بچوں کوکتابیں کیسے پڑھائی جائیں؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
گزشتہ روز ایک صاحب کا مجھے واٹس ایپ میسج آیا۔ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، مگر فیس بک اور واٹس ایپ کا رابطہ چلا آرہا ہے۔ انہوں نے پہلے میسج کیا کہ آپ کی مدد درکار ہے۔ پھر ایک طویل ٹیکسٹ میسج آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں جبکہ کمپیوٹرانجینئرنگ، میتھ اور الیکٹریکل انجینئرنگ میں تین ماسٹرز بھی کرر کھے ہیں۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ آج کل شاید پاکستان سے باہر ہیں، مگر انہوں نے اپنے ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کنٹری بیوٹ کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ بچوں کو کتابیں پڑھانی چاہییں کیونکہ بے شمار ریسرچ پیپرز آ چکے ہیں کہ اسکرین ٹائم اور اسکرین لرننگ سے بچوں کا فوکس، ارتکاز کا وقت اوریادداشت بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں کتابوں کی طرف لایا جائے اور اس کا آغازکہانیوں کی کتب ہی سے ہوسکتا ہے جو انہیں اپنے ساتھ جوڑ سکیں۔ جب وہ کہانیاں پڑھنے لگیں گے توپھرنان فکشن بھی پڑھیں گے۔ سیلف لرننگ بھی کتابوں کے ذریعے ہوگی اور علمی، تحقیقی کتابیں بھی پڑھ ہی لیں گے۔ ان کی سوچنے کی عادت بھی ڈویلپ ہوجائے گی۔
ان صاحب کے مطابق وہ پاکستان کے مختلف دورافتادہ علاقوں میں چلڈرن لائبریریاں بنانا چاہ رہے ہیں۔ میانوالی ضلع میں نو جبکہ آزاد کشمیر میں ایک لائبریری بنا چکے ہیں۔۔ میانوالی میں ایک مسجد لائبریری، تلہ گنگ کے ایک گاوں مییں چلڈرن لائبریری جبکہ ایک معروف یونیورسٹی کے کیفے میں کتابوں کا گوشہ بنا رہے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ میانوالی اور اس طرف کے علاقوں کے اسکولوں میں لائبریریاں بنائیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ میتھ، سائنس، آئی ٹی، ٹیکنالوجی وغیرہ میں اچھی کتابیں تیار کی جائیں۔ بعض وہ خود لکھنا چاہتے ہیں، کچھ کے تراجم اور چند ایک انگریزی کی کتاب ری پبلش کریں گے۔انہوں نے تاسف سے لکھا، ’کوئی ہم سے پوچھے کہ اردو میں بچوں کے کلاسیک ناول کون سے ہیں؟ تو ہم کیا جواب دیں گے؟ ہرزبان میں بچوں کے لیے بڑے ادب کی تلخیص یا مختصر ایڈیشن (Abridged Edition) شائع کیے جاتے ہیں۔ ہم اردو کے کون سے ناول بچوں کے لیے تلخیص یا مختصر ایڈیشن کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں؟‘
یہ بھی پڑھیں: صرف طاقت ہی دیرپا امن قائم کر سکتی ہے
مجھے ان کی بات پڑھ کر یاد آیا کہ ایک بار پرانی کتابوں کی دکان سے برطانیہ کے اسکولوں کے سکستھ گریڈ کے لیے شائع کردہ شیکسپیئرکے ایک ڈرامے کی کتاب دیکھی تھی جس پر لکھا تھا کہ اتنے سو الفاظ کے ذخیرہ الفاظ کے لیے یہ ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ برطانیہ میں مختلف کلاسز کے بچوں کے لیے شیکسپیئر کے شاہکار ڈرامے ان کی ذہنی سطح اور ان کے ذخیر ہ الفاظ کے مطابق لکھے جاتے ہیں جیسے سیون گریڈ کے لیے الگ شیکسپیئر مل جائے گا اور او لیول، اے لیول کے لیے الگ سطح پر یہ کتابیں ہوں گی۔
