ایران اسرائیل جنگ پھیلنے کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
امریکا کے بعد اسرائیل نے بھی ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے‘ میڈیا میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے فردو ایٹمی مرکز پر بنکر بسٹر بم گرائے ہیں‘ اس ایٹمی سینٹر پر گزشتہ روز امریکا نے بھی حملہ کر کے اسے شدید نقصان پہنچایا تھا‘ مزید اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ایران کے مغربی، مشرقی اور وسطی علاقوں میںفضائی حملے کیے ہیں‘ ان حملوں میں ایئرپورٹس کے انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی دعوے کے مطابق یہاں موجود کچھ ایرانی طیارے بھی متاثر ہوئے ہیں ۔ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر میزائل داغے ہیں جس کے بعد کئی اسرائیلی شہروں میں نقصانات کی اطلاع ہے۔ایرانی ذرایع ابلاغ نے اطلاع دی کہ ملک کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی فضائی حملوں کا سامنا رہا۔ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم کے مطابق تہران کی فضا میں کئی اسرائیلی ڈرونز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکا کی جنگ میں شمولیت کے بعد حالات انتہائی سنگین ہو چکے ہیں‘ اسرائیل اور امریکا کا ٹارگٹ ایران کی ایٹمی تنصیبات اور عسکری انفرااسٹرکچر ہے۔ اگر یہ جنگ مزید جاری رہی تو ایران میں انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچے گا۔ ایران بھی اسرائیل پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔ ارد گرد کے ہمسایہ ممالک کی حکومتیں بھی پریشانی اور گومگو میں مبتلا ہیں۔ جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے‘ یہ صورت حال عالمی امن کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
عالمی امور کے ماہرین مسلسل جنگ کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ جلد ختم نہ ہوئی تو اس کا دائرہ پھیلتا جائے گا جس کے نتیجے میں تباہی کا عمل بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ایران میں جس طرح ایٹمی سینٹرز کو نشانہ بنایا گیا ہے اور وہاں جو کچھ ہوا ہے‘ اس کے بارے میں بھی ماحولیات کے ماہرین اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہاں کتنا نقصان ہوا فی الحال اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے۔یہ ایٹمی تنصیبات ہیں کوئی عام تنصیبات نہیں ہیں کہ جس کی تباہی کے اثرات محدود رہیں گے‘ایٹمی تابکاری کے حوالے سے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایران نے امریکا کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کا آغاز تم نے کیا، خاتمہ ہم کریں گے۔
ایرانی فوج کے سینٹرل کمانڈ کے ترجمان ابراہیم ذوالفقاری نے امریکا کو سخت نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حملوں کے بعد اب ایران کے لیے جائز اہداف کی فہرست وسیع ہو چکی ہے، امریکا کے خلاف سنگین نتائج رکھنے والے طاقتور آپریشنز متوقع ہیں۔میڈیا کے مطابق انھوں نے کہا کہ امریکی کارروائیوں نے خطے میں ایران کی دفاعی حکمتِ عملی کو نئی جہت دے دی ہے، تناز ع میں امریکا کے داخل ہونے سے جائز اہداف کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اور ہم مکمل تیاری کے ساتھ اپنے مفادات کا دفاع کریں گے۔ایرانی ترجمان نے اپنے بیان کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ٹرمپ جنگ کا آغاز تم نے کیا تھا لیکن ہم اس کو اختتام تک پہنچائیں گے۔
لگتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے جن اندازوں کی بنیاد پر ایران پر حملوں کا آغاز کیا‘ وہ غلط ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ جنگ طویل بھی ہو رہی ہے اور اس کا دائرہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ رجیم چینج کی اصطلاح کا استعمال سیاسی طور پر درست نہیں سمجھا جاتا، ایرانی حکومت ملک کو دوبارہ عظیم بنانے میں ناکام ہے تو پھر نظام کی تبدیلی کیوں نہ ہو؟کسی ملک میں کس کی حکومت ہونی چاہیے‘ اس کا اختیار اس ملک کے عوام اور اسٹیک ہولڈرز کو حاصل ہوتا ہے۔طاقت کے بل بوتے پر اب تک رجیم چینج کرنے کا تجربہ درست ثابت نہیں ہوا۔
افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ امریکا نے یہاں طالبان کی حکومت ختم کر کے اپنی حمایت یافتہ حکومت بنائی تھی ‘حامد کرزئی ‘عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کی سربراہی میں جو حکومت قائم ہوئی ‘اس میں افغانستان کے لوگ ہی شامل تھے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ انھیں افغانستان کے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان پر آج بھی طالبان کی حکومت ہے۔ یہ حکومت بھی طاقت کے زور پر قائم ہے۔ اس حکومت کے پاس بھی عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
