اپنی خود کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں!
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
آفتا ب احمد خانزادہ
بونی وین(Bronnie Wane) ایک آسٹریلین نرس ہے جس نے کافی عرصہ ایک ایسے ہسپتال میں گزارا جہاں ان افراد کو رکھاجاتا تھاجو بوڑھے تھے۔ بیمار تھے بظاہر بول سکتے تھے سن سکتے تھے ہوش و حواس میں ہوتے تھے لیکن طبی اعتبار سے زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے ،ان کی دیکھ بھال کرتے ، ان سے گفتگو کرتے، ان سے ان کی گذشتہ زندگی کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے وہ ان ”مرتے ہوئے لوگوں” کے پچھتائووں سے واقف ہوئی جو انہوں نے اپنی کتاب The Top Five Regrets of the Dying میں تحریر کیے ہیں۔ Bronnie کے مطابق ان لوگوں کا پہلا اور سب سے بڑا پچھتاوا یہ تھاکہ انہوں نے اپنی زندگی اپنی خواہشات کے مطابق گذارنے کے بجائے دوسروں کی خواہشات کے مطابق گذارنے کی کوشش کی کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے ان کی زندگی کے بہت سے خواب ادھورے رہ گئے اگر ہم اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گذارتے تو یہ ہمارے لیے بہتر ہوتا۔ ان کادوسرا سب سے بڑا پچھتا وا یہ تھا کہ کاش ہم نے زندگی میں اتنی محنت نہ کی ہوتی ۔ اس محنت کی وجہ سے وہ بیوی اور بچوں اور والدین سے بہت دور چلے گئے اور آج ہمارے پاس ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ صبح و شام کام کی زیادتی نے ہمارے درمیان احساس اور قربت کا کوئی رشتہ قائم ہی نہیں ہونے دیا بس ہم کو ہلو کے بیل تھے۔ ان افراد کا تیسرا پچھتا وا یہ تھا کہ وہ کبھی بھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہ کرسکے ۔ اندر ہی اندر گھٹن کاشکار رہے۔ ”چپ”نے ان کو اندر ہی اندر بیمار کردیا۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ کاش ہم نے کھل کر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہوتا تو ہمیں آج یوں پچھتا نا نہ پڑتا۔ چوتھا پچھتاوا دوسرے پچھتاوے سے ملتا جلتا ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے ہم اپنے پیارے اور مخلص دوستوں کو وقت نہ دے سکے اور ہمارے درمیان ہمیشہ کے لیے دوریاں پیداہوگئیں ۔اگر ہم نے دوستوں کو وقت دیا ہوتا تو آج اس مشکل وقت میں وہ ہمارے ساتھ ہوتے ۔ پانچویں اور آخری پچھتاوے کا تعلق اپنی ذاتی خوشی سے ہے۔ یہ لوگ اب سوچتے ہیں کہ ہم نے کبھی اپنے لیے خوشی تلاش کرنے کی کوشش ہی نہ کی ہمارے اندر اس مقصد کے لیے تبدیلی کی خواہش ہی پیدا نہ ہوسکی ۔ بس ایک لگی بندھی زندگی جی جس میں اپنی خوشی سے زیادہ دوسرں کی خواہشات پوری کرنے اور ان کو خوش کرنے کا عنصر نمایاں تھا۔ ہم نے صرف ان کی توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کی اپنی خوشیوں کا ذرا بھی خیال نہ رکھا اور ہم زندگی کی حقیقی خوشیوں سے دور رہے Bronnie نے یہ پچھتاوے بیان کرنے کے بعد اپنے مشاہدات کا نچوڑ یوں بیان کیا ہے اب ہم نے کیا کرنا ہے ؟ ہم نے آئینے کے سامنے کھڑے ہونا ہے اورا س میں جس شخص کا چہرہ نظر آئے اس سے پوچھنا ہے ” کیوں تم نے بھی مرتے دم ایسے ہی پچھتا نا ہے کیا تم بھی مستقبل کی کسی نرس کی کسی ایسی ہی کتاب کاکوئی کردار بننا پسند کرتے ہو؟”وہ چہرہ یقیناکوئی نہ کوئی جواب ضرور دے گا۔
