آئرش وزیراعظم نے انتہاء پسند صیہونی وزراء اور آبادکاروں پر پابندی کا مطالبہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں مائیکل مارٹن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کو نافذ کرنے کیلیے اسرائیل کیساتھ تعاون کے معاہدے کو معطل کرنے سمیت سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسلام ٹائمز۔ یورپی یونین سے آئر لینڈ کے وزیراعظم "مائیکل مارٹن" نے مطالبہ کیا کہ وہ مغربی کنارے میں بسنے والے صیہونی آباد کاروں اور اسرائیل کے انتہاء پسند وزراء پر پابندیاں عائد کرے۔ انہوں نے گزشتہ جمعرات کو برسلز میں یورپی کونسل کے اجلاس سے قبل کہا کہ مغربی کنارے میں اشتعال انگیزی پر اسرائیلی وزیر داخلہ "ایتمار بن گویر" اور وزیر خزانہ "بزالل اسموٹریچ" سمیت غاصب صیہونیوں کو پابندیوں کا نشانہ بنانا چاہئے۔ مائیکل مارٹن نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کو نافذ کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدے کو معطل کرنے سمیت سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی میں انسانی بحران پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ اسرائیل کو غزہ کے بارے میں تشویش ظاہر کرنے والی آوازوں کو دبانے سے گریز کرنا چاہیے۔
دوسری جانب ہسپانوی وزیر اعظم "پیڈرو سانچیز" نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں منظم نسل کشی ہو رہی ہے۔ انہوں نے یورپی یونین سے صیہونی رژیم کے ساتھ تعاون کے معاہدے کو معطل کرنے کی اپیل کی۔ واضح رہے کہ یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان 2000ء میں تعاون کا معاہدہ ہوا جس کی رو سے دونوں فریقین کے درمیان سیاسی، معاشی اور ثقافتی تعاون کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔ تاہم اس معاہدے کی شق 2 میں اس بات پر واضح زور دیا گیا کہ اس کا مکمل نفاذ جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کے احترام پر منحصر ہے۔ اب تل ابیب کی جانب سے غزہ اور مغربی کنارے میں معاندانہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے اسی شق کے تحت، اسرائیل کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر نظرثانی کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ گزشتہ مہینوں میں آئرلینڈ، سپین، بیلجئیم اور سلوانیا سمیت بہت سے یورپی ممالک نے مذکورہ بالا معاہدے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یورپی یونین اسرائیل کے تعاون کے کہا کہ
پڑھیں:
امریکی عوام کے ٹیکسز مزید اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ پر خرچ نہیں ہونے چاہیے، ٹریبیون
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، یہ امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ اسلام ٹائمز۔ ایک امریکی روزنامہ نے اداریے میں لکھا ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بند نہیں ہوتی ہر گزرتے دن کے ساتھ سینکڑوں فلسطینی اپنی جانیں کھو دیتے ہیں، اور اس دوران واشنگٹن کی خاموشی خوفناک ہے۔ روزنامہ دی ٹریبیون نے اپنے اداریے میں زور دیا کہ یہ خاموشی امریکہ کی ساکھ کو کمزور کر رہی ہے۔ روزنامے نے یاد دہانی کروائی کہ غزہ پر حملے کے آغاز کو دو سال گزر چکے ہیں اور اس جنگ نے شہریوں پر بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے، محلے اور بستییں مکمل طور پر نقشے سے مٹ چکی ہیں، ہسپتال منہدم ہو گئے ہیں اور انسانی ادارے قحط کے بحران کے درمیان تنہا پڑ گئے ہیں۔
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ نے 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہونا جاری رکھا ہوا ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، ایسی امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ رپورٹوں کے مطابق، امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 بلین ڈالر عسکری امداد دیتا ہے، یہ رقم امریکہ کی تاریخ میں کسی ایک ملک کو دی جانے والی سب سے بڑی سالانہ امداد سے بھی زیادہ ہے۔ اداریے میں لکھا گیا ہے کہ جانی نقصانات اور جنگ کے تسلسل نے امریکہ اور اس کے پالیسی سازوں پر اخلاقی ذمہ داری ڈال دی ہے۔
واشنگٹن کی تل ابیب کے لیے بلاشرط حمایت نہ صرف انسانی اقدار سے دور ہے بلکہ دنیا میں امریکہ کی شبیہ کو بھی مسخ کر دیتی ہے اور اسے فلسطینیوں کی جانوں کا شریکِ جرم بناتی ہے؛ ایسی کیفیت جو روزنامے کے بقول بدلنی چاہیے۔ اداریہ آخر میں امریکی حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ اپنی بین الاقوامی ساکھ بحال کرنے کے لیے اتنی ہی حساسیت انسانی حقوق کے دفاع میں بھی دکھائے جتنی وہ اپنے ہتھیاروں کے بیڑے کی حفاظت میں دکھاتی ہے، امریکی عوام کے ٹیکس مزید اس قتلِ عام پر ضائع نہیں ہونے چاہئیں، یہ وسائل امن، سفارتکاری اور انسانی امداد کی حمایت پر خرچ ہونے چاہئیں، نہ کہ جنگ کے تسلسل پر۔