WE News:
2025-11-05@02:21:20 GMT

بچوں کوکتابیں کیسے پڑھائی جائیں؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

گزشتہ روز ایک صاحب کا مجھے واٹس ایپ میسج آیا۔ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، مگر فیس بک اور واٹس ایپ کا رابطہ چلا آرہا ہے۔ انہوں نے پہلے میسج کیا کہ آپ کی مدد درکار ہے۔ پھر ایک طویل ٹیکسٹ میسج آیا جس میں انہوں نے بتایا  کہ وہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں جبکہ کمپیوٹرانجینئرنگ، میتھ اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں تین ماسٹرز بھی کرر کھے ہیں۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ آج کل شاید پاکستان سے باہر ہیں، مگر انہوں نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کنٹری بیوٹ کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ انہوں نے  سوچا کہ بچوں کو کتابیں پڑھانی چاہییں کیونکہ بے شمار ریسرچ پیپرز آ چکے ہیں کہ اسکرین ٹائم اور اسکرین لرننگ سے بچوں کا فوکس، ارتکاز کا وقت اوریادداشت بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں کتابوں کی طرف لایا جائے اور اس کا آغازکہانیوں کی کتب ہی سے ہوسکتا ہے جو انہیں اپنے ساتھ جوڑ سکیں۔ جب وہ کہانیاں پڑھنے لگیں گے توپھرنان فکشن بھی پڑھیں گے۔ سیلف لرننگ بھی کتابوں کے ذریعے ہوگی اور علمی، تحقیقی کتابیں بھی پڑھ ہی لیں گے۔ ان کی سوچنے کی عادت بھی ڈویلپ ہوجائے گی۔

ان صاحب کے مطابق وہ پاکستان کے مختلف دورافتادہ علاقوں میں چلڈرن لائبریریاں بنانا چاہ رہے ہیں۔ میانوالی ضلع میں نو جبکہ آزاد کشمیر میں ایک لائبریری بنا چکے ہیں۔۔ میانوالی میں ایک مسجد لائبریری، تلہ گنگ کے ایک گاوں مییں چلڈرن لائبریری جبکہ ایک معروف یونیورسٹی کے کیفے میں کتابوں کا گوشہ بنا رہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ میانوالی اور اس طرف کے علاقوں کے اسکولوں میں لائبریریاں بنائیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ میتھ، سائنس، آئی ٹی، ٹیکنالوجی وغیرہ میں اچھی کتابیں تیار کی جائیں۔ بعض وہ خود لکھنا چاہتے ہیں، کچھ کے تراجم اور چند ایک انگریزی کی کتاب ری پبلش کریں گے۔انہوں نے تاسف سے لکھا، ’کوئی ہم سے پوچھے کہ اردو میں بچوں کے کلاسیک ناول کون سے ہیں؟ تو ہم کیا جواب دیں گے؟ ہرزبان میں بچوں کے لیے بڑے ادب کی تلخیص یا مختصر ایڈیشن (Abridged Edition)  شائع کیے جاتے ہیں۔ ہم اردو کے کون سے ناول بچوں کے لیے تلخیص یا مختصر ایڈیشن کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں؟‘

یہ بھی پڑھیں:   صرف طاقت ہی دیرپا امن قائم کر سکتی ہے

مجھے ان کی بات پڑھ کر یاد آیا کہ ایک بار پرانی کتابوں کی دکان سے برطانیہ کے اسکولوں کے سکستھ گریڈ کے لیے شائع کردہ شیکسپیئرکے ایک ڈرامے کی کتاب دیکھی تھی جس پر لکھا تھا کہ اتنے سو الفاظ کے ذخیرہ الفاظ کے لیے یہ ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ  برطانیہ میں مختلف کلاسز کے بچوں کے لیے شیکسپیئر کے شاہکار ڈرامے ان کی ذہنی سطح اور ان کے ذخیر ہ الفاظ کے  مطابق لکھے جاتے ہیں جیسے سیون گریڈ کے لیے الگ شیکسپیئر مل جائے گا اور او لیول، اے لیول کے لیے الگ سطح پر یہ کتابیں ہوں گی۔