اس ٹیکسٹ میسج میں ان صاحب نے 4،5 نکات کے حوالے سے مدد کی درخواست کی۔ لکھتے ہیں: ’ہم چلڈرن لائبریریز کے لیے بچوں کی کتب لینے کی کوشش کر رہے ہیں، اس حوالے سے پبلشرز کو ترغیب دی جائے کہ وہ اس کام کی اہمیت کو سمجھیں اور تعاون کریں۔ جبکہ بچوں کے لیے اچھے ادب کی تخلیق کی جائے اور اس مقصد کے لیے ایک نیٹ ورک بنایا جائے، معیاری ادب لکھا جائے اور اسے شائع کیا جائے۔ بچوں کے لیے میگزین گنے چنے رہ گئے ہیں، ایسے رسالے یا میگزین بھی چھپنے چاہییں جو بچوں کے لیے اچھا، بھرپور، متنوع مواد شائع کریں۔ سب سے اہم یہ کہ بچوں اورپھر میٹرک، انٹر کی سطح کے طلبہ کے لیے سائنسی لٹریچر تخلیق ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس میگزین کا آئیڈیا کچھ لوگوں سے ڈسکس کیا، مگر اس جانب لوگ متوجہ نہیں ہو رہے۔ ریڈنگز، بک کارنر جہلم والے چاہیں تو اس حوالے سے لیڈ لے سکتے ہیں۔ آخری نکتہ یہ تھا کہ لائبریریز کے علاوہ عوامی مقامات، کیفے، کینٹین، ہسپتالوں، مساجد، مالز میں چھوٹے چھوٹے بک کارنر بنائے جائیں۔ انہوں نے کتاب دوست کے حوالے سے فیس بک پیج بھی بنا رکھا ہے، اگرچہ اس پر ابھی فالورز نہ ہونے کے برابر ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں ان تمام باتوں کا بھرپور ہم خیال ہوں۔ یہ وہ کام ہے جو ہونا چاہیے۔ کتابوں کی طرف رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کتاب نہیں بک رہی۔ اچھی کتابیں چھپ بھی رہی ہیں اور ان کے ایڈیشنز بھی فروخت ہوجاتے ہیں، مگر ان کی تعداد کم ہے اور ان کے زیادہ ترقارئین اب 30 پلس ہوچکے ہیں۔ 18 برس سے نیچے عمر کے بچوں کی غالب اکثریت کتابوں سے بہت دور ہے۔ یہ سب سے خطرناک بات ہے۔اگر نئی نسل کوکتابیں نہیں پڑھائیں گے تو پھر چند ہی برسوں میں ایک بڑا خلا پیدا ہوجائے گا۔ سب سے اہم یہ کہ ہم نے کہانیاں، کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور اگر بچوں نے وہ نہیں پڑھیں تو روایتی جنریشن گیپ کے ساتھ ایک کمیونیکیشن گیپ بھی پیدا ہوجائے گا۔
میں نے اپنے بچوں کو کتابیں پڑھانے کی بہت کوشش کی، ہرطرح کے جتن کیے، کچھ کامیابی ملی، مگر حسب توقع نہیں۔ میری پسندیدہ بچوں کی کہانیوں میں فیروز سنز کی شائع کردہ طلسم ہوشربا سیریز اور داستان امیرحمزہ شامل ہیں۔ یہ 10،10 چھوٹے سائز کی کہانیاں ہیں۔ میں نے چند سال پہلے ایک کتاب میلہ میں دونوں سیٹ خریدے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کو کہا کہ انہیں پڑھو اورجیسے ہی مکمل ہو، اس پر انعام حاصل کرو۔ تب 50 یا 100 روپے فی کہانی کے بچوں کو دیے۔ بڑے صاحبزادے نے لالچ میں 2،4 تو پڑھیں، مگر پھر دیگر کھیل اس پر غالب آگئے، منجھلے بیٹے نے البتہ تمام کہانیاں پڑھیں اور پھر ہرایک کا خلاصہ مجھے سنا کر انعامات بھی وصول کیے۔ اسے پڑھنے کا کچھ حد تک شوق ہے، مگر مسئلہ وہی ہے کہ آج کل بچوں کے پاس اتنے اٹریکٹو متبادل موجود ہیں کہ کاغذ پر لکھے سیاہ الفاظ ان کی توجہ نہیں کھینچ پاتے۔ بے شمار کارٹون ڈرامے، کارٹون فلمیں اور اس سے بھی بڑھ کر موبائل گیمز۔ پب جی، فری فائر وغیرہ سے ہم پریشان تھے، اب پتا چلا کہ یہ بدبخت ’روبلاکس‘ زیادہ پریشان کن ہے،بچے بڑے سب اس میں انوالو ہوچکے ہیں۔ ان گیمز میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے بچے اکٹھے گیم کھیل سکتے ہیں اور مائیک تک شیئر کر لیتے ہیں۔ اب تو ورچوئل گیمزآ رہی ہیں جو مزید تباہ کن ثابت ہوں گی۔ کبھی تومجھے لگتا ہے کہ ایسے میں کہانیاں اور کتابیں پڑھانے کی مہم ایک ہاری ہوئی جنگ ہے۔ پھر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس جنگ کو ہمیں ہر حالت میں کامیاب بنانا ہے کیونکہ شکست کی صورت میں ہماری نئی نسل ہی برباد ہوجائے گی۔ سب سے اہم یہ کہ مغرب نے اور جاپان، چین وغیرہ نے اس سب کچھ کی یلغار کے باوجود بچوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی، یوں وہاں بچے بڑے سب کتابیں پڑھتے ہیں۔
