Express News:
2025-09-26@20:14:23 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

غزل
یہ شہر زاد آ گئے بیکار دشت  میں
تہذیب ان کی موجبِ آزار دشت میں
ہم نے تمام عمر اجڑنے نہیں دیے
خوابوں میں جو بسائے چمن زار دشت میں
صحرا کو سوئے آب تو لانے سے ہم رہے
دریا کو لے کے جائیں گے اے یار دشت میں
پانی میں رہ کے یہ ہے مگر مچھ سے دشمنی
مجنوں سے ہونا بر سر ِ پیکار دشت میں
ہم نے پلٹ کے آتے وہ دیکھے نہیں کبھی
جو ڈھونڈتے تھے سایۂ دیوار دشت میں
رقصاں ابھی بگولے کے ہمراہ دیکھا ہے
پھولوں کا ایک ہم نے خریدار دشت میں
جس سمت جائیں دوست کہیں دل سے مرحبا
دو چار شہر میں ہیں تو دوچار دشت میں
سو بار ڈھونڈنے سے بھی ملتا نہیں سراغ
کھو بیٹھو گے جو راستہ اک بار دشت میں
چھینٹے پڑے ہیں ریت کے ہر ایک گام پر
آب ِ رواں کے ہم تھے طلبگار دشت میں
ہم ایسے لوگ کب کہاں رہتے ہیں مطمئن
افسردہ شہر میں ہیں تو بیزار دشت میں
صحرا نشین لوگوں کے حالات کی طرح
جاذب کہاں بدلتے ہیں معیار دشت میں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہا ء الدین)

۔۔۔
غزل
گذشتگان کی ہر کیفیت بھی جی لی ہے
ادھڑ گئی تھی جو تارِ نفس وہ سی لی ہے
سنہری کہنے سے کیا ہوگا، اے بھلے لوگو
بدن کے پیڑ کی ایک ایک شاخ پیلی ہے
میں جلد ہنستا ہوا دوستوں میں بیٹھوں گا
اجل کی میرے غموں پر گرفت ڈھیلی ہے
خدا خبر مری چشمِ گریز کب پھوٹی
گلوں کی اوپری تہہ اس پہر بھی گیلی ہے
شریکِ گریہ رہو تاکہ فیض یاب رہو
کسی کو روتے ہوئے چھوڑنا بخیلی ہے
بعید کیا میں اگر دانت گاڑ دوں اس میں 
سفر شریک کی شہ رگ بہت رسیلی ہے
(عاجز کمال رانا۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل
شعور دے کے مجھے بے قرار کاہے کیا
نہ لوٹنا تھا اسے، انتظار کاہے کیا
جو ڈوبنے کا تمہیں اشتیاق ایسا تھا
تو ٹھاٹھیں مارتا دریا ہی پار کاہے کیا
تمہارے وعدے فقط جھوٹ کا پلندہ ہیں
میں جانتا تھا مگر اعتبار کاہے کیا
سلوک اس نے روا جو رکھا، وہی رکھتے
گوارا کوئی جفا کوہسار کاہے کیا
میں اپنی خام خیالی میں مست رہتا تھا
عطائے فن سے مجھے زرنگار کاہے کیا
بسائی عشق کی بستی ترے بھروسے پر
اجاڑ کر یہ نگر، شرمسار کاہے کیا
رشیدؔ جس کی عقیدت سے تاج پوشی
اسی نے مُڑ کے مرا دل فگار کاہے کیا
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
آنکھیں جب اُس حسین کے خوابوں سے بھر گئیں
ایسے لگا کہ سرخ شرابوں سے بھر گئیں
یہ جان کر کہ اُس کو کتابوں سے عشق ہے
الماریاں ہماری کتابوں سے بھر گئیں
آیا تھا امتحاں میں محبت پہ اک سوال
سب کاپیاں ہماری جوابوں سے بھر گئیں
آنسو کسی غریب کے پونچھے تھے ایک دن
پھر جھولیاں ہماری ثوابوں سے بھر گئیں
ہم اُس کی بزمِ ناز سے چپ چاپ اُٹھ گئے
محفل کی جب نشستیں نوابوں سے بھر گئیں
سچ پوچھیے تو آپ کے جانے کی دیر تھی
آنکھیں یہ آنسوؤں کے چنابوں سے بھر گئیں
اُس نے ہمیں بھلا کے نیا موڑ لے لیا
پھر اُس کے بعد راہیں گلابوں سے بھر گئیں
وہ کیا گیا کہ میرا مقدر بھی لے گیا
ہاتھوں کی سب لکیریں عذابوں سے بھر گئیں
(اظہر کمال خان۔ پاک پتن)

