اسلام آباد:سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں ہے، بجٹ نے ثابت کردیا کہ یہ سسٹم نہیں چل سکتا، 44 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، بجلی گیس مہنگی کردی گئی، تںخواہ دار طبقہ 600 ارب کا ٹیکس ادا کر رہا ہے، وزرا کی تنخواہوں میں 188 فیصد اضافہ کیا گیا، مزید قرض لے کر حکومتی اخراجات پورے کیے جاتے ہیں، کیا حکومت اپنے اخراجات کو کم نہیں کر سکتی؟
پارٹی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے موجودہ بجٹ میں ایم پی ایز، ایم این ایز اور وزرا کی تنخواہوں میں حد سے زائد اضافوں پر سوال اٹھا دیا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ گزشتہ 4 سالوں میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا جس سے ملک میں غربت اور بے روزگاری کی سطح 44 فیصد پر پہنچ گئی، قرضوں کی وجہ سے ملک غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے اور وزراء کے تنخواہوں میں 188 اور ایم پی ایز اور ایم این ایز کی تنخواہوں پر 400 فیصد اضافہ کردیا گیا، بجٹ کے نظام کو مکمل بدلنا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں کسی پر کرپشن کا کیوں الزام لگاؤں جس نے کرپشن کی اس کو پتہ ہے، حکومت بھی جاننا چاہے تو اسے بھی پتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ سے ملک اور معیشت پر مثبت اثر پڑنے کی توقع نہیں، اس حکومت نے 3 بجٹ پیش کیے، بجٹ میں کوئی فرق نہیں ہے جو 10، 15 سال پہلے تھے وہی ہیں، مزید قرض لے کرحکومت اپنے اخراجات پورے کرتی ہے، آج تقریبا 44 فیصد لوگ غربت کی لیکر سے نیچے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ 2018 میں ہمارے بجٹ میں پہلی بار ٹیکس ریٹ گرائے گئے تھے حکومت اپنے اخراجات اور پی ایس ڈی پی کم کریں ورنہ ملک کو 8 ہزار ارب کا خسارہ ہوگا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گیس بجلی کی قیمتوں میں وعدوں کے باجود اضا فہ ہوا، آبادی ، افراط زر بڑھنے سے ٹیکس میں اضافہ ہوجاتا ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کی جاتی، حکومت کو صرف اپنے لوگوں کی تنخواہوں کی فکر ہے، بجٹ میں ریلیف کا کہا گیا، کہیں نظرنہیں آرہا، کیا حکومت اپنے اخراجات کو کم کرکے ملک میں نہیں لگا سکتی؟ چوزے تک پر ٹیکس لگائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا ایم پی ایز اپنی تنخواہوں کو کم نہیں کرسکتے تھے؟ پہلے کوئی تبدیلی آئی نہ اس بجٹ سے کچھ بدلے گا، یہ اعداد و شمار کا ایک روایتی سا بجٹ ہے، حکومت اپنی آمدنی اور اخراجات کو مینیج کرنے کے لیے ہیر پھیر کرتی ہے، اس سے صرف غریب ہی پستا ہے، پچھلے 4 سال سے دیکھ لیں ٹیکس مسلسل بڑھ رہا ہے، چینی کا شوق سب کو ہے، پی ٹی آئی کے زمانے میں چینی 155 روپے اوپر گئی، ساڑھے7 لاکھ ٹن ہم نے چینی برآمد کی، اب ساڑھے 7 لاکھ ٹن درآمد ہورہی ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ تںخواہ دار طبقہ 60 ارب روپے ٹیکس ادا کررہا ہے، بجٹ نے ثابت کردیا یہ نظام نہیں چل سکتا، اپنی مراعات کم نہیں کرتے لیکن پینشن پر ٹیکس لگا دیتے ہیں، فکسڈ انکم پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے، ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر بدلنا ہوگا، یہ نظام نہیں چل سکتا کیونکہ یہ انصاف پر مبنی میں ہے، اس ملک میں چند لاکھ لوگ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں، سارا بوجھ سیلریڈ کلاس پر ہے، سیلری کلاس 600 ارب کا ٹیکس دے گی۔

