پاکستان میں حالیہ سیلاب نے بے پناہ نقصانات کیے ہیں ‘ملک کے چاروں صوبے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں‘خیبرپختونخوا سے لے کر سندھ تک بارشوں ‘لینڈ سلائیڈنگ اور دریاؤں میں آنے والے سیلاب نے ملک کی معیشت کو سخت زک پہنچائی ہے اور اس کے اثرات آیندہ مالی سال میں ظاہر ہوں گے۔
جنوبی پنجاب اور سندھ تاحال سیلاب سے نبرد آزما ہیں۔ لوگوں کے مالی نقصانات کا مکمل تخمینہ سامنے نہیں آیا تاہم سیلاب کی نوعیت اور شدت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نقصان اربوں روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ انھی حالات کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف نے امریکا کے شہر نیو یارک میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات کے دوران اس مسئلے کو بھی اٹھایا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے80 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک گئے۔اسی موقع پر انھوں نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات کی اور انھیں پاکستان میں حالیہ سیلاب کے حوالے سے بتایا ۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے ساتھ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کی دیرینہ تعمیری شراکت داری کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مختلف اہداف اور وعدے پورا کرنے کے لیے مسلسل پیش رفت کر رہا ہے، حالیہ سیلاب کے ملکی معیشت پر اثرات کو آئی ایم ایف کے جائزے میں شامل کیا جانا چاہیے۔
میڈیا نے وزارت خزانہ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ پاکستانی حکومت متاثرین سیلاب کے لیے اضافی اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے بنیادی بجٹ سرپلس اور کیش سرپلس کے لیے آسان اہداف کی صورت میں آئی ایم ایف سے ریلیف مانگ رہی ہے۔ حکومت زرعی شعبے کے لیے ریلیف پیکیج پر بھی کام کر رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا باقاعدہ تخمینہ ابھی تک نہیں لگایا گیا کیونکہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں کمیٹی نے ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی۔ ٹھوس تخمینے کے بغیر آئی ایم ایف سے بامعنی ریلیف حاصل کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
شدید بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کے زرعی سیکٹر کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ‘ماضی میں آنے والے سیلاب کی زد میں بھی زیادہ سے زرعی سیکٹر ہی آیا ہے۔اس لیے ہر سیلاب کے دوران کسان متاثرہ فریق ہوتا ہے۔18ویں ترمیم کے بعد بہت سے معاملات صوبائی حکومتوں کے سپرد ہو چکے ہیں۔ وفاقی حکومت کو صوبوں کے ساتھ مل کر جلد از جلد سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ٹھوس اور حقیقت پسندانہ تخمینہ لگانا چاہیے تاکہ ڈونر ایجنسیوں ‘آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے پیش کیا جا سکے۔شروع شروع میں میڈیا میں بتایا جا رہا تھا کہ سیلاب نے چاول کی تقریباً 60 فیصد فصل کو تباہ کردیا ہے تاہم اب ابتدائی رپورٹس بتاتی ہیں کہ چاول کی کل فصل کا صرف 4فیصد مکمل طور پر تباہ ہوا ہے اور مزید 7فیصد کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
سیلاب سے چاول کی تقریباً 16 فیصد فصل جزوی طور پر متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں 10 فیصد پیداوار کا نقصان ہوا ہے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی ایم ایف کے سامنے ایسے اعدادوشمار رکھے جائیں جن پر آئی ایم ایف کے حکام بھی یقین کر لیں ‘پاکستان میں بیوروکریسی اکثر اوقات نا اہلی ‘ غفلت اور کام چوری کی وجہ سے ایسے ایسے اعدادوشمار پر مبنی رپورٹیں تیار کر دیتی ہے جس پر عالمی مالیاتی ادارے یقین نہیں کرتے۔ اس سے ایک تو عالمی مالیاتی اداروں کے حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ چالاکی کی جا رہی ہے اور دوسری طرف ان کے ذہنوں میں یہ بات آتی ہے کہ شاید پاکستان کا سسٹم اتنا ناقص ہو چکا ہے کہ سرکاری افسران اور ملازمین محنت سے کام نہیں کرتے۔ اس لیے اس تاثر کو دور کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
نیو یارک سے آمدہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی ۔وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی بروقت حمایت کا اعتراف کیاجس میں مالی سال 2024میں3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ، اس کے بعد 7ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت اور1.