۔۔۔
غزل
صاحبِ فہم و فراست سے کہا ہے میں نے 
آج پھر تازہ کوئی نوحہ لکھا ہے میں نے 
احتجاجاًتری گلیوں میں لگا کر چکر 
اپنے بارے میں غلط بول دیا ہے میں نے 
آج پھر گھر میں کوئی فاقے سے مر جائے گا
آج پھر بستی میں کہرام سنا ہے میں نے 
تو نے فرصت میں جو کل رات دیا تھا مجھکو
ایک اک کرکے ترا زخم بھرا ہے میں نے 
اب تو سر بھی نہیں ملتا مجھے دستار کے ساتھ
جانے کس بات سے منہ پھیر لیا ہے میں نے
جس نے اک عمر مجھے چاہا محبت سے ندیمؔ
پھر بھی اس شخص پہ الزام دھرا ہے میں نے
(ندیم ملک۔ کنجروڑ، نارووال)

۔۔۔
غزل
ایک دھواں سا پھیل گیا ہے سینے میں
کچھ تو آخر راکھ ہوا ہے سینے میں
اک سورج نے سر پر آنکھیں کھولی ہیں
اور اک سورج روز بجھا ہے سینے میں
پھولوں کی مہکار بسی ہے سانسوں میں
ایک پرانا زخم کُھلا ہے سینے میں 
کیا اینٹوں سے اِس کا بننا ممکن ہے
مندر جو مسمار ہوا ہے سینے میں
میری آنکھوں کا صحرا بتلاتا ہے
میں نے دریا قید کیا ہے سینے میں
اُس کا اندر روشن ہوتا جاتا ہے
اُس نے رب کو سینچ لیا ہے سینے میں
آہوں کی آواز سنائی دیتی ہے
غم کا موسم ٹھہر گیا ہے سینے میں
میں تو آصفؔ موت سے پہلے مر جاتا
کوئی مجھ کو روک رہا ہے سینے میں
( یاسررضاآصف۔ پاک پتن)

۔۔۔
غزل
تیری یادوں کا سفر ہے زندگی کے ساتھ ساتھ
دل پہ چلتی ہے ہوا بھی خامشی کے ساتھ ساتھ
جس کو چاہا تھا دعاؤں میں سدا ہم نے کبھی
وہ ملا تو بے رخی میں بے رخی کے ساتھ ساتھ
دھوپ جیسی ساعتوں میں ہم نے خود کو کھو دیا
اور چلے بھی جا رہے تھے بے بسی کے ساتھ ساتھ
تجھ سے مل کر بھی نہ کوئی ہو سکی پہچان جب
دل نے پایا ہے تجھے بھی بے دلی کے ساتھ ساتھ
پھر وہی آنکھوں میں آنسو پھر وہی خاموش رات
پھر وہی دل کی لگی ہے زندگی کے ساتھ ساتھ
ہم نے زخموں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے یوں
جیسے جینے کا ہنر ہو بے کلی کے ساتھ ساتھ
کاش وہ پل لوٹ آئیں کاش وہ دن پھر ملیں
ہم نے مانگی ہے دعا بھی عاشقی کے ساتھ
(عابد حسین صائم۔بورے والا)

۔۔۔
غزل
غم نئی شان سے نکل آیا 
میری مسکان سے نکل آیا 
اپنی پہچان سے نکل آیا 
ایک زندان سے نکل آیا 
وہ بھی رستہ بدل گیا آخر 
میں بھی نقصان سے نکل آیا 
تھام کر ہاتھ میں محبت کا 
راہِ آسان سے نکل آیا 
دیکھ کر یار کو مقابل میں 
خود ہی میدان سے نکل آیا 
اس کو خوش آمدید کہنے کو 
پھول گلدان سے نکل آیا 
(امن علی امن۔ پاک پتن)

۔۔۔
غزل
اک عکسِ خامشی تھا، جو آئینہ گر بنا
اک ہچکیوں کا لمحہ، ندائے سحر بنا
اک زخم، جس کو کوئی تسلی نہ دے سکا
اک روز وہ ہی زخم مرے بال و پر بنا
اک دردِ گم شدہ، جسے لکھنا محال تھا
وہ ہی مرے خیال کا سادہ ہنر بنا
اس اشکِ بے نوا نے دی صحرا کو کچھ دمک
وہ قطرۂ خموش ہی نقشِ شجر بنا
اک قطرۂ خیال، جو پلکوں پہ رک گیا
اک عکسِ بے صدا تھا، جو شہرِ نظر بنا
اک شب کا بے بدن سا تصور، بکھر گیا
اک لفظِ نیم جاں تھا، جو آئندہ در بنا
اک وہم تھا جو عکسِ یقیں میں بدل گیا
اک خواب، جو بکھر کے تری چشمِ تر بنا
جس زخم نے سکھایا مجھے حرفِ اشکبار
وہ ہی غمِ نہاں مری لوحِ نظر بنا
جو خواب تھا کبھی، وہی آئینۂ شعور
اک وہم تھا کبھی، وہی دیدۂ تر بنا
اس لمسِ خامشی سے جلے دل کے قافلے
وہ لمسِ مختصر ہی نویدِ سفر بنا
جس کو احد ؔنے مانا تھا اک حرفِ ناتواں
اک دن غزل میں آ کے صدائے اثر بنا
(زبیر احد۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
بیچ دوں تیشۂ اظہار اسی تاک میں ہیں
خواب زاروں کے خریدار اسی تاک میں ہیں
او بھلے آدمی آدم بھی خدا ہوتا ہے
او بھئی شہ کے وفادار اسی تاک میں ہیں
عین ممکن ہے کسی سنگِ مطہر کا ظہور
لیلیٰ و مجنوں و بازار اسی تاک میں ہیں
عاشقا کن کے معارف کی کوئی بات نہ کر
عقل کے سارے گرفتار اسی تاک میں ہیں
اختلافات عداوت کو بُنیں گے کچھ کر
اردلی قاصد و سالار اسی تاک میں ہیں
چھوڑیے بات بڑھانے سے کوئی فائدہ ہے
حاسد و شائبہ بردار اسی تاک میں ہیں
چند احباب گرانے میں مگن ہیں عصمتؔ
اور کچھ صاحب دستار اسی تاک میں ہیں 
(عصمت اللہ سیکھو ۔گوجرانوالہ)

