بھارت کے ساتھ چند دنوں کی جنگ میں اپنی شاندارکامیابی کے نتیجے میں پاکستان کو عالمی سطح پر مسلسل قبولیت مل رہی ہے، دنیا بھر میں پاک فوج کی شاندار کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر نے پاکستانی آرمی چیف کو اپنے ظہرانے پر مدعو کیا ، طویل ملاقات کی اور اس ملاقات کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا۔
پاکستان میں عموماً سیاسی آزادیوں کی آڑ لے کر اسٹیبلشمنٹ کا نام لے کر فوج پر تنقید کی جاتی ہے لیکن قوم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ یہ تنقید سیاسی اور مفاد پرستانہ ہوتی ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کی تعریفیں کیں جب تک ان سے انھیں مفادات حاصل ہوتے رہے۔
پی ٹی آئی یہ کہتی نہیں تھکتی تھی کہ ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔پی ٹی آئی حکومت میں رہ کر سیاسی اور معاشی مفادات حاصل کرتی رہی اور اسٹیبلشمنٹ کی تعریفوں کے پل باندھتی رہی۔ مگر جب دونوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو پی ٹی آئی نے تمام اخلاقی معیار بالائے طاق رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے۔
سیاسی مفاد پرستی اور خود غرضی ہمیشہ سے سیاستدانوں کا وتیرہ رہی ہے۔جب تک ان کے سیاسی مفادات پورے ہوتے رہے تو ہر طرف انھیں ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے اور جب ان کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو وہی حکومت برائیوں کی جڑ بن جاتی ہے۔آج تک یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔سیاست میں دوستی اور دشمنی اپنے اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔جب مفادات یکساں ہوں تو کل کے دشمن آج کے دوست بنتے دیر نہیں لگاتے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں میں ایک پیج پر ہونے کے دعوے اتنے کھلے عام نہیں ہوتے تھے، جتنے بانی پی ٹی آئی اور موجودہ حکومت میں ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی تو اس حد تک چلے گئے کہ انھوں نے آرمی چیف کو قوم کا باپ قرار دیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا جو ایک منفرد اعزاز تھا۔یہ سب سیاست کے کھیل ہیں‘ سیاست کی بساط پر کوئی کسی کا دوست اور کوئی کسی کا دشمن نہیں سب مفادات کے اسیر ہیں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف تقریباً ڈھائی سال سے حکومت کر رہے ہیں ،ان کی حکومت نے اچھی معاشی پالیسی اختیار کی جسے اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل رہی ہے۔
وزیر اعظم کی بیرون ملک ہی مصروفیات زیادہ رہی ہیں کیونکہ حالات کا تقاضا یہی ہے۔ میاں نواز شریف بھی موجودہ وزیر اعظم سے مختلف نہیں تھے، سندھ میں شدید بدامنی پر اپنی ایک عید اور رات نواب شاہ میں گزاری تھی۔ پی پی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو واقعی عوام میں مقبول وزیر اعظم تھے جو ملک کے تقریباً ہر ضلع میں گئے اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھٹو کی طرح مقبول نہ ہونے پر بھی اندرون ملک کے دورے کرتے تھے مگر بانی پی ٹی آئی عوام سے دور رہنے کے عادی اور اندرون ملک کے دوروں پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر تقریباً ڈھائی سال سے ملک کے دو اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں ،اس دوران پاکستان کی معیشت بہتر ہوئی اور عالمی سطح پر پاکستان کا قد کاٹھ بڑھا ہے۔میاں شہباز شریف کی حکومتی کارکردگی پر سروے کرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی حکومت کی اور ان کی اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی کیسی رہی، وہ عوام میں مقبول ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ عام انتخابات میں ہوجائے گا۔
ان کی حکومت نے ملک کے مہنگائی و بے روزگاری کے عذاب میں مبتلا کروڑوں لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا، اس حکومت نے مہنگائی بڑھائی۔ عوام نے تو اپنے وزیر اعظم کے چہرے پر کبھی کوئی پریشانی نہیں دیکھی اور ہمیشہ نئے نئے سوٹوں میں ملبوس مسکراتے ہی دیکھا، ان سب الزامات کا جواب ووٹ کے ذریعے ہی مل سکتا ہے، عوام بتائیں گے کہ وہ ان کی حکومت سے خوش ہیں یا ناراض ہیں ، اس کا فیصلہ الیکشن میں کردیں گے ۔ آج ان پر تنقید کرنے والے بتائیں کہ وہ اقتدار میں ہوتے تو کیا کرتے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان کی حکومت ملک کے
پڑھیں:
پی ٹی آئی مشکل دوراہے پر
پی ٹی آئی بطور جماعت اور بانی پی ٹی آئی بطور قیادت ایک مشکل سیاسی وقت سے گزر رہے ہیں اور ان کے حامی ، سپورٹرز،ووٹرز بھی موجودہ صورتحال میں سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔کیونکہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے دروازے پی ٹی آئی کے لیے بند ہیں۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کے مرکزی راہنماؤں سمیت قومی اسمبلی ، پنجاب اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو نو مئی کے مقدمات میں دس دس برس کی قید اور نااہلی سمیت اسمبلیوں سے ان کی نشستوں سے محرومی کے بعد یقینی طور پر پی ٹی آئی کی مشکلات اور زیادہ بڑھ گئی ہیں۔
اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ آنے والے کچھ عرصے میں مزید راہنماؤں کو سزا سمیت اسمبلیوں سے نااہل کیا جا سکتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کی شدید خواہش کے باوجود پی ٹی آئی کسی بڑی سیاسی تحریک چلانے کی نہ تو پوزیشن میں ہے اور نہ موجودہ پارٹی کی قیادت اس کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی کا ایک مخمصہ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی سیاسی حکمت عملی میں جارحانہ اور مزاحمت کی سوچ رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست میں انھیں اپنی خواہش کے مطابق سیاسی راستہ نہیں مل سکے گا۔ جب کہ پارٹی کی قیادت جو عملاً پارٹی چلارہی ہے، وہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہے اور اس کے بقول مفاہمت سے سیاسی راستہ مل سکتا ہے۔
لیکن اس گروپ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی مفاہمت کی سوچ کے باوجود وہ اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے لیے کوئی راستہ تلاش نہیں کرسکے ہیں۔ مفاہمتی گروپ کی ناکامی نے بھی بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے مزاحمتی گروپ کو مایوس کیا ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بطور جماعت دو کشتیوں میں سوار ہے ، مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی ان کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی قید کو دو برس بیت گئے ہیں، یہ درست ہے کہ جو لوگ کہتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی جیل نہیں کاٹ سکیں گے،وہ غلط ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کے سیاسی مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے بڑی جرات سے جیل کاٹی ہے اوراب وہ ایک بڑا سیاسی چیلنج بن گئے ہیں۔
ان کی سیاسی مقبولیت بدستور موجود ہے ۔جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں عالمی دنیا اور بالخصوص امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کلیدی کردارادا کریں گے ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک طرف عالمی دنیا کی خاموشی اور دوسری طرف داخلی محاذ پر پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ سے دوری، بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے۔ان کے سیاسی مخالفین اس بات کی دہائی بھی دے رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی ، پی ٹی آئی بطور جماعت اورقومی سلامتی اکٹھے نہیں چل سکتے۔
اسی بنیاد پر کچھ لوگوں کے خیال میں بانی پی ٹی آئی کا سیاسی باب ختم ہوگیا ہے۔یہ کوئی انہونی بات نہیں، ماضی میں ہم اسی طرز کی دلیلیں بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں بھی دیا کرتے تھے ۔سیاسی قیادتیں کبھی غیر سیاسی فیصلوں ، عدالتی فیصلوں اور حکمت عملی سے ختم نہیں ہوتی اور ان کو ختم کرنے کے لیے عملاً سیاسی حکمت عملی ہی درکار ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات اور پارٹی کے داخلی بحران کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ پانچ اگست کو ملک گیر تحریک کا کوئی بڑا سیاسی ماحول پیدا نہیں کرسکی اور چند ہی گھنٹوں کے احتجاج کے بعد یہ تحریک ختم کردی گئی ہے ۔اب کہا جا رہا ہے کہ کارکن 14اگست کے بعد تحریک کی تیاری کریں مگر وہ بھی کوئی سیاسی رنگ نہیں جما سکے گی۔
وہ احتجاجی تحریک جو پانچ اگست سے شروع ہونی تھی ، پانچ اگست کو ہی ختم کردی گئی۔ بالخصوص پنجاب میں ان کی احتجاجی تحریک کوئی رنگ نہیں جما سکی اور احتجاج محض کے پی کے تک محدود رہا جہاں ان کی اپنی صوبائی حکومت تھی۔
لیکن تمام تر ناکامیوں کے باوجود پی ٹی آئی نے کمزور ہی سہی احتجاج کرکے اپنے سیاسی وجود کو کسی نہ کسی شکل میں دکھایا بھی ہے اور اس مشکل حالات میں اتنا احتجاج بھی پارٹی کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔ علی امین گنڈا پور نے پانچ اگست کو بھی وہی کچھ کیا جو وہ پہلے کرتے رہے ہیں اور اب وہ بطور وزیر اعلی پارٹی پر بوجھ بن گئے ہیں اور اس کا کوئی فائدہ نہ تو بانی پی ٹی آئی کو ہورہا ہے اور نہ ہی پارٹی کو۔
پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی قیادت بھی بانی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی بوجھ ہی بن کر رہ گئی ہے اور وہ پارٹی کے داخلی بحران کو کم یا ختم کرنے کی بجائے اس میںمزید مسائل پیدا کر رہی ہے ۔پی ٹی آئی اور بالخصوص بانی پی ٹی آئی کو اب پارٹی کی قیادت اور تنظیم کے بارے میں سخت گیر اور اہم فیصلے کرنے ہوںگے اور جو لوگ بطور عہدے دار پارٹی پر بوجھ بن گئے ہیں ان سے تنظیمی عہدے واپس لینے ہوں گے۔
ایسے لگتا ہے کہ حکومت ،اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کے تمام راستے بند ہوتے جا رہے ہیں جو قومی سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔
اب بانی پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت ضمنی انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے گی اور اس فیصلہ پر پارٹی کی تقسیم بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمانی سیاست کا بھی بائیکاٹ کرسکتی ہے اور اگر ایسا کرتی ہے توان کی سیاسی مشکلات کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھیں گی۔
بانی پی ٹی آئی پر دباؤ ہے کہ وہ بگاڑ ، محاذ آرائی یا مزاحمت کے بجائے خاموشی سے حالات کا مقابلہ کریں تو ان کے لیے آسانی پیدا کی جاسکتی ہے جس میں ان کی رہائی بھی شامل ہے ۔مگر بانی پی ٹی آئی شاید آمادہ نہیں ہیں۔لیکن قیادت کا اصل کام مشکل حالات میں ایسا سیاسی راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے جہاں وہ سیاست بھی کرسکیں اور اپنے سیاسی وجود کی ساکھ بھی قائم کرسکیں ۔یہ کام جہاں بانی پی ٹی آئی کو کرنا ہے وہیں خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی کرنا ہے تاکہ حالات نارمل ہوسکیں۔