data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی:امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر ملک بھر میں ایران پر امریکی حملے، اسرائیلی دہشت گردی اور جارحیت کے خلاف “یوم احتجاج” منایا گیا، اس موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے گئے جبکہ کراچی میں جے آئی یوتھ کے تحت کراچی پریس کلب کے باہر ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ منعقد ہوا۔

احتجاج میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز تھے جن پر امریکا و اسرائیل دہشت گرد، امریکا و اسرائیل امت کے قاتل،جو اسرائیل کا یار ہے غدار ہے غدار ہے،ہم ایران کے ساتھ ہیں، ہم فلسطین کے ساتھ ہیں ہیں جیسے نعرے درج تھے۔

مظاہرین نے عالمی استکباری قوتوں کی جارحیت کے خلاف امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

احتجاجی مظاہرے سے جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر مسلم پرویز، جے آئی یوتھ کراچی کے صدر ہاشم ابدالی، جماعت اسلامی کے رہنما یونس بارائی، ابن الحسن ہاشمی، ڈاکٹر نورالحق اور فضل الرحمن سمیت دیگر قائدین نے خطاب کیا۔

مقررین نے کہا کہ امریکی صدر کے ایران پر حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکا دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے جو اسرائیل کی ہر سطح پر حمایت کرتا ہے، اسرائیل نے 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید کیے اور اب ایران کو نشانہ بنا رہا ہے، اگر عالمی برادری خاموش رہی تو کل کوئی اور مسلم ملک بھی شکار ہو سکتا ہے۔

مقررین نے مزید کہا کہ پاکستان کو بھارت کے خلاف کامیابی کے بعد دوسری جانب سے نشانہ بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ امریکہ کبھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں رہا۔

انہوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کی سفارش کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ یہ فیصلہ فوراً واپس لیا جائے۔

رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستانایران کے ساتھ کھل کر اظہار یکجہتی کرے،امریکا اور اسرائیل کے خلاف واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنائے،مسلم ممالک کو متحد کرنے میں فعال کردار ادا کرے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کے خلاف

پڑھیں:

غزہ، عالمی ضمیرکا کڑا امتحان

غزہ میں انسانی المیے کے خدشات بڑھ گئے ہیں، یونیسیف نے خبردارکیا ہے کہ غزہ ’’ پیاس سے موت‘‘ کے قریب ہے۔ غزہ پر صہیونی جارحیت جاری ہے جس کے نتیجے میں مزید 61 فلسطینی شہید کردیے گئے، اسکول پر حملے میں متعدد بچے نشانہ بنے، بے گھر افراد غزہ سٹی سے پیدل نکلنے پر مجبور ہیں جب کہ دوسری جانب امریکا نے اسرائیل کو6 ارب ڈالر کا اسلحے دینے کی تیاری کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر 10 ملک فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں گے۔

 غزہ اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین سانحات میں سے ایک سے گزر رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے ظلم و بربریت کی نئی داستان رقم کی ہے۔ اسکول، اسپتال، پناہ گاہیں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام مقامات بھی حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ اسکول پر حملے میں ایسے طلبہ نشانہ بنے جو پہلے ہی جنگ زدہ ماحول میں تعلیم کے خواب بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

اب وہ خواب ہمیشہ کے لیے مٹی ہوگئے۔ صورتحال کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ ہزاروں بے گھر افراد غزہ سٹی سے پیدل نکلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایک طرف جانیں لی جا رہی ہیں، دوسری جانب بیانیہ اور منظرنامہ تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ عالمی میڈیا کا کردار جانبدار نظر آ رہا ہے اور اسرائیلی ریاست کی دہشت گردی کو ’’دفاع‘‘ کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے۔

 اس وقت دنیا ایک ایسی نازک صورتحال سے دوچار ہے جس میں اخلاقی اصول، بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور عالمی ضمیر سب کچھ سیاست، طاقت اور مفادات کی بھینٹ چڑھتے نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع اور اس میں امریکا کا کردار عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔

