Daily Ausaf:
2025-11-07@08:37:53 GMT

دھواں،دھمکی اوردھماکہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ٹرمپ کے یہ بیانات اب تک کے ایک طاقتور ترین فردکی کھلی دھمکی کے سوااورکچھ نہیں کیونکہ یہ الفاظ صرف عسکری و سیاسی بیان بازی نہیں بلکہ ایک عالمی دھماکے کی پیشین گوئی ہیں جس کاساراامکان امریکی فوج کی وسائل کی مکمل بربادی پرمشتمل ہے۔اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی دھمکی کے ساتھ ہی ڈیل کی پیشکش سفارتی توازن برقراررکھنے کی بھی ایک اوچھی کوشش ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ لفاظی نہ صرف طاقت کے استعمال کارخ کھولتی ہے بلکہ سفارتی راستے کی جانب کھلے دروازہ کی بھی نشاندہی کرتی ہے لیکن یہ کھلادروازہ بھی
اس بات کی دلیل ہے کہ کل کلاں اگراسرائیل کمزورپڑجائے اوراسے اپنی سلامتی کے لئے امریکاکی طرف فریادکناں ہوکرجاناپڑے توامریکااپنے اتحادیوں کے توسط سے ان دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کامعاہدہ کرواسکے جس کاآج انہوں نے ایک مرتبہ پھرپاک وہندکی جنگ بندی کاحوالہ دیتے ہوئے اعلان کیاہے۔
لیکن یادرہے کہ ٹرمپ کادولکیروں کے درمیان محیط بیان جہاں عدم مداخلت کااظہارہے لیکن وہی پرلامتناہی طاقت کے ساتھ حملے کی دھمکی ایران کوواضح اندازمیں ایک انتہائی سنجیدہ چیلنج سے کم نہیں بلکہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے جوکبھی جاپان کی تباہی کاموجب بنی تھی۔ٹرمپ کایہ اندازِخطاب امریکی صدورکاعمومی اعلیٰ دھمکی کایہ ویساہی طرزِبیان کی شکن پہ فٹ بیٹھتاہے جیسے ریگن کاریڈلرزکوناکام بنانے کی دھمکی کے بعد سامنے آیاتھا۔کیونکہ جب صدرطاقت کاایک وعدہ ناکہ کش اور اسی وقت مصالحہ جاتی راستے کاذکر کریں،تویہ ایک شطرنجی پوزیشن کی مانندہے جہاں ہرچال کے پیچھے عالمی مفادات اور عسکری حساب کتاب ہوتاہے۔
صدرٹرمپ کی یہ بیان بازی اس بحران میں چارکلیدی محرکات کی نمائندہ ہے۔عدم مداخلت کاسیاسی شیلڈ،طاقت کی دھمکی کاتاثر، سفارتی راستوں کی دعوت اورعسکری حکمتِ عملی کی آمادگی پرمشتمل ہے۔یہ حکمتِ عملی ایک معتدلانہ عدم شرکت اور جارحانہ دفاع کے مابین باریک لکیرپرمبنی ہے جہاں لزومی امن اورمکمل طاقت ایک ہی ریسکیو آپریشن کے مانند کھڑے ہیں۔
اگرعدم مداخلت کے سیاسی شیلڈکاتذکرہ کیاجائے توٹرمپ کاابتدائی بیان کہ امریکاکااس حملے سے کوئی تعلق نہیں،ایک سیاسی زرہ بکترہے۔اس اعلان میں سفارتی برت کاپہلو نمایاں ہے گویاامریکااس خونی شطرنج میں خود کو پیادے کی سطح پردیکھنے کوتیار نہیں۔ یہ پیغام نہ صرف عالمی برادری بلکہ اقوامِ متحدہ، نیٹو،اور اندرونِ ملک امریکی عوام کوبھی دیاگیاکہ ہم جنگ کے آغازمیں شریک نہیں تھے،مگریہی’’مگر‘‘ آئندہ منظرنامے کی کلید ہے۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ’’اگرہم پرکسی بھی طرح سے حملہ کیاگیاتوامریکی مسلح افواج پوری طاقت سے ایسا جواب دے جوپہلے کبھی نہیں دیکھی گئیــ‘‘صرف دھمکی نہیں بلکہ ایک نفسیاتی اسلحہ ہے۔اس میں’’پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی‘‘ جیسے جملے مستقبل میں ہیروشیماجیسے مظاہرکی بازگشت سناتے ہیں۔یہ پیغام ایران سے زیادہ روس، چین اورشمالی کوریاکوبھی پہنچایاگیاہے کہ امریکی عسکری طاقت اب بھی ایک عالمی ڈنڈہے۔یہ وہ الفاظ کی فضاہے جس میں محض حروف نہیں،بلکہ بارودکی بوبسی ہوئی ہے۔
