صوبے کے فنڈز لوٹ مار کرنے والوں کو نہیں دیں گے،فیصل کریم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہاہے کہ وفاق کے ساتھ ’فنڈز کے لیے ضرور لڑیں گے مگر ان لوگوں کو نہیں دیں گے جنہوں نے فنڈز کے ساتھ لوٹ مار کی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’صرف 50 ارب روپے کا سکینڈل دیر کے علاقے میں سامنے آیا۔‘
وفاق سے فنڈز کے حصول سے متعلق گورنر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بھی انہیں کہا ہے کہ 700 ارب روپے دیے گئے، وہ کہاں خرچ ہوئے؟ صوبے میں گندم، چینی، سولر پینل اور ہسپتالوں سے متعلق سکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔ ہم وفاق سے فنڈز کے لیے ضرور بات کریں گے، مگر ایسے لوگوں کو فنڈز نہیں دیں گے جنہوں نے لوٹ مار کی۔
فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے بجٹ پیش کرنے کے لیے بجٹ سمری بھیجی، تاہم انہوں نے موجودہ علاقائی صورتحال کے پیش نظر اس پر دستخط نہیں کیے۔
گورنر کا کہنا تھا کہ ’ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ملتوی کر دیا گیا، اور آج کا دن ویسے بھی ایسا نہیں تھا کہ بجٹ پیش کیا جاتا۔‘
گورنر فیصل کریم کنڈی نے خیبر پختونخوا کے ممکنہ سرپلس بجٹ کے حکومتی دعوؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وفاق کو قرض دے سکتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں سونے کی کان کہاں سے مل گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت واقعی اتنی مالی خوشحالی کا دعویٰ کر رہی ہے تو وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 سے 60 فیصد اضافہ کرے۔
فیصل کریم کنڈی نے دعویٰ کیا کہ ’موجودہ صوبائی حکومت میں مختلف منصوبوں میں کرپشن کے سکینڈلز سامنے آئے ہیں، جن میں کوہستان میں 50 ارب روپے، سولر پینل کے ایک منصوبے میں 19 ارب روپے، اور مساجد میں سولر پینل کی تنصیب کے حوالے سے بدعنوانیاں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب بجٹ پیش ہوگا تو اصل صورتحال سامنے آئے گی، لیکن جو حالات نظر آ رہے ہیں، ان سے لگتا نہیں کہ یہ کوئی اچھا بجٹ ہو گا۔
گورنر کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے وفاق کو ترقیاتی کاموں کے لیے کوئی بڑا منصوبہ پیش نہیں کیا، جن کے لیے وفاق سے فنڈز حاصل کیے جاتے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کا بجٹ، صوبے میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا
پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ جبکہ مزدور کی کم سے کم اجرت 40 ہزار روپے کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کا بجٹ 26-2025 وزیر خزانہ آفتاب عالم نے اسمبلی میں پیش کر دیا۔ بجٹ اجلاس کے آغاز پر ہی اپوزیشن نے احتجاج اور شورشرابا شروع کر دیا۔
وزیر خزانہ آفتاب عالم نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ مزدور کی کم سے کم اجرت 40 ہزار روپے کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کرنے کی تجویز ہے۔ اور حکومت کے ویژن کے مطابق کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ رہائشی اور کمرشل پراپرٹی الاٹمنٹ پر ڈیوٹی 2 سے کم کر کے ایک فیصد کرنے اور اسٹامپ ڈیوٹی بھی 2 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
آفتاب عالم نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں رہائشی اور کمرشل پراپرٹی پر 5 مرلے تک ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔ اور ہوٹل بیڈ ٹیکس کو 10 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا گیا۔ سالانہ ترقیاتی بجٹ کا حجم 5 کھرب 17 ارب سے زائد مختص کیا گیا ہے۔ جبکہ ترقیاتی بجٹ میں ایک کھرب 77 ارب سے زائد غیر ملکی گرانٹ اور لون شامل ہیں۔ سالانہ اے ڈی پی میں سب سے زیادہ 16 فیصد حصہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے مختص کیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ سڑکوں کے 583 نئے اور پرانے منصوبوں کیلئے 53ارب 64کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اور صحت کے لیے 182 نئے اور جاری منصوبوں کے لیے 27 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے 96 منصوبوں کے لیے 13 ارب روپے اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کی 63 اسکیموں کے لیے 6 ارب 27 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے 10 نئے اور جاری منصوبوں کے لیے ایک ارب 28 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کھیلوں کے 51 نئے اور پرانے منصوبوں کے لیے 8 ارب 88 کروڑ فنڈ مختص کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کی مد میں محکمہ داخلہ کے 68 منصوبوں کے لیے 6 ارب 99 کروڑ روپے، توانائی کے 59 منصوبوں کے لیے 4 ارب 79 کروڑ روپے اور محکمہ زراعت کے 46 منصوبوں کے لیے 7 ارب 25 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جبکہ اضلاع کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 45 ارب 6 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ مجوزہ ترقیاتی بجٹ میں ایک ہزار 349 جاری اور 810 نئے منصوبے شامل کیے گئے ہیں۔
آفتاب عالم نے کہا کہ بجٹ کا کل تخمینہ 2 ہزار 119 ارب روپے ہے۔ اور این ایف سی کے تحت صوبے کو 267 ارب روپے کمی کا سامنا ہے۔ بجلی خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمہ 71 ارب روپے کے بقایا جات ہیں۔ اور آئل گیس کی مد میں وفاق کے ذمہ 58 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ بیرونی امداد گرانٹس کی مد میں صوبے کو 177 ارب روپے ملنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تنخواہوں اور دیگر اخراجات کیلئے ایک ہزار 415 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بندوبستی اضلاع کے اخراجات جاریہ کے لیے ایک ہزار 255 ارب روپے مختص ہیں اور قبائلی اضلاع کے لیے 160 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے سال میں محصولات کا تخمینہ 129 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اور 36 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے افراد پر پروفیشنل ٹیکس ختم کرنے کی تجویز ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس معاف کرنے کی تجویز ہے۔
صحت سے متعلق انہوں نے بتایا گیا کہ صحت کے لیے 276 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صحت کارڈ پلس کیلئے 35 ارب روپے، ضم اضلاع کے صحت سہولت پروگرام کیلئے 6ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ میں تعلیم سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے لیے 363 ارب روپے اور تعلیمی ایمرجنسی کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ڈی آئی خان گرلز کیڈٹ کالج کے لیے 3 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 50 ارب روپے، 5 نئے کالجز کے لیے 3 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اور جامعات کا بجٹ 3 ارب سے بڑھا کر 10 ارب کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کے لیے 158 ارب روپے، پولیس کے لیے اسلحہ۔ گاڑیوں اور دیگر آلات کے لیے 13 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مواصلات و تعمیرات کے لیے 123 ارب روپے، محکمہ لائیو اسٹاک و ڈیری ڈیولپمنٹ کے لیے 17 ارب روپے اور محکمہ پبلک ہیلتھ کے لیے 32 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جبکہ پینے کے صاف پانی کے منصوبوں کے لیے 17 ارب 60 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ محکمہ آبپاشی کے لیے 46 ارب روپے، محکمہ ہاؤسنگ کے لیے ایک ارب روپے، محکمہ صنعت کے لیے 2 ارب 70 کروڑ روپے، محکمہ بلدیات کے لیے 55 ارب 39 کروڑ روپے، محکمہ کھیل و امور نوجوانان کے لیے 11 ارب 60 کروڑ روپے اور محکمہ زکوٰۃ و عشر، سماجی بہبود و خصوصی تعلیم کے لیے 19 ارب 11 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