Express News:
2025-06-24@01:36:21 GMT

عوامی مقبولیت کا معیار

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

بھارت کے ساتھ چند دنوں کی جنگ میں اپنی شاندارکامیابی کے نتیجے میں پاکستان کو عالمی سطح پر مسلسل قبولیت مل رہی ہے، دنیا بھر میں پاک فوج کی شاندار کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر نے پاکستانی آرمی چیف کو اپنے ظہرانے پر مدعو کیا ، طویل ملاقات کی اور اس ملاقات کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا۔

پاکستان میں عموماً سیاسی آزادیوں کی آڑ لے کر اسٹیبلشمنٹ کا نام لے کر فوج پر تنقید کی جاتی ہے لیکن قوم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ یہ تنقید سیاسی اور مفاد پرستانہ ہوتی ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کی تعریفیں کیں جب تک ان سے انھیں مفادات حاصل ہوتے رہے۔

پی ٹی آئی یہ کہتی نہیں تھکتی تھی کہ ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔پی ٹی آئی حکومت میں رہ کر سیاسی اور معاشی مفادات حاصل کرتی رہی اور اسٹیبلشمنٹ کی تعریفوں کے پل باندھتی رہی۔ مگر جب دونوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو پی ٹی آئی نے تمام اخلاقی معیار بالائے طاق رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے۔

سیاسی مفاد پرستی اور خود غرضی ہمیشہ سے سیاستدانوں کا وتیرہ رہی ہے۔جب تک ان کے سیاسی مفادات پورے ہوتے رہے تو ہر طرف انھیں ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے اور جب ان کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو وہی حکومت برائیوں کی جڑ بن جاتی ہے۔آج تک یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔سیاست میں دوستی اور دشمنی اپنے اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔جب مفادات یکساں ہوں تو کل کے دشمن آج کے دوست بنتے دیر نہیں لگاتے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں میں ایک پیج پر ہونے کے دعوے اتنے کھلے عام نہیں ہوتے تھے، جتنے بانی پی ٹی آئی اور موجودہ حکومت میں ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی تو اس حد تک چلے گئے کہ انھوں نے آرمی چیف کو قوم کا باپ قرار دیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا جو ایک منفرد اعزاز تھا۔یہ سب سیاست کے کھیل ہیں‘ سیاست کی بساط پر کوئی کسی کا دوست اور کوئی کسی کا دشمن نہیں سب مفادات کے اسیر ہیں۔

 وزیراعظم میاں شہباز شریف تقریباً ڈھائی سال سے حکومت کر رہے ہیں ،ان کی حکومت نے اچھی معاشی پالیسی اختیار کی جسے اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل رہی ہے۔

وزیر اعظم کی بیرون ملک ہی مصروفیات زیادہ رہی ہیں کیونکہ حالات کا تقاضا یہی ہے۔ میاں نواز شریف بھی موجودہ وزیر اعظم سے مختلف نہیں تھے، سندھ میں شدید بدامنی پر اپنی ایک عید اور رات نواب شاہ میں گزاری تھی۔ پی پی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو واقعی عوام میں مقبول وزیر اعظم تھے جو ملک کے تقریباً ہر ضلع میں گئے اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو  بھٹو کی طرح مقبول نہ ہونے پر بھی اندرون ملک کے دورے کرتے تھے مگر بانی پی ٹی آئی عوام سے دور رہنے کے عادی اور اندرون ملک کے دوروں پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر تقریباً ڈھائی سال سے ملک کے دو اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں ،اس دوران پاکستان کی معیشت بہتر ہوئی اور عالمی سطح پر پاکستان کا قد کاٹھ بڑھا ہے۔میاں شہباز شریف کی حکومتی کارکردگی پر سروے کرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی حکومت کی اور ان کی اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی کیسی رہی، وہ عوام میں مقبول ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ عام انتخابات میں ہوجائے گا۔

ان کی حکومت نے ملک کے مہنگائی و بے روزگاری کے عذاب میں مبتلا کروڑوں لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا، اس حکومت نے مہنگائی بڑھائی۔ عوام نے تو اپنے وزیر اعظم کے چہرے پر کبھی کوئی پریشانی نہیں دیکھی اور ہمیشہ نئے نئے سوٹوں میں ملبوس مسکراتے ہی دیکھا، ان سب الزامات کا جواب ووٹ کے ذریعے ہی مل سکتا ہے، عوام بتائیں گے کہ وہ ان کی حکومت سے خوش ہیں یا ناراض ہیں ، اس کا فیصلہ الیکشن میں کردیں گے ۔ آج ان پر تنقید کرنے والے بتائیں کہ وہ اقتدار میں ہوتے تو کیا کرتے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ان کی حکومت ملک کے

