معروف ڈرامہ نویس اور شاعر خلیل الرحمٰن قمر نے پچھلے سال کے سب سے متنازع وائرل ہونے والے ’طاغوت اسکینڈل‘ کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشاف کیا ہے۔

ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن نے بتایا کہ وہ شو جس میں معروف اسلامی اسکالر ساحل عدیم اور ایک نوجوان خاتون کے درمیان لفظی جھڑپ ہوئی تھی، دراصل وہ واقعہ ’’پری پلانٹڈ‘‘ تھا، یعنی سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ پروگرام میں جو کچھ ہوا، وہ سب اچانک نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ساحل عدیم نے خواتین کو جاہل کہا، وہ مداخلت کرنے والے ہی تھے تاکہ اس بات کو واضح کرسکیں کہ جہالت کا تعلق صرف خواتین سے نہیں، بلکہ وہ ہر اس شخص کو جاہل سمجھتے ہیں جس نے قرآن کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ مگر اُن کے بولنے سے پہلے ہی ایک لڑکی نے مداخلت کی، اور یوں بحث کا رخ بگڑ گیا۔

خلیل الرحمٰن قمر نے یہ بھی بتایا کہ انہیں حیرت ہوئی جب ایک خاتون نے ساحل عدیم جیسے اسکالر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ ان کے مطابق، ہر انسان سے غلطیاں ہوسکتی ہیں، اور اس موقع پر ان کے غصے کی اصل وجہ یہی بے ادبی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پروگرام بنانے والوں کا مقصد ماحول کو اشتعال دلانا اور مخصوص ردِعمل حاصل کرنا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔

گزشتہ برس جون میں نشر ہونے والے اس پروگرام میں شامل ہونے والے اسکالر ساحل عدیم نے خواتین پر سخت تبصرے کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 100 خواتین کا جائزہ لیا جائے تو 95 فیصد کو وہ جاہل پاتے ہیں، جنہیں صرف میک اپ اور ٹک ٹاک کا شوق ہے، اور وہ ’’طاغوت‘‘ جیسے بنیادی اسلامی تصور سے بھی ناواقف ہیں۔

ان کے اس بیان پر شو میں شریک لڑکی ازبحہ عبداللہ نے احتجاج کیا اور ساحل عدیم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران دونوں جانب سے تیز و تند جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ساحل عدیم نے اس لڑکی سے سوال کیا کہ کیا وہ ’’طاغوت‘‘ کا مطلب جانتی ہے؟ جب لڑکی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہی جہالت ہے اور اسے تسلیم کرنا چاہیے۔

بات یہاں رکی نہیں۔ لڑکی نے جواب دیا کہ خواتین کو علم سے دور رکھنے والا معاشرہ خود پدر سری نظام کا نتیجہ ہے، مگر ساحل عدیم اس مؤقف سے متفق نہ ہوئے اور اپنی بات پر قائم رہے کہ جہالت کا نام لینا اسلام کا فرض ہے۔ جب لڑکی نے حوالہ مانگا تو انہوں نے حدیث کا حوالہ دیا کہ جاننے اور نہ جاننے والے برابر نہیں، اور جہالت کا انجام گڑھے میں گرنا ہوتا ہے۔

بحث کے دوران خلیل الرحمٰن قمر بھی اپنا سکون کھو بیٹھے۔ انہوں نے لڑکی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عربی آیات سن کر تکلیف ہو رہی ہے تو یہ ناقابلِ برداشت ہے۔ انہوں نے میزبان سے کہا کہ لڑکی کا مائیک چھین لیں، اور اس لمحے نے پورے پروگرام کو مزید تنازعے کا شکار بنا دیا۔

یہ واقعہ جلد ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ جہاں کچھ لوگوں نے لڑکی کی جرأت کی تعریف کی، وہیں خلیل الرحمٰن قمر، ساحل عدیم اور میزبان کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تقریباً ایک سال بعد، خلیل الرحمٰن قمر کا یہ انکشاف کہ پورا واقعہ ’’منصوبہ بندی‘‘ کے تحت رونما ہوا، اس تنازعے کو ایک نیا رخ دے رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خلیل الرحم ن قمر انہوں نے لڑکی نے

پڑھیں:

سابق بھارتی چیف جسٹس کا متنازع بیان، بابری مسجد کی تعمیر کو بے حرمتی قرار دے دیا

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 ستمبر2025ء)بھارت کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے متنازع بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ 16ویں صدی میں بابری مسجد کی تعمیر بذات خود ایک بیحرمتی تھی۔عرب ٹی وی کے مطابق بھارت کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے متنازع بیان دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ 16ویں صدی میں بابری مسجد کی تعمیر خود ایک بڑی بیحرمتی تھی جو سپریم کورٹ کے 2019 کے ایودھیا فیصلے کے برعکس ہے۔