اگر آپ کو دوبارہ زندگی گذارنے اور اپنی ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع ملے تو آپ اپنی زندگی کیسے مختلف انداز میں گذاریں گے؟ اس بارے میں Viktor Frankl کہتا ہے ” ایسے جیو جیسے تم دوسری بار جی رہے ہو اور جیسے تم نے پہلی بار غلط کام کیا ہو ” Julia Cameron اپنی کتاب Vein of Gold میں لکھتا ہے ” ہمیں یہ یقین کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ ہماری زندگی کو کسی نہ کسی طرح دوسروں کی توقعات کو پورا کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اطمینان کو اسی طرح پائیں گے جیسا کہ انہوں نے پایا ہے اپنے آپ سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ ہم کون ہیں، ہمیںدسروں سے پوچھنا سکھایا جاتاہے۔ ہم در حقیقت دوسروں کے اپنے بارے میں سننے کے لیے تربیت یافتہ ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں پرورش پاتے ہیں جیسا کہ ہمیں کسی اور نے بتا یا ہے جب ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہم نے ایک خواب دیکھا تھا جو چمک رہا تھا کیونکہ ہم یقین رکھتے تھے اور ہمارے آس پاس کے لوگ یقین رکھتے تھے کہ خواب ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ہوتے یا کم از کم ہوچکے ہوتے ، کچھ کرنے کی کوشش کرتے اگر۔ ۔۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہم واقع کون ہیں ”۔
اپنی مرضی کے خلاف اور دوسروں کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے سے زیادہ اذیت ناک کوئی اور چیز نہیں ہے۔ ہر سماج کا یہ ننگا سچ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی جی رہے ہیں۔ دوسروں کی سو چ سوچ رہے ہیں وہ ہمیں توکچھ اور، لیکن نظرآرہے ہیں کچھ اور ۔ دوسروں کی سنئیے ضرور ،لیکن مانئیے صرف اپنے آپ کی ۔ اپنے آپ کو عزت دیجیے اپنے آپ پر بھروسہ کیجیے اپنے آپ سے محبت کیجیے کیونکہ آپ اپنے آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دے سکتے ہیں ۔ کبھی غلط رائے نہیں دے سکتے۔ خوشی کا سارا تعلق انسان کے اندر سے ہے یہ انسان کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ آپ کو اپنی زندگی صرف ایک بار جینے کے لیے ملی ہے ۔ اسے دوسروں کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ اپنی خود کی مرضی کے مطابق جئیں ۔ یاد رکھیں آخر میں صرف آپ ہی اپنے آپ کے پاس ہوں گے۔ اس لیے اپنے آپ کو ناراض مت کیجیے ۔ اپنے اندر کسی اور کو داخل مت ہونے دیجیے۔ آپ اکلوتے اپنے آپ کے مالک ہیں ۔اس لیے مالک بنئیے کرایہ دارنہیں ۔ کیونکہ کرائے دار کبھی بھی نکالے جاسکتے ہیں ۔Anatole Franceکہتا ہے ” جب راستے پر پھول پڑے ہوں تو یہ پوچھنے کی حاجت نہیں کہ وہ کدھر جاتا ہے ؟ میں تمہیں یہ مشورہ اعلیٰ دانشمندی کے موافق اور دانشمندی کے خلاف دے رہاہوں ۔ انسان کے سب مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں۔ میں نے اپنا خود راستہ ہر ایک سے پوچھا ۔ پادری سے ، عالم لوگوں سے، لفظوں کا جادو جگانے والے فلسفیوں سے جو نا معلوم کے جغرافیہ کو جاننے کے دعوے دار ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی مجھے ٹھیک راستہ نہیں بتا سکا۔ اب میں نے جس راستے کو اپنے لیے پسند کیا ہے ،اس میں مسکراتے ہوئے آسمان کے تلے گھنے درخت ہیں جس کا جذبہ مجھے اس راستے پر کشاں کشاں لیے جارہا ہے۔ بھلا حسن سے بہتر رہبر کون مل سکتا ہے ؟
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کی مرضی کے مطابق کرنے کی کوشش اپنی زندگی دوسروں کی اپنے آپ ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
سب تماشا ہے!
