پنجاب سوشل سکیورٹی کاخواتین ورکرزکیلئےکنٹری بیوشن6سےکم کرکے3فیصدکرنیکافیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
سٹی42: پنجاب سوشل سیکیورٹی ادارے نے خواتین ورکرز کے لیے کنٹری بیوشن کی شرح 6 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پالیسی میں تبدیلی کے مطابق پہلے مرد و خواتین دونوں ورکرز کے لیے مالکان کو 6 فیصد سوشل سیکیورٹی فنڈ جمع کروانا ہوتا تھا، اب صرف خواتین ورکرز کے لیے کنٹری بیوشن کم کر کے 3 فیصد کر دی گئی ہے۔تمام ادائیگیاں ورکرز کی تنخواہ سے کٹوتی کے بغیر، صرف مالکان کی ذمہ داری ہوتی تھیں۔
ادارے کو اربوں روپے کا مالی شارٹ فال ہو سکتا ہے۔صرف خواتین کی بھرتی سے مرد ورکرز کے روزگار کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اساتذہ کا اسکولوں سے حاضری لگا کر غائب ہونے کا انکشاف
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رعایت ورکرز کے بجائے صرف فیکٹری مالکان کو فائدہ پہنچائے گی۔خدشہ ہے کہ فیکٹری مالکان زیادہ سے زیادہ خواتین ورکرز کو رکھیں گے تاکہ سوشل سیکیورٹی ادائیگی کم ہو جس سے مردوں کی بیروزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین نے تجویز دی ہے کہ کنٹری بیوشن کو دوبارہ 6 فیصد کیا جائے اور ورکرز کے لیے سہولیات کا دائرہ کار بڑھایا جائے ساتھ ہی خواتین کو فائدہ دینے کے ساتھ ساتھ مرد ورکرز کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔
شہر میں مردہ مرغیوں کی سپلائی کرنےوالامافیاسرگرم
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سٹی42 خواتین ورکرز ورکرز کے لیے
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