(گزشتہ سے پیوستہ)
ٹرمپ کے یہ بیانات اب تک کے ایک طاقتور ترین فردکی کھلی دھمکی کے سوااورکچھ نہیں کیونکہ یہ الفاظ صرف عسکری و سیاسی بیان بازی نہیں بلکہ ایک عالمی دھماکے کی پیشین گوئی ہیں جس کاساراامکان امریکی فوج کی وسائل کی مکمل بربادی پرمشتمل ہے۔اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی دھمکی کے ساتھ ہی ڈیل کی پیشکش سفارتی توازن برقراررکھنے کی بھی ایک اوچھی کوشش ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ لفاظی نہ صرف طاقت کے استعمال کارخ کھولتی ہے بلکہ سفارتی راستے کی جانب کھلے دروازہ کی بھی نشاندہی کرتی ہے لیکن یہ کھلادروازہ بھی
اس بات کی دلیل ہے کہ کل کلاں اگراسرائیل کمزورپڑجائے اوراسے اپنی سلامتی کے لئے امریکاکی طرف فریادکناں ہوکرجاناپڑے توامریکااپنے اتحادیوں کے توسط سے ان دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کامعاہدہ کرواسکے جس کاآج انہوں نے ایک مرتبہ پھرپاک وہندکی جنگ بندی کاحوالہ دیتے ہوئے اعلان کیاہے۔
لیکن یادرہے کہ ٹرمپ کادولکیروں کے درمیان محیط بیان جہاں عدم مداخلت کااظہارہے لیکن وہی پرلامتناہی طاقت کے ساتھ حملے کی دھمکی ایران کوواضح اندازمیں ایک انتہائی سنجیدہ چیلنج سے کم نہیں بلکہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے جوکبھی جاپان کی تباہی کاموجب بنی تھی۔ٹرمپ کایہ اندازِخطاب امریکی صدورکاعمومی اعلیٰ دھمکی کایہ ویساہی طرزِبیان کی شکن پہ فٹ بیٹھتاہے جیسے ریگن کاریڈلرزکوناکام بنانے کی دھمکی کے بعد سامنے آیاتھا۔کیونکہ جب صدرطاقت کاایک وعدہ ناکہ کش اور اسی وقت مصالحہ جاتی راستے کاذکر کریں،تویہ ایک شطرنجی پوزیشن کی مانندہے جہاں ہرچال کے پیچھے عالمی مفادات اور عسکری حساب کتاب ہوتاہے۔
صدرٹرمپ کی یہ بیان بازی اس بحران میں چارکلیدی محرکات کی نمائندہ ہے۔عدم مداخلت کاسیاسی شیلڈ،طاقت کی دھمکی کاتاثر، سفارتی راستوں کی دعوت اورعسکری حکمتِ عملی کی آمادگی پرمشتمل ہے۔یہ حکمتِ عملی ایک معتدلانہ عدم شرکت اور جارحانہ دفاع کے مابین باریک لکیرپرمبنی ہے جہاں لزومی امن اورمکمل طاقت ایک ہی ریسکیو آپریشن کے مانند کھڑے ہیں۔
اگرعدم مداخلت کے سیاسی شیلڈکاتذکرہ کیاجائے توٹرمپ کاابتدائی بیان کہ امریکاکااس حملے سے کوئی تعلق نہیں،ایک سیاسی زرہ بکترہے۔اس اعلان میں سفارتی برت کاپہلو نمایاں ہے گویاامریکااس خونی شطرنج میں خود کو پیادے کی سطح پردیکھنے کوتیار نہیں۔ یہ پیغام نہ صرف عالمی برادری بلکہ اقوامِ متحدہ، نیٹو،اور اندرونِ ملک امریکی عوام کوبھی دیاگیاکہ ہم جنگ کے آغازمیں شریک نہیں تھے،مگریہی’’مگر‘‘ آئندہ منظرنامے کی کلید ہے۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ’’اگرہم پرکسی بھی طرح سے حملہ کیاگیاتوامریکی مسلح افواج پوری طاقت سے ایسا جواب دے جوپہلے کبھی نہیں دیکھی گئیــ‘‘صرف دھمکی نہیں بلکہ ایک نفسیاتی اسلحہ ہے۔