اس ٹیکسٹ میسج میں ان صاحب نے 4،5 نکات کے حوالے سے مدد کی درخواست کی۔ لکھتے ہیں: ’ہم چلڈرن لائبریریز کے لیے بچوں کی کتب لینے کی کوشش کر رہے ہیں، اس حوالے سے پبلشرز کو ترغیب دی جائے کہ وہ اس کام کی اہمیت کو سمجھیں اور تعاون کریں۔ جبکہ بچوں کے لیے اچھے ادب کی تخلیق کی جائے اور اس مقصد کے لیے ایک نیٹ ورک بنایا جائے، معیاری ادب لکھا جائے اور اسے شائع کیا جائے۔ بچوں کے لیے میگزین گنے چنے رہ گئے ہیں، ایسے رسالے یا میگزین بھی چھپنے چاہییں جو بچوں کے لیے اچھا، بھرپور، متنوع مواد شائع کریں۔ سب سے اہم یہ کہ بچوں اورپھر میٹرک، انٹر کی سطح کے طلبہ کے لیے سائنسی لٹریچر تخلیق ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس میگزین کا آئیڈیا کچھ لوگوں سے ڈسکس کیا، مگر اس جانب لوگ متوجہ نہیں ہو رہے۔ ریڈنگز، بک کارنر جہلم والے چاہیں تو اس حوالے سے لیڈ لے سکتے ہیں۔ آخری نکتہ یہ تھا کہ لائبریریز کے علاوہ عوامی مقامات، کیفے، کینٹین، ہسپتالوں، مساجد، مالز میں چھوٹے چھوٹے بک کارنر بنائے جائیں۔ انہوں نے کتاب دوست کے حوالے سے فیس بک پیج بھی بنا رکھا ہے، اگرچہ اس پر ابھی فالورز نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میں ان تمام باتوں کا بھرپور ہم خیال ہوں۔ یہ وہ کام ہے جو ہونا چاہیے۔ کتابوں کی طرف رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کتاب نہیں بک رہی۔ اچھی کتابیں چھپ بھی رہی ہیں اور ان کے ایڈیشنز بھی فروخت ہوجاتے ہیں، مگر ان کی تعداد کم ہے اور ان کے زیادہ ترقارئین اب 30 پلس ہوچکے ہیں۔ 18 برس سے نیچے عمر کے بچوں کی غالب اکثریت کتابوں سے بہت دور ہے۔ یہ سب سے خطرناک بات ہے۔اگر نئی نسل کوکتابیں نہیں پڑھائیں گے تو پھر چند ہی برسوں میں ایک بڑا خلا پیدا ہوجائے گا۔ سب سے اہم یہ کہ ہم نے کہانیاں، کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور اگر بچوں نے وہ نہیں پڑھیں تو روایتی جنریشن گیپ کے ساتھ ایک کمیونیکیشن گیپ بھی پیدا ہوجائے گا۔

   میں نے اپنے بچوں کو کتابیں پڑھانے کی بہت کوشش کی، ہرطرح کے جتن کیے، کچھ کامیابی ملی، مگر حسب توقع نہیں۔ میری پسندیدہ بچوں کی کہانیوں میں فیروز سنز کی شائع کردہ طلسم ہوشربا سیریز اور داستان امیرحمزہ شامل ہیں۔ یہ 10،10 چھوٹے سائز کی کہانیاں ہیں۔ میں نے چند سال پہلے ایک کتاب میلہ میں دونوں سیٹ خریدے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کو کہا کہ انہیں پڑھو اورجیسے ہی مکمل ہو، اس پر انعام حاصل کرو۔ تب 50 یا 100 روپے فی کہانی کے بچوں کو دیے۔ بڑے صاحبزادے نے لالچ میں 2،4 تو پڑھیں، مگر پھر دیگر کھیل اس پر غالب آگئے، منجھلے بیٹے نے البتہ تمام کہانیاں پڑھیں اور پھر ہرایک کا خلاصہ مجھے سنا کر انعامات بھی وصول کیے۔ اسے پڑھنے کا کچھ حد تک شوق ہے، مگر مسئلہ وہی ہے کہ آج کل بچوں کے پاس اتنے اٹریکٹو متبادل موجود ہیں کہ کاغذ پر لکھے سیاہ الفاظ ان کی توجہ نہیں کھینچ پاتے۔ بے شمار کارٹون ڈرامے، کارٹون فلمیں اور اس سے بھی بڑھ کر موبائل گیمز۔ پب جی، فری فائر وغیرہ سے ہم پریشان تھے، اب پتا چلا کہ یہ بدبخت ’روبلاکس‘ زیادہ پریشان کن ہے،بچے بڑے سب اس میں انوالو ہوچکے ہیں۔ ان گیمز میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے بچے اکٹھے گیم کھیل سکتے ہیں اور مائیک تک شیئر کر لیتے ہیں۔ اب تو ورچوئل گیمزآ رہی ہیں جو مزید تباہ کن ثابت ہوں گی۔ کبھی تومجھے لگتا ہے کہ ایسے میں کہانیاں اور کتابیں پڑھانے کی  مہم ایک ہاری ہوئی جنگ ہے۔ پھر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس جنگ کو ہمیں ہر حالت میں کامیاب بنانا ہے کیونکہ شکست کی صورت میں ہماری نئی نسل ہی برباد ہوجائے گی۔ سب سے اہم یہ کہ مغرب نے اور جاپان، چین وغیرہ نے اس سب کچھ کی یلغار کے باوجود بچوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی، یوں وہاں بچے بڑے سب کتابیں پڑھتے ہیں۔