پڑھیں:

صرف اپنوں پر نوازشیں کیوں؟

یہ مشہور ہے کہ پیپلز پارٹی جب بھی وفاقی حکومت میں آئی اس نے اپنوں کو نوازا جب کہ مسلم لیگ (ن) جب اقتدار میں آئی اس نے پی پی دور کے بھرتی ہونے والوں کو ملازمتوں سے اس لیے فارغ کیا کہ وہ پی پی دور میں خلاف ضابطہ بھرتی کیے گئے تھے یا مذکورہ محکموں میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود بھرتی کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں لوگوں کو بہت کم ملازمتیں ملتی تھیں یا سرکاری ملازمت پانے والے سفارش پر ملازم رکھے جاتے تھے یا وہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ہوتے تھے۔

ن لیگ کی تینوں حکومتوں میں یہ ضرور دیکھا گیا کہ اس وقت ملک میں پیسہ ہوتا تھا اور نہ ہی پی پی حکومت کی طرح سرکاری ملازمتوں کی بہتات ہوتی تھی بلکہ ان کی حکومت میں گولڈن شیک ہینڈ کی بنیاد پر لاتعداد سرکاری ملازمین کو ان کی مدت مکمل نہ ہونے کے باوجود فارغ کیا گیا تھا ۔

بے نظیر بھٹو کی ملک میں دو بار حکومتیں رہیں جب کہ میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے جب ان کے بھائی طویل عرصہ وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد تین سال سے ملک کے وزیر اعظم تو ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ نواز شریف کی تینوں حکومتوں میں پیپلز پارٹی شامل نہیں ہوتی تھی اور بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں میں (ن) لیگ اس کی سخت اپوزیشن ہوتی تھی اور پی پی اور (ن) لیگ ایک دوسرے کی مخالف اور ایک دوسرے کی حکومتوں کے خاتمے کے لیے تحریک چلانے میں پیش پیش ہوتے تھے۔

پیپلز پارٹی میں یہ نعرہ بہت مشہور تھا کہ’’ بے نظیر آئے گی اور روزگار لائے گی‘‘ راقم کے آبائی شہر شکارپور سے تعلق رکھنے والے الٰہی بخش سومرو جب (ن) لیگی حکومت میں اسپیکر قومی اسمبلی تھے ، تو ایک بار اسپیکر قومی اسمبلی سے شکارپور جمخانہ میں ملاقات ہوئی تو راقم نے سومرو صاحب سے کہا تھا کہ’’ آپ بزرگ شخص ہیں اور میاں صاحب آپ کی باتوں کو اہمیت بھی دیتے ہیں تو آپ وزیر اعظم کو بتائیں کہ ان کی حکومت میں نہ ملک میں پیسہ ہوتا ہے اور نہ ہی سرکاری ملازمتیں جب کہ بے نظیر حکومتوں میں ملک میں پیسہ بھی ہوتا تھا اور لوگوں کو سرکاری ملازمتیں بھی ملتی تھیں۔‘‘

واضح رہے کہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں وہ اکثر کہتی تھیں کہ قومی خزانہ خالی ہے تو انھی دنوں صدر مملکت غلام اسحاق خان شکارپور آئے تھے تو راقم نے ان سے پوچھا تھا کہ’’ وزیر اعظم کہتی ہیں کہ خزانہ خالی ہے تو اقتدار کی منتقلی کے وقت آپ قائم مقام صدر مملکت تھے اور آپ خود وزیر اعظم بھی رہے ہیں تو کیا وزیر اعظم صاحبہ کی بات درست ہے؟‘‘ جس پر صدر مملکت نے مسکرا کر صرف یہ جواب دیا تھا کہ’’ ملک کا خزانہ مغلوں کا خزانہ نہیں ہے کہ جہاں رات کو مال آتا تھا اور صبح خالی ہو جاتا تھا۔‘‘ صدر مملکت کا یہ جواب ملک کے اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ نمایاں شایع ہوا تھا جس کے بعد وزیر اعظم صاحبہ نے خزانہ خالی ہونے کی بات کرنا چھوڑ دی تھی۔