اس میں’’پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی‘‘ جیسے جملے مستقبل میں ہیروشیماجیسے مظاہرکی بازگشت سناتے ہیں۔یہ پیغام ایران سے زیادہ روس، چین اورشمالی کوریاکوبھی پہنچایاگیاہے کہ امریکی عسکری طاقت اب بھی ایک عالمی ڈنڈہے۔یہ وہ الفاظ کی فضاہے جس میں محض حروف نہیں،بلکہ بارودکی بوبسی ہوئی ہے۔
سفارتی راستوں کی دعوت دیتے ہوئے ٹرمپ کے یہ الفاظ،ہم ایران اوراسرائیل کے درمیان باآسانی ڈیل کرواسکتے ہیں اوراس خونی تنازع کوختم کرسکتے ہیں ’’یہ دعوت ایک دلچسپ تضادرکھتی ہے۔ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ ہم شامل نہیں،دوسری طرف وہ ثالثی کادعویٰ کرتے ہیں۔ یہی وہ باریک لکیرہے جہاں ٹرمپ کی سیاستِ شعلہ آفرینی اورثالثی کاتضادایک خاص امریکی طرزِقیادت کا پتہ دیتاہے۔یہ الفاظ کارپوریٹ سودے بازی کی زبان میں لپٹے ہوئے ہیں، جہاں ’’ڈیل‘‘کا مطلب فقط امن نہیں،بلکہ مفادات کا توازن ہے۔
ٹرمپ کے بیان کاہرلفظ ایک اسٹرٹیجک بلیوپرنٹ کی طرح ہے۔عسکری حکمتِ عملی کی آمادگی پریہ باتیں صرف ممکنہ جنگ کی نہیں بلکہ جنگ کوروکنے کے لئے جنگ کااعلان بھی ہیں جہاں دشمن کواپنی کمزوری بتانے کی بجائے اپنی ممکنہ ہلاکت خیزی کا آئینہ دکھایا جاتا ہے اوریہی ہے جنگ کی وہ سفارت کاری جس کوامریکا استعمال کرنے کی کوشش کررہاہے۔
یہ تمام نکات ملاکرہمیں ٹرمپ کے رویے کی چارجہتی حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔امریکاعدم مداخلت کابیانیہ جاری کرتے ہوئے اپنے عالمی اخلاق کی برتری کادعویٰ کرے،دوسرا عدم مداخلت کاپہلوسامنے لاتے ہوئے دفاعی بازوکی پیشگی نمائش کرتے ہوئے طاقت کی دھمکی دیکرخوفزدہ کرے۔ اپنے بیانات سے تیسرے پہلوکے طورپرعالمی قائدانہ کردارکا بظاہردعویٰ کرتے ہوئے سفارتی ثالثی کاعندیہ دے اوراپنے بیان کواقوام عالم میں اس طورپرتسلیم کروایاجائے کہ وہ ممکنہ تصادم کی روک تھام اوردنیاکوکسی بڑے حادثے سے بچانے کے لئے دونوں ملکوں کومزیدعسکری تباہی سے روکنے کے لئے امن کے ساتھ اپنے تنازعات حل کرنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے لیکن یقیناامریکا اوراس کے اتحادیوں کو ایران کے اس بیان سے نہ صرف دھچکا لگاہے بلکہ پریشان بھی کردیاہے کہ ایران نے امریکاکی طرف سے ثالثی کا پیغام لانے والوں دوملکوں کوجنگ کے دوران کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکارکردیاہے۔
