وفاقی بجٹ زمینی حقائق کے برعکس ، حتمی منظوری سے قبل کاروباری برادری کے تحفظات دور کیے جائیں‘لاہور چیمبر
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جون2025ء) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے وفاقی بجٹ 2025-26پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ قومی اسمبلی سے حتمی منظوری سے قبل بزنس کمیونٹی سے فوری مشاورت کی اور تحفظات دور کیے جائیں۔ صدر لاہور چیمبر میاں ابوذًر شاد، سینئر نائب صدر انجینئر خالد عثمان اور نائب صدر شاہد نذیر چوہدری نے کہا کہ زیادہ پیداواری لاگت، توانائی کی بلند قیمتوں ،پالیسیوں کے عدم تسلسل اور ٹیکس دہندگان پر بھاری بوجھ سمیت دیگر مسائل کی موجودگی میں مقررہ اہداف پورے کرنا ممکن نہیں ہوگا لہذا اس طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ کا بڑا حصہ ڈیبٹ سروسنگ کی نظر ہوجاتا ہے لہذا قرض لیکر معیشت چلانے کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔(جاری ہے)
لاہور چیمبر کے عہدیداران نے کہا کہ درآمدی سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ تشویشناک ہے ۔ اس سے توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہوگی لہذا یہ واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے لیے کم فنڈز مختص کرنے سے سماجی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
سماجی شعبے پر کٹوتیاں وقتی طور پر مالیاتی توازن کے لیے تو کی جا سکتی ہیں مگر اس کا نقصان کئی سالوں تک برداشت کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس اقدامات پر بزنس کمیونٹی کو شدید تحفظات ہیں اور ان پرسٹیک ہولڈرز سے مشاورت سے نظر ثانی ناگزیر ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر محصولات بڑھائے جائیں، موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔میاں ابوذر شاد، انجینئر خالد عثمان اور شاہد نذیر چودھری نے پانی کے سنگین بحران پر بھی حکومت کی توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ آبی وسائل کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں کیونکہ پانی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیامیر بھاشا ڈیم سمیت دیگر منصوبوں پر فوری کام شروع کیا جائے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کو اپنایا جائے تاکہ مالیاتی وسائل اور تکنیکی مہارت کا حصول آسان ہو۔ میاں ابوذر شاد نے کہا کہ خشک سالی کا شکار علاقوں میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں اور صنعتوں کو ری سائیکلنگ پلانٹس لگانے کی ترغیب دی جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک پاکستان کو شدید پانی کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے زراعت اور صنعت دونوں مفلوج ہو جائیں گے۔انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ بزنس کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر فوری ڈائیلاگ کا آغاز کرے تاکہ بجٹ میں موجود خامیوں کو دور کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ شکل میں بجٹ معاشی بحالی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر کیے جائیں
پڑھیں:
سیلاب زدہ علاقوں میں شدید انسانی بحران، عالمی برادری امداد دے: اقوام متحدہ
نیو یارک؍ لاہور؍ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں اور ان کے نتیجے میں سیلاب کے باعث 60 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال ’شدید انسانی بحران‘ کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ عالمی برادری اس بحران سے نمٹنے کے لیے امداد فراہم کرے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور کے سربراہ کالوس گیہا نے ا پنی حالیہ رپورٹ میںکہا کہ پاکستان میں ریکارڈ مون سون بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی جس کے نتیجے میں 60 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے موجودہ صورتحال کو ’شدید انسانی بحران‘ قرار دیتے ہوئے فوری عالمی امداد کی اپیل کی۔ اب تک ایک ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 250 بچے بھی شامل ہیں۔ سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان پنجاب کو پہنچایا ہے جہاں بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے بعد دریاؤں نے تباہی مچائی اور 47 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ کئی علاقوں میں پورے پورے گاؤں پانی میں ڈوب چکے، سڑکیں اور پل تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 2.2 ملین ہیکٹر زرعی زمین بھی زیرِ آب آ گئی ہے۔ گندم کے آٹے کی قیمت میں صرف ستمبر کے پہلے ہفتے میں 25 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اقوام متحدہ نے فوری امداد کے لیے 5 ملین ڈالر جاری کیے ہیں جبکہ مزید 1.5 ملین ڈالر مقامی این جی اوز کو دیے گئے ہیں۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ کئی دیہی علاقے اب بھی مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں جہاں امدادی سامان صرف کشتیوں یا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پہنچایا جا رہا ہے۔ دریں اثناء دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ کوٹری بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور ان کی سطح مستحکم ہے۔ فیڈرل فلڈ کمشن کے مطابق دریائے چناب میں پنجند پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور سطح مزید کم ہو رہی ہے۔ وفاقی وزیر معین وٹو نے بتایا کہ تربیلا ڈیم 27 اگست سے 100 فیصد بھرا ہوا ہے جبکہ منگلا ڈیم 96 فیصد بھرا ہوا، مزید 4 فٹ کی گنجائش باقی ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کی توجہ نقصانات کے جائزے اور متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب، ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب کے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ نارمل ہو رہا ہے۔ دریائے سندھ، جہلم اور راوی میں پانی کا بہاؤ نارمل لیول پر ہے جبکہ دریائے چناب میں مرالہ، خانکی، قادر آباد اور تریموں کے مقام پر بھی پانی کا بہائو نارمل ہو چکا ہے۔ پنجند کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے جہاں پانی کا بہاؤ کم ہو کر 1 لاکھ 94 ہزار کیوسک ہو چکا ہے۔ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر درمیانے درجے جبکہ سلیمانکی اور اسلام ہیڈ ورکس پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔ ڈیرہ غازی خان رودکوہیوں کا بہائو بھی نارمل ہے۔ پنجاب میں حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے باعث اموات کی تعداد 118 تک پہنچ گئی جبکہ اب تک 47 لاکھ 23 ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ریلیف کمشنر پنجاب کے مطابق دریائے راوی، ستلج اور چناب میں شدید سیلابی صورتحال کے باعث 4ہزار 700 سے زائد موضع جات متاثر ہوئے۔ ریلیف کمشنر نبیل جاوید کے مطابق سیلاب میں پھنس جانے والے 26 لاکھ 11 ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