اسلام ٹائمز: رہنماوں کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے لیڈر اکیلے کچھ نہیں کرسکتے، لہذا طرح طرح کے دلفریب نعروں سے جمہور کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ وہ کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی انصاف کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ سادہ لوح عوام اپنی سادگی کی بنا پر ہمیشہ انکا شکار رہتے ہیں۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
جس طرح نماز دکھاوے کی ہوسکتی ہے، اسی طرح نماز کی امامت اور قوم کی قیادت بھی دکھاوے کے لیے ہوسکتی ہے۔ کسی کا ظاہر دیکھ کر کسی کے باطن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی۔ ظاہر پرستی اور شخصیت پرستی بھی شرک کی بدترین صورت ہے۔ ہمارے اکثر سیاسی اور مذہبی قائدین اصلاً قائد نہیں ہوتے بلکہ قائد نظر آنے کی اداکاری کرتے ہیں۔ کسی کا محض لبادہ دیکھ کر کسی کی اصلیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ آج کے بازار سیاست میں ضرورت کے مطابق ہر قسم کا لبادہ میسر ہے۔ صرف یہ جاننا ضروری ہے کہ ”پبلک ڈیمانڈ“ کیا ہے۔؟
قیادتیں ہیں کہ کھلی منڈی میں کم داموں پر بک رہی ہیں۔ ہم جیسے مثالیت پسند اس خرید و فروخت پر حیران و پریشان ہیں۔ لگتا ہے کہ لوگوں کے ”حواس خمسہ“ جواب دے چکے ہیں۔ سماعتیں ایسی ہوگئی ہیں کہ لوگ کسی کے محض جادوئی بیانات سے متاثر ہوکر اس پر کامل ایمان لے آتے ہیں۔ بصارتوں کا حال یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی کھلی آنکھوں میں پرکھنے کی ایسی صلاحیت نہیں ہے، جس سے وہ کھرے اور کھوٹے رہنماء کے مابین تمیز کرسکیں۔
قوت گویائی کی صورت یہ ہے کہ ہم جنہیں اپنا کہتے ہیں، ان سے بھی اپنا حال دل کہنے سے ڈر لگتا ہے۔ حقیقی رہنماء سرِ منبر اپنے زورِبیان سے نہیں بلکہ سرِ راہِ عمل ہتھیلی پر رکھی اپنی جان سے پہچانا جاتا ہے۔ جو قیادت اپنی شہرت کی بھوکی اور اپنی نمائش کی دیوانی ہوتی ہے، وہ اندر سے کھوکلی ہوتی ہے۔ آج کسی بے رنگ قیادت کو چمکانے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی ملمع کاری کی جاتی ہے۔ مٹی کی مورتوں پر سونے کا پانی چڑھا دیا جاتا ہے۔ لوگ ظاہر بین ہوتے ہیں۔ کسی کے بدن پر جبہ و دستار دیکھ کر اس کے پرستار ہو جاتے ہیں۔ سروں پر عمامے دیکھ کر دیوانے ہو جاتے ہیں۔
رہنماوں کو لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ سیاست کو بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے لیڈر اکیلے کچھ نہیں کرسکتے، لہذا طرح طرح کے دلفریب نعروں سے جمہور کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ وہ کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی انصاف کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ سادہ لوح عوام اپنی سادگی کی بنا پر ہمیشہ ان کا شکار رہتے ہیں۔
تو یہ نہ دیکھ ترا میں شکار کتنا تھا
یہ دیکھ تجھ پہ مرا اعتبار کتنا تھا