یہ طرزِحکمت ہمیں ریگن،سوویت دورکی یاد دلاتا ہے جب’’طاقت کے ذریعے امن‘‘کانعرہ بلند کیا گیا تھا۔اگرتاریخی وادبی بصیرت کا سہارا لیکریہ کہاجائے کہ یہ وہ طرزِخطاب ہے جس میں امن کی چادرپرجنگ کی سلائیاں چلائی گئی ہوں، اوردلوں کوراضی کرنے کی آڑمیں سینوں کولرزادینے والے نغمے گنگنائے گئے ہوں۔ تاہم دنیایہ جان چکی ہے کہ طاقت اورامن کے متوازی چلتے کاروان میں ٹرمپ کی یہ حکمتِ عملی ایک ایسی مخمصے بھری قیادت کی مظہرہے جوخودکوامن پسندبھی کہتی ہے، جنگ کے لئے تیاربھی رہتی ہے،اورعالمی برتری کا خواب بھی دل میں سجاتی ہے۔یہ حکمتِ عملی لسانی شائستگی کے پردے میں عسکری گھن گرج کوسمیٹتی ہے ایساامتزاج جوصرف الفاظ کی نہیں،سیاسی طاقت کی زبان ہے۔
برطانوی وزیراعظم سرکیئراسٹارمرکے مہذب الفاظ بھی سامراجی سایہ کوچھپانہ سکے۔’’ہم اسرائیل کوجنگی طیاروں کی مدددینے پرفی الحال کوئی فیصلہ نہیں کررہے‘‘،یہ وہ سفارتی ہنر ہے جواستعمارکی پرانی چالوں سے آراستہ ہے۔ نہ ہاں،نہ ناںصرف ایک گھمبیر خاموشی،جوکسی بڑے طوفان سے پہلے کی فضاجیسی ہے۔یہ مؤقف ہمیں یاددلاتاہے کہ برطانیہ اب بھی خطے کے معاملات میں اپنی پرانی سلطنت کی بازگشت سنناچاہتاہے،اگرچہ خوداس کاوجوداب نقوشِ ماضی میں شامل ہوتاجارہاہے۔
خطہ اب ایک نئی کشیدگی کی دہلیزپرکھڑاہے جہاں برطانوی وزیراعظم سرکئیرسٹارمرکے بیانات بھی کسی خاص وضاحت سے عاری ہیںوہ فقط یہ کہہ کرنکل گئے کہ کشیدگی کم کی جائے گویاوہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ میدانِ جنگ میں کوئی فریق فرشتہ نہیں اورکوئی مظلوم مطلق بھی نہیں۔یہ ساری صورتِ حال ایک ایسے تانے بانے کی مانندہے جس کے ہردھاگے میں خون کی بوندیں چھپی ہیں،اورہرگرہ میں سیاست،عقیدے اورطاقت کا زہرگھلاہواہے۔مشرقِ وسطیٰ کاآتش فشاں پھٹ چکا ہے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ راکھ سے کونسی قیادت جنم لیتی ہے، امن کی مشعل یامزیدجنگ کاپرچم؟
روس اگرچہ منظرنامے سے فی الحال پس پردہ ہے،مگراس کی وقتی خاموشی میں مہلک شطرنجی استادچھپا ہوا ہے۔اس کی جیوپولیٹیکل بصیرت یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایران کی دفاعی پیش رفت اوراسرائیلی امریکی قربت کوخاموشی سے برداشت کرے۔ روس کی خاموشی خود ایک ناراض شیرکی نیند ہے۔وہ صرف تب بیدار ہوتاہے جب شطرنج کی بساط پرکسی کا بادشاہ خطرے میں ہو اوریہ خطرہ اب تیزی سے اس لئے بھی بڑھتامحسوس ہو رہا ہے کہ اسے اپنے گھرکے آنگن(یوکرین کے جنگل) میں ہانکالگاکرسیخ پاکردیاگیاہے اوریہ تومشہور مقولہ ہے کہ جنگل کی راجدھانی میں شیرکسی دوسرے کی مداخلت نہ توقبول کرتاہے اورنہ ہی برداشت۔اب اس سے بھلا بہترموقع اوراسے کہاں ملے گاجہاں وہ اپنی دھاڑکے ساتھ اپنے خونخوارپنجوں اوردانتوں کی طاقت کا مظاہرہ کرسکے۔
تمام عالمی بیانات کواگرآپس میں جوڑکر دیکھاجائے توایک نیازاویہ سامنے آتاہے،یہ محض الفاظ کی جنگ نہیں،بلکہ تصورات کا ٹکراؤہے۔ایرانی بیانئے کی روح یہ ہے کہ خطے میں بالادستی اورنظریاتی قیادت کے لئے شہادت،مزاحمت کاراستہ ہی بقاکی ضمانت ہے جبکہ اسرائیل اپنے وجودی تحفظ کی آڑمیں جاسوسی برتری کواپناہتھیاربناکراپنے انتقام کی آخری حدوں کوچھورہا ہے جبکہ امریکاطاقت کی دھمکیوں سے خوفزدہ کرکے ثالثی کاتاثردے کراپنی عالمی قیادت اورفوجی فروغ کے ایجنڈے پرعمل درآمدکررہاہے۔اس کے ساتھ ہی برطانیہ محتاظ ثالثی اورسردمفاہمت سے اپنے اثرورسوخ کی بحالی کے لئے سرگرم ہے مگرروس ایک پراسرارخاموشی کی گہرائی میں ڈوب کرمشرقِ وسطیٰ میں اپنی قوت کے توازن کے حصول کے لئے تیاریوں میں مصروف ہے۔
یہ سب کچھ اس بات کاغمازہے کہ مشرقِ وسطی اب کسی بڑے تصادم کی دہلیزپرکھڑاہے۔اب سوال یہ ہے کہ آیایہ تصادم محدود رہے گایاعالمی جنگ کی شکل اختیار کرلے گا؟آیایہ آتش فشاں امن کی راکھ بنے گا یاجنگ کے شعلے پوری دنیاکواپنی لپیٹ میں لے لیں گے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عدم مداخلت نہیں بلکہ کی دھمکی یہ الفاظ ثالثی کا ہے لیکن طاقت کی ٹرمپ کی کے ساتھ ہے جہاں ٹرمپ کے جنگ کے جنگ کی کے لئے
پڑھیں:
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کرنے کی دھمکی
جب تک انہیں پارٹی بانی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی، وہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے
سازشوں کے ذریعے خیبر پختونخوا حکومت کو گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، گنڈا پور کاویڈیو بیان
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کر سکتا ہوں۔بجٹ کے معاملے پر ہمیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ سازشوں کے ذریعے خیبر پختونخوا کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ویڈیو بیان میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ اگر ہم بجٹ پاس نہیں کرتے تو وفاق فنانشل ایمرجنسی کی بنیاد پر صوبے کا کنٹرول سنبھال سکتا ہے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ گورنر نے بجٹ اجلاس کے لیے بھیجی گئی سمری بھی منظور نہیں کی تھی، اگر کٹ موشنز پر ووٹنگ شروع ہو گئی تو بجٹ منظور کرنے کا عمل شروع ہو جائے گا، بجٹ پر مشاورت کیلئے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کروائی جا رہی،بجٹ پر بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مشاورت اور ان کی منظوری ان کا سیاسی حق ہے، بانی پی ٹی آئی کی منظوری کے بعد ہی خیبر پختونخوا کا بجٹ منظور کروایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ میں یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ ہم اس نظام کے خلاف تحریک چلائیں گے، یہ نظام مزید نہیں چل سکتا، ہم ایسے نظام کو چلنے نہیں دیں گے۔