یہ حقیقت اب کسی پردے میں نہیں رہی کہ اسرائیل کو عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکا کی کھلی اور مسلسل حمایت حاصل ہے، چاہے وہ فوجی امداد کی صورت میں ہو، مالی مدد کی شکل میں یا اقوام متحدہ میں سفارتی تحفظ کی صورت میں۔ادھر امریکا کی جانب سے اسرائیل کو چھ ارب ڈالر کے اسلحے کی فراہمی کی تیاری ہو رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کانگریس سے منظوری حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ اسرائیلی جنگی مشینری کو مزید طاقت ملنے والی ہے۔

یہ امداد کوئی روایتی مالی مدد نہیں بلکہ غزہ میں انسانی المیے کو بڑھانے کا ایک راستہ ہے، جب عالمی ضمیر گونگا ہو جائے، تو اسلحہ ہی زبان بن جاتا ہے اور خون ہی پیغام۔ اس صورتحال پر تائیوان میں ایک مختلف اور قابل تقلید ردعمل دیکھنے میں آیا جہاں دفاعی ٹیکنالوجی کی نمائش کے موقع پر سیکڑوں مظاہرین نے احتجاج کیا اور درجنوں اسلحہ کمپنیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کی جنگ سے مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

یہ مظاہرہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور سرمایہ دارانہ مفادات کے خلاف عوامی آواز بلند ہونے لگی ہے۔ ایسے میں پرتگال کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک مثبت پیش رفت ہے۔

اس دوران نیتن یاہو نے کھل کر ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کے استعماری منصوبے کو اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ یہ ایک مذہبی صہیونی منصوبہ ہے جو سرزمین فلسطین سے باہر کے خطوں کو بھی اپنے اندر شامل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی اور توسیع پسندانہ جنگ کا اعلان ہے جو خطے کو لامحدود جنگ کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔ نیتن یاہو کی یہ سوچ دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ قابض اسرائیل کی سیاسی کہانیاں ناکام ہو چکی ہیں اور اب وہ مذہب کو ہتھیار بنا کر اپنے وجود کو دوام دینا چاہتے ہیں۔

آج اسرائیل بہ ظاہر فوجی طاقت سے غزہ کو روند رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ اس کے وجود کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اندرون ملک فوج اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، بیرون ملک عالمی سطح پر تنہائی بڑھ رہی ہے اور نظریاتی سطح پر وہ گریٹر اسرائیل کے خونی خواب میں ڈوب رہا ہے۔ یہ محض ایک جنگ نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے جو قابض اسرائیل کے چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہا ہے۔

ایک ایسا کینسر جو طاقت رکھتا ہے مگر اخلاقی جواز سے محروم ہے، تباہی مچاتا ہے مگر سیاسی طور پر شکست کھاتا ہے اور اپنے وجود کو بچانے کے نام پر اپنی فنا کی بنیاد رکھ رہا ہے۔غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو اب دو سال مکمل ہونے والے ہیں۔ اس عرصے میں اب تک کم ازکم 65 ہزار فلسطینیوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ دو سال کے عرصے میں ایسا کون سا ظلم ہے جو غزہ پر نہ ڈھایا ہو، یہاں تک کہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے دنیا بھر سے بھیجی گئی ریلیف بھی نہیں پہنچنے دی جس کے نتیجے میں غزہ میں ایک اور دردناک سلسلہ شروع ہوا۔ 100سے زیادہ صحافیوں کو ٹارگٹ کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

پوری دنیا اس آخری درجہ کے ظلم و بربریت اور درندگی کے خلاف آواز اٹھاتی رہی مگر اسرائیل نے کسی کی نہیں سنی۔ بدترین فضائی حملوں کے بعد اب اسرائیل نے وہاں اپنی فوج اتار دی ہے۔ غزہ کی بیس لاکھ آبادی کسمپرسی کے آخری دور میں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’غزہ کے شہری میری بات غور سے سنیں، میں آپ کو موقع دے رہا ہوں فوراً علاقہ خالی کردیں۔‘‘ دنیا کے کسی ملک کے باشندوں کے ساتھ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوکہ انھیں پہلے بدترین نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کو یہ دھمکی ملی کہ وہ علاقہ پوری طرح خالی کردیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگل کا راج قائم کردیا ہے۔ فضا سے پمفلٹ برسا کر غزہ کے ان باشندوں کو جو وہاں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور جوان ہوئے یہ دھمکیاں مل رہی ہیں، مگر غزہ کے باشندے جس مٹی کے بنے ہوئے ہیں، اس میں فرار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ غزہ کے لوگ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہیں گے اور شکست اسرائیل کا مقدر ہوگی۔