باری باری کی 1999 تک پی پی اور (ن) لیگی حکومتوں میں یہ بھی ہوتا رہا کہ پی پی حکومت لوگوں کو روزگار دیتی تھی اور (ن) لیگی حکومت برسر روزگار لوگوں کو بے روزگار کر دیتی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کیسابق حکومتوں میں کبھی اتنی بڑی کابینہ نہیں رہی جتنی بڑی کابینہ اب موجودہ حکومت میں ہے اور 2022 میں پی ڈی ایم اور پی پی حکومت تھی اور شہباز شریف ہی وزیر اعظم تھے اور پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین کو وزیر خارجہ، پارٹی کے متعدد رہنماؤں کو وفاقی وزیر اور لاتعداد اپنے ارکان اسمبلی اور رہنماؤں کو مشیر اور معاونین خصوصی بنایا تھا جب کہ اس وقت ملک دیوالیہ ہونے کے قریب، معاشی حالات نہایت ہی ابتر مگر حکومتی عہدوں پر پی پی، (ن) لیگ اور جے یو آئی بڑی تعداد میں براجمان تھے اور کسی کو ملک کی بدحالی کا احساس نہیں تھا ۔ یہی حال 2018 سے 2022 تک پی ٹی آئی حکومت میں تھا جہاں اپنوں کو نوازنے میں کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔

لندن میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ’’ مجھ میں اور شہباز شریف میں کوئی فرق نہیں ہم دونوں ایک ہیں۔‘‘ میاں نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے سلسلے میں واضح فرق رہا ہے جو شاید ملکی حالات نے ختم کر دیا ہے اور نواز شریف کا سابقہ بیانیہ اب موقعہ دیکھ کر بانی پی ٹی آئی اپنا چکے ہیں کیونکہ ان کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے اب کوئی بیانیہ نہیں تھا جو انھیں جیل سے رہائی دلا سکے اور ان کے اقتدار میں بالاتروں سے جیسے تعلقات تھے اس سے کہیں اچھے تعلقات اب وزیر اعظم شہباز شریف کے ہیں۔ میاں نواز شریف کی تینوں حکومتوں میں ان کی مرضی کی وفاقی کابینہ ہوتی تھی جس میں وزیروں کی کچن کیبنٹ ہوتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے۔

وزیر اعظم کی کابینہ میں ان کے قریبی پسندیدہ بعض وزرا بھی موجود ہیں اور ان کی کوئی کچن کیبنٹ بھی نہیں ہے جس کا ملک بھر میں سب کو پتا ہے۔ شہباز شریف بڑے میاں صاحب کے برعکس اپنوں کے لیے بڑے مخیر ثابت ہوئے ہیں اور موجودہ حکومت کی فیاضی کا یہ حال ہے کہ پارلیمنٹ کے سربراہوں کی پانچ گنا تنخواہ بڑھا کر سب کو حیران کر دیا ہے اور ملک میں ہونے والے اعتراض پر اضافے کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ چھوٹے میاں صاحب نے وزیر اعظم بن کر اپنوں کے علاوہ ارکان پارلیمنٹ، وزیروں اور ججز حضرات و دیگر کی تنخواہیں حیرت انگیز طور پر بڑھائیں اور ایوان صدر اور وزیر اعظم کے اخراجات میں جس طرح اضافہ ہوا، اس کی مثال ان کے بڑے بھائی کی حکومتوں میں بھی نہیں ملتی ۔

متعلقہ مضامین

  • شاہ ایران کے جلاوطن بیٹے رضاشاہ پہلوی ایک بار پھر حکومت ہتھیانے کے لیے سرگرم
  • موجودہ قیادت تحریک انصاف کو نہیں چلا پا رہی،عمران خا ن سیاسی لوگوں کو آگے لے کر آئیں.فواد چوہدری
  • ایک اور نئی سیاسی جماعت وجود میں آگئی
  • امریکی صدر نے ایران میں سیاسی قیادت کی تبدیلی کا عندیہ دے دیا
  • صرف اپنوں پر نوازشیں کیوں؟
  • داخلی سیکیورٹی کا سنگین چیلنج
  • صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا اور یہ عوامی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں، وزیر صحت
  • حکومت نے بجٹ میں عوامی فلاح کے کئی اقدامات کیے: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
  • تھائی وزیر اعظم کی لیک ہونے والی کال کس طرح سیاسی بحران کا سبب بنی؟