اس کی وجہ طاقت کے بل پر رجیم چینج کرنا بنی ہے۔ اگر امریکا اور مغربی ممالک عوامی سطح پر جمہوری قوتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیتے‘وہاں سیاسی جماعتیں کھل کر کام کرتیں تو آج شاید افغانستان میں عوام کی مرضی کی حکومت قائم ہوتی۔ بڑی طاقتوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں افغانستان کے عوام کے چالیس برس ضایع ہو گئے۔لیکن آج 21ویں صدی میں بھی افغانستان میں جمہوری حکومت کا وجود نہیں ہے۔اسی طرح ایران میں بھی اگر رجیم چینج کا تجربہ کیا گیا تو وہ بھی شاید کامیاب نہ ہو سکے۔
ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات اور مزید حملوں کی دھمکیاں عالمی سطح پر غنڈہ گردی ہیں۔جوابی کارروائی کرنا ایران کا جائز حق ہے۔اسماعیل بقائی نے کہا کہ کسی کو نہیں معلوم مستقبل میں کیا ہو گا، اپنے دفاع کے حق کا استعمال کریں گے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی روس پہنچ گئے ہیں۔ماسکو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ایرانی پْرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے امریکا نے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی، جوابی کارروائی کرنا ایران کا جائز حق ہے۔عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ موجودہ عالمی صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ ایران اور روس سنجیدہ بات چیت کریں، ایران اور روس مختلف موضوعات پر یکساں اور مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔سفارتکاری کا دروازہ یقینی طور پر بند ہو چکا ہے: ایرانی وزیر خارجہ نے یو این کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھا ہے ۔
ایران پر امریکی اور اسرائیلی حملوں کی روس سمیت مختلف ممالک نے شدید مذمت کی اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف قرار دیا ہے جب کہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا نے کھل کر امریکی حملوں کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ ایران کوئی جوابی کارروائی نہ کرے جس سے خطے کے امن کو خطرہ ہو، اپنے مشترکہ بیان میں ان ممالک نے کہا کہ ایران جوہری پروگرام پر مذاکرات کرے،عرب ممالک نے ایران پر امریکی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ادھر امریکی حملوں کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے کیے گئے، ٹوکیو، برلن، نیو یارک اور تل ابیب میں ریلیاں نکالی گئیں جہاں عوام نے نیتن یاہو کے خلاف شدید احتجاج کیا، مظاہرین نے جنگ نہیں، امن چاہیے کے نعرے لگائے۔نیویارک میں جنگ مخالف یہودیوں نے احتجاج کیا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی۔حتیٰ کہ تل ابیب میں بھی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ روس کی سیکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین اور سابق صدر دمتری میدویدیف نے کہاکہ ایک خودمختار ریاست کی سرزمین پر میزائل اور فضائی حملے بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، امریکی صدر نے ایران پر حملہ کر کے امریکا کے لیے ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ امریکا کا یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھانا ہے، چین تمام فریقین، خاص طور پر اسرائیل پر زور دیتا ہے کہ وہ فوری طور پر حملے بند کرے اور مذاکرات کا آغاز کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم سیکریٹریٹ نے امریکی حملوں پر اظہار تشویش کر دیا اور مذمت بھی کی ہے، امریکی سینیٹر اور ڈیموکریٹ رہنما برنی سینڈرز نے کہاہے کہ ایران پر امریکی حملہ غیر آئینی ہے، صدرٹرمپ نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، امریکی آئین کے مطابق جنگ چھیڑنے یا کسی ملک پر فوجی کارروائی کا اختیار صرف کانگریس کو حاصل ہے، صدر کو نہیں۔
عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو امریکا اور اسرائیل کی زبانی مذمت کے سوا کوئی عملی فیصلہ یا قدم نظر نہیںآ رہا‘یورپ کی دو بڑی طاقتیں برطانیہ ‘فرانس کھل کر امریکا کا ساتھ دے رہی ہیں‘ امریکا کا ساتھ دینے کا مطلب اسرائیل کا ساتھ دینا ہے۔ کینیڈا ‘آسٹریلیا بھی مغربی یورپی ممالک کے ساتھ ہیں جب کہ جاپان اور جنوبی کوریا کا رویہ بھی سب کے سامنے ہے۔
ایسی صورت حال میں سب سے اہم کردار روس اور چین کا ہے ‘یہ دونوں طاقتیں معاشی طور پر بھی مضبوط ہیں جب کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی امریکا اور یورپ کے ہم پلہ ہیں۔ اسلحہ سازی اور اس میں جدت کے حوالے سے بھی یہ ممالک امریکا اور یورپ سے کم نہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انھیں ویٹو پاور بھی حاصل ہے۔اگر یہ عملی کردار ادا کریں تو ممکن ہے کہ جنگ رکنے کے امکانات پیدا ہو جائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جوابی کارروائی کو نشانہ بنایا کرتے ہوئے کہا امریکی حملوں اور اسرائیل اقوام متحدہ ہے کہ ایران امریکی صدر امریکا اور امریکا کے رجیم چینج پر امریکی امریکا کا ایران میں کہا ہے کہ ایران کی ایران کے ایران پر کی حکومت کا دائرہ حملوں کی نے ایران کے مطابق کا ا غاز میں بھی وسیع ہو کے خلاف اور اس جنگ کا ہے اور کے بعد نے کہا کہا کہ گیا ہے