اس موقع پر مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سستا پروٹین انڈے پر بھی ٹیکس لگادیا ہے غریب کی ٹیکس لگاتے وقت ائی ایم ایف یاد آجاتا ہے ایم پی ایز اور ایم این ایز کی تنخوا بڑھاتے وقت آئی ایم ایف یاد نہیں آتا۔۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: شاہد خاقان عباسی نے حکومت اپنے اخراجات نہیں چل سکتا کی تنخواہوں ایم پی ایز کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

حکومت پہلی ’قومی صنعتی پالیسی‘ کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری کی منتظر

حکومت نے ملک کی پہلی قومی صنعتی پالیسی (این آئی پی) وفاقی کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کر دی ہے، جس میں صنعتی ترقی میں حائل بڑی رکاوٹوں کی نشاندہی اور مینوفیکچرنگ شعبے کی بحالی کے لیے اصلاحات کی تجاویز دی گئی ہیں۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ نے وزارتِ صنعت و پیداوار کو ہدایت کی ہے کہ نئی پالیسی میں شامل مراعات کے لیے پہلے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے منظوری حاصل کی جائے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم اور آئی ایم ایف نمائندوں کے درمیان اس ماہ کے آخر میں ملاقات متوقع ہے، جس میں مختلف شعبوں کے لیے تجویز کردہ مراعات کے سالانہ مالیاتی بوجھ پر بات چیت ہوگی۔

پالیسی کا ہدف 2030 تک 60 ارب ڈالر کی برآمدات، 6 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور سالانہ 8 فیصد مینوفیکچرنگ گروتھ حاصل کرنا ہے۔ اس کا مقصد صنعتی مسابقت، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور برآمدات میں توسیع کے لیے ایک جامع روڈ میپ فراہم کرنا ہے۔

اہم رکاوٹیں
نیشنل انڈسٹریل پالیسی میں صنعتی ترقی میں رکاوٹ بننے والی مختلف ساختی اور پالیسی سطح کی مشکلات کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں میکرو اکنامک عدم استحکام، پالیسیوں میں غیر یقینی صورتحال، مہنگی صنعتی زمین، ضرورت سے زیادہ ضابطہ بندی، غیر معتبر اور مہنگی بجلی کی فراہمی، طویل المدتی قرضوں تک محدود رسائی جیسے عوامل شامل ہیں۔
پالیسی کے مطابق، مقامی صنعتوں کو بلند شرحِ سود اور سرمایہ جاتی منڈیوں تک محدود رسائی کا سامنا ہے، سرمایہ کاروں کے حقوق کے کمزور تحفظ اور دیوالیہ پن کے ناقص نظام نے بینکوں کو قرضوں کی تنظیمِ نو کے لیے ناکافی اختیارات دے رکھے ہیں۔

اسی طرح، غیر مساوی ٹیکسیشن بھی صنعتی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے، مینوفیکچرنگ شعبے پر بھاری ٹیکس بوجھ ہے، جب کہ ریئل اسٹیٹ، تعمیرات، تھوک و خوردہ تجارت جیسے شعبے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، جس سے صنعتی منصوبوں کا منافع متاثر ہوتا ہے۔

مینوفیکچرنگ اداروں کو زرمبادلہ کی قلت کا بھی سامنا ہے، کیوں کہ خام مال درآمد کرنے کے لیے ڈالرز تک رسائی میں اکثر تاخیر ہوتی ہے، بعض اوقات غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منافع واپس بھیجنے میں دشواری پیش آتی ہے، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) متاثر ہوتی ہے۔