اقوام متحدہ نے ایک بار پھر فلسطین کے دو ریاستی حل کی قرارداد منظور کی ہے، دوسری جانب امریکا جو خود کو انسانی حقوق، جمہوریت اور انصاف کا علمبردار کہتا ہے، وہ اسرائیل کی کھلی جارحیت پر سوال اٹھانے کے بجائے اسے مزید طاقتور بنانے میں مصروف ہے۔ امریکی کانگریس میں بار بار اربوں ڈالر کی فوجی امداد کے بل پاس کیے جاتے ہیں، وہ بھی ایسے وقت میں جب غزہ میں بچے بھوک، پیاس، بمباری اور دواؤں کی کمی کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں۔ امریکا نہ صرف اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتا ہے بلکہ اس کی کارروائیوں کو بین الاقوامی سطح پر تحفظ بھی دیتا ہے۔ اقوام متحدہ میں جب بھی فلسطینیوں کے حق میں کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے، امریکا اسے ویٹو کر دیتا ہے۔

یہ طرز عمل عالمی قانون کی روح کے خلاف ہے اور دنیا میں انصاف کے نظام پر ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ ان خلاف ورزیوں کے باوجود کیوں سزا سے بچ نکلتا ہے۔

کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی صرف اسی وقت جرم سمجھی جاتی ہے جب وہ کسی کمزور ملک سے سرزد ہو؟ کیا بین الاقوامی قانون صرف انھی پر لاگو ہوتا ہے جن کے پاس بڑی طاقتوں کی حمایت نہ ہو؟ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں جن میں اسپتالوں پر حملے، بچوں اور خواتین کی ہلاکتیں، بنیادی انسانی سہولیات کی بندش، اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ بین الاقوامی قانون کے واضح طور پر خلاف ہیں، لیکن امریکا کی خاموشی یا مشروط تحفظ نے ان جرائم کو معمول بنا دیا ہے۔

اگر اسرائیل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور امریکا اس کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ اس پر عالمی سطح پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کرتا ہے، تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکا خود بھی ان خلاف ورزیوں میں شریک ہے، اگرچہ براہِ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر ضرور۔ جب ایک ریاست کسی دوسرے ملک کو ہتھیار فراہم کرتی ہے، مالی امداد دیتی ہے اور اس کے اقدامات پر کوئی جوابدہی نہیں لیتی، تو یہ تعلق محض سفارتی یا دفاعی تعاون تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی اخلاقی اور قانونی ذمے داریاں بھی بنتی ہیں۔

اس وقت دنیا کو ایک واضح مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ صرف مذمتی بیانات، روایتی اقوام متحدہ کی قراردادیں اور انسانی حقوق کے نام نہاد اداروں کی رپورٹس کافی نہیں۔ اگر عالمی برادری واقعی ایک منصفانہ اور پائیدار عالمی نظام چاہتی ہے تو اسے طاقتور ممالک اور ان کے اتحادیوں کو بھی اسی معیار پر پرکھنا ہوگا جس پر باقی دنیا کو پرکھا جاتا ہے، اگر امریکا واقعی انصاف، امن اور قانون کی حکمرانی کا علمبردار ہے تو اسے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ترک کرنا ہوگی اور اس کی کارروائیوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • اگر دوبارہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو اسرائیل باقی نہیں رہیگا، ملیحہ محمدی
  • جماعت اسلامی کا یکم سے 7 اکتوبر تک اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف ’ملین مارچ‘، فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اعلان
  • فلسطین کے حق میں عالمی مظاہرے، ایتھنز میں اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ
  • غزہ، عالمی ضمیرکا کڑا امتحان
  • 7 جنگیں رکوا چکا، اسرائیل ایران جنگ بھی رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • سید جاوید شاہ جیلانی پر جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں، جماعت اسلامی
  • سعودیہ ماضی کے اختلافات پس پشت ڈال کر ہمارے ساتھ نئے باب کا آغاز کرے‘ حزب اللہ
  • اسرائیل کا قطر پر حملہ اور امریکا کی دہری پالیسی
  • جماعت اسلامی کا نومبر میں عالمی اجتماع منعقد کرنے کا اعلان
  • اللّٰہ کا خوف اور اچھا نظام چیزوں کو ٹھیک کرتا ہے،حافظ نعیم الرحمان