ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا تھا؛ حملے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا؛ نیتن یاہو
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر حملے کے بعد ایک اہم بیان میں حملے کی وجوہات بتائی ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے حملے کی منصوبہ بندی 6 ماہ سے جاری تھیں۔
ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب میں انھوں نے مزید کہا کہ اپریل کے آخر میں ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دیدی تھی۔ جس میں حملے کے دن اور تاریخ کے بارے میں طے کیا گیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعد ایران نے ایٹمی ہتھیار تیار کرنا شروع کر دیے تھے جس پر اسرائیل کے پاس ایران پر حملہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ بچا تھا۔
وزیر اعظم نیتن یاہو نے انکشاف کیا کہ ایران پر حملے کا فیصلہ امریکا کی کسی بھی براہ راست مدد کے بغیر کیا البتہ صدر ٹرمپ کو حملے سے پہلے مطلع کر دیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ اب یہ امریکا پر ہے کہ وہ ایران پر ہمارے حملے کے بعد کی صورتحال میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ جوہری معاہدے پر اتفاق نہیں کرتا تو اسے مزید نقصان اُٹھانا پڑے گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کو جوہری معاہدے کے لیے متعدد بار وقت دیا گیا ہے اور یہ وقت تیزی سے کم ہو رہا ہے، ایران جوہری معاہدہ کرلے ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے "ایکس" پر جاری اپنے بیان میں تصدیق کی ہے کہ وہ اب بھی ایرانی سرزمین پر مختلف اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے ایک نامعلوم مقام پر ہونے والے دھماکے کی ویڈیو بھی جاری کی ہے لیکن مقام کا وقوع اور دیگر تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
واضح رہے کہ ایران پر اسرائیل کے فضائی حملوں میں اعلیٰ فوجی قیادت اور ایٹمی سائنس دانوں سمیت 86 افراد جاں بحق اور 341 زخمی ہوگئے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر حملے کے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
ٹرمپ،جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات فوری طور پر دوبارہ شروع کرے گا تاکہ وہ دیگر جوہری طاقتوں کے ساتھ برابر کی بنیاد پر کھڑا رہ سکے۔ یہ اعلان انہوں نے جنوبی کوریا کے شہر بوسان سے اپنے ایشیائی دورے کے اختتام پر وطن واپسی سے قبل کیا۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھا کہ محکمہ دفاع کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ دیگر ممالک کی طرح فوری شروع کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکا کے پاس موجودہ وقت میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، لیکن چین اگلے پانچ سالوں میں امریکا کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ جنوبی کوریا کو اپنی پہلی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ نئی آبدوز امریکا کے فلاڈیلفیا میں جنوبی کورین کمپنی Hanwha کے شپ یارڈ میں تیار کی جائے گی اور یہ زیادہ جدید، تیز اور پائیدار ہوگی۔ اس اقدام کے بعد جنوبی کوریا بھی ان چند ممالک میں شامل ہو جائے گا جو جوہری آبدوزوں کے مالک ہیں، جن میں امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور بھارت شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ کے فیصلے سے قبل جنوبی کوریا نے امریکا سے درخواست کی تھی کہ جوہری معاہدے میں نرمی کی جائے تاکہ یورینیم کی افزودگی اور ایندھن کی ری پروسیسنگ میں زیادہ خود مختاری حاصل کی جا سکے۔
اب تک امریکا نے ایٹمی دھماکوں کا آخری تجربہ 1992 میں کیا تھا۔ اس کے بعد 1996 میں جامع ایٹمی تجربہ بندی معاہدہ (CTBT) پر دستخط ہوئے، اور صرف چند ممالک بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا نے بعد میں جوہری دھماکے کیے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا کے پاس تقریباً 5,550 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 3,800 فعال ہیں، جبکہ روس کے پاس 5,459 اور چین کا ذخیرہ 600 کے قریب ہے اور 2030 تک 1,000 سے تجاوز کر سکتا ہے۔