مزید پڑھیے: وہ واقعی چیمپیئن تھا
اچھے اسکولوں میں ایک فائدہ ہے کہ وہاں پرکئی کہانیوں، ناولوں کی کتابیں کورس کا حصہ ہیں، پڑھنا ضروری ہیں۔ تیسری چوتھی کلاس ہی سے کئی بک ریڈرلگے ہوتے ہیں۔ چھوٹا بیٹا عبداللہ پاک ترک اسکول میں پڑھتا ہے، ابھی 5واں گریڈ پاس کیا ہے، مگر اب تک وہ درجنوں کتابیں پڑھ چکا ہے، پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں انہیں ایک ٹاسک یہ بھی دیا گیا کہ اسپورٹس کے حوالے سے ایک ناول یا ناولٹ لکھا جائے۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں، ہمارے صاحبزادے نے ایک انگریزی مختصر ناول (ناویلا) لکھ ڈالا جس میں ان کے فیورٹ فٹ بال سپر اسٹار رونالڈو کے حوالے سے کہانی بنائی گئی تھی۔ چوتھی کلاس کے بچے سے ناول لکھوانا اسکول کی کامیابی سمجھی جائے گی۔
عبداللہ کے اسکول میں ایک معروف برطانوی ناول نگار رولڈڈاہل(Roald Dahl)کے ناول شامل ہیں۔ ہمارے ابوعہ کا یہ فیورٹ ادیب ہے۔ کتاب میلے سے اس نے 3،4 ناول خرید رکھے ہیں، وہاں سے تو خیر ہزار 1200 سے کم نہیں ملے، البتہ انار کلی کے پرانی کتابوں کے بازار سے میں 100 روپے فی کس کے حساب سے 2،3 ناول لے آیا۔ ان میں سے ایک ناول کا ممتاز مترجم، ادیب شوکت نیازی نے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ بک کارنر جہلم نے اسے شائع کیا ہے۔ میں نے اسے پڑھا توبہت پسند آیا۔ شوکت نواز نیازی کا ترجمہ ایسا رواں اور معیاری ہے جیسے یہ ناول اردو میں ہی لکھا گیا ہو۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ہمارے سرکاری ادارے کسی کام کے ہوتے تو شوکت نواز نیازی جیسے لوگوں سے بچوں کے لیے انگریزی ناولز کے تراجم کرواتے۔ انہیں بہت اچھا معاوضہ دیا جائے اور دیگر سہولتیں بھی تاکہ وہ دن رات اسی پر کام کریں اور یوں 2،3 برسوں میں کئی عمدہ کتابیں اردو میں ترجمہ ہوجائیں لیکن افسوس کہ یہ صرف خیال ہی رہے گا۔
پاکستان کے جن چند اسکولوں میں اردو یا انگریزی ناولوں کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے، وہ قابل تعریف ہیں۔ تاہم ایسا بیشتر اسکولوں میں نہیں۔ ویسے بھی 99 فیصد اسکول سسٹمز میں بچوں کو صرف 90، 95 فیصد نمبر لانے کی دوڑ میں ڈال دیا گیا ہے۔ بچوں کو اب 8ویں کلاس پڑھائی ہی نہیں جاتی اور پری نائنتھ کے نام پر وہ دن رات میرٹ بنانے کے گھن چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ میٹرک کے امتحان دیتے ہی اگلے روز سے اکیڈمی جوائن کر لیتے ہیں تاکہ فرسٹ ایئر کی کلاسز شروع ہونے سے پہلے ہی نصاب کا ایک حصہ پڑھ ڈالیں۔ مقصد یہی کہ ایف ایس سی میں 95 فیصد نمبر لیے جائیں۔ اتنے نمبرز تو چند سو کے آتے ہیں، مگر لاکھوں طلبہ اس دوڑ میں اپنے آپ کو روبوٹ بنا دیتے ہیں۔ جنہیں درسی کتب اور نوٹس کے علاوہ کسی بھی چیز کا کچھ پتا نہیں۔
یہ سب بہت خوفناک ہے۔ کسی بھیانک خواب جیسا۔ اسے بدلنا چاہیے، مگرکیسے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔
حل نکالا جائے اور اپنی توانائی کا ایک حصہ اس میں لگایا جائے۔
مزید پڑھیں: پہلے اپنی پوزیشن بتائیں، پھر جواب لیں