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ انھوں نے بحالی کے مؤثر اقدامات کے لیے نقصانات کے تخمینے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور مضبوط میکرو اکنامک پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے وزیر اعظم کے عزم کی تعریف کی اور آئی ایم ایف کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا کیونکہ پاکستان پائیدار طویل المدتی اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقتصادی اصلاحات پر عمل پیرا ہے۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف سربراہ پر زور دیا کہ وہ تباہ کن سیلاب کی روشنی میں قرض کی بعض سخت شرائط میں نرمی کریں۔
موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے ‘اس کے اکنامک منیجرز نے ملکی معیشت کو بہتر بنانے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ اچھے ریلیشن شپ قائم کرنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے خاصے اچھے اور عملی اقدامات کیے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کو بھی ختم کرایا جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے خاصی سہولیات پیدا ہوئیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کی راہ ہموار ہو گئی۔ اب بھی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ اچھی شرائط پر سیلاب زدگان کے لیے رعایت کے حصول پر کام کرنا چاہیے ۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ نیو یارک میں وزیراعظم شہباز شریف نے ورلڈ بینک گروپ کے صدر اجے بنگا سے بھی ملاقات کی ہے۔اس ملاقات کے بارے میں میڈیا نے جو اطلاعات دی ہیں وہ خاصی حوصلہ افزا ہیں۔بتایا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے پاکستان کی ترقیاتی ترجیحات کو آگے بڑھانے کے لیے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔یاد رہنا چاہیے کہ ورلڈ بینک نے کووڈ-19کی عالمگیر وبا اور2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران پاکستان کی خاصی مدد کی تھی۔ وزیر اعظم پاکستان نے عالمی بینک کے صدر کو حکومت کے جامع اصلاحاتی ایجنڈے سے آگاہ کیا جس میں وسائل کو متحرک کرنے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، نجکاری اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے حوالے سے اقدامات شامل ہیں۔
انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اصلاحاتی ایجنڈے نے پاکستان کو میکرو اکنامک استحکام کی طرف گامزن کیا ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کو فروغ ملا ہے۔ وزیر اعظم نے ورلڈ بینک کے نئے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک2035-2026 کی بھی تعریف کی جس کے تحت عالمی بینک نے پاکستان کے لیے40 ارب ڈالر کا تاریخی اور بے مثال وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اس کے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطے کے حوالے سے وفاقی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ صدر ورلڈ بینک نے پاکستان کے اصلاحاتی اقدامات کو سراہا اور پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے کے لیے بینک کی طرف سے تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔
پاکستان کا معاشی بحران کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے ۔عالمی کرنسی کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی پاکستان کے ذمہ قرضوں کے حجم میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔پاکستان کو ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کرنا ہو گا۔ معاشی منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے کے لیے پالیسی سازی کی سطح پر بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
توانائی کے ذرائع کی قیمتوں کو سالانہ بنیادوں پر مستحکم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے نقل و حمل کے اخراجات میں سال بھر کے لیے استحکام پیدا ہو جائے گا۔ پیداواری اخراجات میں اتار چڑھاؤ کی شرح بھی بہت کم ہو جائے گی ‘جس کی وجہ سے افراط زر میں کمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں استحکام پیدا ہو گا۔ بجٹ میں مختص کیے گئے ترقیاتی فنڈز بھی طویل المدتی منصوبوں پر خرچ ہونے چاہئیں‘اس کے لیے تین سالہ یا پانچ سالہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔اس طریقے سے ملکی معیشت میں استحکام آئے گا ۔ ایسی صنعتیں جو برسوں سے سبسڈی کے حوالے سے چل رہی ہیں ‘ان کے بارے میں بھی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر وزیراعظم شہباز شریف نے ا ئی ایم ایف کے عالمی مالیاتی آئی ایم ایف کی نے پاکستان کے کا اعادہ کیا پاکستان میں کی معیشت کو کے حوالے سے کرنے کے لیے ملکی معیشت پاکستان کی ورلڈ بینک کی وجہ سے سیلاب نے بنانے کے انھوں نے سیلاب کے نیو یارک سیلاب سے کے ساتھ نے والے ہے اور رہی ہے کے عزم
پڑھیں:
پاکستان کے فری لانسرزاپنی آمدنی ایک ارب ڈالر سے زائد بڑھاسکتے ہیں: ماہرین اسٹیک ہولڈرز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) ماہرین اسٹیک ہولڈرز کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فری لانسنگ کمیونٹی بڑھتی ہوئی تربیتی سہولیات، مسلسل ادارہ جاتی تعاون اور ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام کی ترقی کے ساتھ اپنی سالانہ آمدنی کو ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ بڑھا سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق26 ویں آئی ٹی سی این ایشیا کراچی میں منعقدہ “اے آئی بیاںڈ بارڈر سمٹ 2025” میں ماہرین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ حکومت اور مالیاتی اداروں کی مربوط کوششوں کی بدولت پاکستان کی فری لانسنگ کمیونٹی نئی مواقع حاصل کرنے، عالمی کلائنٹس کو متوجہ کرنے اور ملک کی ڈیجیٹل معیشت میں ستون کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔
پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن (PAFLA) کے چیئرمین ابراہیم امین نے کہا کہ “فری لانسرز پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کے اہم کھلاڑی ہیں، جو قیمتی زرمبادلہ ملک میں لا رہے ہیں، پاکستانی ٹیلنٹ پر عالمی اعتماد قائم کر رہے ہیں اور اپنے ساتھ نوجوانوں اور خواتین کے لیے بھی مواقع پیدا کر رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فری لانسنگ کمیونٹی ایک بڑے سنگ میل کے قریب ہے اور سالانہ آمدنی ایک ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی توقع ہے جبکہ فری لانسرز کی تعداد 2.3 ملین سے بڑھ جایے گی۔
ون لنک کے محمد شہزاب نے معیشت کے اہم کرداربشمول فری لانسرز، کے لیے قابل اعتماد ڈیجیٹل فنانشل سسٹم کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ون لنک میں ہم ایک ایسا مربوط پیمنٹ انفراسٹرکچر قائم کرنے پر کام کر رہے ہیں جو فری لانسرز کو تیز، شفاف اور باآسانی ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرے، تاکہ پاکستان کی فری لانسنگ معیشت کو مزید مضبوط بنایا جا سکے اور پروفیشنلز کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنایا جا سکے۔ پاکستان پہلے ہی دنیا کے ٹاپ پانچ فری لانسنگ مارکیٹس میں شامل ہے، اور اسٹیک ہولڈرز کا ماننا ہے کہ بہ ہدف پالیسیوں، تربیت اور مالی سہولیات کے ذریعے یہ شعبہ آئندہ برسوں میں نمایاں ترقی کر سکتا ہے۔
سیمنار سے مختلف اے آئی ماہرین اور نامور رہنماؤں نے بھی خطاب کیا جن میں عمران علی دینا، خدیجہ شہزاد، حسن بن لیاقت، عمارہ آفتاب اور فہد شیخ شامل تھے۔