پڑھیں:
دوحہ حملہ، گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنیکی طرف ایک اور قدم
اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ کار نے کہا کہ اسرائیل کا پہلا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری چیز جو اسرائیلی چاہتے ہیں وہ فلسطینیوں کو عظیم تر اسرائیل سے نکالنا ہے، وہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا ہدف ہے۔ تیسرا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے تمام پڑوسی کمزور ہوں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لبنان اور شام دوبارہ کبھی متحد ملک نہ بنیں، اس طرح اسرائیل کے لئے پڑوس میں کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے مؤقف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران تقسیم اور کمزور ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام جیسا بن جائے۔ میئرشیمر کے مطابق شام، لبنان، ایران، مصر اور اردن جیسے ممالک کو بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ اسرائیل انہیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
الجزیرہ کے امریکی میزبان کو انٹرویو دیتے ہوئے جان میرشیمر نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے اہداف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل بنیادی طور پر دو افراد کی ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں۔ امریکی نظریہ ساز کا کہنا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا صیہونی حکومت کا بنیادی ہدف ہے لیکن ایران اس سے روک رہا ہے۔ الجزیرہ کے باٹم لائن پروگرام کے امریکی میزبان اسٹیو کلیمنز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے قطر اور خطے پر حملہ کرنے میں اسرائیل کے اہداف کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میرشیمر نے کہا کہ امریکی ورلڈ آرڈر کی موجودہ صورتحال واقعی خوفناک اور واقعی ناقابل یقین ہے، آئیے ایک لمحے کے لیے مشرق وسطیٰ کی طرف رجوع کریں، میری رائے میں، وہاں سب سے اہم مسئلہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ غزہ میں نسل کشی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے کہ اسرائیلی، امریکہ اور یورپی یونین کی مدد سے، غزہ میں قتل عام کے مرتکب ہو رہے ہیں، دوحہ پر اسرائیلی حملے کا مقصد حماس کے مذاکرات کاروں کو قتل کرنا تھا، حملے کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ غزہ کے تنازع کا کوئی مذاکراتی حل نہیں ہے، تاکہ اسرائیلی غزہ میں اپنی نسل کشی جاری رکھ سکیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر نے مزید کہا کہ دوسرا بہت اہم موضوع یہ ہے کہ اسرائیلی غالباً اس موسم خزاں میں دوسری بار ایران پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اور اگر آپ یورپ کی طرف توجہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا، کہ روسی یوکرینیوں کو پیچھے دھکیل رہے ہیں، یہ تقریباً یقینی ہے کہ میدان جنگ میں روسی ہی جیت جائیں گے، اور یہ سب سے اہم بات ہے، جو یورپ کے لئے خطرہ اس بحران کو بڑھانا ہے، پولینڈ کی طرف جانے والے ڈرونز اس کی مثال ہیں۔
میزبان نے قطر پر اسرائیلی حملے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا، "قطر کو نتن یاہو نے دھوکہ دیا، اور اب خطے میں قطر کے دفاعی تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، قطر میں 10,000 امریکی فوجی موجود ہیں، اگر آپ قطر یا دیگر خلیجی ممالک میں سے کوئی ہوتے تو آپ اسے کیسے دیکھتے؟۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر میں اسے ان کے نقطہ نظر سے دیکھوں تو میں واقعی پریشان ہو جاؤں گا، اس میں کوئی شک نہیں، بالکل وہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ سعودی، اماراتی، قطری جو کچھ ہوا اس سے واقعی پریشان ہیں، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی جو چاہیں کر سکتے ہیں اور امریکہ ہر قدم پر ان کی حمایت کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدہ ہے اور وہ ابراہیم معاہدے کو فوری طور پر ختم کر سکتا ہے۔ اس سے ایک واضح اشارہ ملے گا اور پھر یہ تینوں ممالک اور خطے کے دیگر ممالک اکٹھے ہو سکتے ہیں اور امریکہ پر یہ واضح کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ یہ (قطر پر حملہ) ناقابل قبول ہے (لیکن) ان کو سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ملنے والا۔