عامر شہزاد نامی جن صاحب کے ٹیکسٹ میسج کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا، ایسے لوگ غنیمت بلکہ نعمت ہیں جو اس بارے میں سوچ رہے ہیں۔ پاکستان سے باہر مقیم ہونے کے باوجود وہ دورافتادہ پسماندہ علاقوں میں لائبریریاں بنا رہے ہیں، بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے، سائنسی لٹریچر تیار کرنے اور سائنس میگزینز وغیرہ کا سوچ رہے ہیں۔ ایسے عظیم مقصد کے لیے صرف ایک آدمی کافی نہیں۔ اپنی اپنی سطح اور اپنے دائرے میں ہم سب کو کام کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے کچھ مزید بھی لکھنا چاہتا ہوں، مگر کالم کی گنجائش ختم ہوئی۔ آئندہ نشست میں ان شااللہ اس پر بات آگے بڑھائیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
اسکرین بمقابلہ کتابیں بچوں کا ادب داستان امیر حمزہ طلسم ہوشربا کتابیں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسکرین بمقابلہ کتابیں بچوں کا ادب داستان امیر حمزہ طلسم ہوشربا کتابیں اسکولوں میں کے حوالے سے بچوں کے لیے کتابیں پڑھ جائے اور میں بچوں انہوں نے بچوں کو میں ایک رہے ہیں ہے کہ ا اور اس ہیں کہ
پڑھیں:
ٹرمپ کا شہریت محدود کرنیکا حکم نافذ، لاکھوں بچوں کا مستقبل خطرے میں
ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو اپنی ’’قانون کی حکمرانی‘‘ اور ’’صدارتی اختیارات کے تحفظ‘‘ کی فتح قرار دیا ہے۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک مٹھی بھر ’’انتہاء پسند بائیں بازو کے جج‘‘ یونیورسل انجکشنز کا استعمال کرکے انتظامیہ کی پالیسیوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر سپریم کورٹ نے انکی راہ روک دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازع ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف جاری قومی سطح کی پابندی ختم کر دی ہے، جس کے تحت غیر قانونی یا عارضی ویزے پر مقیم والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت دینے کا عمل روکا جانا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ کے 6-3 کے فیصلے کے بعد اب یہ حکم 28 امریکی ریاستوں میں 27 جولائی 2025ء سے نافذالعمل ہوگا، جس میں ریاست ٹیکساس بھی شامل ہے، جبکہ دیگر 22 ریاستوں میں عدالتوں کے جاری کردہ انجکشنز کے باعث عارضی طور پر اس کے اطلاق پر پابندی برقرار ہے۔ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کا اطلاق اُن بچوں پر ہوگا، جو 19 فروری 2025ء یا اس کے بعد پیدا ہوئے ہوں اور جن کے والدین غیر قانونی مہاجر ہوں یا محض عارضی ویزہ ہولڈر۔ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت اب تک ہر ایسے بچے کو پیدائش کے وقت خود بخود امریکی شہریت حاصل ہوتی رہی ہے، مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اس شق کی نئی تعبیر پیش کی، جس میں شہریت کو والدین کی قانونی حیثیت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد جن 28 ریاستوں میں اس حکم پر عملدرآمد کیا جا سکتا ہے، ان میں ٹیکساس، فلوریڈا، اوہائیو، جورجیا، انڈیانا، الاباما، ٹینیسی، کینساس، نیبراسکا، لوئیزیانا، مسیسیپی، آئیووا، نارتھ و ساؤتھ ڈکوٹا، مونٹانا، ویومنگ، آکلاہوما، ایریزونا، نیواڈا، یوٹاہ، میزوری، آرکنساس، آلاسکا، ایڈاہو، ویسٹ ورجینیا، نارتھ کیرولائنا، کینٹکی اور نیو میکسیکو شامل ہیں۔ ان ریاستوں نے یا تو عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا یا عدالت نے ان کے حق میں کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اس کے برعکس کیلیفورنیا، نیویارک، واشنگٹن، میساچوسٹس، میری لینڈ، اوریگون، مشی گن، نیو جرسی، پنسلوانیا، کولوراڈو، منیسوٹا، ورجینیا، ڈیلاویئر، روڈ آئی لینڈ، ہائیوائی، مین، نیواڈا، ورمونٹ، نیو ہیمپشائر، کنیکٹیکٹ، وسکونسن، نیو میکسیکو اور واشنگٹن ڈی سی سمیت 22 ریاستوں اور خود مختار وفاقی دارالحکومت نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے، جس کے باعث وہاں اس فیصلے پر عملدرآمد فی الحال ممکن نہیں۔