سفارتی راستوں کی دعوت دیتے ہوئے ٹرمپ کے یہ الفاظ،ہم ایران اوراسرائیل کے درمیان باآسانی ڈیل کرواسکتے ہیں اوراس خونی تنازع کوختم کرسکتے ہیں ’’یہ دعوت ایک دلچسپ تضادرکھتی ہے۔ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ ہم شامل نہیں،دوسری طرف وہ ثالثی کادعویٰ کرتے ہیں۔ یہی وہ باریک لکیرہے جہاں ٹرمپ کی سیاستِ شعلہ آفرینی اورثالثی کاتضادایک خاص امریکی طرزِقیادت کا پتہ دیتاہے۔یہ الفاظ کارپوریٹ سودے بازی کی زبان میں لپٹے ہوئے ہیں، جہاں ’’ڈیل‘‘کا مطلب فقط امن نہیں،بلکہ مفادات کا توازن ہے۔
ٹرمپ کے بیان کاہرلفظ ایک اسٹرٹیجک بلیوپرنٹ کی طرح ہے۔عسکری حکمتِ عملی کی آمادگی پریہ باتیں صرف ممکنہ جنگ کی نہیں بلکہ جنگ کوروکنے کے لئے جنگ کااعلان بھی ہیں جہاں دشمن کواپنی کمزوری بتانے کی بجائے اپنی ممکنہ ہلاکت خیزی کا آئینہ دکھایا جاتا ہے اوریہی ہے جنگ کی وہ سفارت کاری جس کوامریکا استعمال کرنے کی کوشش کررہاہے۔
یہ تمام نکات ملاکرہمیں ٹرمپ کے رویے کی چارجہتی حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔امریکاعدم مداخلت کابیانیہ جاری کرتے ہوئے اپنے عالمی اخلاق کی برتری کادعویٰ کرے،دوسرا عدم مداخلت کاپہلوسامنے لاتے ہوئے دفاعی بازوکی پیشگی نمائش کرتے ہوئے طاقت کی دھمکی دیکرخوفزدہ کرے۔ اپنے بیانات سے تیسرے پہلوکے طورپرعالمی قائدانہ کردارکا بظاہردعویٰ کرتے ہوئے سفارتی ثالثی کاعندیہ دے اوراپنے بیان کواقوام عالم میں اس طورپرتسلیم کروایاجائے کہ وہ ممکنہ تصادم کی روک تھام اوردنیاکوکسی بڑے حادثے سے بچانے کے لئے دونوں ملکوں کومزیدعسکری تباہی سے روکنے کے لئے امن کے ساتھ اپنے تنازعات حل کرنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے لیکن یقیناامریکا اوراس کے اتحادیوں کو ایران کے اس بیان سے نہ صرف دھچکا لگاہے بلکہ پریشان بھی کردیاہے کہ ایران نے امریکاکی طرف سے ثالثی کا پیغام لانے والوں دوملکوں کوجنگ کے دوران کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکارکردیاہے۔
یہ طرزِحکمت ہمیں ریگن،سوویت دورکی یاد دلاتا ہے جب’’طاقت کے ذریعے امن‘‘کانعرہ بلند کیا گیا تھا۔اگرتاریخی وادبی بصیرت کا سہارا لیکریہ کہاجائے کہ یہ وہ طرزِخطاب ہے جس میں امن کی چادرپرجنگ کی سلائیاں چلائی گئی ہوں، اوردلوں کوراضی کرنے کی آڑمیں سینوں کولرزادینے والے نغمے گنگنائے گئے ہوں۔ تاہم دنیایہ جان چکی ہے کہ طاقت اورامن کے متوازی چلتے کاروان میں ٹرمپ کی یہ حکمتِ عملی ایک ایسی مخمصے بھری قیادت کی مظہرہے جوخودکوامن پسندبھی کہتی ہے، جنگ کے لئے تیاربھی رہتی ہے،اورعالمی برتری کا خواب بھی دل میں سجاتی ہے۔یہ حکمتِ عملی لسانی شائستگی کے پردے میں عسکری گھن گرج کوسمیٹتی ہے ایساامتزاج جوصرف الفاظ کی نہیں،سیاسی طاقت کی زبان ہے۔