مزید پڑھیے: وہ واقعی چیمپیئن تھا

اچھے اسکولوں میں ایک فائدہ ہے کہ وہاں پرکئی کہانیوں، ناولوں کی کتابیں کورس کا حصہ ہیں، پڑھنا ضروری ہیں۔ تیسری چوتھی کلاس ہی سے کئی بک ریڈرلگے ہوتے ہیں۔ چھوٹا بیٹا عبداللہ پاک ترک اسکول میں پڑھتا ہے، ابھی 5واں گریڈ پاس کیا ہے، مگر اب تک وہ درجنوں کتابیں پڑھ چکا ہے، پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں انہیں ایک ٹاسک یہ بھی دیا گیا کہ اسپورٹس کے حوالے سے ایک ناول یا ناولٹ لکھا جائے۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں، ہمارے صاحبزادے نے ایک انگریزی مختصر ناول (ناویلا) لکھ ڈالا جس میں ان کے فیورٹ فٹ بال سپر اسٹار رونالڈو کے حوالے سے کہانی بنائی گئی تھی۔ چوتھی کلاس کے بچے سے ناول لکھوانا اسکول کی کامیابی سمجھی جائے گی۔

   عبداللہ کے اسکول میں ایک معروف برطانوی ناول نگار رولڈڈاہل(Roald Dahl)کے ناول شامل ہیں۔ ہمارے ابوعہ کا یہ فیورٹ ادیب ہے۔ کتاب میلے سے اس نے 3،4 ناول خرید رکھے ہیں، وہاں سے تو خیر ہزار 1200 سے کم نہیں ملے، البتہ انار کلی کے پرانی کتابوں کے بازار سے میں 100 روپے فی کس کے حساب سے 2،3 ناول لے آیا۔ ان میں سے ایک ناول کا ممتاز مترجم، ادیب شوکت نیازی نے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ بک کارنر جہلم نے اسے شائع کیا ہے۔ میں نے اسے پڑھا توبہت پسند آیا۔ شوکت نواز نیازی کا ترجمہ ایسا رواں اور معیاری ہے جیسے یہ ناول اردو میں ہی لکھا گیا ہو۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ہمارے سرکاری ادارے کسی کام کے ہوتے تو شوکت نواز نیازی جیسے لوگوں سے بچوں کے لیے انگریزی ناولز کے تراجم کرواتے۔ انہیں بہت اچھا معاوضہ دیا جائے اور دیگر سہولتیں بھی تاکہ وہ دن رات اسی پر کام کریں اور یوں 2،3 برسوں میں کئی عمدہ کتابیں اردو میں ترجمہ ہوجائیں لیکن افسوس کہ یہ صرف خیال ہی رہے گا۔

پاکستان کے جن چند اسکولوں میں اردو یا انگریزی ناولوں کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے، وہ قابل تعریف ہیں۔ تاہم ایسا بیشتر اسکولوں میں نہیں۔ ویسے بھی 99 فیصد اسکول سسٹمز میں بچوں کو صرف 90، 95 فیصد نمبر لانے کی دوڑ میں ڈال دیا گیا ہے۔ بچوں کو اب 8ویں کلاس پڑھائی ہی نہیں جاتی اور پری نائنتھ کے نام پر وہ دن رات میرٹ بنانے کے گھن چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ میٹرک کے امتحان دیتے ہی اگلے روز سے اکیڈمی جوائن کر لیتے ہیں تاکہ فرسٹ ایئر کی کلاسز شروع ہونے سے پہلے ہی نصاب کا ایک حصہ پڑھ ڈالیں۔ مقصد یہی کہ ایف ایس سی میں 95 فیصد نمبر لیے جائیں۔ اتنے نمبرز تو چند سو کے آتے ہیں، مگر لاکھوں طلبہ اس دوڑ میں اپنے آپ کو روبوٹ بنا دیتے ہیں۔ جنہیں درسی کتب اور نوٹس کے علاوہ کسی بھی چیز کا کچھ پتا نہیں۔

یہ سب بہت خوفناک ہے۔ کسی بھیانک خواب جیسا۔ اسے بدلنا چاہیے، مگرکیسے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔

حل نکالا جائے اور اپنی توانائی کا ایک حصہ اس میں لگایا جائے۔

مزید پڑھیں: پہلے اپنی پوزیشن بتائیں، پھر جواب لیں

عامر شہزاد نامی جن صاحب کے ٹیکسٹ میسج کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا، ایسے لوگ غنیمت بلکہ نعمت ہیں جو اس بارے  میں سوچ رہے ہیں۔ پاکستان سے باہر مقیم ہونے کے باوجود وہ دورافتادہ پسماندہ علاقوں میں لائبریریاں بنا رہے ہیں، بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے، سائنسی لٹریچر تیار کرنے اور سائنس میگزینز وغیرہ کا سوچ رہے ہیں۔ ایسے عظیم مقصد کے لیے صرف ایک آدمی کافی نہیں۔ اپنی اپنی سطح اور اپنے دائرے میں ہم سب کو کام کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے کچھ مزید بھی لکھنا چاہتا ہوں، مگر کالم کی گنجائش ختم ہوئی۔ آئندہ نشست میں ان شااللہ اس پر بات آگے بڑھائیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

اسکرین بمقابلہ کتابیں بچوں کا ادب داستان امیر حمزہ طلسم ہوشربا کتابیں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسکرین بمقابلہ کتابیں بچوں کا ادب داستان امیر حمزہ طلسم ہوشربا کتابیں اسکولوں میں کے حوالے سے بچوں کے لیے کتابیں پڑھ جائے اور میں بچوں انہوں نے بچوں کو میں ایک رہے ہیں ہے کہ ا اور اس ہیں کہ

پڑھیں:

خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟

      اگرچہ آج کا انسان سائنسی ترقی اور مادی وسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دل بے چین، ذہن پریشان اور زندگی بے سکون نظر آتی ہے۔

جدید معاشرہ روحانی، معاشرتی اور اخلاقی توازن سے محروم ہو چکا ہے۔ تعلقات کی کمزوری، اقدار کی پامالی اور دینی شعور کی کمی نے معاشرے کو فکری اور جذباتی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسے میں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر امن، عدل، شکر اور سادگی پر مبنی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 13)۔ ارشادِ نبوی ؐ ہے: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 1924)۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے اندر احسان، محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک پرامن اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد تحفظ اور سکون محسوس کرے۔ ایک خوشحال معاشرہ دراصل امن کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور اسلام نے قرآن اور رسول اللہ ؐ کی سنت کے ذریعے ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جو نہ صرف انفرادی سکون بلکہ اجتماعی فلاح کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ایک خوبصورت معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انسان کو انصاف، رحم، محبت، اور بھائی چارے کے ساتھ رکھا جائے۔ قرآن و حدیث میں انسانیت کی عظمت اور سب انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔

’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نرمی اور انصاف کرو جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی نہ کریں اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالیں۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ (60:8)

’’ان سے حسن سلوک کے ساتھ بات کرو۔ شاید اللہ ان میں سے کوئی ہدایت یافتہ کرے یا وہ خوف سے ڈریں۔‘‘ (سورۃ النحل 16:125)

نبی ؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔‘‘

یقیناً! ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد معافی، درگزر، نرم دلی، اور باہمی احترام پر قائم ہوتی ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں واضح طور پر بتایا ہے کہ اگر ہم ایک پرامن اور خوبصورت معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنا، برداشت کرنا اور اصلاح کی نیت سے خیرخواہی کرنا سیکھنا ہوگا۔

’’اور برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہے، مگر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(سورۃ الشوریٰ 42:40)

معاف کرنا نہ صرف اخلاقی برتری ہے، بلکہ اللہ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔

’’اور تم میں سے جو صاحبِ فضل اور کشادگی والے ہیں، وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجرین کو کچھ نہیں دیں گے۔ بلکہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟‘‘

(سورۃ النور 24:22)

جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے ہیں، وہی اللہ سے معافی کے حق دار بنتے ہیں۔

جب طائف کے لوگوں نے نبی ؐ کو پتھر مارے اور زخمی کر دیا، تو فرشتے نے عرض کی کہ ان پر پہاڑ گرا دوں؟ نبی ؐ نے فرمایا: ’’نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث 1759)

ایک مثالی معاشرے کی قیادت وہی کرتا ہے جو درگزر کو اپنی طاقت بناتا ہے۔

ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے ظلم کے نظام کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2442)۔

نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’مظلوم کی دعا سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح بخاری: حدیث 2448 / صحیح مسلم: حدیث 19)