امریکی ادارے امیگرنٹ لیگل ریسورس سینٹر اور امریکن سول لبرٹیز یونین کے مطابق، اس قانون کے اطلاق سے ہر سال تقریباً 1.5 لاکھ بچے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ان میں وہ بچے شامل ہوں گے، جن کے والدین قانونی حیثیت نہیں رکھتے، یا جن کا ویزہ عارضی ہو، جیسے سیاحتی، اسٹوڈنٹ یا ورک پرمٹ۔ ایسے خاندانوں کے لیے یہ فیصلہ ایک بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، کیونکہ ان بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد شہریت نہ ملنے کی صورت میں مستقبل میں تعلیمی، طبی، قانونی اور روزگار سے متعلق سہولتیں محدود ہوسکتی ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگرچہ سپریم کورٹ نے اس حکم کی آئینی حیثیت پر براہ راست کوئی رائے نہیں دی، مگر عدالت کا فیصلہ وفاقی عدالتوں کو ملک گیر پابندیاں لگانے سے روکنے کے لیے ایک بڑا موڑ ہے۔ تاہم متاثرہ ریاستوں اور تنظیموں کو اب بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کلاس ایکشن مقدمات دائر کریں۔
درحقیقت، کئی ریاستوں میں نئے مقدمات دائر بھی ہوچکے ہیں، جن میں میری لینڈ اور نیو ہیمپشائر شامل ہیں۔ ان مقدمات کا مقصد اس آرڈر کو وسیع پیمانے پر چیلنج کرنا ہے، تاکہ وہ ریاستیں بھی بچ سکیں، جہاں اب تک عدالتوں نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔ ادھر ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو اپنی ’’قانون کی حکمرانی‘‘ اور ’’صدارتی اختیارات کے تحفظ‘‘ کی فتح قرار دیا ہے۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک مٹھی بھر ’’انتہاء پسند بائیں بازو کے جج‘‘ یونیورسل انجکشنز کا استعمال کرکے انتظامیہ کی پالیسیوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر سپریم کورٹ نے ان کی راہ روک دی ہے۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ امریکا میں شہریت کے اصول کو علاقہ وار بنیادوں پر تقسیم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ اگر ہر ریاست میں شہریت کی تعریف مختلف ہوگئی تو امریکا جیسے وفاقی ریاستی نظام میں قانونی پیچیدگیاں اور معاشرتی تقسیم میں اضافہ ہوگا۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ اب بھی حتمی طور پر حل شدہ نہیں ہے۔ آئندہ عدالتی سیشن میں، جو اکتوبر 2025ء سے شروع ہوگا، سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال باقاعدہ پیش ہوسکتا ہے کہ آیا صدر کا یہ ایگزیکٹو آرڈر چودھویں ترمیم سے متصادم ہے یا نہیں۔ اگر عدالت نے آئینی بنیادوں پر اسے رد کر دیا تو یہ فیصلہ ہمیشہ کے لیے غیر مؤثر ہو جائے گا۔ تاہم اگر عدالت نے اس کی توثیق کر دی تو امریکا میں شہریت کے قانون کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھا جائے گا۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے، جس کے اثرات امریکا میں لاکھوں خاندانوں اور بچوں پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ ریاستی اور وفاقی سطح پر آئندہ چند مہینے اس معاملے میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ یہ واضح ہے کہ پیدائشی شہریت جیسے بنیادی حق پر اب سیاست، قانون اور عدلیہ کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے۔