۔۔۔
دل
اے دل غم زدہ!
آخرش کیوں ہے تو اس قدر مضمحل؟
کچھ بتا تو سہی 
کیا ہے یہ ماجرا؟
ہاں مگر
ہے یہ مشکل کہ تو سوچتا ہے بہت
کیوں نہ ایسا ہوا؟ 
کیوں نہ ویسا ہوا؟ 
چھوڑ یہ مسئلہ 
تیرے بس کا نہیں 
ہے ازل سے یہی سلسلہ  
خیر و شر کا یہاں
نیک و بد ہیں جہاں در جہاں
غنچہ و گل ہیں جو باغ کا پیرہن
خار و خس بھی ہیں وجہ چمن
ہاں مگر 
ہے یہ مشکل کہ تو سوچتا ہے بہت 
ہے یہ مشکل کہ تو سوچتا ہے بہت
تیری نازک خیالی سے 
واقف ہوں میں 
لاکھ کوشش کروں ، لاکھ سمجھاؤں 
لیکن نہ مانے گا تو
کیونکہ تیرا مقدر فقط درد ہے
(سید محمد نورالحسن نور۔ممبئی ) 

شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ساتھ ساتھ ہے سینے میں سے نکل ا ہے میں نے بنا اک

پڑھیں:

شادی نہیں کروں گا لیکن باپ بننا چاہتا ہوں؛ سلمان خان

بالی ووڈ کے دبنگ اسٹار اور ہم سب کے بجرنگی بھائی، سلمان خان کو اب خواب میں ننھے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔

اس بات کا انکشاف سلمان خان نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کرکے ایک بار پھر مداحوں کو حیران کر دیا ہے۔

سلمان خان عمومی طور پر شادی کے سوال پر ہمیشہ ایک ہی جواب دیتے ہیں یعنی "نو کمنٹس" لیکن اس بار جواب علیحدہ بھی تھا اور چونکا دینے والا بھی ہے۔

بجرنگی بھائی جان نے اعتراف کیا کہ وہ اب بھی شادی کی تمنا نہیں رکھتے لیکن باپ بننے کے خیال کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔

شادی نہ ہونے سے متعلق سلمان نے بلا جھجک مان لیا کہ اگر کسی کو الزام دینا ہے تو قصوروار وہ خود ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے اشارہ دیا کہ اگر شادی نہ بھی ہو تو بچے ضرور ہو سکتے ہیں۔

جی ہاں! لگتا ہے کہ کنوارہ خان اب صرف کنوارہ ہی نہیں رہنا چاہتے، بلکہ "ڈیڈی خان" بننے کی تیاری میں ہیں۔

سلمان خان نے رشتوں پر اپنی فلسفیانہ رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ساتھی تیز بھاگنے لگے اور دوسرا پیچھے رہ جائے، تو یہیں سے تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ساتھ ساتھ بڑھو، ایک دوسرے پر بوجھ نہ بنو، ورنہ معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی جامعہ عرو الوثقی کے علما اور طلبہ کے ساتھ خصوصی نشست
  • اعتقادی اور عملی کفرو شرک
  • سیلاب اور معیشت
  • جرمن رکن پارلیمنٹ کی اپنے بچے کو گود میں اٹھائے بجٹ تقریر
  • ایشیائی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی
  • ایک اور گیم چینجر معاہدہ
  • شادی نہیں کروں گا لیکن باپ بننا چاہتا ہوں؛ سلمان خان
  • غزہ پر مسلم اور عرب رہنماؤں سے ملاقات بہت اچھی رہی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • کوالالمپور میں پشاور کارنر
  • ملائیشیا کی فضاؤں میں پشاور کی خوشبو