برطانوی وزیراعظم سرکیئراسٹارمرکے مہذب الفاظ بھی سامراجی سایہ کوچھپانہ سکے۔’’ہم اسرائیل کوجنگی طیاروں کی مدددینے پرفی الحال کوئی فیصلہ نہیں کررہے‘‘،یہ وہ سفارتی ہنر ہے جواستعمارکی پرانی چالوں سے آراستہ ہے۔ نہ ہاں،نہ ناںصرف ایک گھمبیر خاموشی،جوکسی بڑے طوفان سے پہلے کی فضاجیسی ہے۔یہ مؤقف ہمیں یاددلاتاہے کہ برطانیہ اب بھی خطے کے معاملات میں اپنی پرانی سلطنت کی بازگشت سنناچاہتاہے،اگرچہ خوداس کاوجوداب نقوشِ ماضی میں شامل ہوتاجارہاہے۔
خطہ اب ایک نئی کشیدگی کی دہلیزپرکھڑاہے جہاں برطانوی وزیراعظم سرکئیرسٹارمرکے بیانات بھی کسی خاص وضاحت سے عاری ہیںوہ فقط یہ کہہ کرنکل گئے کہ کشیدگی کم کی جائے گویاوہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ میدانِ جنگ میں کوئی فریق فرشتہ نہیں اورکوئی مظلوم مطلق بھی نہیں۔یہ ساری صورتِ حال ایک ایسے تانے بانے کی مانندہے جس کے ہردھاگے میں خون کی بوندیں چھپی ہیں،اورہرگرہ میں سیاست،عقیدے اورطاقت کا زہرگھلاہواہے۔مشرقِ وسطیٰ کاآتش فشاں پھٹ چکا ہے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ راکھ سے کونسی قیادت جنم لیتی ہے، امن کی مشعل یامزیدجنگ کاپرچم؟
روس اگرچہ منظرنامے سے فی الحال پس پردہ ہے،مگراس کی وقتی خاموشی میں مہلک شطرنجی استادچھپا ہوا ہے۔اس کی جیوپولیٹیکل بصیرت یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایران کی دفاعی پیش رفت اوراسرائیلی امریکی قربت کوخاموشی سے برداشت کرے۔ روس کی خاموشی خود ایک ناراض شیرکی نیند ہے۔وہ صرف تب بیدار ہوتاہے جب شطرنج کی بساط پرکسی کا بادشاہ خطرے میں ہو اوریہ خطرہ اب تیزی سے اس لئے بھی بڑھتامحسوس ہو رہا ہے کہ اسے اپنے گھرکے آنگن(یوکرین کے جنگل) میں ہانکالگاکرسیخ پاکردیاگیاہے اوریہ تومشہور مقولہ ہے کہ جنگل کی راجدھانی میں شیرکسی دوسرے کی مداخلت نہ توقبول کرتاہے اورنہ ہی برداشت۔اب اس سے بھلا بہترموقع اوراسے کہاں ملے گاجہاں وہ اپنی دھاڑکے ساتھ اپنے خونخوارپنجوں اوردانتوں کی طاقت کا مظاہرہ کرسکے۔
تمام عالمی بیانات کواگرآپس میں جوڑکر دیکھاجائے توایک نیازاویہ سامنے آتاہے،یہ محض الفاظ کی جنگ نہیں،بلکہ تصورات کا ٹکراؤہے۔ایرانی بیانئے کی روح یہ ہے کہ خطے میں بالادستی اورنظریاتی قیادت کے لئے شہادت،مزاحمت کاراستہ ہی بقاکی ضمانت ہے جبکہ اسرائیل اپنے وجودی تحفظ کی آڑمیں جاسوسی برتری کواپناہتھیاربناکراپنے انتقام کی آخری حدوں کوچھورہا ہے جبکہ امریکاطاقت کی دھمکیوں سے خوفزدہ کرکے ثالثی کاتاثردے کراپنی عالمی قیادت اورفوجی فروغ کے ایجنڈے پرعمل درآمدکررہاہے۔اس کے ساتھ ہی برطانیہ محتاظ ثالثی اورسردمفاہمت سے اپنے اثرورسوخ کی بحالی کے لئے سرگرم ہے مگرروس ایک پراسرارخاموشی کی گہرائی میں ڈوب کرمشرقِ وسطیٰ میں اپنی قوت کے توازن کے حصول کے لئے تیاریوں میں مصروف ہے۔
یہ سب کچھ اس بات کاغمازہے کہ مشرقِ وسطی اب کسی بڑے تصادم کی دہلیزپرکھڑاہے۔اب سوال یہ ہے کہ آیایہ تصادم محدود رہے گایاعالمی جنگ کی شکل اختیار کرلے گا؟آیایہ آتش فشاں امن کی راکھ بنے گا یاجنگ کے شعلے پوری دنیاکواپنی لپیٹ میں لے لیں گے؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عدم مداخلت نہیں بلکہ کی دھمکی یہ الفاظ ثالثی کا ہے لیکن طاقت کی ٹرمپ کی کے ساتھ ہے جہاں ٹرمپ کے جنگ کے جنگ کی کے لئے