اسرائیل کا پہلا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری چیز جو اسرائیلی چاہتے ہیں وہ فلسطینیوں کو عظیم تر اسرائیل سے نکالنا ہے، وہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا ہدف ہے۔ تیسرا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے تمام پڑوسی کمزور ہوں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لبنان اور شام دوبارہ کبھی متحد ملک نہ بنیں، اس طرح اسرائیل کے لئے پڑوس میں کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے مؤقف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران تقسیم اور کمزور ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام جیسا بن جائے۔ میئرشیمر کے مطابق شام، لبنان، ایران، مصر اور اردن جیسے ممالک کو بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ اسرائیل انہیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان کے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے بارے میں علاقائی عزائم ہیں۔ وہ امریکہ میں اس بات کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے درمیان اچھے تعلقات ہوں، اسرائیلی سعودی عرب سے ابراہم معاہدہ چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، میری رائے میں دوحہ پر حملہ اسرائیل پر حملہ نہیں ہے۔ خلیجی ریاستوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے لیکن یہ دوسرے ممالک پر براہ راست حملہ ہیں جن کی فہرست میں نے دی ہے، کیونکہ یہ ایک عظیم تر اسرائیل کے قیام میں رکاوٹ ہیں۔
قطر پر حملے کے بارے میں انہوں نے پھر کہا کہ سب سے پہلے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ امریکہ اور اسرائیل بنیادی طور پر ایک دو رکنی ٹیم ہیں۔ وہ مل کر کام کرتے ہیں۔ اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے، امریکہ اس کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہاں کیا ہوا کہ اسرائیلیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اسرائیلیوں کا بنیادی مفاد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایسے کوئی مذاکرات نہ ہوں جو تنازعہ کو حل کرنے جا رہے ہوں یا غزہ کے تنازع کو حل کرنے کے قریب پہنچیں، اس لیے مذاکرات کاروں کو مارنے سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس حملے میں (دوحہ پر) امریکہ ملوث تھا اور انہوں نے مل کر اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن میرے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اسرائیلیوں نے امریکہ کو اس کے بارے میں نہیں بتایا ہوگا، یا اگر وہ ہمیں نہ بتاتے، تو ہم اس کا اندازہ نہ لگا پاتے۔
مشرق وسطیٰ میں ہماری انٹیلی جنس صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، وہ یقینی طور پر نہیں جانتے ہوں گے کہ ایسا کوئی حملہ ہونے والا ہے؟ یقینا، میرے خیال میں اسرائیلیوں نے ہمیں بتایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ یا انتظامیہ میں کسی اور نے جو اس کا ذمہ دار تھا اسرائیلیوں کو بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے؟ اس کا جواب "نہیں ہے، ہم نے بنیادی طور پر اس حملے کے لیے گرین سگنل دیا تھا اور اب ہم یہ ظاہر کرنے کے لیے ہر طرح کا شور مچا رہے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا، لیکن ہم نے یہ کیا (اسرائیل کو دوحہ پر حملہ کرنے کے لیے گرین سگنل دیا) اور اسرائیلی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں اور ہم انھیں دوبارہ کرنے دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی فیصلے کر رہے ہیں، اور بنجمن نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کے درمیان طاقت کے توازن میں، نیتن یاہو زیادہ مضبوط کھلاڑی ہیں، یقیناً یہ حیران کن نہیں ہے۔ آپ اسٹیون (والٹ) کو جانتے ہیں، اسٹیو اور میں نے کتاب 'دی اسرائیل لابی' لکھی تھی اور ہم نے اس کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کی تھی۔ اسرائیل کے ساتھ غیرمعمولی تعلقات کی تاریخ میں ایک خاص بات ہے، اسرائیلیوں کی چھوٹی انگلی پر صدر ٹرمپ ناچ رہے ہیں (ان کا ٹرمپ پر مکمل کنٹرول ہے) اور یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ صدر ٹرمپ باقی دنیا کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور انہیں ہفتے میں دنیا والوں کو کم از کم ایک تھپڑ مارتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی اسرائیلیوں پر ایسا یا ویسا کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے، وہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں، جیسا کہ پچھلے امریکی صدور نے کیا ہے۔