پالیسی میں معیارات پر کمزور عمل درآمد کو برآمدات میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مصنوعات کے معیار اور سرٹیفیکیشن نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ خواتین صنعتی شعبے میں بڑے پیمانے پر نظر انداز کی جا رہی ہیں۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ خواتین صنعتی دائرے کے حاشیے پر ہیں اور ان میں احساسِ شمولیت کی کمی ہے، اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے اور زیادہ خواتین صنعت کاروں کو آگے لایا جانا چاہیے۔

مالی و ساختی اصلاحات
پالیسی میں ایک شفاف اور قابلِ پیش گوئی ٹیکس نظام تجویز کیا گیا ہے، جو آئی ایم ایف اصلاحات کے مطابق ہو، اس میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور تمام شعبوں سے ان کے جی ڈی پی میں شراکت کے مطابق ٹیکس وصولی کی سفارش کی گئی ہے۔
پالیسی میں کارپوریٹ انکم ٹیکس (سی آئی ٹی) کی موجودہ 29 فیصد شرح کا بھی جائزہ لینے اور اسے علاقائی اوسط (26 فیصد) کے برابر لانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ برآمدی مسابقت بہتر ہو۔ سپر ٹیکس کا بھی از سرِ نو جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ صنعتوں پر بوجھ کم کیا جا سکے۔

مشکلات کا شکار صنعتوں کی بحالی کے لیے پالیسی میں نیشنل انڈسٹریل ری وائیول کمیشن (این آئی آر سی) کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جو کمپنیوں کی بحالی اور ریگولیٹری تعاون کی نگرانی کرے گا۔

اسی طرح، دانشورانہ املاک کے حقوق (آئی پی آر) کو مضبوط بنانے کے لیے پیٹنٹ کوآپریشن ٹریٹی میں شمولیت اور انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان (آئی پی او) کی صلاحیت میں اضافے کی سفارش کی گئی ہے، تاکہ جعل سازی اور غیر قانونی نقل کا مقابلہ کیا جا سکے۔

مزید برآں، پالیسی میں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) اور پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) کی جانب سے وصول کیے جانے والے زیادہ بندرگاہی چارجز میں کمی کی سفارش کی گئی ہے تاکہ برآمدی لاگت میں کمی لائی جا سکے۔

حکام کے مطابق پالیسی کی منظوری کے بعد یہ صنعتی تبدیلی کا فریم ورک بنے گی، جس کے ذریعے بہتر طرزِ حکمرانی، مالی نظم و ضبط اور نجی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے گا۔

تاہم، پالیسی کے نفاذ کا انحصار آئی ایم ایف کی منظوری پر ہوگا، کیوں کہ پاکستان اپنی موجودہ معاشی استحکام کے پروگرام کے تحت مالیاتی وعدوں کا پابند ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ستائیسویں ترمیم ،آئینی توازن بگڑنے سے پورا نظام متاثر ہو سکتا ہے،پی ٹی آئی
  • دہشت گردوں کو پناہ دینے والا پاکستان کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا؛ دفتر خارجہ 
  • حکومت پہلی ’قومی صنعتی پالیسی‘ کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری کی منتظر
  • جماعت اسلامی کا اجتماع عام فرسودہ نظام کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا‘ ڈاکٹر حمیرا طارق
  • ۔27 ویں ترمیم اور نظام کے فالج زدگان
  • خوفزدہ حکومت کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں دے رہی، پی ٹی آئی بلوچستان
  • پنجاب حکومت کی ڈیجیٹل معاشی حکمت عملی تحت ریٹیلرز کیو آر کوڈ کو نافذ کرنے کی منظوری
  • چیف جسٹس عالیہ نیلم کی ہدایت پر لاہور ہائیکورٹ میں ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم نافذ
  • نئی دہلی ائرپورٹ کے نظام میں خرابی‘ سیکڑوں پروازیں متاثر
  • لاہور ہائیکورٹ میں جدید ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم قائم کردیا گیا