پڑھیں:

عالمی یکجہتی پائیدار ترقی کی ضمانت

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان سماجی انصاف، جامع ترقی اور عالمی یکجہتی کے لیے پرعزم ہے، قطر کے شہر دوحہ میں دوسری عالمی سماجی ترقی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات چوبیس کروڑ پاکستانیوں کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا حالیہ خطاب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والی سماجی ترقی کے لیے دوسری عالمی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی قومی پالیسی، علاقائی خدشات اور عالمی تعلقات کے حوالے سے ایک جامع اور بامعنی اظہارِ خیال کیا۔ یہ خطاب محض ایک سفارتی تقریر نہیں بلکہ پاکستان کے اجتماعی شعور، خطے کی حساس صورتحال اور عالمی برادری کے ساتھ ہمارے تعلقات کے نئے رخ کی عکاسی کرتا ہے۔

صدر مملکت نے جہاں سماجی انصاف، پائیدار ترقی اور جامعیت کے اصولوں پر بات کی، وہیں انھوں نے ایک نہایت اہم اور تشویش ناک مسئلے کی نشاندہی بھی کی اور وہ ہے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا خطرہ۔ ان کا یہ انتباہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی معیشت، ثقافت اور طرزِ زندگی سب دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ، جو 1960میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی ضامنوں کی نگرانی میں طے پایا تھا، اسی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ پانی کسی بھی صورت میں جنگ یا سیاسی دباؤ کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

تاہم گزشتہ چند برسوں میں بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزیاں اور دریاؤں کے بہاؤ میں غیر فطری تبدیلیاں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ صدر مملکت نے جب دوحہ کے عالمی فورم پر اس خطرے کو اجاگر کیا تو درحقیقت انھوں نے دنیا کو متنبہ کیا کہ اگر پانی کے مسئلے پر سنجیدگی نہ برتی گئی تو مستقبل کی جنگیں تیل یا زمین کے بجائے پانی پر لڑی جائیں گی۔

