لاہور ہائیکورٹ: برازیلی بندروں کی کراچی سے لاہور چڑیا گھر منتقلی کے خلاف حکم امتناع جاری
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
لاہور:
لاہور ہائی کورٹ نے خطرے سے دوچار برازیلی بندروں کی کراچی سے لاہور چڑیا گھر منتقلی کے خلاف حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ان نایاب جانوروں کو فی الحال کسی ممکنہ خطرے سے بچا لیا ہے۔
یہ بندر اس وقت کراچی میں قائم ایک فلاحی تنظیم اے سی ایف فاؤنڈیشن کی زیر نگرانی ہیں، جنہیں وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی 6 مئی 2025 کی رپورٹ کے مطابق لاہور چڑیا گھر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف سول سوسائٹی، جانوروں کے تحفظ کی تنظیموں، ماحولیاتی ماہرین اور باشعور شہریوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔
درخواست گزار التمش سعید اور احمد شعیب عطا، جو کہ انوائرمنٹل اینڈ اینمل رائٹس کی فرم (ای اے آر سی ) سے وابستہ ہیں، نے مقدمہ میں موقف اختیار کیا کہ لاہور چڑیا گھر کی موجودہ حالت ان نایاب اور حساس جانوروں کے لیے کسی صورت موزوں نہیں ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ چڑیا گھر میں جانوروں کی شرح اموات بلند، درجہ حرارت ، ناکافی ویٹرنری سہولیات اور بنیادی ڈھانچہ غیر معیاری ہے، جس کی توثیق مقامی و عالمی ادارے، بشمول ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان بھی کر چکے ہیں۔
درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ یہ بندر کسی چڑیا گھر کے بجائے اپنے قدرتی ماحول، برازیل کے برساتی جنگلات میں ہی محفوظ رہ سکتے ہیں، اور پاکستان میں کوئی ادارہ یا سہولت ان کے قدرتی مسکن کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اس ضمن میں بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان نایاب جانوروں کی واپسی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
عدالت نے ابتدائی طور پر متعلقہ سرکاری محکموں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کر لیا ہے۔ مقدمہ کی اگلی سماعت ستمبر 2025 میں ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لاہور چڑیا گھر
پڑھیں:
ارضِ پاکستان میں نایاب دھاتوں کے ذخائر، اہم معدنیات عالمی توجہ کا محور بن گئے
لاہور:چین اور امریکا کے درمیان ٹیکنالوجی کی دوڑ نے ’’17‘‘ نایاب دھاتی عناصر اور’’50‘‘ اہم معدنیات کی طلب بے پناہ بڑھا دی ہے جن کی بنیاد پہ جدید ترقی قائم ودائم ہے۔
یہ نایاب دھاتی عناصر اور اہم معدنیات اسمارٹ فونز، سولر پینل، کمپیوٹر اور الیکٹرک گاڑیوں سے لے کر سیمی کنڈکٹرز ، دفاعی نظام اور سیٹلائٹس تک ہر جدید چیز میں استعمال ہوتے ہیں۔ زمین کی پرت میں یہ زیادہ نایاب نہیں لیکن اکثر منتشر یا دیگر عناصر کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔اس وجہ سے ان کا نکالنا تکنیکی طور پر مشکل اور مہنگا ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے نے امریکا کے لیے اہم معدنیات و دھاتی عناصر کی تازہ فہرست مرتب کی ہے جس میں تانبا اور چاندی سمیت’’ 54 معدن وعنصر‘‘ شامل ہیں۔ ان میں سے کئی صنعت ، اسلحہ سازی اور ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کے لیے ناگزیر ہیں۔
صدر ٹرمپ اسی ارضی خزانے کے سلسلے میں پاکستان سے قربت ودوستی چاہتے ہیں۔ماہرین ارضیات کی رو سے ارض پاکستان کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ایسی چٹانوں پر مشتمل ہے جن میں کوبالٹ اور لیتھیم جیسے نایاب دھاتی عناصر اور اہم معدنیات کی موجودگی کا قوی امکان ہے۔
امریکی کمپنیاں یہ دولت تلاش کرنے میں پاکستان کی مدد کریں گی۔ تانبا اور سونا تو بلوچستانی کانوں سے نکل ہی رہے ہیں۔