وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اﷲ کا اس پر خصوصی کرم تھا‘ زمین تھی‘ جائیداد تھی ‘ سرمایہ تھا اوروسیع کاروبارتھے‘ وہ زندگی سے مطمئن تھا‘ وہ ایک بار شہر کے درمیان سے گزر رہا تھا‘ سامنے کوئی اجتماع تھا‘ اس کی گاڑی لوگوں کے درمیان پھنس گئی‘ اس نے نکلنے کی کوشش کی لیکن راستہ نہیں ملا لہٰذا رکنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔
اس نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سنا مولوی صاحب فرما رہے تھے‘ دنیا کا سارا مال دنیا میں ہی رہ جاتا ہے‘ آج تک کوئی شخص اپنی دولت اگلے جہان لے کر نہیں گیا‘ آپ کی جائیداد‘ آپ کی زمین‘ آپ کا بینک بیلنس اور آپ کا سارا جمع جتھا دنیا ہی میں رہ جائے گا اور تم اگلے جہان چلے جاؤ گے‘ وہ اس وقت فارغ تھا‘ فون کی بیٹری ڈیڈ تھی‘ گاڑی میں ڈرائیور کے سوا کوئی نہیں تھا‘ اس کے پاس پڑھنے کے لیے کوئی فائل بھی نہیں تھی لہٰذا اس نے مولوی صاحب کے الفاظ بڑے غور سے سنے اور سوچا‘ لوگ ہزاروں سال سے کہہ رہے ہیں دنیا کا مال دنیا میں ہی رہ جاتا ہے‘ میں بھی یہی سوچتا ہوں اور یہ ہی سنتا ہوں۔
لیکن دنیا میں کوئی شخص تو ہو گا جواپنا مال اگلے جہاں لے گیا ہو‘ مجھے اسے تلاش کرنا چاہیے اور اگر دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں تو پھر مجھے لیڈ لینی چاہیے‘ مجھے دنیا کا پہلا ایسا شخص بننا چاہیے جو اپنا پورا مال دوسری دنیا میں لے جائے گا‘ یہ خیال آنے کی دیر تھی اور بس وہ اپنا مال دوسری دنیا میں شفٹ کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا۔
اس نے منادی کرا دی اگر کوئی شخص مجھے دنیا کا مال دوسری دنیا میں شفٹ کرنے کا طریقہ بتا ئے گا تو میں اسے دس کروڑ روپے انعام دوں گا‘ یہ منادی عجیب تھی‘ دنیا میں آج تک کوئی ایسا اعلان نہیں ہوا تھا‘ لوگ اشتہار کو حیرت سے دیکھتے تھے اور پھر اشتہار دینے والے کو اور پھر ہنس کر آگے روانہ ہو جاتے تھے‘ اسے پورے ملک میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے مال شفٹ کرنے کا طریقہ بتا سکے۔
اس نے انعام کی رقم بڑھانا شروع کر دی‘ رقم بڑھتے بڑھتے ایک ارب روپے تک پہنچ گئی‘ لوگوں نے اب آفر کو سیریس لینا شروع کر دیا‘ وہ آتے اور اسے دولت کو دوسرے جہاں شفٹ کرنے کا طریقہ بتاتے‘ کسی نے اسے ٹیرا کوٹا واریئرز بنانے کا مشورہ دیا اور کسی نے اہرام مصر جیسی عمارت تعمیر کرنے کی تجویز دے دی اور کسی نے اسے سونے کی قبر بنانے کا پلان دے دیا‘ وہ سنتا رہا لیکن اسے کوئی مشورہ جان دار محسوس نہ ہوا۔
اس کا کہنا تھا ٹیرا کوٹا وارئیرز کے بادشاہ کو دنیا کا آٹھواں اور فرعونوں کو ساتواں عجوبہ بنانے کا کیا فائدہ ہوا؟ ان کا مال ڈاکو لوٹ کر لے گئے اور نعش عبرت کی مثال بن گئی‘ اس کا کہنا تھا اسے کوئی ٹھوس مشورہ چاہیے‘ لوگ کہتے تھے یہ ممکن نہیں‘ دنیا کا مال کبھی دوسرے جہاں شفٹ نہیں ہو سکتا‘ وہ یہ سن کر ہنستا تھا اور کہتا تھا 1968تک انسان چاند پر نہیں جا سکتا تھا‘ مریخ پر گاڑی نہیں اتاری جا سکتی تھی‘ انسان ہوا پر بیٹھ کر دنیا کے آخری کونے تک نہیں پہنچ سکتا تھا‘ فون پر بات نہیں ہو سکتی تھی اور ٹیلی ویژن کے ذریعے دور دراز کی سرگرمیاں لائیو نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔
ایک انسان کے گردے اور دل دوسرے انسان کو نہیں لگ سکتے تھے‘ انسان کیمرے کے ذریعے دوسرے انسان کی ہڈیوں میں نہیں جھانک سکتا تھا اور انسان اپنی مرضی کا بچہ پیدا نہیں کر سکتا تھا‘ آج اگر یہ سب کچھ ممکن ہے تو پھر انسان اپنا مال دوسری دنیا میں کیوں نہیں لے جا سکتا؟ یہ اگر آج ناممکن ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے انسان نے ٹرائی ہی نہیں کیا‘ یہ اگر مریخ پر لینڈنگ کی طرح اس ناممکن کو بھی مشن بنا لے تو یہ اس میں بھی کام یاب ہو جائے گا‘ کوئی طاقت اسے روک نہیں سکے گی‘ لوگ یہ سنتے تھے‘ اس کی منطق کی داد دیتے تھے لیکن اسے کوئی مشورہ نہیں دے پاتے تھے۔
وہ مایوس ہو گیا لیکن پھر ایک دن اس کے پاس ایک مجذوب آ گیا‘ آج مجذوبوں کا زمانہ نہیں ہے‘ لوگ اب بابوں اور درویشوں کے دور سے آگے نکل گئے ہیں‘ یہ جان گئے ہیں انسان جتنی معلومات کشف سے حاصل کر سکتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ معلومات اسے اس شخص کے فیس بک‘ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک سے مل سکتی ہیں‘ آپ گوگل کر کے دنیا کے کسی بھی شخص کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں‘ بابے‘ درویش اور مجذوب خطوں اور اخباروں کے دور میں اچھے لگتے تھے.
آج کے ڈیجیٹل دور میں ان کی مارکیٹ ختم ہو چکی ہے لیکن اس نے سوچا میں نے اگر سائنس دانوں اور آئی ٹی کے ایکسپرٹس کی بکواس سن لی ہے تو پھر مجذوب کی سننے میں کیا حرج ہے چناں چہ اس نے اسے بھی اندر بلا لیا‘ مجذوب نے اسے دیکھا اور ہنس کر بولا یہ کوئی کام نہیں جسے تم زندگی کا مقصد بنا کر بیٹھے ہو‘ میں تمہیں دولت ٹرانسفر کرنے کا طریقہ چٹکی میں بتا سکتا ہوں‘ وہ ہما تن گوش ہو گیا.
مجذوب بولا لیکن طریقہ بتانے سے پہلے میں تم سے چند سوال پوچھوں گا تم نے اگر ان کا جواب دے دیا تو تمہیں خود بخود طریقہ سمجھ آ جائے گا‘ وہ غور سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ مجذوب نے پوچھا‘ تمہاری ساری دولت کس کرنسی میں ہے‘ وہ ہنس کر بولا ظاہر ہے پاکستانی روپوں میں ہے‘ مجذوب نے اگلا سوال کیا اگر تم اس دولت کا تھوڑا سا حصہ انگلینڈ میں خرچ کرنا چاہو تو کیا برطانیہ کے دکان دار تم سے پاکستانی روپے لے لیں گے‘ اس نے فوراً نفی میں سر ہلا کر جواب دیا نہیں‘ مجھے پہلے پاکستانی روپوں کو پاؤنڈ اسٹرلنگ میں تبدیل کرنا ہو گا اور میں پھر برطانیہ میں کوئی چیز خرید سکوں گا.
مجذوب نے قہقہہ لگایا اور پھر پوچھا اور اگر تمہیں امریکا میں جا کرکوئی چیز خریدنی پڑے تو کیا وہاں پاکستانی روپے اور پاؤنڈ اسٹرلنگ چلیں گے‘ اس نے جواب دیا نہیں مجھے وہاں بھی پہلے روپوں اور پاؤنڈز کو ڈالرز میں تبدیل کرنا ہو گا‘ مجذوب نے پوچھا اور تم نے اگر روس یا چین میں خریداری کرنی ہو تو؟ اس کا جواب تھا مجھے ظاہر ہے روپوں‘ ڈالرز اور پاؤنڈز کو یوآن اور روبل میں تبدیل کرنا ہو گا.
مجذوب ہنسا اور پھر بولا تم اگر دنیا میں ایک ملک کی دولت دوسرے ملک میں استعمال نہیں کر سکتے تو پھر تم اس دنیا کی دولت دوسری دنیا میں کیسے استعمال کرسکو گے؟ تم اگر اس دولت کو وہاں لے بھی جاؤ تو بھی یہ وہاں تمہارے کسی کام نہیں آئے گی‘کیوں؟ کیوں کہ وہاں کی کرنسی مختلف ہے چناں چہ تم اگر اپنی دولت دوسری دنیا میں شفٹ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اسے پہلے کنورٹ (تبدیل) کرنا ہو گا.
تمہیں اسے پہلے روپے‘ ڈالرز‘ پاؤنڈ‘ یوآن اور روبل کی طرح دوسری دنیا کی کرنسی میں تبدیل کرنا ہو گا‘ یہ پھر ٹرانسفر بھی ہو جائے گی اور یہ وہاں تمہارے کسی کام بھی آسکے گی‘ بات اس کے دل کو لگی‘ اس نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا‘ میں تمہاری منطق سے متفق ہوں‘ تمہاری بات میں جان ہے لیکن اب سوال یہ ہے دوسری دنیا کی کرنسی کیا ہے؟ مجذوب نے سنا اور قہقہہ لگا کر بولا‘ دوسری دنیا کی کرنسی کرپٹو ہے‘ یہ نظر نہیں آتی یہ صرف کھاتے میں درج ہوتی ہے اور آپ اس کھاتے کے ذریعے اسے اِدھر سے اُدھر شفٹ کرسکتے ہیں اور اسے دوسری دنیا میں انجوائے کرتے ہیں‘اس نے پوچھا اور اس دنیا کی کرنسی کا کیا نام ہے؟ مجذوب بولا‘ ہم عام زبان میں دوسری دنیا کی کرپٹو کرنسی کو نیکی کہتے ہیں‘ نیکی بٹ کوائن کی طرح ایک نام ہے‘اسے سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ ہمارے لیے بس اتنا جاننا کافی ہے ہم اپنے موجودہ اثاثوں‘ زمین جائیداد اور مال و دولت کو نیکی کی کرپٹو کرنسی میں تبدیل کیسے کر سکتے ہیں؟ مجذوب خاموش ہو گیا۔
وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ اسے اس کی بات سمجھ آ رہی تھی‘ مجذوب رکا‘ لمبا سانس لیا اور بولا‘ آپ کے پاس جو کچھ ہے آپ بس اسے دوسروں کی بھلائی پر خرچ کر دیں‘ کسی بچے کی فیس ادا کردیں‘ کسی بچی کا جہیز بنا دیں‘ کسی مریض کا علاج کرا دیں‘ کسی بے گناہ کا مقدمہ لڑ لیں‘ کسی ضرورت مند کو اچھا مشورہ دے دیں‘ کسی کو راشن لے دیں‘ لوگوں کے چولہے جلانے کے لیے کوئی دکان‘ کوئی فیکٹری لگا لیں‘ بھوکوں کو کھانا کھلا دیں‘ پیاسوں کو پانی پلا دیا کریں‘ دکھی لوگوں کا دکھ سن لیا کریں‘ ناراض لوگوں کو مسکرا کر دیکھ لیا کریں‘ دھوپ میں جلتے پرندوں کے لیے پودے اور درخت لگا دیا کریں‘ لوگوں کے روزگار کا بندوبست کر دیا کریں‘ ناراض لوگوں میں صلح کرا دیا کریں اور اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دوسروں کے بارے میں پازیٹو سوچ لیا کریں‘ آپ کا مال آپ کا اثاثہ دوسری دنیا کی کرپٹومیں تبدیل ہو جائے گا اور آپ وہاں جا کر جو بھی خریدنا چاہیں گے آپ خرید سکیں گے‘ مجذوب خاموش ہو گیا‘ اسے اس کا جواب مل گیا‘ وہ اٹھا اور ایک ارب روپے کا چیک کاٹ کر مجذوب کے ہاتھ میں دے دیا‘ مجذوب نے چیک دیکھا‘چوما اور اسے واپس کر کے بولا‘ پلیز میری اس رقم کو بھی اگلے جہان کی کرپٹو کرنسی میں کنورٹ کرا دیں‘ یہ رقم میرے لیے بھی وہاں بے معنی ہو گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں تبدیل کرنا ہو گا مال دوسری دنیا میں دوسری دنیا کی دنیا کی کرنسی کرنے کا طریقہ کرپٹو کرنسی دیا کریں کی کرپٹو شفٹ کرنے سکتا تھا میں کوئی اور پھر جائے گا کر سکتے دنیا کا کا مال تو پھر ہو گیا اور اس کے پاس
پڑھیں:
ہم ہجرت نہیں کر رہے، ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں
اسلام ٹائمز: وہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اختتام کرتا ہے کہ ہر نوآبادیاتی منصوبہ جو قتل و غارت اور جھوٹ پر بنایا گیا تھا منہدم ہو گیا، اور وہ گر کر رہیگا، دنیا اس لمحے کو یاد رکھے گی، جب ایک ایٹمی طاقت نے اپنی انسانیت کھو دی اور اپنا سب کچھ ہی کھو دیا۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی زبان کے اخبار اہرنوت نے اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار لیور بین شاول کے لکھے ہوئے ایک مضمون میں اسرائیلی صیہونی حکومت کے مستقبل کی تاریک اور خوفناک تصویر پیش کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اگلے دو سالوں میں مکمل طور پر تباہی کے راستے طے کر لے گا۔ ان کے بقول، آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض سیکورٹی یا سیاسی بحران نہیں ہے، بلکہ ایک صیہونی ریاست کی بقا کے لئے حقیقی خطرہ ہے، جو صہیونی منصوبے کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے۔ بین شاول اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت، نہ صرف فوجی میدان میں، بلکہ نفسیاتی اور سیاسی سطحوں پر بھی، "ناقابل تسخیر ریاست" کے افسانے کو جھٹلانے اور دنیا کے سامنے "اسرائیل" کو کمزور ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
خاموش فرار: تباہی کی علامت
تجزیہ کار مقبوضہ علاقوں کے اندر روزمرہ کے مناظر کو ظاہر کرتا ہے: کہ
- یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے ٹکٹ تیزی سے فروخت ہو رہے ہیں۔
- سفارتخانے امیگریشن کی درخواستوں سے بھر گئے ہیں۔
- خاندان خاموشی سے اپنے اثاثے بیچ رہے ہیں۔
- اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیج رہے ہیں۔
- فلسطینی مزاحمت، نہ صرف فوجی میدان میں، بلکہ نفسیاتی اور سیاسی سطحوں پر بھی، "ناقابل تسخیر ریاست" کے افسانے کو جھٹلانے اور دنیا کے سامنے "اسرائیل" کو کمزور ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ جانے والوں کا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
- ہم ہجرت نہیں کر رہے… ہم ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔
- وہ تلخ لہجے میں کہتا ہے کہ یہاں ایک بے اختیار فوج اور حیران و سرگرداں حکومت ہے۔
بین شاول پوچھتا ہے کہ ایسا کون سا ملک ہے جس کے دارالحکومت اور قصبے روزانہ بمباری کی زد میں ہیں اور ہم کوئی مناسب جواب نہیں دے سکتے؟، ایسی کون سی فوج ہے جو ہزاروں فضائی حملوں سے غزہ کو اپنے گھٹنوں کے بل نہیں لا سکتی؟۔ ان کی رائے میں صیہونی حکومت بے بس اور بے مقصد ہے اور وزراء کچھ حاصل کیے بغیر شور مچانے اور دھمکیاں دینے پر خوش ہیں۔
حماس نے ہمارے وہم کے بت توڑ دیئے ہیں:
تجزیہ کار کے خیال میں حماس اسرائیل کے سیاسی اور عسکری ڈھانچے کی کمزوری اور خوف کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں کے اندر غم و غصے کے شعلے بھڑکا رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج ہمارے پاس بغیر کسی منصوبے کے، بغیر کسی سمت کے، اور بغیر کسی اخلاقی جواز کے حکومت چل رہی ہے، ایک ایسی حکومت جو بچوں کو گرفتار کرتی ہے، شہریوں کو مارتی ہے، اور ساتھ ہی دنیا سے ان کاموں کی تعریف ہر وہ حکومت جو جبر پر کھڑی تھی، زوال پذیر ہو گئی، گھڑی چل پڑی ہے اور جب 'اسرائیل' گرے گا۔ کرنے کی توقع بھی رکھتی ہے۔
محاصرہ شدہ مورچہ بند آبادیاں: ایک تاریک مستقبل کی نشانی
بین شاول کے مطابق اگلے دو سالوں میں اسرائیل کو دو میں سے ایک منظرنامے کا سامنا کرنا پڑے گا: یا ایک بند جزیرہ اور ایک مسلح یہودی قلعہ بننا جس کی بقا کا انحصار صرف اور صرف امریکی حمایت پر ہے۔ یا دوسروں کی زمینوں پر صیہونی قبضے کا مکمل خاتمہ اور یہ زمینیں ان کے اصل مالکان کو واپس کرنا۔
وہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اختتام کرتا ہے کہ ہر نوآبادیاتی منصوبہ جو قتل و غارت اور جھوٹ پر بنایا گیا تھا منہدم ہو گیا، ہر وہ حکومت جو جبر پر کھڑی تھی، زوال پذیر ہو گئی، گھڑی چل پڑی ہے اور جب 'اسرائیل' گرے گا، اور وہ گر کر رہیگا، دنیا اس لمحے کو یاد رکھے گی، جب ایک ایٹمی طاقت نے اپنی انسانیت کھو دی اور اپنا سب کچھ ہی کھو دیا۔
یہ مضمون صہیونی معاشرے میں گہری نفسیاتی اور سیاسی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسی تقسیم جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کی جانب سے ہم آہنگی ظاہر کرنے کی کوششوں کے باوجود، حکومت کا مین اسٹریم میڈیا بھی اب صہیونی منصوبوں کے زوال کے قریب آنے کے بارے میں کھل کر بات کر رہا ہے۔