں، مگر لاکھوں طلبہ اس دوڑ میں اپنے آپ کو روبوٹ بنا دیتے ہیں۔ جنہیں درسی کتب اور نوٹس کے علاوہ کسی بھی چیز کا کچھ پتا نہیں۔

یہ سب بہت خوفناک ہے۔ کسی بھیانک خواب جیسا۔ اسے بدلنا چاہیے، مگرکیسے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔

حل نکالا جائے اور اپنی توانائی کا ایک حصہ اس میں لگایا جائے۔

مزید پڑھیں: پہلے اپنی پوزیشن بتائیں، پھر جواب لیں

عامر شہزاد نامی جن صاحب کے ٹیکسٹ میسج کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا، ایسے لوگ غنیمت بلکہ نعمت ہیں جو اس بارے  میں سوچ رہے ہیں۔ پاکستان سے باہر مقیم ہونے کے باوجود وہ دورافتادہ پسماندہ علاقوں میں لائبریریاں بنا رہے ہیں، بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے، سائنسی لٹریچر تیار کرنے اور سائنس میگزینز وغیرہ کا سوچ رہے ہیں۔ ایسے عظیم مقصد کے لیے صرف ایک آدمی کافی نہیں۔ اپنی اپنی سطح اور اپنے دائرے میں ہم سب کو کام کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے کچھ مزید بھی لکھنا چاہتا ہوں، مگر کالم کی گنجائش ختم ہوئی۔ آئندہ نشست میں ان شااللہ اس پر بات آگے بڑھائیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

اسکرین بمقابلہ کتابیں بچوں کا ادب داستان امیر حمزہ طلسم ہوشربا کتابیں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسکرین بمقابلہ کتابیں بچوں کا ادب داستان امیر حمزہ طلسم ہوشربا کتابیں اسکولوں میں کے حوالے سے بچوں کے لیے کتابیں پڑھ جائے اور میں بچوں انہوں نے بچوں کو میں ایک رہے ہیں ہے کہ ا اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے

اسلام ٹائمز: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ریلی سے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے لیکن اس میں ایران اور دیگر عرب ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے، اسرائیل صرف بچوں کو مار سکتا ہے، حماس اور القسام بریگیڈ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حماس ایک قانونی اور شرعی مزاحمتی قوت ہے جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاد کررہی ہے۔ خصوصی رپورٹ

جماعت اسلامی کے تحت اسرائیل کی جارحیت و دہشت گردی کے شکار اہل فلسطین بالخصوص بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شاہراہ قائدین پر ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ کا انعقاد کیا گیا۔ تاحد نگاہ دور تک طلبہ و طالبات کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ مارچ میں شہر بھر سے نجی و سرکاری اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی اور لیبک یا اقصیٰ کے نعرے لگا کر غزہ کے نہتے مظلوم بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، لبیک لبیک الھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونجتی رہی اور بچوں میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ میں شریک لاکھوں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی و جارحیت سے 97 فیصد اسکول اور 90 فیصد اسپتال تباہ کیے جاچکے ہیں، صحافیوں اور نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد پر بمباری کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ پوری دنیا میں عضو معطل بن چکی ہے، اس کی قراردادوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اسرائیل کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جبکہ مسلم دنیا کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں، غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 معصوم بچے شہید ہورہے ہیں، اب تک 22 ہزار سے زائد بچے شہید اور 42 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے، انسانی حقوق کی بات کرنے والا امریکہ فلسطین میں انسانیت کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، مسجد اقصیٰ صیہونی قبضے میں ہے، وہ گریٹر اسرائیل کے قیام کے خواب دیکھ رہے ہیں، دنیا کے باضمیر لوگ اسرائیل کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، بالخصوص امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا۔

حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ 7 اکتوبر کو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف یوم احتجاج منایا جائے گا جبکہ 5 اکتوبر کو کراچی میں شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ”غزہ ملین مارچ“ ہوگا، دیگر مسلم ممالک میں بھی ملین مارچز ہوں گے، گزشتہ دنوں ایران اور ملائشیا کے دورے کے دوران مختلف اسلامی تحریکوں اور سفیروں سے ملاقاتیں کی گئیں اور رابطے جاری ہیں، اہل غزہ و فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے امریکہ و اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ بھی جاری رہے گا۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف منافقت ترک کریں اور اہل غزہ و مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں، ایک طرف اسرائیل کی مذمت اور دوسری طرف اسرائیل کے پشت پناہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرتے ہیں، امریکہ انسانیت کا قاتل ہے، ہیروشیما، ناگاساکی، عراق، افغانستان اور ویتنام میں لاکھوں انسانوں کے قتل عام کی تاریخ سب کے سامنے ہے، امریکہ کبھی کسی کا دوست نہیں ہوسکتا، اس کی تاریخ بے وفائی اور منافقت سے بھری ہوئی ہے، قطر پر حملے نے ثابت کردیا کہ امریکہ کسی مسلم ملک کا وفادار نہیں۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے لیکن اس میں ایران اور دیگر عرب ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے، اسرائیل صرف بچوں کو مار سکتا ہے، حماس اور القسام بریگیڈ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حماس ایک قانونی اور شرعی مزاحمتی قوت ہے جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاد کررہی ہے، فلسطینی اپنے ایمان اور صبر کی بدولت استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی آنے والی نسلیں بھی مزاحمت جاری رکھیں گی، فلسطین میں چاروں طرف سے محاصرہ ہے، امداد پہنچنے کے تمام راستے بند ہیں، جماعت اسلامی گلوبل صمود فلوٹیلا کی مکمل حمایت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا، ہم دو ریاستی حل کو نہیں مانتے، اسرائیل ایک ناپاک وجود ہے، امریکہ اس کی ناجائز اولاد ہے، جبکہ برطانیہ نے 1917ء میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔

امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے چلڈرن غزہ مارچ میں لاکھوں کی تعداد میں شریک طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج میں آپ سب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ غزہ کے مظلوم بچوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، آپ کی یہ حاضری اور آواز یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگرچہ دنیا سو رہی ہے لیکن ہم اہلِ کراچی اور اہلِ پاکستان اہلِ غزہ کے ساتھ ہیں، ہم اپنے فلسطینی بچوں کے ساتھ ہیں، ہم بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں، اور ہم آج یہاں ان مظلوموں کی آواز میں آواز ملانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2 سال گزر چکے ہیں، غزہ پر آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، اسرائیل منصوبہ بندی کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، غزہ کے بچوں اور ماؤں اور بہنوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے، 65 ہزار سے زائد شہداء اور لاکھوں زخمی اس امت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، پورے غزہ کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔

منعم ظفر خان نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو اسلحہ اور ڈالر فراہم کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ صرف فلسطینیوں کی نہیں رہی، یہ ظالم اور مظلوم اور انسانیت کی بقا کی جنگ ہے، پوری دنیا کے باضمیر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یونیورسٹیوں کے طلبہ ہوں یا یورپ اور امریکہ کے عوام، لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنے حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں، وہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں گئے وہ انسانی حقوق کے دعوے؟ کہاں گئے وہ ادارے جو جانوروں کے حقوق کی بات کرتے تھے؟ کیا انہیں غزہ کا خون بہتا نظر نہیں آتا؟ لیکن افسوس! 22 ماہ سے زائد گزر گئے مگر مسلم دنیا کے حکمران صرف اجلاس کرتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، کھانے کھاتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی کراچی اگر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کردار ادا نہیں کیا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اہلِ غزہ نے دنیا کو یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایمان اور استقامت کے سامنے بڑے سے بڑا دشمن بھی شکست کھا جاتا ہے، فلسطینی عوام 700دنوں سے ڈٹے ہوئے ہیں، یہی ایمان، یہی جذبہ ہے جو انہیں ناقابلِ شکست بنا رہا ہے لیکن ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ہماری ذمہ داری ہے کہ فلسطنیوں پر مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں، سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں نکل کر احتجاج کریں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی، ایک دن قبلہ اول آزاد ہوگا، ہم بیت المقدس میں نماز پڑھیں گے اسرائیل نابود ہو جائے گا، امریکہ ہو یا برطانیہ یا مغرب کی طاقتیں، یہ سب زوال پذیر ہیں، کامیابی اور کامرانی صرف اسلام کا مقدر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
  • عمرشاہ کی طبیعت کیسے بگڑی؟ انتقال کی رات کیا ہوا؟ چچا نے دکھ بھری داستان بیان کردی
  • سوشل میڈیا اسٹار عمر شاہ کے آخری لمحات کیسے تھے؟ چچا کا ویڈیو بیان وائرل
  • کراچی میں ٹریفک پولیس کی آگاہی مہم، یکم اکتوبر سے ای چالان کیے جائیں گے
  • عالیہ بھٹ نے بیٹی کی پیدائش کے بعد تیزی سے وزن کیسے کم کیا؟
  • وفاق کےملازمین کے بچوں کیلئے مالی سال 26-2025کے وظیفہ ایوارڈز کا اعلان
  • اب اسلام آباد سے صرف 20 منٹ میں راولپنڈی پہنچنا ممکن، لیکن کیسے؟
  • سکول وینز اور رکشوں میں بچوں کو حد سے زیادہ بٹھانے پر سی ٹی او کا سخت ایکشن
  • پاکستانی تارکین وطن کے بچوں کے لیے مفت پیشہ ورانہ تربیتی کورسز، رجسٹریشن کیسے کروائی جائے؟
  • 82 سالہ امیتابھ بچن 75 فیصد ناکارہ جگر کے باوجود موت کو کیسے شکست دے رہے ہیں؟