یہ امر قابلِ غور ہے کہ پاکستان کے پاس پہلے ہی پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ خوراک کے مطابق، پاکستان پانی کی قلت والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ ایک طرف گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، دوسری جانب دریاؤں کا قدرتی بہاؤ متاثر ہو رہا ہے، ایسے میں اگر سرحد پار سے پانی کو بطور سیاسی دباؤ استعمال کیا جائے تو یہ پاکستان کی زراعت، صنعت، توانائی اور انسانی بقا کے لیے شدید خطرہ بن سکتا ہے۔ صدر زرداری نے اس مسئلے کو چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے سنگین خطرہ قرار دے کر نہ صرف ایک قومی موقف پیش کیا بلکہ عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ پانی کے مسئلے کو انسانیت کے مشترکہ چیلنج کے طور پر دیکھے۔

صدر مملکت کا یہ بیان محض انتباہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی قانونی اور اخلاقی سوال بھی اٹھاتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور بھارت اس کا فریق ہے، اگر ایک فریق اپنی ذمے داریوں سے انحراف کرتا ہے تو اس کے اثرات صرف ایک ملک پر نہیں بلکہ پورے خطے کے امن پر پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اس مؤقف کو عالمی فورمز پر بار بار پیش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

صدر زرداری کا یہ اقدام سفارتی سطح پر ایک درست اور بروقت کوشش ہے، جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک اخلاقی جواز فراہم کرتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں صرف خطرات پر بات نہیں کی بلکہ حل کی راہ بھی دکھائی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان سماجی انصاف، جامع ترقی اور عالمی یکجہتی کے اصولوں پر کاربند ہے۔ انھوں نے دوحہ سیاسی اعلامیے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا وژن اس اعلامیے کی روح سے ہم آہنگ ہے۔

یہ بات اس لیے اہم ہے کہ دنیا اس وقت ایک غیر متوازن ترقی کے دور سے گزر رہی ہے۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی ڈھانچہ ایسے نظام پر کھڑا ہے جس میں طاقتور ممالک کو زیادہ اور کمزور ممالک کو کم مواقع ملتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی سطح پر ان اصولوں کی حمایت کرے جو برابری، انصاف اور مشترکہ ترقی پر مبنی ہوں۔

صدر آصف علی زرداری نے دوحہ کانفرنس میں ایک اور اہم نکتہ اٹھایا، تعلیم اور خواندگی۔ انھوں نے کہا کہ آیندہ پانچ سالوں میں پاکستان میں خواندگی کی شرح 90 فیصد تک بڑھانے اور ہر بچے کے اسکول جانے کو یقینی بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ ایک بلند ہدف ہے، مگر قابلِ تعریف بھی۔ پاکستان میں اس وقت دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جو ایک قومی المیہ ہے، اگر واقعی حکومت اس سمت میں مؤثر پالیسی اپناتی ہے تو یہ صرف تعلیمی میدان میں کامیابی نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب ہوگا۔ تعلیم وہ بنیاد ہے جس پر پائیدار ترقی کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔

صدر مملکت کے خطاب میں بار بار ’’ جامعیت‘‘ اور ’’ پائیداری‘‘ کے الفاظ دہرائے گئے، جو ان کے وژن کی کلید ہیں۔ جامع ترقی کا مطلب ہے کہ ترقی کے ثمرات صرف چند طبقوں تک محدود نہ رہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد تک پہنچیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اکثر ترقی پذیر ممالک میں نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ اگر ترقی صرف GDP یا معیشت کے اعداد و شمار تک محدود رہے اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہ آئے، تو ایسی ترقی کھوکھلی ہے۔ صدر زرداری نے اس تضاد کی طرف بالواسطہ توجہ دلائی کہ اصل ترقی وہ ہے جو عام شہری کی زندگی کو بہتر بنائے، غربت کم کرے، تعلیم عام کرے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔

ان کا دوحہ میں دیا گیا پیغام بین الاقوامی سیاست کے موجودہ تناظر میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا اس وقت کئی بحرانوں سے گزر رہی ہے، ماحولیاتی تبدیلی، علاقائی تنازعات، معاشی دباؤ، مہنگائی اور پناہ گزینوں کے بڑھتے مسائل۔ ایسے وقت میں پاکستان کا مؤقف کہ ’’ عالمی یکجہتی ہی پائیدار ترقی کی ضمانت ہے‘‘ ایک متوازن اور دانشمندانہ سوچ کی علامت ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے عالمی برادری میں ایک ذمے دار ملک کے طور پر ابھرا ہے، جس نے امن، تعاون اور انسانیت کے اصولوں کی حمایت کی ہے۔اگر صدر زرداری کے خطاب کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ پاکستان تصادم نہیں بلکہ تعاون کی راہ پر یقین رکھتا ہے۔

پاکستان کا جغرافیہ اسے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک قدرتی پل بناتا ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو علاقائی ہم آہنگی اور اقتصادی روابط کے فروغ کے لیے استعمال کرے۔ پانی کے مسئلے پر آواز اٹھانا، دراصل امن کے حق میں آواز بلند کرنا ہے۔پاکستان کو اپنے داخلی چیلنجز پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا مؤقف مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا۔ پانی کا مسئلہ صرف ایک ماحولیاتی معاملہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔

 پاکستان کو اپنے آبی ذخائر میں بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ نئے ڈیموں کی تعمیر، پانی کے ضیاع کو روکنے، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، اور عوامی شعور بیدار کرنے کی مہمات شروع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم صرف دوسروں پر الزام لگا کر بیٹھ جائیں تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پانی کے تحفظ کو قومی ایجنڈے میں اولین ترجیح دینا ہوگی۔تاہم اس وژن کو حقیقت بنانے کے لیے صرف بیانات کافی نہیں۔ حکومت کو مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ، شفاف نظام، اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہوگا۔

صدر زرداری کا یہ خطاب پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک مثبت تاثر پیدا کرتا ہے کہ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں بلکہ عالمی ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ تاہم، ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بیانات سے زیادہ اہم عمل ہے۔ دنیا اُن ممالک کی بات سنتی ہے جو اپنے داخلی معاملات کو سنبھال کر عالمی سطح پر فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو تسلسل دے، سیاسی استحکام کو ترجیح دے، اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو ذاتی یا جماعتی سیاست سے بالاتر رکھے۔

صدر آصف علی زرداری کا دوحہ میں خطاب اس لحاظ سے تاریخی بھی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پاکستان کی ترقیاتی پالیسیوں کو عالمی فریم ورک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے پاکستان ایک ذمے دار، پرعزم اور ترقی پسند ریاست کے طور پر عالمی برادری میں اپنی شناخت مزید مستحکم کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان الفاظ کو عملی اقدامات سے تقویت دی جائے، تاکہ دنیا یہ دیکھ سکے کہ پاکستان صرف وعدے نہیں کرتا بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اللہ پر یقین میری سب سے بڑی طاقت ہے، عثمان خواجہ
  • لاہور ہائیکورٹ کا دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم
  • اسرائیل مذاکرات کی نہیں بلکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، حزب اللہ لبنان
  • انقلاب اسلامی ایران نے کیسے دنیا کا فکری DNA ہی تبدیل کر دیا؟
  • سموگ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر سیف سٹی کا سخت کریک ڈاؤن
  • عالمی یکجہتی پائیدار ترقی کی ضمانت
  • 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں 7 بڑے پروپیگنڈے اور ان کے برعکس حقائق
  • خلیل الرحمٰن قمر کو نازیبا ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی، ڈیڑھ کروڑ تاوان کا مطالبہ
  • چینی بحران یا قیمتیں بڑھنے کی ذمہ دار شوگر انڈسٹری نہیں بلکہ حکومتی اقدامات ہیں ،شوگرملز
  • صدر ٹرمپ کے خلاف دھمکی آمیز ویڈیوز پوسٹ کرنے والا شخص گرفتار