’ہم ایران پر حملے میں ملوث نہیں‘: برطانیہ نے مشرق وسطیٰ سے اپنے شہریوں کے فوری انخلاء کی تیاری شروع کردی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
برطانوی وزیرِ تجارت جوناتھن رینولڈز نے اتوار کے روز ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں موجود برطانوی شہریوں کے انخلاء کے لیے حکومت کی جانب سے ریسکیو پروازوں کا آغاز ’گھنٹوں میں ہو سکتا ہے، اس میں دن نہیں لگیں گے۔‘
انہوں نےبرطانوی خبررساں ادارے کے پروگرام ”سنڈے مارننگ وِد ٹریور فلپس“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کا ایران پر امریکی حملوں میں کوئی کردار نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود حکومت نے ہر ممکنہ صورتحال کے لیے وسیع پیمانے پر تیاریاں کر رکھی ہیں۔
رینولڈز نے کہا، ’ہم یہ یقینی بنانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ ہم برطانوی شہریوں کا تحفظ کیسے کریں، انہیں کیسے نکالیں، اور ہمارے پاس جو وسائل خطے میں موجود ہیں، ان سے برطانوی تنصیبات، اڈوں اور عملے کا دفاع کیسے کیا جائے۔‘
انہوں نے مشرق وسطیٰ میں موجود تمام برطانوی شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی موجودگی رجسٹر کرائیں تاکہ حکومت کو ان کے مقام کا علم ہو سکے۔
رینولڈز کا کہنا تھا کہ جیسے ہی اسرائیلی فضائی حدود کھلے گی، برطانوی حکومت فوری طور پر چارٹر پروازوں کے ذریعے شہریوں کے انخلاء کا عمل شروع کر دے گی۔
جب میزبان نے ان سے سوال کیا کہ یہ پروازیں کب شروع ہوں گی، تو رینولڈز نے جواب دیا: ”ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ گھنٹوں کی بات ہے، دنوں کی نہیں۔“
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے، سید عباس عراقچی
اپنے ایک ٹویٹ میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مداخلت کرے اور تصادم کی جگہ سفارتکاری کو رواج دے۔ اسلام ٹائمز۔ رواں شب سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے ایک ٹویٹ پوسٹ کیا۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ میں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے گزشتہ روز یورپی ساتھیوں کو ایک معقول اور قابل عمل تجویز پیش کی تا کہ آنے والے دنوں میں ایک غیر ضروری اور قابل پرہیز بحران سے بچا جا سکے۔ لیکن افسوس کہ اس تجویز کے مواد پر غور کرنے کے بجائے، ایران کو اب مختلف بہانوں اور واضح ٹال مٹول کا سامنا ہے، جن میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی شامل ہے کہ وزارت خارجہ پورے سیاسی نظام کی نمائندہ نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ فرانسوی صدر "امانوئل میکرون" نے تسلیم کیا کہ میری تجویز معقول ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ مذاکرات کاروں اور عالمی برادری کو یہ جان لینا چاہئے کہ مجھے اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل سمیت تمام اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاید اصل مسئلہ یہ ہے کہ یورپی سفارتی نظام كو ہی كوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مداخلت کرے اور تصادم کی جگہ سفارت کاری کو رواج دے۔ خطرہ اپنی انتہاء پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران پہلے ہی اپنی ذمہ داری پوری کر چکا ہے۔
۱۔ ہم نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو ہمارے داخلی و بین الاقوامی وعدوں کے مطابق ہے۔ ہم نے ایران کی محفوظ ایٹمی تنصیبات پر غیر قانونی حملوں کے باوجود، آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کا نیا باب کھولا ہے۔
۲۔ ہم نے ایک تخلیقی، منصفانہ اور متوازن تجویز پیش کی ہے جو حقیقی خدشات کو دور کرتی ہے۔ جو فریقین کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس تجویز پر فوری عمل ممکن ہے اور یہ اختلافات کے اہم نکات کو حل کر کے بحران کو روک سکتی ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے، لیکن ایران یکطرفہ طور پر ان تجاویز پر عمل کی تمام ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