انسانی جان کا تقدس اسلام میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے، سوائے حق کے‘‘ (سورۃ الاسراء ، آیت: 33)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی نفس کو ناحق قتل کرے گا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت: 32)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 10)۔ اللہ تعالیٰ نے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 93)۔ ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں ناحق قتل کو بدترین جرائم میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت میں شدید بتائی گئی ہے۔

غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا اسلام کا بنیادی حکم ہے اور یہیں سے ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی خوشنودی کے لیے جو مال تم خرچ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں کیا جائے گا‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 272)۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت: 261)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی دنیاوی مشکل کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مشکلات کو دور فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم، حدیث: 2699) غریبوں کی مدد سے معاشرے میں محبت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی تفریق ختم کر کے انسانی مساوات قائم کرتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد دوسرے کے درد کو محسوس کرے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرے، اور ضرورت مندوں کی مدد کرے، وہی حقیقی خوبصورت معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کھانا کھلانا اسلام میں ایک عظیم عمل اور خوبصورت معاشرے کی بنیاد ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں باوجود خواہش کے کہ خود انہیں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (سورۃ الانسان، آیت: 8)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5081)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بھوکے کو کھانا کھلایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5545)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر جان پہچان والے اور نا جاننے والے کو سلام کرنا‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6236)۔

رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو (سورۃ النسآء، آیت: 1)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اور رشتہ دار اپنے حق میں ایک دوسرے پر (دوسروں سے) زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال، آیت: 75)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر میں برکت دی جائے، وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1961)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکا دے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع تعلقی کرنے کے باوجود تعلق جوڑے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5991)۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 3895)۔ جب ہم رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں گے، خاندانی نظام کو مضبوط کریں گے، اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں گے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پرسکون اور خوبصورت بنے گا۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر فرد محفوظ اور خوش ہو، وہی حقیقی اسلامی معاشرہ ہے جس کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔

ہمارے قریب رہنے والا اور دفتر میں ساتھ کام کرنے والا دونوں ہی ہمارے پڑوسی ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب کے پڑوسی، دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ بھلائی کرو‘‘ (سورۃ النسآء، آیت: 36)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کو بارہا واضح فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 1125)۔ ’’خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! کون؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کا پڑوسی اس کی اذیتوں (اور شر) سے محفوظ نہ رہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنا دیں گے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5665)۔

اگر ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا پرامن، خوشحال اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو بے چینی، اضطراب، ذہنی دباؤ اور انتشار سے پاک ہو۔ یہ اعمال درحقیقت ہمارے دل کو نرم کرتے ہیں، ہمیں انسانی ہمدردی سکھاتے ہیں، اور معاشرے میں امن و سکون قائم کرتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے دکھ بانٹتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں ایک خاص قسم کی تسلی اور سکون نازل فرماتے ہیں جو دنیاوی comforts سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وہ روحانی سکون ہے جو ہمیں حقیقی خوشی عطا کرتا ہے۔

ایلن مسک، بل گیٹس، مارک زکربرگ اور دیگر ارب پتی افراد انسانیت کی بہتری کے لیے کام کرکے ایک قسم کا ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں۔ ایلن مسک خلائی ٹیکنالوجی اور پائیدار توانائی کے ذریعے، بل گیٹس صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، اور مارک زکربرگ طبی تحقیق اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب انسانیت کی خدمت کے ذریعے اطمینانِ قلب کی تلاش میں ہیں۔ بلاشبہ دولت، شہرت اور عیش و آرام کی فراوانی ذہنی سکون کے حصول کے لیے ناکافی ہیں، کیونکہ یہ سب فانی اور عارضی ہیں۔ خوبصورت معاشرے کی تشکیل کے لیے اگر مندرجہ بالااصولوں پر عمل کیا جائے، تو ایک خوبصورت اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جو سکون قلب سے بھی مالا مال ہو۔

(مصنف کا تعارف: ڈاکٹر محمد زاہد رضا جامعہ پنجاب (لاہور) سے منسلک ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ تحقیقی جرائد میں ان کے کئی تحقیقاتی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے لیے مضامین بھی لکھتے ہیں۔)

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی رہائی کیلئے جنگ جاری رکھیں گے، علیمہ خان
  • ستائیسویں ترمیم سے ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی، منظور نہیں ہونے دینگے، اپوزیشن اتحاد
  • 27 ویں ترمیم سے ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی، منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد
  • جنگ جاری رہے گی، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ڈر جائیں، علیمہ خان
  • شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا
  • اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
  • جنوبی کوریا میں موت کاروبار کا ذریعہ کیسے بن گئی؟
  • ایکسکلیوسیو سٹوریز اکتوبر 2025
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی