Express News:
2025-08-07@10:38:25 GMT

کرپٹو کرنسی

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اﷲ کا اس پر خصوصی کرم تھا‘ زمین تھی‘ جائیداد تھی ‘ سرمایہ تھا اوروسیع کاروبارتھے‘ وہ زندگی سے مطمئن تھا‘ وہ ایک بار شہر کے درمیان سے گزر رہا تھا‘ سامنے کوئی اجتماع تھا‘ اس کی گاڑی لوگوں کے درمیان پھنس گئی‘ اس نے نکلنے کی کوشش کی لیکن راستہ نہیں ملا لہٰذا رکنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ 

اس نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سنا مولوی صاحب فرما رہے تھے‘ دنیا کا سارا مال دنیا میں ہی رہ جاتا ہے‘ آج تک کوئی شخص اپنی دولت اگلے جہان لے کر نہیں گیا‘ آپ کی جائیداد‘ آپ کی زمین‘ آپ کا بینک بیلنس اور آپ کا سارا جمع جتھا دنیا ہی میں رہ جائے گا اور تم اگلے جہان چلے جاؤ گے‘ وہ اس وقت فارغ تھا‘ فون کی بیٹری ڈیڈ تھی‘ گاڑی میں ڈرائیور کے سوا کوئی نہیں تھا‘ اس کے پاس پڑھنے کے لیے کوئی فائل بھی نہیں تھی لہٰذا اس نے مولوی صاحب کے الفاظ بڑے غور سے سنے اور سوچا‘ لوگ ہزاروں سال سے کہہ رہے ہیں دنیا کا مال دنیا میں ہی رہ جاتا ہے‘ میں بھی یہی سوچتا ہوں اور یہ ہی سنتا ہوں۔

لیکن دنیا میں کوئی شخص تو ہو گا جواپنا مال اگلے جہاں لے گیا ہو‘ مجھے اسے تلاش کرنا چاہیے اور اگر دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں تو پھر مجھے لیڈ لینی چاہیے‘ مجھے دنیا کا پہلا ایسا شخص بننا چاہیے جو اپنا پورا مال دوسری دنیا میں لے جائے گا‘ یہ خیال آنے کی دیر تھی اور بس وہ اپنا مال دوسری دنیا میں شفٹ کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا۔ 

اس نے منادی کرا دی اگر کوئی شخص مجھے دنیا کا مال دوسری دنیا میں شفٹ کرنے کا طریقہ بتا ئے گا تو میں اسے دس کروڑ روپے انعام دوں گا‘ یہ منادی عجیب تھی‘ دنیا میں آج تک کوئی ایسا اعلان نہیں ہوا تھا‘ لوگ اشتہار کو حیرت سے دیکھتے تھے اور پھر اشتہار دینے والے کو اور پھر ہنس کر آگے روانہ ہو جاتے تھے‘ اسے پورے ملک میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے مال شفٹ کرنے کا طریقہ بتا سکے۔

اس نے انعام کی رقم بڑھانا شروع کر دی‘ رقم بڑھتے بڑھتے ایک ارب روپے تک پہنچ گئی‘ لوگوں نے اب آفر کو سیریس لینا شروع کر دیا‘ وہ آتے اور اسے دولت کو دوسرے جہاں شفٹ کرنے کا طریقہ بتاتے‘ کسی نے اسے ٹیرا کوٹا واریئرز بنانے کا مشورہ دیا اور کسی نے اہرام مصر جیسی عمارت تعمیر کرنے کی تجویز دے دی اور کسی نے اسے سونے کی قبر بنانے کا پلان دے دیا‘ وہ سنتا رہا لیکن اسے کوئی مشورہ جان دار محسوس نہ ہوا۔ 

اس کا کہنا تھا ٹیرا کوٹا وارئیرز کے بادشاہ کو دنیا کا آٹھواں اور فرعونوں کو ساتواں عجوبہ بنانے کا کیا فائدہ ہوا؟ ان کا مال ڈاکو لوٹ کر لے گئے اور نعش عبرت کی مثال بن گئی‘ اس کا کہنا تھا اسے کوئی ٹھوس مشورہ چاہیے‘ لوگ کہتے تھے یہ ممکن نہیں‘ دنیا کا مال کبھی دوسرے جہاں شفٹ نہیں ہو سکتا‘ وہ یہ سن کر ہنستا تھا اور کہتا تھا 1968تک انسان چاند پر نہیں جا سکتا تھا‘ مریخ پر گاڑی نہیں اتاری جا سکتی تھی‘ انسان ہوا پر بیٹھ کر دنیا کے آخری کونے تک نہیں پہنچ سکتا تھا‘ فون پر بات نہیں ہو سکتی تھی اور ٹیلی ویژن کے ذریعے دور دراز کی سرگرمیاں لائیو نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔

ایک انسان کے گردے اور دل دوسرے انسان کو نہیں لگ سکتے تھے‘ انسان کیمرے کے ذریعے دوسرے انسان کی ہڈیوں میں نہیں جھانک سکتا تھا اور انسان اپنی مرضی کا بچہ پیدا نہیں کر سکتا تھا‘ آج اگر یہ سب کچھ ممکن ہے تو پھر انسان اپنا مال دوسری دنیا میں کیوں نہیں لے جا سکتا؟ یہ اگر آج ناممکن ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے انسان نے ٹرائی ہی نہیں کیا‘ یہ اگر مریخ پر لینڈنگ کی طرح اس ناممکن کو بھی مشن بنا لے تو یہ اس میں بھی کام یاب ہو جائے گا‘ کوئی طاقت اسے روک نہیں سکے گی‘ لوگ یہ سنتے تھے‘ اس کی منطق کی داد دیتے تھے لیکن اسے کوئی مشورہ نہیں دے پاتے تھے۔

وہ مایوس ہو گیا لیکن پھر ایک دن اس کے پاس ایک مجذوب آ گیا‘ آج مجذوبوں کا زمانہ نہیں ہے‘ لوگ اب بابوں اور درویشوں کے دور سے آگے نکل گئے ہیں‘ یہ جان گئے ہیں انسان جتنی معلومات کشف سے حاصل کر سکتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ معلومات اسے اس شخص کے فیس بک‘ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک سے مل سکتی ہیں‘ آپ گوگل کر کے دنیا کے کسی بھی شخص کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں‘ بابے‘ درویش اور مجذوب خطوں اور اخباروں کے دور میں اچھے لگتے تھے.

 

آج کے ڈیجیٹل دور میں ان کی مارکیٹ ختم ہو چکی ہے لیکن اس نے سوچا میں نے اگر سائنس دانوں اور آئی ٹی کے ایکسپرٹس کی بکواس سن لی ہے تو پھر مجذوب کی سننے میں کیا حرج ہے چناں چہ اس نے اسے بھی اندر بلا لیا‘ مجذوب نے اسے دیکھا اور ہنس کر بولا یہ کوئی کام نہیں جسے تم زندگی کا مقصد بنا کر بیٹھے ہو‘ میں تمہیں دولت ٹرانسفر کرنے کا طریقہ چٹکی میں بتا سکتا ہوں‘ وہ ہما تن گوش ہو گیا. 

مجذوب بولا لیکن طریقہ بتانے سے پہلے میں تم سے چند سوال پوچھوں گا تم نے اگر ان کا جواب دے دیا تو تمہیں خود بخود طریقہ سمجھ آ جائے گا‘ وہ غور سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ مجذوب نے پوچھا‘ تمہاری ساری دولت کس کرنسی میں ہے‘ وہ ہنس کر بولا ظاہر ہے پاکستانی روپوں میں ہے‘ مجذوب نے اگلا سوال کیا اگر تم اس دولت کا تھوڑا سا حصہ انگلینڈ میں خرچ کرنا چاہو تو کیا برطانیہ کے دکان دار تم سے پاکستانی روپے لے لیں گے‘ اس نے فوراً نفی میں سر ہلا کر جواب دیا نہیں‘ مجھے پہلے پاکستانی روپوں کو پاؤنڈ اسٹرلنگ میں تبدیل کرنا ہو گا اور میں پھر برطانیہ میں کوئی چیز خرید سکوں گا. 

مجذوب نے قہقہہ لگایا اور پھر پوچھا اور اگر تمہیں امریکا میں جا کرکوئی چیز خریدنی پڑے تو کیا وہاں پاکستانی روپے اور پاؤنڈ اسٹرلنگ چلیں گے‘ اس نے جواب دیا نہیں مجھے وہاں بھی پہلے روپوں اور پاؤنڈز کو ڈالرز میں تبدیل کرنا ہو گا‘ مجذوب نے پوچھا اور تم نے اگر روس یا چین میں خریداری کرنی ہو تو؟ اس کا جواب تھا مجھے ظاہر ہے روپوں‘ ڈالرز اور پاؤنڈز کو یوآن اور روبل میں تبدیل کرنا ہو گا. 

مجذوب ہنسا اور پھر بولا تم اگر دنیا میں ایک ملک کی دولت دوسرے ملک میں استعمال نہیں کر سکتے تو پھر تم اس دنیا کی دولت دوسری دنیا میں کیسے استعمال کرسکو گے؟ تم اگر اس دولت کو وہاں لے بھی جاؤ تو بھی یہ وہاں تمہارے کسی کام نہیں آئے گی‘کیوں؟ کیوں کہ وہاں کی کرنسی مختلف ہے چناں چہ تم اگر اپنی دولت دوسری دنیا میں شفٹ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اسے پہلے کنورٹ (تبدیل) کرنا ہو گا.

تمہیں اسے پہلے روپے‘ ڈالرز‘ پاؤنڈ‘ یوآن اور روبل کی طرح دوسری دنیا کی کرنسی میں تبدیل کرنا ہو گا‘ یہ پھر ٹرانسفر بھی ہو جائے گی اور یہ وہاں تمہارے کسی کام بھی آسکے گی‘ بات اس کے دل کو لگی‘ اس نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا‘ میں تمہاری منطق سے متفق ہوں‘ تمہاری بات میں جان ہے لیکن اب سوال یہ ہے دوسری دنیا کی کرنسی کیا ہے؟ مجذوب نے سنا اور قہقہہ لگا کر بولا‘ دوسری دنیا کی کرنسی کرپٹو ہے‘ یہ نظر نہیں آتی یہ صرف کھاتے میں درج ہوتی ہے اور آپ اس کھاتے کے ذریعے اسے اِدھر سے اُدھر شفٹ کرسکتے ہیں اور اسے دوسری دنیا میں انجوائے کرتے ہیں‘اس نے پوچھا اور اس دنیا کی کرنسی کا کیا نام ہے؟ مجذوب بولا‘ ہم عام زبان میں دوسری دنیا کی کرپٹو کرنسی کو نیکی کہتے ہیں‘ نیکی بٹ کوائن کی طرح ایک نام ہے‘اسے سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ ہمارے لیے بس اتنا جاننا کافی ہے ہم اپنے موجودہ اثاثوں‘ زمین جائیداد اور مال و دولت کو نیکی کی کرپٹو کرنسی میں تبدیل کیسے کر سکتے ہیں؟ مجذوب خاموش ہو گیا۔

وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ اسے اس کی بات سمجھ آ رہی تھی‘ مجذوب رکا‘ لمبا سانس لیا اور بولا‘ آپ کے پاس جو کچھ ہے آپ بس اسے دوسروں کی بھلائی پر خرچ کر دیں‘ کسی بچے کی فیس ادا کردیں‘ کسی بچی کا جہیز بنا دیں‘ کسی مریض کا علاج کرا دیں‘ کسی بے گناہ کا مقدمہ لڑ لیں‘ کسی ضرورت مند کو اچھا مشورہ دے دیں‘ کسی کو راشن لے دیں‘ لوگوں کے چولہے جلانے کے لیے کوئی دکان‘ کوئی فیکٹری لگا لیں‘ بھوکوں کو کھانا کھلا دیں‘ پیاسوں کو پانی پلا دیا کریں‘ دکھی لوگوں کا دکھ سن لیا کریں‘ ناراض لوگوں کو مسکرا کر دیکھ لیا کریں‘ دھوپ میں جلتے پرندوں کے لیے پودے اور درخت لگا دیا کریں‘ لوگوں کے روزگار کا بندوبست کر دیا کریں‘ ناراض لوگوں میں صلح کرا دیا کریں اور اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دوسروں کے بارے میں پازیٹو سوچ لیا کریں‘ آپ کا مال آپ کا اثاثہ دوسری دنیا کی کرپٹومیں تبدیل ہو جائے گا اور آپ وہاں جا کر جو بھی خریدنا چاہیں گے آپ خرید سکیں گے‘ مجذوب خاموش ہو گیا‘ اسے اس کا جواب مل گیا‘ وہ اٹھا اور ایک ارب روپے کا چیک کاٹ کر مجذوب کے ہاتھ میں دے دیا‘ مجذوب نے چیک دیکھا‘چوما اور اسے واپس کر کے بولا‘ پلیز میری اس رقم کو بھی اگلے جہان کی کرپٹو کرنسی میں کنورٹ کرا دیں‘ یہ رقم میرے لیے بھی وہاں بے معنی ہو گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں تبدیل کرنا ہو گا مال دوسری دنیا میں دوسری دنیا کی دنیا کی کرنسی کرنے کا طریقہ کرپٹو کرنسی دیا کریں کی کرپٹو شفٹ کرنے سکتا تھا میں کوئی اور پھر جائے گا کر سکتے دنیا کا کا مال تو پھر ہو گیا اور اس کے پاس

پڑھیں:

امریکا کی نظر التفات کوئی پہلی بار نہیں

امریکا بہادرکی ہم پر حالیہ نظر التفات کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ہم پرکئی بار محبت، شفقت، عنایت اور مہربانی کی بارشیں کرچکا ہے، اسے جب جب ہم سے کوئی کام نکلوانا ہوتا ہے وہ ہم سے اچانک یونہی محبت و شفقت کا رویہ اختیارکرنے لگتا ہے، البتہ اس بار جو بڑا فرق یہ نظر آرہا ہے وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ اس کا معاندانہ رویہ ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔

خود انڈیا والے بھی حیران و ششدر ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرنے والی بھارتی حکومت اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی بھی سکتے کے عالم میں اس امریکی رویے سے حیران و پریشان ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جیت پر واشنگٹن کی یاترا کرتے ہوئے انھوں نے جس مسرت و شادمانی کا اظہار کیا تھا اور ٹرمپ کے لیے بڑے تحسین آمیز الفاظ استعمال کیے تھے، اُن کا اثر یہ نکلا کہ ٹرمپ اپنی ہر تقریر میں بھارتی حکومت پر لعن و طعن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

نریندر مودی کو اس وقت اپنی اپوزیشن اور عوام کے سامنے انتہائی خفت و شرمندگی کا سامنا ہے، وہ جھنجھلاہٹ کے عالم میں اس وقت کوئی بیان دینے کے قابل بھی نہیں رہے۔

 ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ کیا امریکا کی اس اچانک کی جانے والی محبت و مہربانی پر شادیانے بجانا چاہیے یا اس کے پیچھے چھپے امریکی مفادات پرگہری نظر رکھنی چاہیے۔ ہم جیسے ملک پر امریکی مہربانیاں کچھ بلاوجہ نہیں ہوتیں۔ اس کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بڑا مفاد چھپا ہوتا ہے۔ ہم ماضی میں بھی ایسی امریکی نوازشات سے مستفید ہوتے رہے ہیں جن کا خمیازہ ہمیں بعد میں بھگتنا پڑا۔

 ہمیں چوکنا رہنا ہوگا۔ جنرل ضیاء کے دور میں افغانستان میں روسی مداخلت روکنے کے لیے اس نے ہم پر ایسی ہی بڑی مہربانیاں کی تھیں اور جب کام نکل گیا تو اس نے جس طرح نظریں پھیر دیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اسی دور میں اس نے ہم پر اقتصادی پابندیاں بھی لگائی تھیں۔ ہمارے چالیس F-16 طیاروں کی ترسیل روک کر ہماری پہلے سے دی ہوئی بھاری رقوم بھی اس نے کئی سالوں تک روکے رکھی اور بعد ازاں اُس رقم کے بدلے ہمیں گندم لینے پر مجبورکردیا گیا۔

یہ زیادتی دنیا میں کسی ملک کے ساتھ نہیں ہوئی۔ امریکا جسے ہم اپنا دوست سمجھ کر قناعت کرتے رہے اسی امریکا نے ہمیں کئی بار دھوکے بھی دیے ہیں۔ ہماری معاشی بدحالی میں اس امریکا کا بہت بڑا ہاتھ اور کردار بھی ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ہمیں اپنی محبت کے چنگل میں پھنسا لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ہم پر پابندیاں میں لگا دیتا ہے۔

کبھی دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں شامل کرکے اور کبھی فیٹیف کی گرے لسٹ میں شامل کر کے۔ کبھی CTBT میں دستخط نہ کرنے کی پاداش میں تو کبھی کم عمر بچوں سے کام لینے کے جرم میں۔ وہ جب چاہتا کسی نے کسی بہانے سے ہم پر پابندیاں لگاتا رہا ہے۔ آج اس کی یہ مہربانیاں بھی عارضی ہوسکتی ہیں۔

کل نیا آنے والا امریکی صدر یا خود ڈونلڈ ٹرمپ کیا پینترا بدل ڈالے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز حکومت سنجیدہ اور شائستہ نہیں ہے۔ وہ جذباتی اور عاجلانہ امیچیور فیصلے کر رہے ہیں۔ کل وہ اچانک ایک نیا فیصلہ کردیں یا اپنے انھی فیصلوں پر یوٹرن لے لیں کسی کو نہیں معلوم، لٰہذا ہمیں اپنے حق میں کیے گئے اُن کے فیصلوں پر شادیانے نہیں منانا چاہیے، بلکہ کسی بھی دوسرے مخالفانہ فیصلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہم اپنی آنکھیں بند کرکے خود کو ایک بے اعتبار ملک امریکا کے حوالے نہیں کرسکتے جس نے ہمیں ہمیشہ دھوکا ہی دیا ہے۔

وہ ہماری خود مختاری اور خود انحصاری کا بہت بڑا دشمن ہے، وہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ ہم ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر کے ایک ترقی یافتہ ملک بن جائیں۔ ہمیں محتاج اور غلام بنا کر ہی وہ ہم پر اپنا حکم چلا سکتا ہے، وہ ہماری جغرافیائی حیثیت سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ اس لیے وہ کبھی کبھار ہم پر اپنی مہربانیوں کے ڈورے ڈالتا رہتا ہے تاکہ ہم اس سے اپنا ناتا جوڑے رکھیں۔ ہماری مجبوری یہی ہے کہ فی الحال ہم اس سے دشمنی مول نہیں سکتے، لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کراس کی اس اچانک نازل ہونے والی محبت میں چھپی چالوں کونہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ موثر اور بصیرت آموز طریقے سے جواب بھی دینا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ڈالر کے ریٹ پر قابو پانے کی سرکاری کوششیں ناکام‘ملک میں کرنسی کی قلت
  • قدرت انسانوں سے انتقام لے رہی ہے
  • ہندومت جانتا ہے کہ تنوع کو کیسے سنبھالنا ہے اور دنیا کو اسکی ضرورت ہے، موہن بھاگوت
  • بحریہ ٹاؤن کی ممکنہ بندش کے بعد کیا ہوگا؟
  • بھارتی میڈیا کو بھارتی سرکار نے ہی جھوٹا قرار دے دیا
  • واہ کیا بات ہے!
  • امریکا کی نظر التفات کوئی پہلی بار نہیں
  • کوچۂ سخن
  • آج 4 اگست ہے۔ پاپا کی سالگرہ کا دن۔۔۔
  • پی ٹی آئی کی تحریک صرف ایک دن کے احتجاج میں بدل چکی ہے ، عرفان صدیقی