ریٹائرڈ جسٹس چندرچوڑ اس پانچ رکنی بینچ میں شامل تھے جس کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کر رہے تھے، اس بینچ نے نومبر 2019 میں ایودھیا کی متنازع زمین پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔تاہم عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی)کی رپورٹ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بابری مسجد کسی پرانی عمارت کو گرا کر بنائی گئی تھی۔

(جاری ہے)

سری نیواسن جین کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ آپ نے مزاحمت نہیں کی جب کہ ہندوئوں نے کی اور یہ بات مسلمانوں کے خلاف گئی۔جسٹس چندرچوڑ نے جواب میں کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ ہندوئوں نے اندرونی صحن کی بیحرمتی کی، تو اس بنیادی بیحرمتی کا کیا جس کا آغاز مسجد کی تعمیر سے ہی ہوا کیا آپ بھول گئے کہ تاریخ میں کیا ہوا تھا انہوں نے اے ایس آئی کے اس نتیجے کا حوالہ دیا کہ مسجد کے نیچے 12ویں صدی کا ایک ہندو طرز کا ڈھانچہ موجود تھا۔

جسٹس چندرچوڑ نے اسے تاریخی شواہد قرار دیتے ہوئے ناقدین پر الزام لگایا کہ وہ تاریخ کو چن کر دیکھتے ہیں اور ناپسندیدہ حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ آنکھیں کیسے بند کر سکتے ہیں یہ جو تبصرہ نگار کرتے ہیں، وہ تاریخ کا انتخابی مطالعہ کرتے ہیں اور کچھ شواہد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ تاریخ 1992 میں مسجد کے انہدام کو جواز فراہم کرتی ہے تو چندرچوڑ نے اس خیال کو رد کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے نے روایتی اصولوں کی بنیاد پر ملکیت کے تعین کا طریقہ اپنایا اور شواہد اور اصولوں کی روشنی میں ہی نتیجے پر پہنچا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تنقید کہ فیصلہ عقیدے پر ہے، شواہد پر نہیں، دراصل ان لوگوں کی ہے جنہوں نے فیصلہ پڑھا ہی نہیں۔جسٹس چندرچوڑ کے نیو لانڈری کو دیے گئے بیان کے برعکس، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کہا تھا کہ صرف اے ایس آئی کی رپورٹ ملکیت ثابت نہیں کر سکتی، فیصلے میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ 12ویں صدی کے ڈھانچے اور 16ویں صدی کی مسجد کے درمیان صدیوں کا خلا ہے اور کوئی شواہد موجود نہیں کہ پرانا ڈھانچہ مسجد کی تعمیر کے لیے گرایا گیا تھا۔

انہوں نے ایک اور متنازع مقدمے گیانواپی مسجد کے معاملے پر بھی بات کی۔جسٹس چندرچوڑ نے وضاحت کی کہ سپریم کورٹ نے سروے کی اجازت کیوں دی حالانکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تحت ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ان کے مطابق وہاں عبادت گاہ کا مذہبی کردار طے شدہ نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ہندو صدیوں سے مسجد کے تہہ خانے میں عبادت کرتے رہے ہیں، یہ ایک غیر متنازع حقیقت ہے، حالانکہ مسلمان ہمیشہ سے اس دعوے کو چیلنج کرتے آئے ہیں۔

جموں و کشمیر کے معاملے پر چندرچوڑ نے حکومت کے ریاستی ازسرنو ڈھانچے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر حکام کو قومی مفاد میں فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔جب ان سے ریٹائرمنٹ کے بعد حکومتی عہدے قبول کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس نظریے کے حامی نہیں کہ ریٹائرڈ ججز کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، ہر ایک کو اپنی مرضی کا حق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بالی ووڈ فلم ’’ہیرا پھیری‘‘ سے متعلق ڈائریکٹر نے حیرت انگیز انکشاف کردیا
  • سابق بھارتی چیف جسٹس کا متنازع بیان، بابری مسجد کی تعمیر کو بے حرمتی قرار دے دیا
  • کوہستان مالیاتی اسکینڈل کے 4 ملزمان پلی بارگین کے تحت رقم واپس دینے پر تیار
  • آئی سی سی نے متنازع بیان دینے پر بھارتی کپتان کی سرزنش کردی
  • کراچی میں زیرِ زمین سرنگ کے ذریعے تیل چوری کا بڑا اسکینڈل بے نقاب
  • جیفری ایپسٹین اسکینڈل سے شاہ چارلس کی سابق بھابی، بھتیجیوں کا کیا تعلق تھا؟
  • پاک۔سعودی دفاعی معاہدے میں ایران کی شمولیت ضروری ہے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے میں ایران کو بھی شامل کیا جائے، حافظ نعیم الرحمٰن
  • ’کیا پاکستان کا کوئی ادارہ اس پروگرام کے خلاف ایکشن لینے کو تیار نہیں؟‘، لازوال عشق کے ٹریلر پر تہلکہ مچ گیا
  • جنسی زیادتی اسکینڈل: متاثرہ بچوں کا ملزم شبیر تنولی کو سزائے موت دینے کا مطالبہ